New Age Islam
Mon Mar 27 2023, 01:22 PM

Urdu Section ( 27 Jul 2017, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Current Situation of Kashmir کشمیر کی موجودہ صورت حال

افتخار گیلانی

3مئی،2017

پچھلے دنوں دارالحکومت دہلی میں فوج کی ایک تھینک ٹینک نے کشمیر میں رواں مخدوش صورت حال کے حوالے سے ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا ۔ چیتھم ہاؤس رولز کے تحت ہوئے اس مذاکرہ میں کئی سابق فوی سربراہان کے علاوہ متعدد سرونگ اور ریٹائرڈ آرمی افسران نے شرکت کی۔ دہلی کنٹونمنٹ کے جنرل مانک شاہ آڈیٹوریم پہنچ کر معلوم ہوا کہ راقم کے علاوہ سویلین مقررین میں صرف مصنف ڈیوڈ دیوداس اور سپریم کورٹ کے معروف وکیل اورقانون دان اشوک بھان مدعو ہیں ۔ کانفرنس میں عمومی اتفاق رائے تھا کہ موجودہ شورش سیاسی عمل کی ناکامی کی دین سے اور فوج کشمیر میں جو کچھ کر سکتی تھی کر چکی ہے او راب اس کی زنبیل میں ایسا کچھ نہیں بچا ہے جس سے عوامی غیض و غضب کو ٹھنڈا کیا جاسکے ۔ ضلع کپواڑہ میں تعینات ایک افسر نے بتایا کہ نہتے بچے بلا کسی ڈرو خوف کے آرمی کا نوائے روک دیتے ہیں اور کیمپوں کے پاس آکر فوجیوں کو ’’ اکساتے‘‘ ہیں ۔ ایک معمر جنرل صاحب نے شکوہ کیا کہ شورش کو کچلنے کیلئے آخر سیکورٹی دستے اسرائیلی حکمت عملی کیوں نہیں اپناتے ہیں؟ حال میں سبکدوش ہوئے ایک جنرل نے افسو س ظاہر کیا کہ انسانی ڈھال کے طور پر بندھے ہوئے ایک کشمیری نوجوان کی وائرل ہوئی تصویر سے فوج کی ساکھ کو دھچکا لگا ہے۔ میں نے معمر جنرل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ان سے پوچھا کہ آیا وہ کون سی اسرائیلی حکمت عملی ہے،جو ہندوستانی دستوں نے کشمیر میں استعمال نہیں کی ہو ؟ فوج کے ساتھ مشترکہ مشقوں میں شامل کئی اسرائیلی فوج افسران نے راقم کو بتایا ہے کہ جس طرح کشمیر کے دیہاتوں میں سویلین آبادی کو ڈھال کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے، وہ اس کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتے ہیں ۔ میں نے ہال میں موجود افسران سے پوچھا کہ ایمانداری سے یہ بتائیں کہ سوشل میڈیا نے جیپ سے بندھے ہوئے جوان کی تصاویر تو دنیا تک پہنچا دی ، مگر کیا کشمیر میں ایسا پہلی بار ہوا ہے؟

جموں و کشمیر کے طول و عرض میں ایسے لاتعداد المناک واقعات رونما ہوئے ہیں، جنہیں بیان کرنے یا ضبط تحریر میں لانے سے زبان اور قلم تک خوف زدہ ہوجاتے ہیں ۔ مجھے یاد ہے کہ 1990سے 2003تک شمالی کشمیر میں کس طرح رات کے تین بجے ہر گاؤں سے چار سے آٹھ افراد پر مشتمل مختلف قافلے ہاتھوں میں لالٹین لے کر سڑک پر اپنے اپنے گاؤں کے مقررہ مقام پر جمع ہوجاتے تھے ۔ اس قافلے کا انتخاب بدنصیب گاؤں والے یوں کیا کرتے تھے کہ گاؤں کے ایک سروے سے شروع کر کے ہر گھر سے ایک فرد کو باری باری حاضر ہونا پڑتا تھا ۔اس سارے آپریشن کا نام ’’ کانوائے ڈیوٹی‘‘ رکھا گیا تھا ۔ پروگرام کے مطابق صبح کے تین بجے چاہے یخ بستہ سردیاں ہوں یا گرمیاں مقررہ مختلف مقامات پر برلب سڑک لگ بھگ 200افراد ایک ہاتھ میں لمبا ڈنڈا اور دوسرے ہاتھ میں لالٹین لے کر فوجی پارٹی کا انتظار کرتے تھے۔ جوں ہی فوجی پارٹیاں آتی تھیں ، تو ان کو آگے چلنے کا حکم دیا جاتا تھا ۔ سڑک کے دونوں طرف گندی نالی ہو یا کوئی کھیت کھلیان ، جنگل ہو یا قبرستان ، باریک بینی سے اس بات کی کھوج لگانی پڑتی تھی کہ کہیں کسی نے بارودی سرنگ تو بچھا کے نہ رکھی ہے۔ ایسا شاید دنیا کے کسی بھی خطہ میں نہیں ہوتا ہوگا کہ وردی پوش جس کا کام ہر حال میں شہریوں کی حفاظت کرنا ہوتاہے، اپنی حفاظت کے لئے الٹا بدنصیب شہریوں کو ہی اپنے آگے انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کرے۔ اس کے بعد اگر متعلقہ ذمہ دار فوجی افسر کا موڈ ٹھیک ٹھاک ہوتا اور گرد نواح میں جنگجوؤں موجودگی کا خطرہ بھی نہ ہوتا تو بیگار پر گئے بدنصیب دیہاتیوں کو صبح کا ناشتہ کرنے کیلئے لگ بھگ آدھے گھنٹے کے لئے گھر جانے کی اجازت ملتی تھی ، اس کے بعد متعلقہ منتقلی کیمپ میں جاکر اپنے اپنے شناختی کارڈ جمع کروانے ہوتے تھے۔ وہاں کوئی حوالدار ’ صاحب‘ لوگوں کو مختلف ٹکریوں میں بانٹ کر مختلف کام انجام دینے کے لئے تعینات کرتا۔ اس دوران اگر کہیں بھی ، چاہے وہ علاقہ میلوں دور کیوں نہ ہو ، آرمی کا نوائے کے اوپر کوئی حملہ ہوجاتا ، تو نزلہ ان دیہاتیوں پر گرادیا جاتا تھا۔ اس طرح رہائشی مکانات کی جو بھی کھڑکیاں سڑک کی طرف کھلتیں تھیں ، انہیں کھولنے کی اجازت نہیں تھی ۔

لنگیٹ قصبہ سے ملحق ایک گاؤں ہانگہ کے ایک باعزت استاد ماسٹر عبدالحق گنائی جب اپنی باری پوری کرنے کیلئے بیگار پرتھے ، تو فوجیوں کو اس کے گاؤں کے بیچوں بیچ گزرنے والے سڑک کے کنارے توت کے درخت کی گنجان ٹہنیوں سے خوف محسوس ہونے لگا اور ماسٹر صاحب کو حکم دیا کہ وہ کلہاڑی لے کر یہ ٹہنیاں کاٹ دیں۔ ماسٹر صاحب کا کام بچوں کو پڑھانا تھا اور درخت پر چڑھنے کا انہوں نے کبھی خواب میں بھی نہیں سو چا تھا، نتائج کی پرواہ کئے بغیر انہیں حکم کی تعمیل کرنے کے سواکوئی چارہ نہیں تھا۔ وہی ہوا جس کاڈر تھا۔ بدنصیب استاد کلہاڑی لے کر جیسے ہی جوں توں کر کے درخت پر چڑھا تو اچانک اپنا توازن کھو بیٹھا اور سیدھا گر کر دم توڑ دیا۔ معاوضہ تودرکنار بتایا گیا کہ پولیس میں رپورٹ درج کروانا’’ قوم دشمنی‘‘ گردانا جائے گا۔ اسی طرح سنزی پورہ گاؤں کا فیروز احمد پیرنامی طالب علم جب بھاری برف باری کے بیچ کانوائے ڈیوٹی‘ انجا م دے رہا تھا تو سڑک کے نیچے ایک تنگ Culvert کے اندراس نے یہ کہہ کر گھسنے سے انکار کیا کہ پوری نالی پیشاب سے بھری ہوئی ہے ۔ بس پھر کیا تھا، اس بدنصیب نوجوان کو اپنا پاجامہ ، جوتا او رموزے سے باہر نکال کر چار کلو میٹر تک کانوائے کے آگے آگے چلنے پر مجبور کیاگیا۔ گھر پہنچنے کی دیر تھی کہ فیروز پورے دو مہینے کے لئے بیمار ہوکر بستر پر پڑا رہا۔

جموں و کشمیر کی اسمبلی میں لنگیٹ علاقہ کے ایم ایل اے انجینئر عبدالرشید ، جو سیاست میں آنے سے قبل خو د بھی ایک سرکاری عہدے پر فائز ہونے کے باوجود اس طرح کی ڈیوٹیاں دے چکے ہیں کا کہنا ہے کہ ان کے علاقہ میں تعینات میجر جگر وپ کی ہدایت تھی کہ جہاں بھی کسی فوجی جوان یا آفیسر سے آمنا سامنا ہو، تو سلام کے بجائے بلندآواز میں فوراً ’’ جے ہند‘‘ کہنا ہوتاتھا ۔ بد قسمتی سے علاقہ کی ایک باعزت شخصیت محمد یٰسین جو ایک دن دوکان پر بیٹھے تھے سلام کرنے میں تاخیر کر بیٹھے ، میجر صاحب نے انہیں ننگے پاؤں دوکان کے باہر نکال کر کوئی 20فٹ دور دیوار کے ساتھ ہاتھ کھڑا کرکے کھڑا رہنے کا حکم دیا۔ اتنے میں گاؤں کی مسجد جو کہ جائے واردات سے 100فٹ کی دوری پر واقع ہے، میں موجود نمازیوں کو باہر نکلنے کا حکم دیا گیا ۔ انہیں میجر صاحب نے محمد یٰسین کی گستاخی ( جے ہند نہ کہنے) کے بارے میں بتایا اور محمد یٰسین پیر کو حکم دیا کہ وہ معافی مانگے ۔ بدنصیب نمازیوں کو امید تھی کہ معافی کے عوض محمد یٰسین کو چھوڑ دیا جائے گا لیکن ابھی یٰسین صاحب کے زبان سے معافی کے پورے الفاظ ادا بھی نہیں ہوئے تھے کے میجرنے فلمی انداز میں اس کے سینے میں گولیوں کو بوچھاڑ کردی اور یہ کہہ کر کہ ’’ میں نے اسے معاف کردیا‘‘ وہاں سے نکل لیا اور بے بس دیہاتی اپنے علاقے کے خود دار ، جیالے او رمایہ ناز سپوت کی لاش کو کئی گھنٹوں تک اٹھانے کی ہمت نہ کرپائے ۔ اسی طرح جماعت اسلامی سے وابستہ کارکنوں کے لئے بھی تذلیل، حقارت اور کردار کشی پر مبنی آپریشن ہرروز ’ کانوائے ڈیوٹی‘ کے مستقل پروگرام کے ایک حصے کے طور انجام دیا جاتا تھا ۔ ماسٹر عبدالغفار خان مرحوم ، پورے علاقے میں انتہائی عزت اور احترام کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے ۔ ان کا صرف یہ قصور تھا کہ وہ جماعت اسلامی سے وابستہ تھے ۔ ان کا گھر قلم آباد میں واقع فوجی کیمپ کے ساتھ ہی واقع تھا۔ میجر اشوک نیئر نامی آفیسر انہیں ستانے اور ان کے تذلیل کرنے میں جیسے ذہنی سکون سا آتا تھا۔ کئی بار جب ہم اپنی کانوائے ڈیوٹی دینے کیلئے کیمپ کے سامنے حاضر ہوجاتے تھے تو ہمارے استاد محترم کی بے بسی اور بے کسی دیکھ کر ہمیں اپنی بزدلی اور بے غیرتی پر افسوس ہوتا تھا۔ ماسٹر عبدالغفار خان صاحب کیلئے میجر صاحب نے یہ حکم دے رکھا تھا کہ جیسے ہی کانوائے ڈیوٹی والے ان کے نزدیک پہنچ جائیں تو وہ زور سے ’’ سور کا گوشت کھاؤں گا ‘‘ کا نعرہ تین بار بلند کریں۔ اس کے لئے انہیں چند منٹوں کے لئے کیمپ کے باہر حاضری دینی پڑتی تھی۔

رات بھر کا شبانہ گشت بھی گاؤں کے لوگوں کے لئے قیامت سے کم نہیں ہوتا تھا ۔ اگر اس گشت کے دوران فوجیوں کو کہیں سے کسی گاؤں کے متعلق یہ خبر ملتی کہ انہوں نے ذرہ بھر بھی لا پرواہی سے کام لیا تواگلے دن پورے گاؤں کی شامت آجاتی ۔ خود وردی پوش رات کو کیمپ سے باہر نہیں نکلتے تھے لیکن گاؤں والوں کے لیے رات بھر گشت کرنا لازمی تھا ۔ ایک دن آڈورہ نامی گاؤں کے متعلق فورسز نے یہ بہانہ پیش کیا کہ رات کے دوران جن لوگوں کو اس رات گشت پر مامور ہوناتھا انہوں نے لا پرواہی برتی ہے اور گشت کے بجائے کسی جگہ چند لمحوں کے لئے سو گئے تھے، اگلے دن صبح تڑکے پورے گاؤں کے مردوں کو قلم آباد آڈورہ روڈ پر واقع پل کے ساتھ باندھ تعمیر کرنے کا حکم دیا گیا ۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ایک صوبیدار جو بیگار لینے میں اپنا منفرد مقام رکھتے تھے اور آپریشن سد بھاؤنا ( یعنی عوام کو راحت پہنچانے) کے نام پر بیگار کے ذریعے پل وغیرہ بنانے میں مہارت رکھتے تھے ۔ ان کو لوگ ’’ پل کا سردار‘‘ کے نام سے پکارتے تھے ۔ انہوں نے آڈورہ کے لوگوں کو حکم دیا کہ جب تک باندھ تعمیر نہیں ہوتا تب تک وہ گھر واپس نہیں جاسکتے ۔ یہ شب قدر تھی او ربے چارے دیہاتیوں نے کوئی رات کے ایک بجے تک باندھ کو پورا کرکے اپنی جان چھڑائی ۔ غرض ان مظلوموں کے لئے شب قدر کی یہ مقدر رات اپنے گناہوں کی مغفرت کے لئے رب ذوالجلال کی خدمت میں آہ و زاری میں گذارنے کے بجائے فورسز کے حکم کی تعمیل میں صرف ہوئی ۔ جب یہ واقعات بیان کررہا تھا ، تو ہال میں سناٹاچھا گیا تھا ۔ میں نے کہا کہ کشمیر میں رونما ہورہے واقعات اسی کھیتی کی پیداوارہیں، جو وہاں آپ حضرات نے بوئی ہے۔ کشمیری عوام پر صدیوں سے جبراور خوف کے ذریعے حکومت کی گئی ہے۔ خوف اب ان کے دلوں سے نکل چکا ہے۔ جبرا بھی باقی ہے۔ اس سے قبل کہ صورت حال مزید مخدوش ہو، اور اس میں کئی اور خارجی عناصر شامل ہوکر پورے خطہ کے لئے پریشانی اور مصبیتوں کا باعث بنیں ۔ بہتر یہی ہے ، کہ مسئلہ کے سیاسی تصفیہ کی طرف سنجیدگی کے ساتھ پیش قدمی کی جائے ۔

3مئی،2017 بشکریہ : روز نامہ جدید خبر ، نئی دہلی

URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/current-situation-kashmir-/d/111990


New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism

 

Loading..

Loading..