امام سید ابن علی ڈیٹرائٹ امریکہ ، نیو ایج اسلام
چند دن ہوئے انڈیا سے ایک بچی نے فون کر کے سوال پوچھا کہ یہ تین طلاقوں کا اسلام میں کیا جواز ہے اور اس بارے میں اسلامی تعلیم کیا ہے؟
ابھی خاکسار اس پر مضمون لکھنے کا سوچ ہی رہا تھا کہ اس بارے میں اسلامی تعلیم لکھوں اور قرآن و احادیث سے اس مضمون کی وضاحت کروں کہ تین طلاقوں کے بارے میں بہت غلط فہمی پائی جاتی ہے جس سے بہت سے گھرانے مشکلات میں پڑے ہوئے ہیں۔ اس دوران ہی ایک فتویٰ بھی نظروں سے گزرا اور کچھ دین متین کے عالموں کی گفتگو بھی TV پر سننے کو ملی اور یہ وہ واقعہ تھا جب عاصمہ جہانگیر صاحبہ کا انتقال ہوا اور ان کے جنازے پر مرد و خواتین نے اکٹھے نماز جنازہ ادا کی۔ اس پر یہ فتویٰ دارالافتاء اہل سنت والوں کی طرف سے جناب ابو الصالح محمد قاسم قادری صاحب کا تھا۔ جس میں انہوں نے لکھا :
’’مخلوط اجتماع میں عبادت صرف خانہ کعبہ میں جائز ہے۔ اس کے علاوہ کسی بھی جگہ مردوں اور عورتوں کا اکٹھے نماز ادا کرنا شریعت کے اعتبار سے جائز نہیں جن لوگوں سے یہ گناہ ہوا ہے ان کو اللہ کے حضور اس گناہ کی معافی مانگنی چاہئے اور ہدایت کا طلب گار ہونا چاہئے۔‘‘ یہاں تک تو بات ٹھیک تھی کہ اگر اس قسم کی کوئی بات ہو جائے تو خدا کے حضور انسان کو استغفار، توبہ اور گناہ سے معافی کا طلب گار ہونا چاہئے۔ مگر اس فتویٰ میں آگے چل کر ایک بڑی ہی مضحکہ خیز بات کی گئی ہے اور وہ یہ ہے
’’نا صرف خواتین بلکہ جو مرد بھی اس نماز جنازہ میں شریک ہوئے ان سب کو شریعت کے اعتبار سے تجدید نکاح کی ضرورت ہے، ان کے پہلے نکاح منسوخ ہو چکے۔ ان سب کو اللہ کے حضور اپنے گناہوں کی معافی مانگنی چاہئے، صدقہ و خیرات کرنی چاہئے اور فی الفور تجدید نکاح کی ضرور ت ہے۔‘‘ اس پر یہ بھی نوٹ لکھا تھا۔ ’’ایسی صورت میں حلالہ کی ضرورت نہیں‘‘
یہ فتویٰ کیسا ہی کیوں نہ ہو اس فتویٰ میں جوبھاری سقم اور پریشانی کی بات ہے وہ یہ ہے کہ اس سے اسلامی احکامات اور تعلیمات سے صریحاً لاعلمی کا اظہار ہو رہا ہے کہ آخر مرد و زن کے اکٹھے نماز پڑھنے سے ’’نکاح کیوں ٹوٹ گئے۔‘‘ اس میں تو شک نہیں کہ مرد و زن کا اکٹھے اس طرح نماز پڑھنا جس طرح کے TV پر مناظر دکھائی گئے درست نہیں تھا۔ لیکن اس سے نکاح کیونکر متاثر ہو گئے؟ ایسا ہی ایک دفعہ غالباً گزشتہ سال انڈیا کے ایک گاؤں میں ایک نماز جنازہ پڑھنے سے مخالف عقیدہ رکھنے والوں کے نکاح بھی ٹوٹ گئے تھے۔ اور پھر TVپر دکھایا گیا کہ کس طرح سب لوگ انتظار میں تجدید نکاح کے لئے اکٹھے ہوئے تھے۔
یہ سب کچھ اسلامی تعلیمات اور حکمت سے ناواقفیت کی وجہ سے ہے اور یہی وجہ ہے کہ اس مضمون کو لکھنے کی ضرورت پیش آئی ہے۔
سب سے پہلے تو میں یہ بیان کرنا چاہوں گا ’’صحت نکاح اور اس کی کیا شرائط ہیں‘‘۔ اس کے بعد 3 طلاقوں والا مسئلہ قرآن و احادیث کی روشنی میں لکھتا ہوں ۔ سو جاننا چاہئے کہ صحت نکاح کے لئے بنیادی طور پر 3شرائط ہیں۔
1۔ عورت موانع سے خالی ہو۔ (یعنی ایسی عورتیں جن سے کبھی بھی نکاح جائز نہ ہو یہ ابدی محرمات کہلاتی ہیں۔ دوسری وقتی محرمات ہیں یعنی جن سے نکاح کسی شرعی روک کی وجہ سے جائز نہ ہو اور اس روک کے دور ہو جانے پر نکاح جائز ہو جائے)
ہر قسم کے محرمات کا بیان قرآن کریم کی سورۃ النساء کی آیات 24-25 میں ہے۔ جہاں پر ماؤں، بیٹیوں، بہنوں، پھوپھیوں اور خالاؤں اور رضاعی ماؤں سے نکاح حرام ہے۔ تفصیل بیان نہیں کر رہا آیات کا ترجمہ خود مطالعہ کر لیں۔
2۔ عورت اور اس کا ولی دونوں اس نکاح پر راضی ہوں۔ کیونکہ لَا نِکَاحَ اِلَّا بِوَلِیٍّ یعنی عورت کا نکاح ولی کی اجازت کے بغیر نہیں ہو سکتا۔ اسی طرح حضرت عائشہؓ سے مروی ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا اگر کوئی عورت ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کرے تو اس کا نکاح باطل ہے۔ (ترمذی کتاب النکاح باب لَا نِکَاحَ اِلَّا بِوَلِیٍّ جلد اول )
3 ۔ معاہدہ نکاح کے کم از کم دو2 گواہ ہوں۔ صحت نکاح کے لئے کم از کم دو گواہان کا ہونا ضروری ہے۔ دار قطنی کتاب النکاح میں حضرت ابن عباسؓ سے یہ حدیث مروی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا ہے کہ بغیر ولی کے اور دو گواہوں کے نکاح درست نہیں ہے۔
یہ 3 وجوہات ہیں جو نکاح کو درست رکھتے ہیں۔ نکاح ٹوٹنے کی ایسی کوئی شرط نہیں ہے جیسا کہ مذکورہ فتویٰ میں لکھا گیا ہے۔ یہ بہت ہی عجیب اور مضحکہ خیز بات ہے کہ کوئی بھی غلط کام ہو جائے اس کا سب سے پہلے اثر نکاح پر پڑتا ہے جو کہ کسی صورت میں بھی ٹھیک اور درست نہیں ہے۔ نہ شرعاً نہ عقلاً نہ اخلاقاً۔ ہاں توبہ استغفار، صدقہ و خیرات ہی اس کا اصل علاج ہے۔ واللہ اعلم
اب میں دوسرے مسئلہ کو بیان کرتا ہوں۔ یہ بحث بھی مذہبی، سیاسی اور دینی جماعتوں کا موضوع بنی ہوئی ہے اور وہ ہے 3طلاقوں کا مسئلہ۔ اول طلاق کے معنی اور طلاق کے بارے میں اور اس کی شرائط کے بارے میں جاننا ضروری ہے۔
جاننا چاہئے کہ نکاح فریقین کی یکساں اور باہمی رضامندی سے عمل میں آتا ہے۔ اگر فریقین اس معاہدہ کو نبھانے کے قابل نہ رہیں یا آپس میں نباہ نہ کر سکیں اور اس معاہدہ کو ختم کرنے پر مجبور ہو جائیں تو باوجود اس کے دینی تقدس کے شریعت اس معاہدہ کو ختم کرنے کی اجازت دیتی ہے۔ آنحضرت ﷺ نے اس معاہدہ کو ختم کرنے کو ابغض الحلال عند اللہ الطلاقکہا ہے یعنی خدائے عز و جّل کے نزدیک حلال چیزوں میں سب سے زیادہ ناپسندیدہ طلاق ہے۔ اور پھر اس میں بھی جلدبازی سے منع کیا گیا ہے اور حتی الوسع کوشش کی جائے کہ نکاح برقرار ہی رہے۔ اور صرف اس صورت میں میاں بیوی کا تعلق ختم ہو جب حقیقتاً اس کے بغیر کوئی چارہ نہ رہے۔
صحت طلاق۔
اور اس کے موثر ہونے کے لئے مندرجہ ذیل تین شرائط ہیں۔
1۔ طلاق ہوش و حواس اور پوری سوچ بچار کے بعد اپنی مرضی سے دی جائے۔ جلد بازی، غصہ اور جبر کے تحت دی گئی طلاق مؤثر نہ ہو گی۔ (اگرچہ بعض فقہاء نے غصہ، جلد بازی اور جبر کی طلاق کو موثر بھی مانا ہے)
2 ۔طلاق ایسے ’’طہر‘‘ میں دی جائے جس میں خاوند نے اپنی بیوی سے مباشرت نہ کی ہو، حیض کی حالت میں دی گئی طلاق موثر نہ ہو گی۔
3۔ زبانی یا تحریری طلاق کی اطلاع بیوی کو مل جائے۔ اور اس کا اطلاق اس وقت سے شروع ہوتا ہے جب بیوی کو اس کی اطلاع مل جائے اور اسی وقت سے عورت کی عدت شروع ہو گی۔
طلاق۔ اپنی ذات میں آنحضرت ﷺ کے ارشاد کے مطابق ابغض الحلال ہے یعنی حلال چیزوں میں سب سے زیادہ ناپسندیدہ اور مکروہ خدا کے نزدیک طلاق ہے۔ حتی الوسع اس معاہدہ کو قائم رکھنے کے لئے ہر قسم کی قربانی کرلینی چاہئے۔ اور اس نازک اور مقدس رشتہ کو ختم کرنے اور توڑنے سے پہلے مرد کو بار بار سوچ بچار کرنی چاہئے اسی لئے الگ الگ وقتوں میں تین طلاق دینے کی رعایت خاوند کو دی گئی ہے۔
اس لحاظ سے طلاق کے 3 درجے ہیں۔ یہ درجے ہیں‘ یہ نہیں کہ 3دفعہ طلاق، طلاق، طلاق کہنے سے عورت ہمیشہ ہمیش کے لئے مرد سے الگ ہو جاتی ہے۔ وہ تین درجے طلاق کے کون سے ہیں:
1۔ طلاق رجعی 2۔ طلاق بائن 3۔ طلاق بتّہ
طلاق رجعی: اس طلاق میں عدت کے دوران خاوند رجوع کر سکتاہے اس بارہ میں اسلام کی اصولی ہدایت یہ ہے کہ مرد عورت کے طہر کے ایام میں صرف ایک طلاق دے اس کے نتیجہ میں تین قروء یعنی تین حیض عدت گزرنے کے دوران اگر خاوند چاہے تو وہ بغیر کسی شروعی روک کے رجوع کر سکتا ہے جیسا کہ قرآن شریف کی سورۃ بقرہ آیت 229 میں فرمایا ہے:
وَبُعُوْلَتُہُنَّ اَحَقُّ بِرَدِّھِنَّ فِیْ ذٰلِکَ اِنْ اَرَادُوْا اِصْلَاحًا۔ (2:229)
ترجمہ : اور اگر ان کے خاوند باہمی اصلاح کا ارادہ کر لیں تو وہ اس مدت کے اندر اندر ان کو اپنی زوجیت میں واپس لینے کے زیادہ حقدار ہیں۔
اور پھر عدت گزرنے کے بعد گو علیحدگی مکمل ہو جائے گی، لیکن اگر یہ دونوں چاہیں تو باہمی رضامندی سے دوبارہ نکاح کر سکتے ہیں۔
اس طرح طلاق دے کر اس کے بعد عدت کے اندر رجوع کرنے کا حق آیات قرآنی کی روشنی میں دو مرتبہ ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اَلطَّلَاقُ مَرَّتٰنِ فَاِمْسَاکٌ بِمَعْرُوْفٍ اَوْ تَسْرِیْحٌ بِاِحْسَانٍ۔ (2:230)
یعنی ایسی طلاق جس میں رجوع ہو سکے دو دفعہ ہو سکتی ہے۔ پھر یا تو مناسب طور پر روک لینا ہو گا یا حسن سلوک کے ساتھ رخصت کر دینا ہو گا۔
طلاق بائن: وہ طلاق ہے جس میں طلاق تو واقع ہو جاتی ہے لیکن عدت گزرنے کے بعد مرد باہمی رضامندی سے دوبارہ نکاح کر سکتا ہے۔
طلاق بتّہ: یہ وہ طلاق ہے جس میں نہ تو رجوع ہو سکتا ہے اور نہ دوبارہ نکاح ہو سکتا ہے گویا یہ طلاق فریقین کے درمیان قطعی تفریق کا باعث بن جاتی ہے۔ اور ایسی ہی طلاق پر ’’حَتّٰی تَنْکِحَ زَوْجًا غَیْرَہ‘‘ کی پابندی عائد ہوتی ہے۔
بعض اور ضروری مسائل
فرمایا: ’’قرآن شریف کے فرمودہ کی رو سے تین طلاق دی گئی ہوں اور ان میں سے ہر ایک کے درمیان اتنا ہی وقفہ رکھا گیا جو قرآن شریف نے بتایا ہے تو ان تینوں کی عدت گزرنے کے بعد اس خاوند کا کوئی تعلق اس بیوی سے نہیں رہتا، ہاں اگر کوئی اور شخص اس عورت سے عدت گزرنے کے بعد نکاح کرے اور پھر اتفاقاً اس کو طلاق دے دے تو اس خاوند اول کو جائز ہے کہ اس بیوی سے نکاح کر لے۔ مگر اگر دوسرا خاوند، خاوند اول کی خاطر سے یا لحاظ سے اس بیوی کو طلاق دے تا وہ پہلا خاوند اس سے نکاح کر لے تو یہ حلالہ ہوتا ہے اور یہ حرام ہے لیکن اگر تین طلاق ایک ہی وقت میں دی گئی ہوں تو اس خاوند کو یہ فائدہ دیا گیا ہے کہ وہ عدت کے گزرنے کے بعد بھی اس عورت سے نکاح کر سکتا ہے کیونکہ یہ طلاق ناجائز طلاق تھا اور اللہ اور اس کے رسولؐ کے فرمان کے موافق نہ دیا گیا تھا۔ ‘‘
(الحکم 10اپریل 1903ء صفحہ14)
فقہاء میں طلاق کے بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ ایک مسلک یہ ہے کہ مرد کو اختیار ہے کہ وہ یہ حق جس طرح چاہے استعمال کرے چاہے تو بیک وقت یہ کہہ کر اپنا حق استعمال کر لے کہ تجھے ’’تین طلاق‘‘ یا تجھے طلاق، تجھے طلاق، تجھے طلاق یا وقفہ وقفہ کے بعد الگ الگ اوقات میں تین بار یہ حق استعمال کرے اسے ہر طرح اختیار ہے ۔
دوسرا مسلک یہ ہے کہ مرد یہ حق تین الگ الگ طہروں میں استعمال کر سکتا ہے مثلاً پہلی طہر میں پہلی طلاق دے، دوسرے طہر میں د وسری طلاق اور تیسرے طہر میں تیسری۔ اس طرح تین طلاقیں واقع ہو جائیں گی۔ اور دونوں میں دائمی فرقت ہو جائے گی۔
تیسرا مسلک یہ ہے کہ مرد اپنا یہ حق استعمال کرنے میں آزاد نہیں بلکہ مخصوص شرائط کے تحت ہی یہ حق استعمال کر سکتا ہے۔ اس اختلاف کے باوجود تمام علماء امت کے نزدیک اسلام یہ پسند کرتا ہے اور اسے ترجیح دیتا ہے کہ خاوند کو تین طلاق دینے کا جو حق دیا گیا ہے وہ اسے بڑی احتیاط کے ساتھ استعمال کرے یعنی صرف ایک طلاق دے۔ اس کا فائدہ یہ ہو گا کہ عدت کے دوران وہ رجوع کر سکے گا اور عدت کے بعد باہمی رضامندی سے ان کا دوبارہ نکاح ہو سکے گا۔ پس ہر ممکن کوشش اس بات کی ہونی چاہئے کہ فریقین اگر مائل بہ اصلاح ہوں اور وہ نکاح کو قائم رکھ سکیں تو اس سلسلہ میں شریعت کے اصل منشاء کو پیش نظر رکھا جائے جو یہ ہے کہ زوجین کے تعلق کو قطعی طور پر ختم کرنے سے پہلے ہر ممکن موقع رجوع کا دیا جائے۔
احکام قرآنی اور ارشادات نبوی ﷺ کے مطابق اکٹھی تین طلاقیں دینا مشروع نہیں ۔ اگر کسی شخص نے ایک ہی دفعہ تین طلاقیں دے دیں تو وہ ایک ہی رجعی طلاق متصور ہو گی۔ مسند احمد میں ایک روایت یہ ہے آتی ہے کہ ایک صحابی حضرت رکانہؓ نے ایک مجلس میں اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دیں جس کا اسے بعد میں احساس ہوا جب آنحضرت ﷺ کے پاس یہ معاملہ پہنچا تو آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ اس نے طلاق کس طرح دی تھی اس نے بتایا کہ ایک ہی مجلس میں اس نے 3طلاقیں دے دی تھیں اس پر آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ اس طرح تو ایک ہی طلاق واقع ہوتی ہے تم رجوع کر لو۔
یہ بات مستند روایات سے ثابت ہے کہ آنحضرت ﷺ اور حضر ت ابوبکرؓ کے سارے عہد خلافت اور حضرت عمرؓ کے عہد خلافت کے ابتدائی دور میں ایک مجلس میں دی گئی تین طلاقیں ایک طلاق متصور ہوتی تھی۔ لیکن حضرت عمرؓ نے جب یہ محسوس کیا کہ شریعت کی دی گئی ایک سہولت کو بعض نادان لوگوں نے مذاق بنا لیا ہے تو یہ حکم صادر فرمایا کہ لوگوں کی اس جلدبازی سے گرفت کی جائے اور اس طرح کی دی گئی تین طلاقوں کو تین ہی متصور کیا جائے تا لوگوں کو تنبیہ ہو۔ مگر حضرت عمرؓ کا یہ حکم تعزیری رنگ رکھتا ہے اور اسے دائمی حکم قرار نہیں دیا جا سکتا۔
پس اس طرح کی دی گئی 3طلاقوں پر اگر کوئی شخص پشیمان ہو اور رجوع کرنا چاہے تو اس کے رجوع کے حق کو تسلیم کیا جائے گا۔
تفسیر صغیر میں زیر آیت سورۃ بقرہ ایڈیشن ششم صفحہ55 پر لکھا ہے:
’’عام طور پر اس زمانہ کے علماء یہ سمجھتے ہیں کہ جس نے تین دفعہ طلاق کہہ دیا اس کی طلاق بائن ہو جاتی ہے یعنی اس کی بیوی اس سے دوبارہ اس وقت تک شادی نہیں کر سکتی جب تک کسی اور سے نکاح نہ کرے مگر یہ غلط ہے کیونکہ قران کریم میں صاف فرمایا گیا ہے ’’اَلطَّلَاقُ مَرَّتٰنِ‘‘ یعنی وہ طلاق جو بائن نہیں وہ دو دفعہ ہو سکتی ہے اس طور پر کہ پہلے مرد طلاق دے پھر یا طلاق واپس لے لے اور رجوع کرے یا عدت گزرنے دے اور نکاح کرے پھر اَن بَن کی صورت میں دوبارہ طلاق دے۔ پس ایسی طلاق کا دو دفعہ ہونا تو قطعی طور پر ثابت ہے۔ پس ایک ہی دفعہ تین یا تین سے زیادہ بار طلاق کہہ دینے کو بائن قرار دینا قرآن کریم کے بالکل خلاف ہے طلاق وہی بائن ہوتی ہے کہ تین بار مذکورہ بالا طریق کے مطابق طلاق دے اور تین عدتیں گزر جائیں اس صورت میں نکاح جائز نہیں جب تک کہ وہ عورت کسی اور سے دوبارہ نکاح نہ کرے اور اس سے بھی اس کو طلاق نہ مل جائے۔ لیکن ہمارے ملک میں یہ طلاق مذاق ہو گئی ہے اور اس کا علاج حلالہ جیسی گندی رسم سے نکالا گیا ہے۔‘‘
(تفسیر صغیر زیر آیت سورہ بقرہ 230ایڈیشن ششم صفحہ55)
نوٹ: اس پر اگر کوئی مزید سوال ہو تو آپ درج ذیل فون نمبر یا ای میل ایڈیریس پر رابطہ کر سکتے ہیں
909-636-8332
shamshadnasir@gmail.com
URL:https://www.newageislam.com/urdu-section/triple-talaq-removing-misunderstandings-doubts/d/114360