حسین امیر فرہاد
دسمبر 2012
آج کل عیسائی لڑکی رمشا کا
معاملہ سرِ فہرست نہیں رہا ۔ مگر تا ہنوز تشویشناک ہے ۔ اسی کے تناظر میں ایک واقعہ
پیش خدمت ہے یہ واقعہ ہے تو اپریل 1994 کا
مگر عبرت آموز ہے ۔ اسی لئے شائع کررہا ہوں کہ مذہبی جنونی اس سے عبرت لیں
اور آئندہ ایسا واقعہ پیش نہ آئے ۔ عیسائی برادری سے میری گزارش ہے کہ ہم ایک ہی
زمین (ارض پاک) کے باشندے ہیں ہم نے یہاں مل جل کر رہنا ہے یہ جب ہی ہوسکتا ہے کہ ہم
ایک دوسرے کا،ایک دوسرےکےجذبات کا، ایک دوسرے کی کتاب کا بزرگوں اور پیغمبروں کا احترام
کریں عیسائیوں کو ہم سے کوئی شکایت نہیں ہونی چاہئے کہ ہم پہلے ان کے پیغمبر کو مانتے ہیں اور آخری پیغمبر محمد رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وسلم کو مانتے ہیں او رہم دیگر مذاہب کے ماننے والے کے معبود کو بھی برا
بھلا نہیں کہہ سکتے کیونکہ اللہ کا فرمان ہے ۔ وَلاَ تَسثبوا الَّذِین یَد عُون َ مِن
دُون اللہ فَیَسبُوا اللہ عَدْوًا بغَیْرِ عَلْمٍ (108۔6) مت گالیاں دو ان لوگوں کو
جو اللہ کے سوا کسی اور کو ماننے والے ہیں ، وہ بے علمی کی وجہ سے تمہارے رب کو سب
وشتم کا نشانہ بنائیں گے یعنی گالیاں دیں گے ۔ یعنی وہی کچھ تمہارے رب کے متعلق کہیں
گے ۔ جو تم ان کے معبودین کے متعلق کہو گے۔
کوئی مسلمان اللہ کے بر گزیرہ
پیغمبر عیسیٰ علیہ السلام کا نام بغیر علیہ السلام کے نہیں لیتا او ریہی رویہ ان پیغمبرو
ں کے متعلق ہے جنہیں یہود وغیرہ مانتے ہیں بلکہ ہم اپنے پیغمبر کو ابراہیم و اسماعیل
علیہ السلام کی ذریت (اولاد) میں مانتے ہیں ۔ تو پھر جھگڑا ہمارے طرف سے نہیں ہے ۔
کبھی کسی نے سنا یا دیکھا کہ کسی مسلمان نےحضرت ابراہیم ، حضرت اسماعیل حضرت موسیٰ
حضرت عیسیٰ حضرت مریم کی شان میں تو ہین آمیز الفاظ کہے ہوں؟ یا یہ کہ فلاں جگہ کسی مسلمان نے بائبل یا توریت جلادی ہو؟ تو آپ بھی
ایسی کوئی حرکت نہ کریں کہ ہم سب کایک جار ہنا مشکل ہوجائے ۔ اور ہم اس بات کا خیال
رکھیں گے کہ آپ لوگوں کے خلاف کوئی جھوٹا کیس نہ بنالے ۔ جیسے رمشا کا کیس یا جیسے
میں آپ کی خدمت میں پیش کررہاہوں ۔
اس قسم کے واقعات ملک اور
قوم کے علاوہ وطن کے لئے بھی باعث شرمندگی اور بد نامی بنتے ہیں ۔ اللہ کا حکم ہے کہ
۔ یاَ یھَا الَّذِین اٰمنُو ا اِنْ جَا ئَکْمْ فَا سِق بِنَبَاٍ فَتَبَیَّنُوْا قَوْ
مًا بِجَھَا لَۃٍ فَتْصْبِحْوْا عَلیٰ مَا فَعَلْتْمْ نَا دِمِینَ (6۔49) اے ایمان
والو! اگر کوئی فاسق تمہارے پاس خبر لے کر آئے تو تحقیق کر لیا کر و کہیں ایسا نہ
ہو کہ جہالت میں تم کسی کا نقصان کر بیٹھو اور پھر تمہیں اپنے کئے پرنادم ہوناپڑے
۔جس امت کو ان کا رب قدم قدم پر ہدایات دیتا ہے اور ان کی رہنما ئی کرتا ہے وہ کہاں
سنی سنائی باتوں پر بلا تحقیق اعتبار کرتی ہے ۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ حکم (یاَ
یھَا الَّذِین اٰمنُو ا) ان کے لئے ہے جو ایمان کے حاملین ہیں اور جو اس حکم الہٰی کے خلاف قدم اٹھاتے
ہیں ظاہر وہ بے ایمان ہوں گے ۔ اور غیرصالح ہوں گے ۔ فرماتے ہیں کہ اور تو اور ۔ وَالَّذِینَ
اِذَا ذُکِّرْ وْ ا بِاٰیٰتِ رَ بِّھمْ لَمْ یَخِروا عَلَیْھا صْمَّا وَ عْمْیَا نًا
( 73۔25) میرے صالح بندوں کے سامنے جب اللہ کی آیات پیش کی جاتی ہے تو وہ گونگے بہر
ے بن کر اس پر نہیں گرتے ۔ (تحقیق کرتے ہیں)
پنجابی زبا ن میں کہتے ہیں
(ویلی جٹی اون وئیلے ) ہماری مسجدوں میں بعد نماز جو تحقیقی کام ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ
نبی نور تھے یا بشر، ابن مریم مرگیا یا زندہ جاوید ہے، ابراہیم علیہ السلام نے جو دنبہ ذبحہ کیا تھا
اس کے گوشت کا کیا بنا؟ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ کی عمر بوقت شادی کے کتنی تھی ؟ اگر
رب یہی سوالات ہم سے پوچھے او رہم جواب دینے میں ناکام رہے تو کیا رب فرمائے گا لعنت
ہے تمہاری شکلوں پر اتنی عمر میں رہے او ریہ بھی پتہ نہ لگا سکے کہ نبی نور تھے یا
بشر او رنہ ہی عائشہ صدیقہ کی عمر کا پتہ چلا سکے ؟ ۔ہم سے یہ باز پرس نہیں ہوگی ۔
ہم سے یہ سوال ہوگا کہ میں نے اپنے رسول پر جو کتاب بھیجی تھی اس پر تم نے عمل کیا؟ جب سوال یہ پوچھا جائے
گا تو ہم غیر متعلقہ معاملات پر وقت کیوں ضائع کریں، لیکن یقین کیجئے اکثر مساجد میں
یہی معاملات زیر بحث ہوتے ہیں ۔ اگر آپ ان
سے اختلاف کریں تو آپ کو گولی یا بم سے اڑادیا جاتا ہے ۔
ہماری مسجدوں میں جو آئے
دن دھماکے ہوتے ہیں او رکچھ نمازیوں کو باجماعت اڑا دیتے ہیں اور ذمہ دار یہ کہہ کر
بری الذمہ ہوجاتے ہیں کہ اس میں بیر ونی ہاتھ ہوگا ۔ ایک زمانہ تھا کہ مسجدیں امن کا گہوارہ
ہوتی تھیں آج مخالف کو ٹھکانے لگانے کے لئے مسجد سے بہتر جگہ کوئی او رنہیں ۔ اگر
مذہبی اجارہ اداروں نے اپنا رویہ نہ بدلا تو ایک دن مسجد یں ویران ہوجائیں
گی۔
گوجرانوالہ کے گاؤں کھیالی
میں ڈاکٹر سجاد فاروق نام کا ایک شخص اپنے چھ بچوں اور بیوی کے ساتھ رہتا تھا جو حافظِ
قرآن تھا اور اپنے گھر میں بچوں کو قرآن بھی پڑھاتا تھا ۔ پڑوس والوں سے عداوت تھی
21.04.1994 وہ قرآن پاک کی تلاوت کررہا تھا بیوی
دو بچوں کو ساتھ لے کر اگر بتی او ر دودھ لینے گئی تھی چولہے پر رکھی چائے ابل
گئی تو یہ چائے دانی کو اٹھانے کے لئے جھکا ، قرآن کریم جو اس کی جھولی میں تھا وہ
چولہے پر گرا اس نے جلدی سے اٹھایا اس کے دو صفحے جھلس گئے تھے اس نے بقول اس کے اپنے
آپ سے کہا یہ میں کیا کیا؟ قرآن ساڑدتا
(قرآن جلادیا) پڑوسن اسی وقت دیوار پر سر اٹھا کر دیکھ رہی تھی اس نے سنا تو گھر میں
سب کو مخاطب ہو کر کہاکہ ڈاکٹر نے قرآن ساڑ دیا۔ پڑوس میں میت کی فاتحہ خوانی کے لئے
لوگ شامیا نے کے نیچے بیٹھے تھے بات ان تک پہنچی سب اٹھ کر آگے ۔جب ڈاکٹر کی بیوی
اگر بتی او ردودھ لے کر آگئی تو اس نے دیکھا کہ صحن لوگوں سے بھرا ہے اور اس کا شوہر
ڈاکٹر کمرے میں بند کھڑکی میں کھڑا لوگوں کو صفائی پیش کررہا ہے ۔
بات پولیس تک پہنچی ادھر مسجد
سے اعلان ہوا کہ عیسائی ڈاکٹر نے قرآن پاک شہید کیا لوگ آتے گئے ۔ پولیس آئی مشتعل
ہجوم کو تسلی دی اور ڈاکٹر فاروق کو پولیس چوکی لے گئی ۔ مگر اسی گھڑی قریب کی مسجد
(جہاں ڈاکٹر فاروق کا آنا جانا نہیں تھا ) سے اعلان ہوا کہ عیسائی ڈاکٹر نے قرآن
پاک کو شہید کیا اس کا قتل روا ہے ۔ بعد میں مولوی نے کہاکہ میں نے عطا ئی ڈاکٹر کہا
تھا لوگوں نے عیسائی سمجھا ۔ مشتعل ہجوم پولیس چوکی پہنچا جہاں ڈاکٹر ہتھکڑیوں میں
بیٹھا تھا اسے نکالا او رمارنا شروع کیا اس کی کوئی بات نہیں سنی گئی قریب ہی اینٹوں
کی بھری ٹرالی جارہی تھی نوجوانوں نے اسے رکوا یا اور اینٹیں اٹھا اٹھا کر اسے ماری
گئیں اس کے ہاتھ توڑ ے گئے اکثرمارنے والوں کو پتہ بھی نہیں تھا کہ معاملہ کیا ہے
۔ نووا ارد تھے انہوں نے ثواب کی خاطر شرکت کی ۔
جب ڈاکٹر فاروق نے دم توڑ دیا تو اس پر تیل چھڑک آگ لگادی گئی ۔ اُسے آگ لگادی
گئی جس کے سینے میں قرآن تھا ۔ دوجوانوں نے اس کی لاش کو موٹر سائیکل کے پیچھے باندھا
اور بازاروں میں گھسیٹتے پھرے ، تب کہیں پولیس نے مداخلت کی لاش قبضے میں لی لڑکوں
کو حراست میں لیا ۔ اخباری اطلاع کے مطابق کمشنر اپنی گاڑی سے تمام کارروائی دیکھتے
رہے اور اترے نہیں ۔ بعد میں اسی مسجد میں ڈاکٹر کے لئے قرآن خوانی ہوئی اور قل پڑھے
گئے جس میں موت کا فتویٰ دینے والا مولوی بھی پیش پیش تھا ۔ اسے کہتےہیں ۔
وہی ذبحہ بھی کرے ہے وہی لے
ثواب الٹا
تمام اہل محلّہ نے کہا کہ ڈاکٹر نیک اور دیندار آدمی تھا ۔ اس سے
ایسی امید نہیں کی جاسکتی کہ اس نے قرآن پاک
شہید کیا ہو ۔ ڈاکٹر فاروق کی بیوی نے بتایا کہ صرف پڑوسن سے عداوت تھی جس کی وجہ سے
میرے شوہر کو قتل کردیا گیا ۔ کمال کی بات یہ ہے کہ حکومت اس تمام عرصہ میں خاموش رہی
البتہ پانچ مئی کو اسسٹنٹ کمشنر گوجرانوالہ نے رپورٹ مکمل کی کہا حافظ سجاد فاروق نے
قرآن پاک جلایا ہے ۔ پڑوسن جس نے بات مسجد تک پہنچائی وہ لاپتہ ہوگئی ۔
قارئین کرام کچھ بھی ہو تحقیق
او رعدالتی حکم کے بعد سزا دینا حکومت کا کام ہے نہ کہ عوام کا ۔ ہم جس دین کے پیروکار
ہیں اس کے جتنے بھی تعزیراتی احکامات ہیں کسی
فرد واحد کے لئےنہیں ہیں ۔ مثلاً اگر چور کے ہاتھ کاٹنے کی بات ہوتو یہ ہرشخص کاکام
نہیں حتیٰ کہ اس کا بھی نہیں جس کی چوری ہوئی ۔ یہ کام عدلیہ کا ہے ۔ افراد کا
نہیں سزا سے مقصد مجرم کی اصلاح و قیام امن ہے نہ کہ انتقام (واضح رہے کہ اس المناک
واقعہ میں بھی مسجد مولوی او ر لاؤڈاسپیکر ملوث تھا )
آئیے دیکھتے ہیں کہ قرآن
کریم اس معاملے میں ہماری کیا رہنمائی کرتا ہے ۔ سب سے پہلے تو یہ ذہن نشین کرنا چاہئے
کہ کسی پر بہتان تہمت الزام لگانا گناہ ہے اس سے اجتناب کرنا چاہئے اور اگر کسی پر
الزام دھردیا جائے تو تحقیق لازم ہے ۔ فرمان الہٰی ہے ۔
وَلاَ تَلْمذوا اَنفْسَکُمْ(
11۔49) او رکسی پر عیب تہمت نہ لگاؤ۔
دوسرے مقام پر ارشاد ہے ۔
وَ یْلً لِّکُلِّ اَفَّاکٍ اَثِیْمٍ (7۔45)
ہر جھوٹے الزام لگانے والے پر افسوس ہے ۔
فرمایا ۔ لَوْ لاَ اِذْ سَمِعْتُمْوْھْ ظَنَّ الْمْؤنَ وَ الْمْؤَ منَاتْ بِاَ نفْسِھِمْ
خَیْرًا وَّ قَا لُو ْ ھٰذَا اِفْکً مُّبَیْنّ ( 12۔24) جب تم لوگوں نے سنا تھا تو
اسی وقت کیوں نہ مومن مردوں او رمومن عورتوں نے ان کے متعلق نیک گمان کیا اور کیو ں
نہ کہا کہ یہ صریح بہتان ہے ۔ یہ ہے اللہ کا حکم میرا خیال ہے اہل مسجد اللہ کا یہ
حکم باقی مسلمانوں سے بہتر جانتے ہوں گے ۔
دسمبر 2012 بشکریہ : ماہنامہ صوت الحق ، کراچی
URL: