New Age Islam
Mon Mar 24 2025, 02:54 PM

Urdu Section ( 28 Oct 2024, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Illegality of the Israeli Occupation of Palestine فلسطین پر اسرائیلی قبضے کی غیر قانونی حیثیت

آفتاب عالم، نیو ایج اسلام

24 اکتوبر 2024

اس ماہ، غزہ میں جاری جنگ اپنے دوسرے سال میں داخل ہو گئی، جس کی آگ 7 اکتوبر 2023 کو اسرائیل پر حماس کے ایک زبردست دہشت گردانہ حملے سے بھڑکی تھی، جس میں تقریباً 1200 افراد ہلاک ہوئے تھے، اور 251 افراد کو یرغمال بنایا گیا تھا۔ حماس کے اس حملے کے بعد، اسرائیل نے اپنی تاریخ کے سب سے مہلک اور تباہ کن فضائی حملوں اور زمینی حملوں کا ایک سلسلہ شروع کیا، جو آج تک جاری ہے۔ غزہ پر اسرائیلی جنگ میں اب تک تقریباً 42,000 فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں، جن میں زیادہ تر خواتین اور بچے شامل ہیں، اور تقریباً 100,000 زخمی ہیں۔ اسرائیل کے حملوں کے نتیجے میں، غزہ کی 2.3 ملین آبادی میں سے 90 فیصد سے زیادہ لوگ بے گھر ہو چکے ہیں، اور پورا علاقہ ملبے میں تبدیل ہو چکا ہے، جس سے وہ خوراک، پانی، ادویات اور رسد کی کمی کے ساتھ، غیر انسانی حالات میں زندہ رہنے پر مجبور ہیں۔

اس مایوسی اور تاریکی کے دور میں، ہیگ میں واقع دنیا کی سب سے بڑی عدالت انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس (آئی سی جے) کا، مقبوضہ فلسطینی علاقے میں، اسرائیل کی پالیسیوں اور طرز عمل سے پیدا ہونے والے قانونی نتائج پر مشاورتی رائے (او پی ٹی) ان فلسطینیوں اور دیگر لوگوں کے لیے امید کی ایک چھوٹی سی کرن ہے، جو اب بھی قانون پر مبنی بین الاقوامی نظام پر یقین رکھتے ہیں، اور اسرائیل کو روکنے کے لیے بین الاقوامی قانون کو استعمال کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ آئی سی جے نے مغربی کنارے، مشرقی یروشلم، اور غزہ کی پٹی پر مشتمل، فلسطینی سرزمین پر اسرائیل کے جاری قبضے کو بین الاقوامی قوانین کے تحت غیر قانونی قرار دیا ہے۔

اسرائیل نے 1967 کی جنگ میں، برطانوی مینڈیٹ کے تحت، فلسطین کے تقریباً تمام علاقوں پر قبضہ کر لیا تھا، اور اب بھی وہ علاقے مکمل طور پر اسی کے کنٹرول میں ہیں۔ 22 نومبر 1967 کو، سلامتی کونسل کی متفقہ قرارداد منظور ہونے کے باوجود، جس میں اسرائیل سے یہ مطالبہ کیا گیا تھا کہ وہ جنگ کے دوران اپنے قبضے والے علاقوں سے اپنی مسلح افواج کو نکال لے، اسرائیل نے منظم طریقے سے ایک ایسی پالیسی بنائی اور اس پر عمل درآمد کیا، جس کے تحت اس نے مفتوحہ زمینوں کو ضبط کیا، فلسطینیوں کو بے دخل کیا، ان کے گھر مسمار کیے، اور یہودی بستیوں کی تعمیر اور توسیع کرتے ہوئے، آخر کار مفتوحہ علاقوں کو اپنے تسلط میں لے لیا۔ 25 ستمبر 1971 کو سکیورٹی کونسل (SC) نے ایک بار پھر اس بات کا اعادہ کیا کہ "اسرائیل کی طرف سے یروشلم شہر کی حیثیت کو تبدیل کرنے کے لیے کیے گئے تمام قانونی اور انتظامی اقدامات، بشمول زمینوں اور جائیدادوں کی ضبطی، آبادیوں کی منتقلی، اور مقبوضہ علاقوں پر قبضہ کرنے کے لیے قانون سازی، مکمل طور پر غلط ہے اور وہ اس سے یروشلم کی حیثیت تبدیل نہیں ہو سکتی۔" اسرائیل نے، ماضی کی طرح، اس بار بھی سکیورٹی کونسل کی اس بات کو ان سنا کر دیا۔

اقوام متحدہ (یو این) کی ایک حالیہ رپورٹ میں، یروشلم سمیت مقبوضہ علاقوں میں، اسرائیلی بستیوں اور آباد کاروں میں تیزی سے اضافے کی بات کی گئی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یکم نومبر 2022 سے 31 اکتوبر 2023 تک کے عرصے کے دوران، مقبوضہ مغربی کنارے میں تقریباً 24,300 نئے اسرائیلی ہاؤسنگ یونٹس بنائے گئے ہیں، جو کہ 2017 میں اقوام متحدہ کی نگرانی شروع ہونے کے بعد سے اب تک کی سب سے بڑی تعداد ہے۔ صرف مشرقی یروشلم میں، مبینہ طور پر اس عرصے کے دوران، اسرائیلی بستیوں کے تقریباً 9,670 یونٹ تعمیر کیے گئے ہیں۔ 2023 تک، مغربی کنارے میں تقریباً 465,000 اسرائیلی آباد کار تھے، جو تقریباً 300 بستیوں اور چوکیوں میں پھیلے ہوئے تھے، جب کہ مشرقی یروشلم میں تقریباً 230,000 آباد کار تھے۔

واضح رہے کہ اسرائیل کی ضبطی، بے دخلی اور بستیوں کی تعمیر کی پالیسی بین الاقوامی قانون کے مطابق ممنوع ہے۔ مثال کے طور پر، 1949 کے چوتھے جنیوا کنونشن کا آرٹیکل 47 واضح طور پر مقبوضہ علاقے کی ضبطی کو ممنوع قرار دیتا ہے، اور اس کا آرٹیکل 49 کسی بھی مقبوضہ علاقے سے مکینوں کی زبردستی منتقلی یا ملک بدری سے منع کرتا ہے۔ جولائی 2001 میں، اسرائیل نے فلسطینیوں کے تشدد کے خلاف حفاظتی اقدام کے طور پر گرین لائن کے ساتھ ساتھ مغربی کنارے اور مشرقی یروشلم میں دیوار تعمیر کی تھی، جسے آئی سی جے نے 2004 میں پیش کردہ اپنی مشاورتی رائے میں بین الاقوامی قانون کے خلاف پایا تھا۔

اسرائیلی پالیسی کے نتیجے میں فلسطینیوں کی مسلسل نقل مکانی نے کشیدگی اور تنازعات کو جنم دیا ہے۔ اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق، وولکر ترک کے مطابق، او پی ٹی میں اسرائیلی بستیوں کی مسلسل توسیع سے فلسطینی ریاست کے کسی بھی عملی امکان کے ختم ہونے کا خطرہ موجود ہے۔

واضح رہے کہ متنازعہ فیہ دائرہ اختیار کے علاوہ، جسے آئی سی جے ریاستوں کے درمیان قانونی تنازعات کا تصفیہ کرنے کے لیے استعمال کرتا ہے، اس کے پاس ایک مشاورتی دائرہ اختیار بھی ہے، جو اسے اقوام متحدہ کے اداروں کی تحریری درخواست پر قانونی معاملات میں غیر پابند کن رائے پیش کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ اس کی خصوصی ایجنسیاں یا متعلقہ تنظیمیں ایسی درخواست کرنے کی مجاز ہیں۔ اسی مناسبت سے، اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی (یو این جی اے) نے 30 دسمبر 2022 کو اپنے آئین کے آرٹیکل 65 کے مطابق، آئی سی جے سے درخواست کی کہ وہ 1967 سے مقبوضہ فلسطینی سرزمین پر اسرائیل کے طویل قبضے، آباد کاری اور ضبطی کے قانونی نتائج کے بارے میں ایک مشاورتی رائے پیش کرے، جس میں فلسطینی عوام کے حق خود ارادیت چھینے جانے، امتیازی سلوک پر مبنی قانون سازی، اور یروشلم کے مقدس شہر سمیت اس کے زیر قبضہ علاقوں کی آبادیاتی ساخت، کردار اور حیثیت کو تبدیل کرنے کی کوششیں شامل ہوں۔

آئی سی جے کے آئین کے آرٹیکل 66(1) اور (2) کے مطابق، جولائی اور اگست 2023 میں 52 ممالک اور تین بین الاقوامی تنظیموں نے عدالت کے سامنے تحریری بیانات جمع کرائے تھے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ تقریباً تمام تحریری گزارشات فلسطین کی جانب سے تھیں۔ عدالت نے فروری 2024 میں زبانی دلائل کی سماعت کی۔ اسرائیل نے عدالتی کارروائی کا بائیکاٹ کیا۔ آئی سی جے نے اپنی 78 سالہ طویل تاریخ میں ریاستوں کی طرف سے اتنا بڑا ردعمل نہیں دیکھا۔

آئی سی جے کی 83 صفحات پر مشتمل مشاورتی رائے، اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی جانب سے پیش کیے گئے سوالات کے تفصیلی جوابات فراہم کرتی ہے۔ فلسطین کی تائید کرتے ہوئے، آئی سی جے نے واضح الفاظ میں یہ کہا ہے کہ اسرائیل کا فلسطینی علاقوں پر مسلسل قبضہ اور ضبطی غیر قانونی ہے، اور اسے حکم دیا کہ وہ اپنی تمام بستیوں اور آباد کاروں سمیت وہاں اپنی موجودگی کو "جلد سے جلد ختم کرے۔" عدالت نے قرار دیا کہ اسرائیل ایک قابض طاقت کے طور پر ضبطی اور او پی ٹی پر مستقل کنٹرول کے دعوے کے ذریعے اپنی پوزیشن کا مسلسل غلط استعمال کر رہا ہے، اور فلسطینی عوام کا حق خود ارادیت سے مسلسل محروم ہونا بین الاقوامی قانون کے بنیادی اصولوں کی خلاف ورزی ہے۔ اور مقبوضہ فلسطینی علاقے میں اسرائیل کی موجودگی غیر قانونی ہے۔

عدالت کی رائے میں، اسرائیل کی ذمہ داری ہے کہ وہ آباد کاری کی تمام نئی سرگرمیاں فوری طور پر روک دے، اور تمام آباد کاروں کو او پی ٹی سے نکالے، اور تمام متعلقہ افراد کو پہنچنے والے نقصان کی تلافی کرے۔ آئی سی جے نے اسرائیل کو او پی ٹی کی آبادی کو معاوضہ ادا کرنے کا بھی حکم دیا ہے، اور اقوام متحدہ سمیت تیسری ریاستوں اور بین الاقوامی تنظیموں سے بھی مطالبہ کیا ہے کہ وہ یروشلم میں اسرائیل کی موجودگی کو برقرار رکھنے میں اسرائیل کی مدد کرنے سے گریز کریں۔ عدالت نے رائے کے لیے درخواست گزار، یو این جی اے اور سکیورٹی کونسل سے کہا ہے کہ وہ او پی ٹی میں اسرائیل کی غیر قانونی موجودگی کو جلد از جلد ختم کرنے کے لیے درست طریقہ کار اور مزید کارروائی پر غور کرے۔

عالمی عدالت کی اس قابل ذکر رائے کے نتیجے میں، یو این جی اے نے 13 ستمبر 2024 کو ایک اہم قرارداد منظور کی، جس پر دو تہائی اکثریت سے ووٹنگ ہوئی، 124 حق میں، اور 14 خلاف میں، اور 43 غیر حاضری کے ساتھ۔ قرارداد میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ قرارداد کی منظوری کے 12 ماہ کے اندر، اسرائیل او پی ٹی میں اپنی غیر قانونی موجودگی کو ختم کرے۔ یو این جی اے کی قرارداد میں ریاستوں اور بین الاقوامی اداروں کی ذمہ داری کا خاکہ پیش کیا گیا ہے کہ وہ او پی ٹی میں اسرائیل کی غیر قانونی موجودگی سے پیدا ہونے والی صورتحال کو قانونی تسلیم نہ کریں۔

اگرچہ آئی سی جے کے اس فیصلے سے غزہ میں جاری جنگ کا رخ تبدیل ہونے، اور اسرائیل کا قبضہ سے باز آنے کا امکان نہیں ہے، لیکن اس کے گہرے سیاسی اثرات مرتب ہوں گے، جن کا استعمال او پی ٹی میں اسرائیلی بداعمالیوں کے خلاف بامعنی بین الاقوامی دباؤ پیدا کرنے اور فلسطینی ریاست کی حیثیت کو بحال کرنے کے لیے کیا جا سکتا ہے۔ اس فیصلے نے پوری دنیا کو فلسطینیوں کے لیے انصاف کی ضرورت کے لیے بیدار کیا ہے، جو کئی دہائیوں سے ظلم اور منظم انداز میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں برداشت کرتے آئے ہیں، اور طویل عرصے سے ان سب کے لیے اسرائیل کو جوابدہ ٹھہرانے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔ یہ فیصلہ تاریخ کے ایک سنگین ترین موڑ پر فلسطینیوں کو انتہائی ضروری مدد فراہم کرتا ہے۔

------------------

English Article: Illegality of the Israeli Occupation of Palestine

URL: https://newageislam.com/urdu-section/illegality-israeli-occupation-palestine/d/133562

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism

Loading..

Loading..