New Age Islam
Sat Jan 25 2025, 12:55 AM

Urdu Section ( 8 Jun 2013, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Saudi Women Edge Toward Equal Rights Reform مساوی حقوق مہم کی طرف سعودی خواتین کی پیش قدمی

 

 ایڈا لیچٹر

 5مئی 2013

( انگریزی سے ترجمہ۔ نیو ایج اسلام)

موٹر سائیکل چلانے کی اجازت کیا  سعودی خواتین پر عائد  پابندی کے خاتمے کی  طرف پہلا قدم ہے؟ حالیہ حکمراں حکومت خواتین کو مکمل اسلامی لباس پہننے کی شرط پر پارک اور تفریحی علاقوں میں بائک یا بگھی  چلانے کی اجازت دیتی ہے۔ سیاہ لباس کے لہرانے یا گرجانے پر اگر سوار پریشانی میں پڑجائیں ، انہیں کسی مرد سرپرست کے ہمراہ ہونا ضروری ہے  اور سماجی اختلاط سے بچنے کے لئے، مردوں کی اکثریت والی کسی  عوامی جگہ سے دور رہنا ضروری ہے ۔

وجیہ الحیدر جیسی  خواتین کارکن نے  ڈرائیونگ پر پابندی ختم کرنے   کی درخواست کی تھی ، اور بچوں کی شادی اور ولایت کے قوانین کے خلاف بھی مہم چلائی جو  خواتین کو قانونی طریقہ کاروائی ، تعلیم، شادی اور سفر کے لئے مرد رشتہ داروں سے اجازت حاصل کرنے کے لئے مجبور کرتے ہیں ۔

سلطان کے ذریعہ  ریاستی حمایت حاصل شدہ  امتیازی سلوک کی محتاط اصلاحات، مغرب میں کچھ  دلچسپی پیدا کر سکتی  ہیں ، اگر  وہ تیل کی دولت سے مالا مال ریاست میں اس کی عالمی اقتصادی، سیاسی اور مذہبی اثر و رسوخ کے ساتھ ان کے ممکنہ تصادم کے لئے نہ ہو  ۔

سعودی عرب بہت سے ممالک میں مساجد اور اسلامی تعلیمات کو  فنڈز مہیا کراتا ہے ، ایک ایسامشن جس کی بنیاد  18 ویں صدی کے وسط میں  پرنس محمد ابن سعود اور ایک مسلم عالم، محمد ابن عبد الوہاب کے درمیان معاہدہ ہے ۔ اس اتحاد نے   مکی  اور مدنی  مقدس مقامات کو وہابی گھرانے کے  حفاظت میں قانونی طور پر دے دیا اور بدلے میں وہابی اسلام کا  فروغ  ہوا جو کہ مذہب کی انتہائی متشدد شکل ہے۔ وہابیت  ریاستی قانون اور مذہبی  پولیس میں عیاں  ہے۔ ایران کے ساتھ رقابت نے ریاست کو اور زیادہ  صالح شبیہ  اختیار کرنے پر مجبور کر دیا ہے ۔

سعودی علماء خواتین کی مساوات کے سخت مخالف  ہیں بہت سے  لوگ اصلاح  سے  مغربی اثر و رسوخ کے طور پر ڈرتے ہیں جو کہ اسلام کو آلودہ کرتا ہے اور مسلم نوجوانوں کو  مذہب سے دور کر دیتا ہے ۔ ڈرائیونگ پر پابندی اور دیگر صنفی امتیاز کی منسوخی جنسی تفریق کو مٹا دے گا  جو کہ  ثقافتی معمول اور مذہب  کی بنیاد ہے ۔

اصلاح کی کوئی بھی  کوشش سعودی عرب کے شاہ عبداللہ پر پابندی اور مذہبی حکام کے ساتھ کشیدگی کا موضوع ہے، جو کہ اس کی طاقت کو برقرار رکھتے ہیں ۔ اس کے علاوہ، مغربی حکومتیں سعودی ریاست کی تنقید سے بچتی  ہیں اس لئے کہ دونوں   پر پیچ انداز میں تیل، اسلحہ اور سرمایہ کاری کے بھاری سودے سے جڑے ہوئے ہیں۔ ہم زیستانہ  تعلقات نے سعودی عرب میں خواتین کے حقوق کی خلاف ورزیوں کے لئے ایک آزاد پاس کو منظوری دی ہے۔ شاہ  نے ایک بڑی تعداد میں  اصلاحات کو متعارف کیا ہے۔ علماء نے  دونوں جنسوں کے ہزاروں طالب علموں کی مغربی یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل  کرنے کی حوصلہ افزائی کی ہے ۔ صرف خواتین کے لئے ریاض میں ایک نئی  یونیورسٹی 000،50 سے زیادہ طالب علموں کا انتظام و انصرام کرتی ہے ۔ حال ہی میں تربیت پانے والی پہلی خاتون وکیل کو خواتین کے لئے اس  ملک میں ایک مثال قائم   کرتے ہو ئے رجسٹرڈ کیا گیا تھا جہاں عدالتیں جنسی طور پر الگ الگ ہیں اور ایک عورت کی گواہی کو  مرد کی گوہی کا نصف مانا جاتا ہے ۔

2015 سے، خواتین کو ووٹ ڈالنے کا حق حاصل ہو گا  اور انہیں بلدیاتی انتخابات میں امیدوار کے طور پر انتخابات لڑنے کا بھی حق حاصل ہو گا  ۔

وہ سعودی خواتین کے شوہر اور  بیٹے جنہوں نے  غیر عرب سے شادی کی ہے اب سعودی  کے شہری بن سکتے ہیں۔

گزشتہ جنوری میں  89 سالہ شاہ نے شوریٰ کونسل کی نمائندگی کے لئے 30 خواتین کو مقرر کر کے  معاشرے میں خواتین کے تعاون کو تسلیم کیا ہے  جو کہ  نئی قانون سازی کے بارے میں مشورہ دیتی ہے ۔ درجنوں علماء نے اس اقدام پر اسلامی قانون کی پامالی کا  الزام لگاتے ہوئے  احتجاج کیا۔

نجی شعبے میں خواتین ملازمین کی تعداد، شاید حال ہی میں حکومت کی اصلاحات کی وجہ سے، مبینہ طور پر دگنی ہو گئی ہے ۔ اگرچہ تقریبا 60 فیصد یونیورسٹی سے فارغ التحصیل کی نمائندگی کرتے ہوئے ، افرادی قوت میں خواتین کی شراکت صرف 5 .16 فیصد ہے۔ اوسطا، وہ مردوں کی نصف تنخواہ کے برابر  کماتی  ہیں، تاہم منسٹری آف لیبر ریگولیشن  ایک ہی کام کے لئے مساوی تنخواہ مقرر کرتی ہے  ۔

سب سے پہلے سعودی فیچر  فلم "وجدہ " اور موٹر سائیکل چلانے کے لئے پر امید لڑکی کی ایک  کہانی شاہی منظوری کے ساتھ بنائی گئی ۔ جس کی ہدایت کا ری حائفہ المنصور نے کی ہے ، ایک ایسی عورت جس نے آسٹریلیا میں فلم اسکول میں تعلیم حاصل ہے ، یہ فلم سعودی معاشرے کی ایک مناسب  تنقید ہے۔

ثقافتی تبدیلی اور مجرموں کے لئے ہلکی سزا کی بھی عکاسی قانون، میڈیا، اور شوری میں کچھ مردوں کی سر گرمیوں میں ہوتی ہے ،  جو  خواتین کے خلاف تشدد کی مذمت کرتے ہیں ۔

سعودی نوجوان عوامی بحث میں زیادہ کھل کر اور  بڑھ چڑھ کر  آواز بلند کر  رہے ہیں ۔ دنیا میں سب سے زیادہ یو ٹیوب ناظرین، جن میں سے نصف تعداد خواتین کی ہے  ۔

مشرقی صوبے میں خواتین انسانی حقوق میں زیادہ فعال ہوتی جا رہی ہیں، سعودی خواتین عام طور پر کامیابی حاصل کر رہی   ہیں، تیسرے درجے کی  ڈگری حاصل کررہی ہیں، اور قدیمی قوانین اور روایات کے خلاف اختلاف رائے کو فروغ دینے کے لئے  انٹرنیٹ کا استعمال کر رہی ہیں ۔ نوجوان، تعلیم یافتہ خواتین مرد کے  غلبہ والی  ثقافت کے مکر کو بھانپ  سکتی ہیں جو احترام اور عزت کے اقرار کے بدلے میں طفلیت اور اطاعت کا مطالبہ کرتا ہے ۔ کچھ ایسی خواتین جنہیں مغرب سے  سناشائی  حاصل ہو چکی ہے  وہ  صنفی تفریق اور اصلاحات کی معمولی رفتار کو برداشت نہیں کریں گی اور ہو سکتا ہے  کہ تبدیلی کے لئے مہم چھیڑ دیں یا ہجرت کر جائیں ۔

بہار عرب کی بغاوت نے  خطے میں صنفی امتیاز پر مبنی قوانین کی اصلاحات کو بر طرف  کر دیا  ہے۔ اگر خواتین کے حقوق کی رفتا ر مسلم ممالک میں سب سے زیادہ جابرانہ ملک میں  اس رجحان کے خلاف چلی گئی تو یہ ستم ظریفی ہوگی۔

ایڈا لیچٹر ایم ڈی 'Muslim Women Reformers: Inspiring Voices Against Oppression' کی مصنف ہیں

ماخذ: http://www.huffingtonpost.com/ida-lichter-md/saudi-women-edge-toward-equal-rights-reform_b_3116008.html

URL

 https://newageislam.com/islam-women-feminism/saudi-women-edge-toward-equal/d/11430

URL for this article:

https://newageislam.com/urdu-section/saudi-women-edge-toward-equal/d/11955

 

Loading..

Loading..