نیو ایج اسلام اسٹاف رائیٹر
30جنوری، 2025
بنگلہ دیش میں مسلمانوں میں ماب ہسٹریا جس سطح تک پہنچ چکا ہے اسے دیکھ کر یہ کہا جاسکتا ہے کہ مغربی ممالک نے مسلم اکثرہتی ممالک کو ترقی کی راہ سے ہٹاکر بدامنی ، لاقانونیت اور تباہی کے راستے پر ڈالنے کا بہت آسان سا راستہ ڈھونڈ لیا ہے۔ افغانستان ، سیریا ، لیبیا ، پاکستان اور اب بنگلہ دیش میں خانہ جنگی ، بدامنی ، اور معاشی بحران کے پیچھے مسلمانوں میں متشددانہ فطرت اور مسلکی اور مذہبی انتہا پسندی اور غیر اسلامی عقائد کا غلبہ ہے۔ کسی بھی مسلم ملک کو تباہ کرنا ہو تو مغربی مالک وہاں مذہبی انتہا پسندی اور مسلکی منافرت پھیلانے والی نام نہاد تنظیموں کو بڑھاوا دیتے ہیں اور انہیں فنڈ اور تربیت بھی مہیا کرتے ہیں۔ افغانستان ، لیبیا ، عراق اور سیریا اور افریقی مسلم ممالک۔میں مغربی ممالک نے مسلمانوں کی اسی کمزوری کا فائدہ اٹھایا ہے۔ بنگلہ دیش معاشی اور سائنسی ترقی کی طرف گامزن تھا اور اس کی معیشت اس کے پڑوسی ممالک کے مقابلے میں بہتر ہورہی تھی کہ اگست میں وہاں تختہ پلٹ کرکے اور وہاں کے تمام مسائل اور خرابیوں کا ذمہ دار ہندوستان کو ٹھہراکر ایک خانہ جنگی اور لاوانونیت کا ماحول تیار کیا گیا۔ اس افراتفری اور لاقانونیت کے ماحول میں بہت ہی چالاکی سے مذہبی اور مسلکی تنظیموں کو اپنی سرگرمیاں تیز کرنے کی آزادی دے دی گئی اور ان تنظیموں اور مسلک پرست مولویوں نے عوام میں کھل کر مسلکی اور فرقہ پرستانہ نظریات اور متشددطرز عمل کو فوغ دینا شروع کیا۔پولیس کے خلاف عوامی غصے کے نتیجے میں اس کا حوصلہ ٹوٹ چکا تھا اس لئے متشدد گروہوں اور مولویوں کو کھل کھیلنے کا پورا موقع مل گیا۔ ان مولویوں نے جاہل اور بیروزگار نوجوانوں کو اپنے انتہا پسندانہ نظریات کو عملی جامہ پہنانے کے لئے استعمال کیا۔ بنگلہ دیش میں ہجومی تشدد کا دور ان کی قیادت میں چل پڑا۔ اس ماب کلچر کی زد میں اقلیتیں بھی آئیں اور مسلمانوں کے مختلف مسلک اور مکتب فکر کے لوگ بھی آئے۔ ان انتہا پسندتنظیموں اور ان سے وابستہ ملاؤں نے مندروں اور اقلیتوں کے مکانات اور دکانوں کو نشانہ بنایا۔ عالمی ادارہ اسکون بھی اس ماب کلچر کا نشانہ بنا۔ اس کے ساتھ ہی مزاروں کے انہدام کا سلسلہ بھی چلا۔ بنگلہ دیش کے کئی قدیم۔مزاروں اور خانقاہوں کو مساجد کے اماموں کی قیادت میں بیروزگار عوام کے ہجوم نے منہدم کیا اور اسے جہاد اور کار ثواب سے تعبیر کیا۔ دوسری طرف جو لوگ اولیاء و صوفیا کے معتقدین تھے وہ ان مزارات اور خانقاہوں کو بچانے کے لئے ڈٹ گئے۔ اس طرح بنگلہ دیش میں مسلکی تشدد کا ماحول تیار ہوا۔ ایسا لگتا تھا جیسے دنیا کا یا مسلمانوں کا سب سے بڑا مسئلہ یہی تھا اور اسی کے لئے شیخ حسینہ کی حکومت کو ہٹایا گیا تھا۔ جبکہ نام نہاد انقلاب کے لئے یہ جواز دیا گیا تھا کہ ریزرویشن کی وجہ سے اہل افراد کی حق تلفی ہورہی تھی اور ہندوستان کی بالادستی کی وجہ سے بنگلہ دیش کوبہت نقصان ہورہاتھا۔ لیکن اس نام نہاد انقلاب کے بعد خود ہجوم نے درجنوں کارخانوں کو آگ لگایا اور تباہ کیا۔کپڑے کے درجنوں بڑے کارخانے بند ہوگئے اور ہزاروں مزدور بے روزگار ہوگئے۔ یہ سب بہت منصوبہ بند طریقے سے کیا گیا جس کا مقصد بنگلہ دیش کو معاشی طور پر تباہ کرنا اور اسے مغربی ممالک کا محتاج بنانا تھا۔ اس منصوبے میں مذہبی انتہا پسندی اور مسلکی اختلافات کا استعمال کیا گیا۔
دو ہفتے قبل بنگلہ دیش میں ایک ایسا مضحکہ خیزواقعہ رونما ہوا جس سے مسلمانوں کی جہالت اور متشدد ذہنیت آشکار ہوتی ہے۔ جاہل مسلمانوں کا ایک ہجوم ڈھاکہ کے بنگ بندھو ایوینیو میں واقع دی راجدھانی ہوٹل اینڈ ریسٹورینٹ میں گھس گیا اور ہوٹل کے مینجر سے اس بات کی وضاحت طلب کرنے لگا کہ اس ہوٹل میں بیف یعنی گائے کا گوشت کیوں نہیں بیچا جاتا۔ واضح ہو کہ دی راجدھانی ہوٹل 1978ء سے کامیابی سے چل رہا ہے ۔اس ہوٹل۔میؔں بیف نہیں پیش کیا جاتا اس کے باوجود اس مسلم اکثریتی ملک میں یہ ہوٹل منافع پر چل رہا ہے۔ اس کی وجہ شاید یہ ہو کہ بیف نہ کھانے والے مسلمان اور ہندو اور غیر ملکی سیاح اسی ہوٹل میں کھانا کھاتے ہیں۔اس سے قبل کسی تنظیم یا فرد نے اس ہوٹل کے مینو میں بیف نہ ہونے پر اعتراض نہیں جتایا تھا۔ ہوٹل میں بیف رکھنا یا نہ رکھنا ہر تاجر کا اپنا فیصلہ ہے۔ لیکن ہجوم نے مینیجر سے کہا کہ اگر ہوٹل میں بیف نہیں رکھا گیا تو اسے بند کردیا جائے گا۔کچھ نے یہ بھی کہا کہ ہوٹل کے مالک اور مینیجر ہندوستان کے دلال ہیں۔ ان کے مطابق اہک اسلامی ملک کے ہوٹل میں بیف رکھنا لازمی ہے۔
اس واقعے سے یہ بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ بنگلہ دیش کی تجارت اور معیشت کو کس طرح منصوبہ بندطریقے سے تباہ کیا جارہا ہے۔ تمام کامیاب تجارتی اداروں کو مذہب کی آڑ میں نقصان پہنچایا جارہا ہے۔ہوسکتا ہے کہ ہوٹل کے مالک عوامی لیگ کے حامی ہوں جیسا کہ ہر ملک میں تجارتی اداروں کے مالک حکومت کے ساتھ قربت بنا کر رکھتے ہیں۔ لہذا ، اس حسینہ نواز ہوٹل کو بند کرانے کے لئے بیف کا بہانہ ڈھونڈا گیا ہوگا۔
اسلام میں جن جانوروں کو حلال قراردیا گیا ہے ان میں ایک گائے بھی ہے۔ مسلمان حلال جانورں میں سے کسی کی بھی قربانی دے سکتے ہیں اور غذا کے طور پر استعمال کرسکتے ہیں۔گائے کو غذا کے طور پر استعمال کرنا مسلمانوں کے لئے لازم نہیں ہے۔ اس لئے گائے کا گوشت نہ کھانا یا مسلم ہوٹل۔میں بیف نہ رکھنا غیر اسلامی یا غیر شرعی عمل نہیں ہے جس کے لئے کسی ہوٹل سے مسلمانوں کا ہجوم باز پرس کرے یا اسے بند کرانے کی دھمکی دے۔ بیف رکھنا یا نہ رکھنا کسی ملک کا قانونی معاملہ ہوسکتا ہے جس کے لئے ہوٹل قانون کو جواب دہ ہوگا نہ کہ کسی جاہل اور متشدد ہجوم کو۔لیکن پاکستان کی طرح اب بنگلہ دیش میں بھی ماب کلچر حاوی ہورہا ہے یہ بنگلہ دیش کے لئے اور بنگلہ دیش کے مسلم معاشرے کے لئے خطرے کی گھنٹی ہے۔
----------------
URL: https://newageislam.com/urdu-section/hysteria-culminates-beef-jihad-bangladesh/d/134476
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism