امام فیصل عبدالرؤف
24 نومبر 2013
امریکہ میں اسلام کے تعلق سے مروجہ نظریہ کے برخلاف اسلام ایک پر امن مذہب ہے ۔
لوگ اکثر مجھ سے پوچھتے ہیں کہ آپ ایسا کیونکر کہہ سکتے ہیں ؟ذرا 9/11 پر ایک نظر ڈالیں اور (اسلام کےنام پر ) جو قتل و خون کا بازار گرم ہے اس کا بھی جائزہ لیں ۔ صورت حال یہ ہے کہ مسلمان عیسائیوں کا قتل کر رہے ہیں ۔ مسلمان یہودیوں کا خون بہا رہے ہیں ، یہاں تک کہ مسلمان ہی مسلمان کی زندگیاں تباہ کر رہے ہیں ۔
میں یہ تسلیم کرتا ہوں کہ ان کی یہ بات حق و صداقت پر مبنی ہے ۔ در اصل اسلام، عیسائیت، یہودیت، بدھ مت، اور ہندو مت سمیت تمام مذاہب کے بنیادی احکام امن و آتشی پر مبنی ہیں ۔
(ہر مذہب میں) لوگ انفرادی طور پر متشدد ہوتے ہیں ۔ وہ انتہاء پسند جماعتیں جو انتہاء پسندی کے جذبات میں بہہ کر یا ذاتی مفاد کی بنیاد پر مذہب کی غلط تشریح کرتی ہیں وہ ایک پرتشدد ردعمل کو بڑھاوا دیتے ہوئے پرتشدد سرگرمیاں انجام دیتے ہیں ۔ اور اس طرح تشدد اور نفرت کا ایک خطرناک دور شروع ہوتا ہے ۔
ایسے لوگ اپنے سیاسی ایجنڈوں پر باطل مذہبی اصول ونظریات کا پردہ ڈالتے ہیں ۔ ہمیں مذہب اور اقتدار کی بھوک کے درمیان ایک فیصلہ لینا اور اس کے بعد انتہاء پسندوں کا مقابل کرنا ہوگا ۔
صدیوں سے مذہب کے نام پر تشدد کا ارتکاب کیا جا رہا ہے ، جیسا کہ ان جرائم کا ارتکاب آزادی ، قومی سلامتی اور ان اقدار کے نام پر کیا جا رہا ہے جنہیں ہم عزیز رکھتے ہیں ۔
لیکن ہمیں کبھی یہ نہیں سوچنا چاہئے کہ ہم مذہب سے مقابلہ کر رہے ہیں ۔ اس مذہب کا جو انتہاء پسندوں کے ہاتھوں کا کھلونا ہے اور انتہائی اہم بات یہ ہے کہ ہم اسے ایک پریشانی کا نام دے دیتے ہیں ، نتیجتاً ہم غلط جگہ پر ان مسائل کا حل تلاش کرتےہیں اور غلط طریقے سے مذہب کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں ، جس کا کوئی قصور نہیں ہوتا ۔
اگر کبھی آئر لینڈ میں پروٹسٹنٹ اور کیتھولک کے درمیان رونما ہونے والے تشدد کو ایک مذہبی مسئلہ سمجھا جاتا باوجودیکہ وہ سیاسی اور اقتصادی مسئلہ تھا تو اس کا حل کبھی نہیں ہوتا ۔
ایک حالیہ رچمنڈ فورم میں یہ موضوع شروع ہو گیا کہ کیو ں ایسا ظاہر ہوتا ہے کہ مسلمان عورتوں کو مشق ستم بناتے ہیں ۔ کسی نے پوچھا کہ مسلمان کیوں عورتوں کے ختنہ کو تسلیم کرتے ہیں ۔ کیا مسلمان بننے کے لئے یہ باتیں ضروری ہیں ؟
حقیقت سے بڑھ کر کچھ بھی نہیں ہو سکتا ۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے حقوق نسواں کو فروغ دیا ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جس کام کا آغاز کیا تھا اسے جاری رکھنے کے لئے بہت سارے مسلم مرد و خواتین سرگرم عمل ہیں ۔
خواتین کا ختنہ ایک افریقی ثقافتی روایت ہے ۔ جس سےاس بات کی وضاحت ہوتی ہے کہ کیوں مصری عیسائی اور مسلمان دونوں اس معمول پر عمل پیرا ہیں ۔ خواتین کا ختنہ کوئی عربی معمول نہیں ہے جہاں اسلام کا ظہور ہوا تھا ، اور نہ ہی پوری دنیا کے مسلمان اس معمول پر عمل پیر ا ہیں اور قرآن نے تو قطعی طور پر اس کا حکم نہیں دیا ہے ۔ وہ ثقافت جو مذہب کو پست قد کرتی ہے وہی خواتین کے ختنہ اور ان پر ظلم و جبر کی وجہ ہے ۔ لہٰذا مذہب کو اس کا مورد الزام ٹھہرانے میں انصاف کہا ں ہے ؟
طالبان ، حزب اللہ اور القاعدہ جیسے انتہاء پسندوں نے اپنے مقاصد کی برآوری کے لئے اسلام کا چہرہ مسخ کر دیا ہے ۔ وہ انتہاء پسند یہ کہتے ہیں کہ وہ حقیقی اسلام کو فروغ دے رہے ہیں لیکن وہ اپنے اس دعوے میں جھوٹے ہیں ۔ شاید نادانستہ طور پر یہودی عیسائی اور وہ انتہاء پسند ان کی مدد کر رہے ہیں جن کا اس بات پر اصرار ہےکہ اسلام خود ایک مسئلہ ہے۔
مذہبی، ثقافتی، سماجی، یا سیاسی کسی بھی طرح کے انتہاء پسند ایک جنگ چھیڑنا چاہتے ہیں ۔
لہٰذا اگر انتہاء پسند ایک دوسرے سے نہیں لڑ رہے ہیں تو وہ لوگ کون ہیں جن سے وہ لڑ رہے ہیں ۔
وہ اعتدال پسند لوگ ہیں –پوری دنیا میں لوگوں کی ایک ایسی اکثریت ہے جو مسائل کو حل ہوتا ہوا دیکھنا چاہیں گے تا کہ وہ اپنی زندگی اور اپنی فیملی کو فراہم کرنے کے لئے اقتصادیات کی تعمیر کر سکیں ۔ یہی وہ لوگ ہیں جو انتہاء پسند و ں کے درمیان جنگ کا خمیازہ بھگت رہے ہیں ۔
ہم اعتدال پسندوں کو انتہاء پسند وں کا سامنا کرنے کے لئے متحد ہونا ضروری ہے ، یہی وجہ ہے کہ میری تنظیم (the Cordoba Initiative) اعتدال پسندوں کا ایک عالمی ربط قائم کرنے کے لئے سرگرم عمل ہے جو ایک بہترین لائحہ عمل کے ذریعہ ہمارے درمیان اٹھنے والی انتہاء پسندی کی آواز کا مقابلہ کرے گا ۔
ایک نوجوان بچی ملالہ یوسف زئی ایک پاکستانی بچی جسے طالبانی انتہاء پسندوں نے تعلیم نسواں کے لئے آواز بلند کرنے کی پاداش میں اپنی گولیوں کا نشانہ بنایا وہ اعتدال پسندی کی ایک نمایاں علامت ہے ۔
کسی بھی مذہب میں ایک بے گناہ بچی کے قتل کی کوشش کرنا ایک بدنماں داغ ہے ۔ مزید یہ کہ اسلام تعلیم کو بڑی اہمیت دیتا ہے ۔اسلام کا پیغام یہ ہے کہ اچھا مؤمن وہی ہے جو صاحب علم ہے ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ ‘‘مہد سے لیکر لحد تک علم حاصل کرنا مسلمانوں پر فرض ہے ’’ اور ‘‘علماء کے قلم کی سیاہی شہداء کے خون سے بھی زیادہ قیمتی ہے ’’۔ انسانی ذہن و دماغ کو فروغ دینا فقہ اسلامی کے چھ عظیم مقاصد میں سے ایک ہے ۔
اگر عورتوں کو تعلیم حاصل کرنے سے روکنے کا حکم قرآن میں وارد نہیں ہوا ہے اور ایسا کرنا قرآنی تعلیمات کی خلاف ورزی ہے تو پھر ہم ملالہ کا قتل کرنے والوں کے اس دعوے کو کیوں قبول کر لیں کہ اسلامی تعلیمات میں ان کے اس عمل کی تھوس بنیاد موجود ہے ؟ اسلامی قوانین کی حقیقی تفہیم کی بنیاد پر ہمیں ان کا مقابلہ کرنا چاہئے ۔
ہو سکتا ہے کہ ماضی میں اعتدال پسند مسلمانوں کو یہ سمجھا گیا ہو کہ انہوں نے مغربی قوتوں اور مسلم حکمرانوں کے آگے سرتسلیم خم کر لیا ہے ، لیکن ہم ایسے کبھی نہ تھے ۔ مسلمانوں کا صحیح تشخص یہ ہے کہ وہ عقل و استدلال کے پاسدار ہوتے ہیں ، اعتدال پسند ہوتے ہیں جو اپنے ایمان پر مطمئن ہیں ،اپنے نظریات کے لئے آواز بلند کرتے ہیں اور عالمی منظر نامے پر ہمسری کا دعویٰ کرنے کے لئے ہمہ تن تیار ہیں۔
مذہب اور قومیت سے قطع نظر تمام اعتدال پسند لوگوں کے لئے اب وقت آ پہنچا ہے کہ وہ متحد ہو کر اٹھ کھڑے ہوں اور جہاں کہیں بھی انتہاء پسندی اپنا ناپاک سر ابھارے وہیں اس کا مقابلہ کریں ۔ اس کے لئے ہم ملالہ اور ان تمام لوگوں کے قرضدار ہیں جو انصاف اور ترقی کے مواقع کے لئے شب و روز سرگرم عمل ہیں۔ اور اس کے لئے ہم اس پاک پروردگار کے بھی ممنون ہیں جو اپنے تمام بندوں کے لئے امن و آتشی چاہتا ہے ۔
(انگریزی سے ترجمہ : مصباح الہدیٰ ، نیو ایج اسلام)
مغرب اور مسلمانوں کے درمیان رشتوں کو بہتر بنانے کے لئے مخصوص کثیر القومی اور کثیر المذاہب آرگنائزیشن ‘Cordoba Initiative’ کے بانی امام فیصل عبدالرؤف نے حال ہی میں رچمنڈ فورم میں شرکت کی ہے ۔
ماخذ: http://www.timesdispatch.com/opinion/their-opinion/true-islam-can-stop-extremism/article_af50f988-11e7-598f-87ec-6ecd62a26410.html
URL for English article:
https://newageislam.com/islam-politics/true-islam-stop-extremism/d/34625
URL for this article:
https://newageislam.com/urdu-section/true-islam-stop-extremism-/d/34933