حسین امیر فرہاد
کاشف راز صاحب کا مضمون (قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ ) (18:110) پڑھا اچھا لگا ، مجھے یاد آیا کہ اللہ کی دو پیروں والی مخلو ق کے متعلق میں نے بھی کچھ لکھا تھا کمپیوٹر کا ڈیٹا ایک اناڑی نے ضائع کردیا تھا ، چونکہ مجھ پر گزر ا واقعہ تھا لہٰذا دوبارہ لکھا ۔
کویت کاواقعہ ہے ۔ کہ ایک بار میں کسٹم ڈپارٹمنٹ ( پارسل سیکشن) گیا، آفیسر کو کارڈ دکھایا کہ میرا پارسل آیا ہے اس نےکہاانتظار کرو۔ وہ کاؤنٹر کے ایک طرف تھا اور میں دوسری طرف ، اتفاق سے اس کی پارسل کھولنے والی قینچی میری طرف گر گئی ۔ اس نے مجھ سے کہا رفیق ناوالنبی المقص یعنی رفیق قینچی پکڑا دو۔ عرب کا یہ قاعدہ ہے کہ یورپین ممالک کے باشندے کو ‘‘ سید’’ کہیں گے ، عربی چاہے مسیحی ہو یا یہودی اسے ‘‘ آخ’’ یعنی بھائی کہیں گے اور انڈین پاکستانی بنگلہ دیشی بر میز وغیرہ کو رفیق کہہ کر مخاطب کرتے ہیں ۔ وہ ہمیں پاکستانی کہنے کے بھی روادار نہیں ، وہ کہتے ہیں کہ تم توروز روز اپنے وطن ( ہند) کو ٹکڑے کرو تو ہم مکلّف نہیں کہ تمہیں نئے نام سے پکاریں ۔ بس تم ہندی ہو اور ہند ی ہی رہو گے ۔ او رہم تمہیں اسی نام سے پکاریں گے ۔ واضح رہے کہ کلمہ رفیق میں ایک چھپی ہوئی بھاری گالی بھی ہے، جسے عام آدمی نہیں جان سکتا ۔ اور حیران کن بات یہ ہے کہ بنگلہ دیش کو بنغلہ دیش کہنے میں لوگ کوئی مشکل محسوس نہیں کرتے ۔
میں نے کہا عیب علیک تقلّی رفیق ما تعرف انا اخوک من موالید لفایۃ الموت ۔ برائی تمہاری طرف رخ کرے مجھے رفیق کہتے ہو جب کہ میں پیدائش سے لے کر موت تک تمہارا بھا ئی ہوں ۔ اپنے بھائی کو نہیں پہچانتے ؟
میرا یہ کہنا تھا کہ اس نے دو ہتڑ اپنے منہ پر مارے عقال ( سروالی کالی رسّی) کھل کر گلے میں آگئی اور اس نے رو نا دھونا شروع کیا ۔ دوسرے افسران بھی اس کاونٹر پر آگئے اندر کمرے سے مدیر بھی نکل کر آیا، اس سے کہا ماجد ! کیا بات ہے؟
کہا جناب ہم تباہ ہوگئے برباد ہوگئے ۔ اب ہند میں بھی ہمارے بھائی پیدا ہونے لگے ۔ یہ جو سامنے ہندی کھڑا ہے یہ دعویٰ کررہا ہے کہ یہ میرا بھائی ہے ...... مدیر جو یونیفارم میں ملبوس تھا اور سگریٹ کے کش لگا رہا تھا ، مجھ سے کہا اتنی زیادتی ۔ تمہیں جرأت کیسے ہوئی ایک عرب کو اپنا بھائی کہتے ہوئے؟ میں نے کہا واللہ قریت فی القرآن الحکیم انما المومنون اخوۃ۔پڑھا تھا قرآن کریم میں کہ مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں ۔ اور یہ بھی حدیث النبی میں کہ کل کم انباء آدم و آدم من تراب تم سب آدم کی اولاد ہو اور آدم مٹی سے بنے تھے ۔
مدیر نے تیس چالیس آدمیوں کے سامنے سگریٹ کا ایک زوردار کش لیا اور اسے زمین پر پھینک کر بوٹ سے مسل دیا، کہا ۔ آیت القرآنیۃ طبعک دعسنا مثل ھٰذا سجارہ ھل معک شی غیر من ھٰذا؟ تیری قرآنی آیات کو تو میں نے اس سگریٹ کی طرح مسل دیا اس کے علاوہ کوئی ثبوت ہوتو پیش کرو؟
میں نے کہا یا سعادۃ المدیر اے جناب اعلیٰ مدیر آپ نے آیت کا جو حشر کیا اس کے بعد اگر میں کوئی ثبوت دوں تو انفی احمق ۔ بلاشبہ میں احمق ہوں گا ۔ کہا اوعک ( Careful) دیر بالک دھیان دینا خبردار آئندہ کسی عرب کو بھائی مت کہنا اور دوسری بات یہ سن لو کہ تم نے حدیث غلط پڑھی کہ ہم سب آدم کی اولاد ہیں اور آدم مٹی سے بنے تھے ۔ ایسی بات نہیں ہے ۔ اصل بات یہ ہے ۔ کہ سید نا آدم جنت سے اس لئے نکالے گئے تھے کہ انہیں بیت الخلا ء کی ضرورت پڑ سکتی تھی ۔ انہوں نے زمین پر آکر سب سے پہلا کام یہ کیا کہ اپنی حاجت پوری کی ۔ تو سیدنا آدم کا قد بہت لمبا تھا سری لنکا میں ان کے قدم کا نشان ہے جو ( وارونصف) یعنی ڈیڑھ گز لمبا ہے اس حساب سے ان کے پاخانے کی ایک اچھی خاصی ڈھیری بن گئی ۔ چار پانچ دن بعد سیدنا آدم کا اس راستے سے گزر ہوا تو کیا دیکھتےہیں کہ اس غلاظت کے ڈھیر میں سے کیڑے رینگ رینگ کر نکل رہے ہیں ( کیڑے کو عربی میں دودا جمع دود۔ جس طرح ایک یہودی جمع یہود یا ایک ہندی جمع ہنود کہتے ہیں ( فرہاد) تو سیدنا آدم نے کیڑوں کو دیکھ کر کہا ‘‘ یا دود انتم تکوا ھنود ’’ اے کیڑو تم آج سے ہندوستانی ہو ، تو اہل ہند تمام کے تمام بشمول پاکستان سری لنکا وغیرہ سیدنا آدم کی غلاظت کے کیڑے ہیں ۔ اصل اولاد ہم ہیں جو یہاں آکر پیدا ہوئے ۔ تقول شی ؟ ۔ اور کچھ کہنا چاہتے ہو؟ میں نے کہا انا خلیت علیٰ ربی ۔ میں نے اپنے رب پر چھوڑا ۔ کہا ۔ ینسی ربک رب مال عرب تبعکم بھگوان ۔ بھول جاؤ رب کو ، رب تو عرب کا ہے تمہارا تو بھگوان ہے۔ میں نے کہا ۔ انا بشر مثلک ۔ میں بھی تمہاری طرح بشر ہوں ۔ کہا وَلَا اَنْتَ بَشَرْ مِثْلِی، وَلَا اَنَا بَشَرً مِّثْلُکْم ۔ نہ تم میری طرح بشر ہو نہ میں تمہاری طرح بشر ہوں۔
قارئین یہ تو تھے درجہ اولیٰ والی مخلوق ۔ دوسرے درجے والی مخلوق ہمارے حکمران رہے ہیں ۔ یہ جب دیہاتوں کا یا سیلاب زدگان کا چکر ہیلی کاپٹر میں لگاتے ہیں قافلے والے مال مویشی تباہ حال گھر بار چھوڑ کر زندگی کی تلاش میں رواں دوا ں پیچھے مڑ مڑ کر دیکھتے ہیں کبھی آسمان کی طرف ہیلی کاپٹر کو دیکھتےہیں کہ شاید روٹی کے پیکٹ پھینکنے والے آگئے ۔ تو نہ صرف سیلاب زدگان انہیں اوپر والے سمجھتے ہیں بلکہ یہ خود بھی یہی سمجھتے ہیں کہ نَخنْ لَیْس بَشَرً مِّثْلُکْم ۔ ہم تمہاری طرح بشر نہیں ہیں ۔حالانکہ یہ مکمل طور پر ہماری طرح بشر ہوتے ہیں ۔ یہ کھاتے پیتے ہیں سوتے ہیں ہماری طرح باتھ روم جاتے ہیں اور ان کے پسینے سے بدبو آتی ہے ، یہ ساری چیزیں انہیں احساس دلاتی ہیں کہ مت بھولو! کہ اللہ نے تمہیں انسان پیدا کیا ہے ۔ انسان ہی رہو ۔ بھگوان کے اوتا ر مت بنو ۔ ایک بھگوان امریکہ میں تھا لا تعداد موٹروں کے علاوہ کئی ہیلی کاپٹروں کا مالک تھا ، دولت کا کوئی حساب نہ تھا، اس عالم گیر شہرت کے مالک کو اللہ نے احساس دلایا کہ تم محض انسان ہو بھگوان نہیں ہو تو شوگر کا مریض بن گیا دیگر انسانوں کی طرح علاج کرواتا رہا ۔
زندہ مثال ہے ابھی کل کی بات ہے ایک شخص دنیا کے سامنے کہہ رہا تھا کہ میں کسی سے نہیں ڈرتا ، میں کمانڈوہوں حقیقتاً اس نے اللہ سے ڈرنا چھوڑ دیا تھا اب وہ ہر چیز سے ڈررہا ہے حتیٰ کہ عدلیہ کی عمارت سے اس کا دل بیٹھا جا رہا ہے ۔ یہ ہیں حقائق ثابتہ۔
مانا کہ جب یہ بیمار ہوجاتے ہیں تو اپنا علاج یورپ اور امریکہ میں کروا کر وقتی طور پر موت کو شکست دے آتےہیں ۔ اور جب قانونی شکنجے میں پھنس جاتے ہیں تو اپنے آپ کوبچانے کے لئے مانے ہوئے وکلاء کی فوج طلب کرلیتے ہیں ۔ کبھی یہ فوج کام آتی ہے کبھی نہیں بھی آتی ہے پھانسی چڑھا دیئے جاتے ہیں ۔ جب یہ حضرات بلٹ پروف گاڑیاں ہر وزیر کے لئے منگارہے تھے تو میں نے لکھا تھا ۔ أَيْنَمَا تَكُونُوا يُدْرِككُّمُ الْمَوْتُ وَلَوْ كُنتُمْ فِي بُرُوجٍ مُّشَيَّدَةٍ (4:78) تم جہاں کہیں بھی ہو گے موت تمہیں پالے گا تم مضبوط قلعوں میں پناہ کیوں نہ لو ۔ پشتو کے عظیم شاعر رحمان بابا نے اس آیت کریمہ کی کیا ترجمانی کی ہے فرمایا ۔
چہ اللہ درسرہ مل نہ ہی رحمانہ کہ لشکر ے درسرہ وی تہ تنہائے
اگر رب نے ایک بار تمہارا ساتھ چھوڑ دیا، پھر اگر لشکر تیرے ہمراہ ہو اپنے آپ کو تنہا سمجھو
مارچ، 2014 بشکریہ : ماہنامہ صوت الحق ، کراچی
URL:
https://newageislam.com/urdu-section/tales-arabs’-racial-supremacy-/d/97726