حسین امیر فرہاد
6 فروری ، 2013
فرہاد صاحب ! ایک حدیث ہے کہ ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ حضور صلی اللہ علیہ
وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ
وسلم نے فرمایا میرے پاس جبرئیل آئے مجھے
بشارت دی کہ آپ کی امت میں سے جو شخص اس حال
میں وفات پائے کہ شرک نہیں کرتا تھا اللہ کے
ساتھ تو وہ جنت میں جائے گا میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اگرچہ وہ زنا کاری کرتا ہو ، اگر چوری کرتا ہو؟
، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگروہ زناکرے، وہ چوری کرے تب تھی ۔ (مسلم جلد
اول صفحہ 294)
فرہاد صاحب پہلے میں
اپنے ماضی ( جو گناہوں کے لبادے میں
لپٹا ہوا تھا)کی وجہ سے ہمیشہ پریشان رہتا تھا مگر جب سے میں نے مذکورہ بالا حدیث شریف
پڑھی ہے میری مایوسی اور پریشانی ختم ہوگئی بس یہ دو عدد
گناہ مجھ سے ہوئے ہیں البتہ شرک کے میں نزدیک نہیں گیا ہوں ، لیکن اس حدیث سے
مجھے جنت کا پروانہ مل گیا۔ کیا میں مستقبل میں ان دوگناہوں کو کر سکتا ہوں؟ بیشک شرک نہیں کروں گا۔ جواب سے ممنون فرمائیے گا ۔
مومن خان
ہیر کٹنگ سیلون، لالو کھیت سندھی ہوٹل
کراچی
مومن خاں صاحب ! اللہ آپ
کو ہدایت دے بلاشبہ یہ حدیث مسلم میں بھی ہے کہ حوالہ (مسلم جلد اول باب 40 حدیث
174 صفحہ 294 ) اور بخاری میں بھی ہے، ذرا تبدیل کے ساتھ ۔ لگتا یہی ہے کہ
اس حدیث میں شرک نہ کرنے والے کو ارتکاب
زنا اور سرقہ کی کھلی چھٹی دی گئی ہے
مگر قرآن کریم میں زنا کار کے لئے سو کوڑوں
کی خوش خبری ہے۔
الزَّانَیۃُ وَ ا لزَّانِی
فَا جْلِدُو ا کُلَّ وَا حِدٍ مِّنْھُمَا مِا ئَۃَ جَلْدَۃٍ وَلَا تَأْ خُذْ کُم بِھِمَا
رَأْفْۃُ فِی دِینِ اللہِ إن کُنْتُمْ تُؤْ مِنُو نَ بِا للہِ و َ الْیَوْمِ الْأَ
خِرِ وَ لْیَشْھَدْ عَذَا بَھُمَا طَآ ئِفَۃُ مِّنَ ا لْمُؤْ مِنِینَ (2۔24) زنا
کے مرتکب چاہے وہ مرد ہویا عورت ‘‘دونوں کو
سو سو کوڑے مارو اور دین کے معاملہ میں تمہیں
ان پر رحم نہیں آنا چاہئے ۔ اگر اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہو اور
چاہئے کہ دونوں کی سزا کے وقت مسلمانوں کی ایک جماعت
موجود ہو’’ جو اپنی آنکھوں سے سزا دیکھئے ۔۔ رہا چور کا معاملہ تو اس کے بارے میں
بھی واضح ارشاد الہٰی ہے۔وَ ا لسَّا رِقُ وَ
ا لسَّا رِقَۃُ فَا قْطَعُوٓا أَیَھُمَا (38۔5)
تو اجازت تو پہلے بھی نہیں تھی نہ مستقبل
کے لئے مل سکتی ہے اور میں کون ہوں اجازت
دینے والا۔ البتہ ذراغور کرو کہ کہیں تم شرک کے مرتکب تو نہیں ہوئے ہو؟ کیونکہ اللہ کا حکم ہے ۔ مشورہ نہیں ،
حکم دیا ہے۔ اِنَّ اللہَ لَا یَغْفِرُ أَن یُشْر کَ بِہِ وَ یَغْفِرُ مَا دُونَ ذَلِکَ
لِمَن یَشَآ ءُ وَمَن یُشْرِکْ بَا للہِ فَقَدِ ا فْتَرَیٰ اِ ثْمًا عَظِیمًا (
48۔4) اللہ صرف شرک کو معاف نہیں کرتا اس کے
سوا جتنے اور گناہ ہیں وہ
جس کے لئے چاہے معاف کردیتا ہے ۔ اللہ کے ساتھ جس نے کسی اور کو شریک ٹھہرایا اس نے تو بہت ہی بڑا جھوٹ اور گناہ کیا ہے۔ مومن
خاں صاحب جھوٹ سچ کا پتہ تو یہاں چل جاتا ہے
کہ ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ او رکچھ نہیں
پوچھتے کہ جس نے قتل کیا ہو، جس نے وعدہ خلافی کی،
جس نے غیبت کی ہو، جس نے نشہ کیا ہو۔ پوچھتے
ہیں تو صرف زنا اور چوری کی بابت۔وجہ صرف یہ ہے کہ حدیث گھڑنے والے یہ ثابت
کرنا چاہتے تھے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ
کرام کو یہ دوہی شوق تھے۔ زنا اور چوری کرنے کا ۔
بھر دو جھولی میری یا محمد
صلی اللہ علیہ وسلم
مثلاً آپ نے کبھی یہ گنگنایا ہے۔ بھر دو جھولی میری یا محمد ...... اگر آپ کا
یہی عقیدہ ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم جھولی بھرتے ہیں تو میں نہیں
کہتا اللہ کا فرمان ہے۔ قُلْ اِنَّمَآ أَ دْ عُو ا رَبِّی وَ لاَ أُشْرِکُ
بِہِ أَ حَدًا قُلْ اِنّیِ لَا أَ مُلِکُ
لَکُمْ ضَرًّا وَلاَ رَشَدًا (21۔20۔72)اے نبی کہو ان سے کہ میں بھی
اپنے رب کو پکار تاہوں۔ اس پکار میں کسی اور کو شریک نہیں کرتا کہ یہ شرک ہے
اور میں نہ تمہیں نقصان پہنچا سکتا ہوں نہ
تمہیں بھلائی۔ دوسری جگہ ارشاد ہے ۔ قُل لَّا
أَمْلِکُ لِنَفْسِی نَفْعًا وَلاَ ضَرًّا
اِلَّا مَا شَآ ءَ اللہُ ( 188۔7)
اے نبی ان سےکہہ دو میں تو اپنی ذات کے لئے بھی نفع اور نقصان کا اختیار نہیں
رکھتا جو کچھ اللہ چاہے ۔ قُل لَّا أَ قُو لُ لَکُمْ عِندِی خَزَآئِنُ
( 50۔6) (اے نبی) ان سے کہو میں تم سے یہ نہیں کہتا کہ میرے پاس خزانے ہیں۔
تو مومن خاں صاحب رب جل جلالہ
تصدیق فرمارہے ہیں نہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ
وسلم کے پاس خزانے ہیں نہ نبی کسی کو نفع و نقصان پہنچا سکتےہیں مگر چند سر پھرے ایسے کہ ان کو رب کی اس بات
پر یقین ہی نہیں آتا وہ کہتے ہیں
۔ بھر دو جھولی میری یا محمد یہ شرک ا سلئے ہی کہ اللہ اور اس کے نبی کو ایک ہی درجہ دیا جارہا ہے ۔نبی کے بارے میں رب نے فرمایا کہ ان کے پاس کوئی خزانہ نہیں ہے اور
نبی سے فرمایا کہ ان سے کہہ دو کہ ۔ وَعِندَ
ہُ مَفَا تِحُ الْغَیْبِ لاَ یَعْلَمُھَآ اِ لَّا ھُوَ ( 59۔6) کہ غیب کی چابیاں
رب کے پاس ہیں کسی کو اس کا علم نہیں ہے صرف وہ ذوالجلال والا کرام ہی جانتا ہے۔ پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے
کہنا بھر دو جھولی ، بھر دو جھولی کیا معنی رکھتا ہے۔ مومن خاں صاحب
کبھی ا س نعمت یا قوالی پر آپ کاسر جھوما
ہے؟ ۔ اگر جھوما ہے تو سزا کے لئے تیار رہیے ۔ اِنَّ اللہَ لاَ یَغْفِرُ شِرَکَ۔
شاہ مدینہ ۔ شاہ مدینہ
یثرب کے والی سارے نبی تیرے
در کے سوالی شاہِ مدینہ ۔ اس نعت کو
سن کر آپ یقیناً جھوم اٹھے ہو گے ۔ اس پر غور نہیں کیا ہوگا۔ يَا أَيُّا النَّاسُ
أَنتُمُ الْفُقَرَاءُ إِلَی اللَّہ وَاللَّہُ ھو الْغَنِيُّ الْحَمِيدُ(15۔35) اے لوگو!
تم تو فقیر ہو اللہ کے در کے اللہ تو غنی اور حمید ہے ۔ ہر نبی کو اس کھلی
حقیقت کا علم تھا کہ جو کچھ عطا ہوتا
ہے اللہ کے در سے ملتا ہے بھلا سارے انبیاء ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دروازے
پر کھڑے کیا مانگ رہے تھے؟۔ دراصل مومن خاں صاحب یہ قوال خمام او رمراد آبادی تمباکو کو والا پان کھا کر اور اگالدان اپنے پاس رکھ کر بہت سے کفر یہ الفاظ
ادا کرتے ہیں نہ ان کو کوئی ہوش ہوتا
ہے کہ وہ نشے میں کیا کچھ کہہ رہے ہیں
نہ سننے والے اس پرغور کرتے ہیں کہ
کیا کچھ سنا یا جارہا ہے ۔ یوں سمجھ لو کہاندھی مچھلیاں ہیں اور گد لا پانی ہے۔ سب اندھیرے میں ٹامک ٹویاں
ماررہے ہیں ۔ کیا اس شرک میں مومن خاں صاحب
آپ ملوث نہیں ہیں؟ اگر ہیں تو ، اِنَّ اللہَ
لاَ یَغْفِرُ شِرَکَ ۔
اے مولا اعلی اے شیر خدا ،
میری کشتی پار لگادینا
میری کشتی پار لگا دینا
کیا اس شرک سے آپ محفوظ ہیں؟ اللہ
کا فرمان ہے ۔ فَإِذَا رَكِبُوا فِي الْفُلْكِ دَعَوُا اللَّہ مُخْلِصِينَ لَہُ الدِّينَ
فَلَمَّا نَجَّھمْ إِلَى الْبَرِّ إِذَا ھمْ يُشْرِكُونَ(15۔35) جب یہ لوگ کشتی پر سوار ہوتے ہیں تو اپنے دین کو اللہ کے لئے خالص کرکے ( اخلاص)
سے دعا مانگتے ہیں پھر جب انہیں
بچا کر خشکی پر لے آتا ہے ( TO
SAVE FROM) تو یکایک یہ شرک کرنے لگتے ہیں ۔ مومن خاں یہ خشکی
پر پہنچ کر درخت کی چھاؤں میں بیٹھ کر گاتے
ہیں ۔ اے مولا علی اے شیر خدا میری کشتی پار لگا دینا میری کشتی پار لگا دینا۔ یہ 27 گریڈ سے اوپر کا شرک ہے مگر لوگ غور نہیں کرتے شرک کے او ربھی بہت سے واسکٹ ہیں میرا خیال ہے تو نے پہنے ہوں گے ۔ اگر پہنے
ہیں تو شرک کرنے والوں کا ٹھکانا جہنم ہے۔، اِنَّ اللہَ لاَ یَغْفِرُ شِرَکَ ۔
مومن خاص صاحب آپ طوائف کے کوٹھے کی طرف بڑھ رہے ہوں گے رات ہے مگر سڑک پرلیمپ کی روشنی
ہے ۔ آپ ڈر رہے ہوں گے کہ کوئی واقف کار ، رشتہ داردیکھ نہ لے بدنامی ہوگی۔ حالانکہ
پرور دگار دیکھ رہا ہے پروردگار کے آگے واقف کار اور رشتہ دار کیا حیثیت رکھتے ہیں۔ حالانکہ اللہ آپ پر مہربان ہے اور آپ یار دوستوں میں بیٹھ کر اپنی پارسائی کی ڈینگیں بھی مار تے ہیں یہ ہوا اعلیٰ
درجے کا اشتراک ۔ کیونکہ آپ کو اللہ کا خوف نہیں رشتہ دار واقف کار کا خوف ہے اس طرح
آپ نے اللہ پر رشتہ دار کو فوقیت دی ہے یہ شرک ہے اور ، اِنَّ اللہَ لاَ یَغْفِرُ شِرَکَ ۔ اللہ شرک معاف
نہیں کرتا ۔
مومن خاں صاحب آپ کو اپنے
کھیت کے قریب لڑکی ملی جو اپنے والد کے لئےکھانا
لے کر جارہی ہے۔ دور دور تک کوئی متنفس نظر نہیں آرہا ہے آپ لڑکی کو کھیت میں لے
جانا چاہتے ہیں مگر بوجہ اللہ آپ اپنے ارادے سے باز رہتے ہیں صرف اللہ کے خوف سے
۔ یہ ہے ایمان باللہ اور اگر آپ اپنے سر کش جذبات کو تکمیل تک پہنچانا چاہتے ہیں مگر بندوں کا خوف دامن گیر
ہے تو یہ ہوا شرک۔ اِنَّ اللہَ لاَ یَغْفِرُ شِرَکَ ۔ علاوہ اس کے یہ بھی شرک ہے کہ کوئی کتاب اللہ پر انسانی کتابوں کو ترجیح دے۔
ہمارے ہاں ہر شخص کا ایمان ہے کہ مسلمانوں کا قبلہ اول
بیت المقدس ہے۔ وزیر ہو، سفیر ہو ،
مولوی ہو، عالم ہو، یا امی ہو جس سے بھی پوچھو
وہ قبلہ اول ا س عمارت کو کہے گا جو اسرائیل میں ہے۔مگر رب کافرمان ہے۔ إِنَّ أَوَّلَ بَيْتٍ
وُضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِي بِبَكَّۃ مُبَارَكًا وَھدًى لِّلْعَالَمِينَ (96۔3) سب سے
پہلا گھر جو لوگوں کے لئے بنایا گیا ۔ وہ گھر
ہے جو مکّہ میں ہے، برکت والا۔ ہدایت گاہ ہے پورے عالم کےلئے ۔ کتنا واضح انکشاف
ہے اللہ کی طرف سے ۔ لیکن اللہ کہتاہے
کہ تو کہتا رہے بندہ کہہ رہا ہے کہ وہ شہر
قدس میں ہے جو اسرائیل کا شہر ہے۔ یہ بھی شرک ہے اور توہین
الہٰی بھی ہے۔ کہ اللہ کے مقابلے میں اس کے بندوں کا کہا مانا جائے۔ اور اللہ کے ساتھ شریک کرنا ظلم عظیم ہے لَا تُشْرِكْ
بِاللَّہ إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيم (13۔31) اِنَّ اللہَ لاَ یَغْفِرُ شِرَکَ
۔ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو یہ ظلم عظیم ہے ۔ اللہ شرک معاف نہیں کرے گا۔
اور یہ بھی کہ الٰہی صفات کی
آرزو بندوں سے رکھے ۔ جیسے اولاد نرینہ درگاہوں
سے طلب کریں مال دولت صحت و زندگی بیماری
سے نجات دم درود زندہ یا مردہ پیر صاحب سے
طلب کی جائے ، یہ سب شرک کی اقسام ہیں۔ یا یہ کہ قدرتی آفات سے دشمن کے حملوں سے تعویز بچائے گا یہ بھی نا ممکن بات ہے ۔ اللہ کا حکم ہے ۔ وَأَعِدُّوا لَھم مَّا اسْتَطَعْتُم
مِّن قُوَّةٍ وَمِن رِّبَاطِ الْخَيْلِ تُرْھبُونَ بِہٖ عَدُوَّ اللّہِ وَعَدُوَّكُمْ
وَآخَرِ..... (60۔8) دشمن کے مقابلے کے لئے طاقت رکھو ، تمہارے گھونٹوں پر ایسے گھوڑے مربوط ہونےچاہیں
جنہیں دیکھ کر تمہارے دشمن، اللہ کے دشمن اور جنہیں تم نہیں
بچائے گا۔ احکام الہٰی کے خلاف ہرعمل شرک ہے۔ کسی کو اللہ کی ہمسری
دینا شرک ہے۔۔۔۔۔۔ تو مومن خاص صاحب
! ذرا اپنی تلاشی تو لے لو کہیں کسی کونے
کھدرے میں کنڈلی مارکر شرک پھن پھیلائے بیٹھا نہ ہو۔
شرک صرف یہی نہیں کہ بتوں کو سجدہ کیا جائے بت تو یہاں آج کل ملتے بھی نہیں ان کے لئے انڈیا یا کسی میوزم جانا پڑے گا ۔ اصل شرک یہ ہے کہ الہٰی اختیارات
کا مالک اللہ کے علاوہ کسی انسان
کو سمجھا جائے ۔ زندہ انسان ہو
یا مردہ پتھر حجر و شجر ہو یا کچھ
اور ۔ یہ تک شرک ہے کہ کسی دوست سے اُدھار لینے جاؤ اور کہو یار میں تو بڑی
امید لے کر آیا تھا میرا اور کوئی آسرا نہیں او پر اللہ نیچے آپ ، اللہ کے ساتھ بندے کا نام ملانا بھی شرک ہے۔ یا اللہ کو آسرا بنا ؤ یا بندے کو۔
جنوری ، 2013 بشکریہ : صوت الحق ، کراچی
URL: