امام سیدابن علی۔ ڈیٹرائٹ امریکہ ، نیو ایج اسلام
کچھ دن ہوئے پاکستان کا قومی ترانہ سن رہا تھا جس سے دل اور روح میں ایک سرور اور وجد طاری ہوا۔ قومی ترانہ میں وطن عزیز کے لئے نیک تمناؤں، دعاؤں کے ساتھ ساتھ ایک خاص محبت اور جذبہ کا بھی اظہار ہے۔ جب قومی ترانہ کے اس جملہ کو سنا’’پاک سرزمین کا نظام‘‘ تو کچھ سوچنے پر مجبور ہو گیا کہ واقعی قوم ، بحیثیت قوم، بحیثیت مسلمان، قومی ترانہ میں بیان شدہ تمناؤں اور محبت اور جذبہ سے سرشار ہے؟ تو دل نے فوراً نفی کر دی۔
وہ وطن جو بے شمار قربانیوں سے حاصل کیا گیا تھا۔ اس ’’پاک سرزمین کا نظام‘‘ ایک جائے افسوس بن کر رہ گیا ہے۔ بحیثیت مسلمان پوری کی پوری قوم ان تمام باتوں کو بھول گئی ہے۔ ان تمام قربانیوں کو بھلا چکی ہے جن کی بنیاد پر یہ ملک حاصل کیا گیا تھا۔ وطن عزیز کے حالات دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے۔ سقوط ڈھاکہ کے بعد ایک شہر کے ہوٹل میں ملی نغمہ لگا ہوا تھا کہ ’’اے قائد اعظم ترا احساں ہے احسان‘‘ تو کسی دل جلے نے یہ آوازہ کسا کہ: ’’آدھا احسان تو ہم نے چکا دیا ہے بس آدھا باقی رہتا ہے۔ جو آدھا رہتا ہے اس کے ہم خود ہی بخئے ادھیڑ رہے ہیں۔
وہ کیسے؟ سنئے! ایک دو دن سے یعنی جب یہ تحریر لکھی جارہی تھی کہ ایک بڑی خبر تیزی کے ساتھ وائرل ہو رہی ہے سوشل میڈیا پر۔ ARY نیوز اور دوسرے اخبارات اور پاکستانی TV چینلوں پر بھی کہ ’’خیبرپختونخواہ کے متعدد ہوٹلوں پر چھاپے ، مختلف نسلوں کے ذبح شدہ کتے اور پکی ہوئی کتا کڑاہیاں ضبط کر لی گئی۔‘‘
اس خبر کے ساتھ پولیس والوں کو بھی دکھایا گیا۔ کتوں کے باڑے بھی دکھائے گئے اور گوشت کی کڑاہیاں بھی دکھائی گئیں۔
اس سے قبل گدھوں اور سؤروں کے بارے میں بھی یہ خبریں آچکی ہیں۔ یعنی مملکت خداداد پاکستان کے مسلمان، مسلمانوں کو یہ چیزیں کھلا رہے ہیں۔ اس کے علاوہ ایک اور خبر یہ بھی گردش کرتی رہی۔
’’ضلع گجرات کے علاقے سرائے عالمگیر کے نواحی گاؤں یعقوب آباد کے رہائشی ندیم مسیح کے خلاف توہینِ رسالت کی ایف آئی آر درج ہوئی جس کے بعد ندیم گھر سے بھاگ گیا اور پولیس ندیم کی دونوں بہنوں کو اٹھا کر لے گئی۔‘‘
کچھ دن پہلے بھی اس قسم کا ایک واقعہ ہوا کہ ایک عیسائی نے اوپر کی منزل سے چھلانگ لگا دی جب اسے پتہ چلا کہ اسے پکڑنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ کیونکہ اس پر اور اس کی فیملی پر بھی یہی توہینِ رسالت کا الزام تھا۔
’’اِس پاک سرز مین‘‘ میں نہ عیسائی محفوظ ہیں، نہ ہندو، ہزارہ کے لوگ بھی آئے دن مشکلات کا شکار ہیں اور انہیں بھی بے دریغ قتل کر دیا جاتا ہے، عیسائیوں کی بستیوں میں آگ لگانا، ان کی عبادت گاہوں کو جلانا، ان کے سامان کو لوٹ لینا یہ تو کچھ مشکل بات نہیں ہے۔
احمدیوں کے ساتھ تو اس سے بھی بدتر سلوک کیا جارہا ہے۔ 2010ء میں ان کی لاہور میں 2مساجد پر حملہ کر کے 100 سے زائد لوگوں کو جب کہ وہ جمعہ کی ادائیگی کے لئے موجود تھے مار دیا گیا۔ آج تک ان بے گناہ معصوموں کے قتل پر کسی کے سر پر جوں تک نہیں رینگی۔ احمدیوں کے بچوں اور بچیوں کو سکول اور کالجوں میں جو پریشانی ہے اس کا کوئی حساب نہیں۔ احمدیوں کے بزنس کا بائیکاٹ تو بہت ہی معمولی بات ہے۔ گویا اقلیتوں کو اس پاک سرزمین میں رہنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ اور جب ارباب حل و اقتدار کی اس طرف توجہ دلائی جاتی ہے تو بڑی ڈھٹائی سے کہہ دیتے ہیں کہ سب اقلیتیں محفوظ ہیں۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔
ان داستانوں اور صحیح واقعات کی ایک لمبی تاریخ ہے۔ جسے اس وقت دہرانا تو مقصود نہیں تاہم اس کا حوالہ بات کو سمجھنے کے لئے ضروری ہے۔ جس قوم سے امانت، دیانت، علم، خوف خدا، تقویٰ، ہمدردی چھن جائے وہ قوم ترقی کی منازل سے بہت بری طرح گرتی ہے۔ یہ وہی لوگ ہیں جو ایوانوں میں بیٹھے ہیں اور پھر دوسروں کے ایمانوں کا سرٹیفکیٹ جاری کرتے ہیں۔ میں نے اوپر احمدیوں کا ذکر کیا ہے۔ باقی اقلیتوں کی نسبت ان کے ساتھ ایک زیادتی یہ بھی ہے کہ 1974ء کا آئین انہیں غیرمسلم تسلیم کرتا ہے جس کی بنیاد پر 1984ء میں احمدیوں کو ہر قسم کے بنیادی حقوق سے محروم کر دیا گیا ہے نہ صرف یہ بلکہ اگر وہ کسی کو السلام علیکم کہہ دیں تو 3سال تک جیل بھی جا سکتے ہیں اور کئی لوگ اس جرم میں قید بھی ہوتے ہیں۔
میں یہی کہوں گا کہ
ہمیں کچھ کِیں نہیں بھائیو نصیحت ہے غریبانہ
جو کوئی پاک دل ہووے دل و جاں اس پہ قربان ہے
کیا وطن عزیز کے حالات درست ہو سکتے ہیں؟ ویسے تو لوگ اس کا جواب نفی میں ہی دیں گے اور ہے بھی حقیقت یہی کچھ! ان سب باتوں کو دیکھ کر اسلامی مملکت پاکستان کے لوگوں کو میں رسول اللہ ﷺ کی چند پیشگوئیاں جو احادیث میں مذکور ہیں اور جن کا تعلق آخری زمانے سے ہے بیان کرتا ہوں۔ اس خیال سے کہ
ع شائد کہ اتر جائے ترے دل میں میری بات
رسول خدا ﷺ نے فرمایا تھا کہ قرب قیامت کی علامات میں سے یہ ہو گا:
1۔ ’’جب امانتیں ضائع کی جائیں گی تو قرب قیامت کی گھڑی (یا زوال امت) ہو گی۔ سائل نے آپؐ سے پوچھا امانتیں کس طرح ضائع ہوں گی آپ ﷺ نے فرمایا جب نااہل اور غیرمستحق لوگوں کے سپرد اہم کام کئے جائیں گے۔ یعنی اقتدار بددیانت اور نااہل لوگوں کے ہاتھ آجائے گا اور وہ اپنی بددیانتی اور فرض ناشناسیوں کی وجہ سے قوم کو برباد کر دیں گے۔‘‘ (بخاری کتاب العلم باب من سئل علماً وہو مشتغل فی حدیثہ)
2۔ قیامت کی نشانیوں میں سے آپ ﷺ نے یہ بھی فرمایا :
’’علم ختم ہو جائے گا، جہالت کا دور دورہ ہو گا، زنا بکثرت پھیل جائے گا، شراب عام پی جائے گی، مرد کم ہو جائیں گے اور عورتیں باقی بچ رہیں گی، جس کی وجہ سے پچاس پچاس عورتوں کا ایک ہی نگران اور سرپرست ہو گا۔‘‘
(سنن ابن ماجہ کتاب الفتن باب اشراط الساعۃ)
3۔ حضرت ابوہریرہؓ سے یہ روایت بھی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا:
’’قیامت اس وقت آئے گی۔۔۔ جب علم چھن جائے گا، زلازل کی کثرت ہو گی، تیز رفتاری کی وجہ سے وقت قریب محسوس ہو گا، بڑے گھمبیر فتنوں کا ظہور ہو گا، قتل و غارت عام ہو گی مال کی فراوانی ہو گی۔۔۔ لوگ بلند تر عمارات بنانے میں ایک دوسرے سے بڑھنے کی کوشش کریں گے۔ حالات اس قدر خراب ہوں گے کہ انسان کسی قبر کے پاس سے گزرتے ہوئے تمنا کرے گا کہ کاش میں مر کر اس قبر میں دفن ہو چکا ہوتا۔‘‘
(بخاری کتاب الفتن باب خروج النار)
4۔ سنن ابن ماجہ کتاب الفتن میں یہ حدیث بھی ہے جسے حضرت عبداللہ بن عمروؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا: قیامت کے اعتبار سے یہ نشان پہلے ہوں گے۔ مغرب کی طرف سے سورج کا طلوع ہونا اور چاشت کے وقت ایک عجیب و غریب کیڑے کا لوگوں پر مسلط ہو جانا۔‘‘ (یہ غالباً طاعون اور ایڈز اور دوسری وبائی بیماریوں اور جراثیمی جنگوں کی کثرت کی طرف اشارہ ہے)
5۔ خود مسلمانوں کی کمزوری اور خرابی ایمان کی طرف بھی احادیث میں کھل کر بیان آیا ہے۔ کنز العمال میں ہے۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا: ’’میری امت پر ایک زمانہ اضطراب اور انتشار کا آئے گا۔ لوگ اپنے علماء کے پاس راہنمائی کی امید سے جائیں گے تو وہ انہیں بندروں اور سؤروں کی طرح پائیں گے۔ یعنی علماء کا اپنا کردار انتہائی خراب اور قابل شرم ہو گا۔‘‘ (ریاض الصالحین حدیث913)
6۔ اسد الغابہ جلد اول میں حضرت ثعلبہ بہرانیؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’عنقریب دنیا سے علم چھین لیا جائے گا یہاں تک کہ علم و ہدایت اور عقل و فہم کی کوئی بات انہیں سجھائی نہ دے گی صحابہؓ نے عرض کیا کہ حضورؑ علم کس طرح ختم ہو جائے گا جب کہ اللہ تعالیٰ کی کتاب ہم میں موجود ہے اور ہم اسے آگے اپنے اولادوں کو پڑھائیں گے۔ اس پر حضور ﷺ نے فرمایا کہ تورات اور انجیل یہودیوں اور عیسائیوں کے پاس موجود نہیں ہے لیکن وہ انہیں کیا فائدہ پہنچا رہی ہے۔‘‘
یہ چند ایک احادیث اور رسول مقبول ﷺ کی پیشگوئیاں ‘ہدایات اور آخری زمانہ کی علامات بیان کی گئی ہیں اور عقلمندوں کے لئے تو اشارہ ہی کافی ہونا چاہئے۔ بے شمار اور احادیث بھی اسی مضمون کی ہیں۔ آپ دوبارہ ان احادیث کو پڑھیں اور اپنے اردگرد نظر دوڑائیں کہ ان میں سے کوئی ایسی بات ہے جو آپ ﷺ نے بیان فرمائی ہے اور ابھی وہ پوری نہ ہوئی ہو؟؟؟
حاشا و کلّا ایسا ہرگز بھی نہیں ہے۔ آپ ﷺ نے جو کچھ فرمایا اس کا ایک ایک حرف ببانگ دہل اعلان کر رہا ہے کہ ہر بات پوری ہو چکی ہے۔
تو کیا جب سب علامات پوری ہو چکی ہیں۔ امت کا حال ہر لحاظ سے بدتر ہو چکا ہے، ہر طرف بددیانتی، کرپشن، ملاوٹ، بے ایمانی، جھوٹ، شراب کی کثرت، زنا، جہالت، سوروں اور بندروں جیسی حرکات، نااہل لوگوں کا اقتدار میں ہونا، پارلیمنٹوں میں بیٹھ کر دوسروں کے ایمانوں کا فیصلہ کرنا جبکہ خود لوگ تقویٰ سے خالی ہوں تو امت کے بیمار ہونے میں کوئی شبہ رہ گیا ہے۔
میرے آباؤ اجداد شیعہ گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔ ضلع انبالہ میں ہماری بہت بڑی جائداد اور گدّی تھی۔ ہم احمد پور شرقیہ ضلع بہاولپور میں آکر آباد ہوئے تو جس محلہ میں ہمارا گھر تھا ساتھ ہی وہاں مسجد تھی، میں ابھی بچہ ہی تھا کہ ایک دن محلہ کی مسجد میں گیا تو اس دن مولوی صاحب یہ خطبہ دے رہے تھے کہ یہ زمانہ امام مہدی کا زمانہ ہے۔ اس وقت کچھ سمجھ نہ آیا کہ یہ کیوں کہا جارہا ہے۔ لیکن آج اس بات کی سمجھ آرہی ہے کہ امت اس قدر بیمار ہے۔ صرف پاکستان ہی نہیں دیگر اسلامی ممالک کا حال بھی دیکھ لیں۔
اب کچھ دن پہلے خبر آئی تھی کہ سعودی عرب اسرائیل کے ساتھ تعلقات بڑھا رہا ہے۔ اسلحہ کی ڈیل ہو رہی ہے۔ کس کے خلاف؟ ’’ایران کے خلاف‘‘۔ ادھر یمن میں بمباری ہو رہی ہے۔ شام کا حال کس سے چھپا ہوا ہے؟ عراق میں کیا کچھ نہیں ہو رہا۔ ہر طرف خون ہی خون ہے۔ کیا ابھی امت کے بیمار ہونے میں شک رہ گیا ہے۔ کیونکہ یہ اس امام مہدی کی تلاش نہیں کرتے جس کا اس مولوی صاحب نے اپنی مسجد میں ذکر کیا تھا۔
ہاں ایک کو تلاش بھی کیا تھا۔ ایک مولوی صاحب کو کچھ عرصہ پہلے ہی لوگوں نے امام مہدی کا خطاب دے دیا تھا جن کی زبان ماشاء اللہ ہر وقت گالیوں سے تر رہتی ہے۔
پس یہ لمحہ فکریہ ہے کہ امت مسلمہ، امت مرحومہ کا کیا بنے گا؟ ایک طرف امام مہدی کی انتظار ہے دوسری طرف حضرت عیسیٰ کے منتظر ہیں لیکن پاکستان کا آئین کسی کو آنے کی اجازت نہیں دیتا۔
حضرت عیسیٰؑ یا امام مہدی ؑ جن کا ذکر میں نے اپنے محلہ کی مسجد میں امام صاحب سے سنا تھا جو پاکستان کے آئین کے مطابق تو آ نہیں سکتے۔ جب وہ آ نہیں سکتے تو کم از کم پاکستانی عوام کی حالت نہیں بدلی جا سکتی۔ اور وہ علماء جو کہ خود ان روحانی بیماریوں میں مبتلا ہیں وہ حالت بدل نہیں سکتے۔ پس یہ دعوت فکر ہے ہر شخص کے لئے جو پاکستان میں بستا ہے۔
میں پھر اپنی بات کی طرف رجوع کرتا ہوں کہ قومی ترانہ میں جن دعاؤں، نیک تمناؤں اور خواہشات کا اظہار کیا گیا ہے کیا ایوان بالا اور ارباب حل و اقتدار اس کے معانی پر غور و فکر کریں گے؟ کیا وہ ممبران جنہیں سورۃ اخلاص، سورہ کوثر بھی اچھی طرح پڑھنی نہیں آتی، جنہیں نماز جنازہ اور عید کی تکبیرات کا بھی علم نہیں، وہ دوسروں کے ایمانوں کا فیصلہ کریں۔ کیا یہ انصاف ہے؟ خدارا غور و فکر کریں۔ میں آخر پر یہی دعا کرتا ہوں جو قومی ترانہ میں ہے
سایۂ خدائے ذوالجلال
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism