By Ilmullah Islahi
Noor Jahan Sarwat was born on November 28 1949 in Delhi. She started her educational journey with Bulbuli Khana Senior Secondary School.Later she did her B.A. from the Delhi College, Ajmeri Gate which is now known as Zakir Hussain College, and did her M.A. with distinction from the Delhi University in 1971.
Noor Jahan Sarwat was one of the brightest students of her time and showed her creative skills while working as a teacher. She started her professional career as a lecturer in the Jawahar Lal Nehru University. She also taught at Zakir Hussain College. She was associated with the AIR as an interviewer. She was a fearless journalist and a poet with a distinct style and diction. As a poet, she represented India in various mushairas in Dubai, Reyaz, Jeddah and other countries.
She started her career as a journalist in 1980. She joined Qaumi Awaz, Delhi as a correspondent under the patronage of the senior journalist Ishrat Ali Siddiqui and got the honour of being the first lady journalist of Delhi and Urdu. Besides being the editor of the weekly supplement of the Qaumi Awaz, she was also appointed as the resident editor of the Delhi edition of the daily Inquilab of Mumbai, therefore becoming the first lady editor of any Urdu daily too.
After her retirement in 1991, she continued writing a weekly column in the Inquilab.
In the last fifity years, many women writers such as Kishwar Naheed, Zahra Nigah and Fahmida Reyaz have made their mark in the field of journalism and literature but Noor Jahan Sarwat was way ahead of them all in terms of her boldness and courage. With her demise, she has left a void in the world of Urdu journalism which is difficult to fill in the times to come.
Source: The Sahafat Magazine, New Delhi
URL: https://newageislam.com/urdu-section/noor-jahan-sarwat-first-lady/d/2678
علم اللہ اصلاحی
ابھی دو ہی دن قبل یعنی بدھ کی ہی تو بات ہے ،جب میں روزنامہ صحافت کی آفس میں بیٹھا خبروں کی نوک پلک سنوارنے مصروف تھا کہ برادر محمد عاطف نے انتہائی مغموم انداز میں مشہور صحافی اور شاعرہ نور جہاں ثروت کے انتقال کی خبر سناتے ہوئے کہا کہ ان کے انتقال سے متعلق ایک تعزیتی خبر لکھو۔۔۔۔۔۔تو ۔۔۔۔۔۔مجھے صدمہ ہوا کہ عظیم خاتون صحافی اور شاعرہ نور جہاں ثروت اب اس دنیا میں نہیں رہیں مگر ان کے کلام کی مہک اب بھی ان کے موجود ہونے کااحساس دلارہی ہے۔
تنہائیوں کی برف پگھلتی نہیں ہنوز
وعدوں کے اعتبار کی بھی دھوپ چھٹ گئی
مجھے سال 2007جامعہ ملیہ اسلامیہ دیار میر تقی میر میں منعقد اس شام کی ایک مدھم سی روشنی دکھائی دے رہی تھی، جس میں محترمہ ثروت جہاں اردو صحافت کی تاریخ پر انتہا ئی عالمانہ اور دہلی کی ٹکسالی زبان میں گفتگو کررہی تھیں ،ان کی زبان کی چاشنی اور بات کو خوبصو رت انداز میں رکھنے کا انداز آج بھی مجھے اچھی طرح یاد ہے۔
نور جہاں ثروت کی 28نومبر 1949کود ہلی میں پیدا ہوئیں تھیں، تعلیمی سفر آپ نے بلبلی خانہ سینئر سیکنڈری اسکول سے شروع کیا جو اب بھی ترکمان گیٹ کے قریب تعلیم تشنگان علم کو سیراب کررہا ہے ، بعد ازاں انہوں نے دہلی کالج اجمیر ی گیٹ جو آج بھی ذاکر حسین کالج کے نام سے جانا جاتا ہے سے بی .اے اور دہلی یونیورسٹی سے 1971میں امتیازی حیثیت سے ایم.اے. کیا تھا۔ وہ اپنے وقت کی ذہن اور تیز طرار طالبہ تھیں اور اسی وقت سے درس وتدریس کے ساتھ ساتھ تخلیق کے جوہر دکھا رہی تھیں ، انہوں نے اپنی عملی زندگی جواہر لعل نہرو یونیورسٹی (جے این یو) سے بحیثیت لکچرار شروع کی،ڈاکٹر ذاکر حسین کالج میں بھی علمی خدمات انجام دیں اور آل انڈیا ریڈیو میں بھی کام کیا، جہاں ایک بہترین انٹرویوں نگار کے طور پر شناخت قائم کی ۔ وہ ایک جری ،بے باک اور حق گوصحافی تھیں ،جنہوں نے اپنے قلم کے زور سیشہ زوروں کو زیر کیا ،نثر کے علاوہ آپ نے شاعری میں بھی اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا اور اس کے لئے انہوں نے نہ صرف ہندوستانیوں کو اپنے جوہر گرانمایہ سے محفوظ کیا بلکہ برصغیر ہندوپاک اور بنگلہ دیش سے سات سمندر پار عرب ممالک کو بھی اردو زبان کی لطافت کا احساس دلایا اور اس کے لئے انہوں نے عراق ،دوبئی ، جدہ ریاض اورکئی بیرون ممالک کے اہم ترین مشاعروں میں شرکت کر کے ہندوستان کی خوبصورت ترجمانی کی۔ آپ 1980میں سینئر صحافی عشرت علی صدیقی کی سرپرستی میں روزنامہ قومی آوازمیں بطور رپورٹروابستہ ہوئیں ۔ اور اس طرح اپنے وقت میں دہلی اور اردو ک اولین خاتون صحافی بننے کا اعزاز حاصل کیا ۔ آپ قومی آواز کے ہفتہ وار ضمیمہ کے ادارت کے علاوہ عروس البلاد ممبئی سے شائع ہونے والے معروف اخبار روزنامہ انقلاب کے دہلی ایڈیشن کی ریزیڈنٹ ایڈیٹر مقرر ہوئیں اور اس طرح انہوں نے اردو اخبار کی اولین خاتون ایڈیٹر ہونے کا بھی شرف حاصل کیا ۔ وہ 1991اپنی ملازمت سے کبرسنی کے باعث وظیفہ حسن خدمات پر سبکدوش ہوئیں مگر اس کے بعد بھی ان کے قلم کو تحریک رہی اور ہر ہفتہ ان کا کالم روزنامہ انقلاب میں شائع ہوتا رہا جس کی خاص بات اردو کے قارئین شاید کبھی فراموش کرسکیں گے کہ ا س کالم کی سرخی ایک مصرعہ پر مبنی ہوتی تھی۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ گذشتہ پچاس برسوں میں اردو کی خدمات انجام دینے والی خواتین کو جرأت زبان دینے والیوں میں کتنی ہی اظہار جرأت اور جرأت اظہار کی ابتدا کرگئیں ، یہ الگ بات ہے کہ اس انداز کو جاری رکھنے والوں کی فہرست میں ان کے ساتھ زہر نگار، کشور ناہید ،فہیدہ ریاض جیسی بے شمار با صلاحیتوں خواتین کے نام شامل ہوتے رہے اور ہوتے جارہے ہیں،تاہم اپنی ہم عمر خواتین میں نور جہاں ثروت سب سے آگے ہی رہیں ۔ اس اختصاص پر تو ارباب تنقید ہی تفصیلی گفتگو کریں گے لیکن بحیثیت ایک ادب کے طالب علم ہونے کے ناطے اتنا تو کہنے کا حق بہر حال رکھتا ہوں کہ اگر ان کی خدمات سے ‘‘نسائی بغاوت’’ کا عنصر بہت کم بھی کردیا جائے تب بھی وہ اردوصحافی اور شاعرہ ایسے تابندہ اور انمٹ نقوش ثبت کرگئیں کہ انہیں اپنے ہم عصر صف اول کے مرد صحافیوں میں بھی ایک نہایت ہی اہم مقام حاصل ہے، میں انہیں صرف اردو صحافت یاشاعری سے مخصوص کر کے داددینے کاقائل نہیں ہوں، وہ آج کے پورے طبقہ ٔ صحافت اور شاعری کی محفل میں ایک اسی مسند خالی کرگئیں جو ہمیشہ تو نہیں لیکن بہت دن .........برسوں ،برسوں خالی رہے گی۔ وہ ایک ورکنگ وومن بھی رہیں اور تاحیات ایک ایسے پیشہ سے وابستہ رہیں جو ہر کس ناکس کے بس کی بات نہیں ، اس لئے کہ فن صحافت ایک ایسا فن ہے جس میں تن من دھن سبھی کچھ لگا دینا پڑتا ہے ساتھ ہی محنت، مشقت ،عزم ،حوصلہ ،مستقل مزاجی اور صبر جیسی خوبیوں سے متصف ہونا پڑتا ہے ، وہ اس میزان پر بھی کھری اتریں ،ان کی زندگی کا یہ پہلو ہمارے لئے یقیناً قابل تقلید ہے۔ ان کا یہ شعرا ن کے ورددل کا عمدہ ترجمان ہے۔
عمر بھر دیکھا ہوا اک آرزو کا خواب تھا
کتنی آرزدہ ہوئی ہوں اپنے ہی انکار سے
آج ان کے انتقال کے بعد ہر چہار جانب سے تعزیتوں کا سلسلہ جاری ہے اور تقریباً تمام ہیا ادبی حلقے انہیں اپنے اپنے انداز میں خراج عقیدت پیش کررہے ہیں ۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ بہت پہلے ہی اپنی شان دار شاعری اور صحافتی خدمات کے عوض ادبی نمبرون اورکتابوں کاعنوان ہوچکی تھیں۔لیکن ہمارے یہاں برصغیر پاک وہند میں شخصیت کی قدر مرنے کے بعد ہوتی ہے اور بقول نور جہاں ثرورت ۔
دور خردوہ دور خرو ہے کیا کہیں
قیمت بڑھی ہے فن کی مگر قدر گھٹ گئی
شاید محترمہ ثروت نے اس بات کو اپنی زندگی میں ہی اچھی طرح محسوس کرلیا تھا تبھی تو انہوں نے کہا تھا ۔
طے کرو اپنا سفر تنہا ئیوں کی چھاؤں میں
بھیڑ میں کوئی تمہیں کوئی کیوں راستہ دینے لگا
URL for this article:
https://newageislam.com/urdu-section/noor-jahan-sarwat-first-lady/d/2678