حسین امیر فرہاد
کسی قوم کو اگر زندہ در گور کرنا ہو تو آسان طریقہ یہ ہے کہ اس کارُخ درگاہوں ،خانقاہوں اور مزاروں کی طرف موڑ دو، وہ قوم خود بخود ختم ہوجائے گی۔ ہمارے ہاں اس کی زندہ مثال ( سونے کی چڑیا) سرزمین سندھ ہے ۔ حج تو قرآنی پس منظر کے لحاظ سے اقوام اورقبائل کے مسائل اور جھگڑوں کے فیصلے کرنے کا مقام ہے ۔بین الاقوامی عدالت اور جرگہ ہے ۔ مصر کے جمال عبدالناصر اپنی کتاب ثورہ ۔ ( فلسفہ انقلاب ) میں لکھتےہیں ایک سال میں حج کرنے گیا تو میں نے حجاج کی عجیب رسومات کو دیکھا ۔ تو میں نے شاہ سعود سے کہا کہ آپ لوگوں نےحج کا کیا مذاق بنارکھا ہے؟..... تو اس نے جواب دیا کہ ( ھذا شوؤن مطوہ ، لیس لنا ) یہ معامالات ہمارے نہیں مولویوں کے حصے کے ہیں ہمیں اگر اپنے اقتدار کو قائم رکھنا ہے تو ان کے امور میں دخل نہیں دیناچاہئے ، اپنی خیر مناؤ ان کو ان کے حال پر چھوڑ دو ۔
مسلمانوں کی تقریباً سب حکومتیں اسی روش پر چل ر ہی ہیں ، قیصر کا قیصر کو دو چرچ کا چرچ کو دو۔ قیصر اپنی حکمرانی جب ہی قائم رکھ سکتاہے جب وہ مذہبی پیشوائیت کو بھی خوش رکھے صلیب احمر کی جنگوں میں بادشاہ ہمیشہ Cardinal کو ساتھ رکھا کرتے تھے ۔ آج کل ہمارے ہاں بھی غالباً اسی پالیسی پر عمل ہورہا ہے ۔ تقریباً ہر چینل کے تصوف کا پرچار ہو رہا ہے ۔ تاکہ قیصر بے خوفی سے حکمرانی کرتا رہے اور عوام اپنی ضرورتوں کے لئے زندہ حکمرانوں کے دروازوں پر دستک دے کر ان کے آرام میں خلل نہ ڈالیں قبروں پر جاکر ان کے سامنے گڑ گڑائیں ان کو اپنی ضرورتوں سے آگاہ کریں ۔ احتجاج نہ کریں، جلسے جلوس نہ نکالیں ، ریلیوں سے کیا بنتا ہے ۔ اگر کچھ نہ ملے تو سمجھ لیجئے اللہ کی مرضی نہیں ہوگی اور اس کی مرضی کے آگے تو ہر ایک کو جھکنا پڑتا ہے۔
علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی تصور کی آنکھ سےپہلے ہی دیکھ لیا تھا کہ اس پاکستان میں کیا ہوگا لہٰذا اس کی پیش بندی کے لئے انہوں نے ایک نظم لکھی ‘ ‘ابلیس کی مجلس شوریٰ’’ یہ ایک طویل تمثیل ہے اس مجلس میں ابالیس آکر اپنی اپنی رپورٹ پیش کرتے ہیں ۔ مثلاً ابلیس کے چیلوں نے بتایا کہ آپ نے بڑی محنتوں سےجو جہان آباد کیا ہے وہ زیر و زبر ہونے کو ہے کیونکہ کمیونزم آگیا ہے ۔ ابلیس نےکہا بیوقوفو ہمیں اس سے کوئی خطرہ نہیں ہے ۔ ہمیں خطرہ ہےتو صرف اسلام سے ہے۔
ہر نفس ڈرتاہوں اس امت کی بیداری سے میں ہے حقیقت جس کے دیں کی احتساب کائنات
خیر اسی میں ہے قیامت تک رہے مومن غلام چھوڑ کر اوروں کی خاطر یہ جہانِ بے ثبات
تو چیلوں نے حیران ہوکر کہا کہ پھر حکم دیجئے کہ اس کے سد باب کےلئے ہمیں کیا کرناہوگا ؟ ۔ کہا تم یوں کرو
خیر اسی میں ہے قیامت تک رہے مومن غلام چھوڑ کر اوروں کی خاطر یہ جہانِ بے ثبات
مست رکھو ذکر و فکرِ صبح گاہی میں اُسے پختہ تر کردو مزاجِ خانقاہی میں اسے
تم اسے بیگانہ رکھو عالم کردار سے تالساطِ زندگی میں اس کے سب مہرے ہوں مات
ءءءءءءءءءءءءءءءءءءءءءءءءءءءءءءءءءءءءءءءءءءءءءءءءءءءءءءءءءءءءءءءءءءءءءءءءءءءءءءءءءءءءءءءءءءءءءءءءء
قارئین کرام جس وقت میں یہ تحریر لکھ رہا ہوں یقین کریں کہ میری آنکھوں میں آنسو آگئے اس بات پر کہ کتنے فرمانبردار مریدوں کی طرح ہم اپنے پیرو مرشد ابلیس کے مشن کو پوراکررہے ہیں ۔ آج 19 اپریل ، 2014ء ہے۔ سماء ٹی وی سے پروگرام قطب آن لائن دکھایا جارہا ہے ۔جس میں کیمرہ اور مائیک ملتان میں بہاء الدین ذکریا اور رکن الدین شاہ عالم کے مزار پر گھمایا جاہاہے ۔عورتوں او رمردوں کے بیانات ریکارڈ کئے جارہےہیں کہ آپ کہا ں سے آئے اور کس لئے ہیں ؟ تقریباً سب نے یہی کہا کہ دعا مانگنے آئے ہیں، ہم رحمت کی تلاش میں آئے ہیں یہ اللہ کے ولی ہیں ۔ مائیک نے کہا آپ اتنی دور سے آئے ہیں جب کہ داتا گنج بخش آپ کے قریب ہیں؟
ایک زائرہ نےجواب دیا کہ ہمارے پاس جو کچھ ہے اُن ہی کا دیا ہی تو ہے ۔ بس ہم یہاں بھی مانگنے آئے ہیں ۔ مائیک نےبجائے انہیں سمجھانے کے کہ آپ جن سے مانگنے آئی ہیں لایملک شے ۔ ان کے پاس کچھ بھی نہیں ۔ کہا کہ ہمارے لئے بھی دعا مانگئے ۔ قارئین اس طرح ناظرین اور سامعین کا مزاج، یقین اور ایمان قبروں میں لیٹے بزرگوں پر پختہ کیا جارہا ہے ۔
پختہ تر کر دو مزاجِ خانقاہی میں اُسے
درگاہوں کی طرف قوم کو دھکیلا جارہا ہے ۔ اس دوڑ میں ہر چینل ایک دوسرے سے سبقت لے جارہاہے ۔ مائیک بھلا ان کو کیا سمجھا تے کہ وہ خود گلے گلے تک تصوف میں ڈوبے ہوئے ہیں ۔ ہر شب سماء چینل کے ذریعے لوگوں کی حاجات پوری کرنے بیماریوں سے نجات دلانے ، اولاد نرینہ دلانے ، امتحانات میں پاس ہونے اور شادی میں کامیابی کےلئے قرآنی آیات سے مدد لینے کی ترکیبیں بتاتے رہتے ہیں ۔ قرآن کریم جسمانی علاج کےلئے نہیں ہے،صرف شہد کو اوادم کےلئے رب نے شفاء یاب فرمایا ہے ۔ يَخْرُجُ مِن بُطُونِهَا شَرَابٌ مُّخْتَلِفٌ أَلْوَانُهُ فِيهِ شِفَاءٌ لِّلنَّاسِ ( 16:69)
(مکھیوں) کے پیٹ سے نکلتی ہے پینے کی چیز ( شہد) جس کے رنگ مختلف ہوتے ہیں لوگوں کےلئے ان میں شفاء ہے ۔ا س کا مطلب یہ نہیں کہ آپ شہد والی اس آیت کو پانی میں گھول کر پئیں ، چاٹیں یا تکیے کے نیچے رکھ کر سوئیں ۔ اس طرح کوئی فائدہ نہیں ہوگا ۔ شہد کھانا ہوگا ۔ دل کے مرض کا علاج بھی اللہ نے بتایا ہے ۔ وہ بھی منافق کے دل کا فرمایا ۔
يُخَادِعُونَ اللَّهَ وَالَّذِينَ آمَنُوا وَمَا يَخْدَعُونَ إِلَّا أَنفُسَهُمْ وَمَا يَشْعُرُونَ (2:9) وہ اللہ اور اہل ایمان کے ساتھ دھوکہ کرتےہیں مگر درحقیقت وہ اپنے ہی ساتھ دھوکہ کرتے ہیں انہیں شعور ہی نہیں کہ کس طرح، کیونکہ ان کے دلوں میں بیمار ی ہے ۔ (فِي قُلُوبِهِم مَّرَضٌ) فَزَادَهُمُ اللَّهُ مَرَضًا جسے اللہ نے ان کے جھوٹ کے سبب اور بڑھا دیا ہے ۔ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ بِمَا كَانُوا يَكْذِبُونَ ( 2:10) ان کے لئے ایک درد انگیز عذاب ہے اس جھوٹ بولنے کی وجہ سے ۔
اس آیت سے یہ تو پتہ چل گیا کہ یہ بیماری Heart Disease نہیں ہے یہ جھوٹ فریب دھوکہ دہی والی بیماری ہے ۔ جس کا علاج قرآن کریم میں ہے اگر اس کی صداقتوں پرکسی کا ایمان ہوتب ۔ ، دوسری جگہ ارشاد باری تعالیٰ ہے ۔ البتہ جن لوگوں کے دلوں کو ( نفاق کی) بیماری لگ چکی ہے سورۃ حج میں ارشاد ہے۔ لِّلَّذِينَ فِي قُلُوبِهِم مَّرَضٌ وَالْقَاسِيَةِ ( 22:53) ان لوگوں کے لئے جن کے دلوں میں بیماری ہے اور وہ پتھر یلے ہوگئے ہیں۔ حالانکہ دل تو گوشت پوست کے ہوتے ہیں۔ لیکن جس دل میں اللہ کا خوف نہ ہو وہ ( سنگ دل) کہلاتا ہے ۔یہ اصلی پتھر نہیں ہوتا جن لوگوں کا ذکر ہورہاہے ان لوگوں کے دلوں میں ایسی کوئی بیماری نہیں تھی جس کے لئے ہمیشہ Cardiologist کی ضرورت ہوتی ہے وہ ہٹے کٹے تھے، تندرست تھے اور اس کے بعد بھی لمبے عرصے تک زندہ رہے ۔ بیماری ان میں یہ تھی کہ وہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ دھوکہ دہی چالبازی فریب کرتے تھے ۔ جس کے متعلق اللہ نے فرمایا ۔
يَا أَيُّهَا النَّاسُ قَدْ جَاءَتْكُم مَّوْعِظَةٌ مِّن رَّبِّكُمْ وَشِفَاءٌ لِّمَا فِي الصُّدُورِ ( 10:57) مفہوم اے لوگو! ( جن کےسینوں میں اس قسم کا مرض ہو) تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے نصیحت آگئی ہے یہ وہ چیز ہے جو سینوں کے اس قسم کے مرض کی شفاء ہے ( 16:69) پچھلی آیت میں دل کے مرض کا ذکر فرمایا ہے اور (وَشِفَاءٌ لِّمَا فِي الصُّدُورِ) سینوں کے مرض کا ذکر فرمایا ہے ۔
فِي قُلُوبِهِم مَّرَضٌ کیونکہ ان کے دلوں میں بیماری ہے ۔ دل کی بیماری ہو یا سینے کی یہ ہسپتال والی بیماری نہیں ہے یہ جھوٹ اور منافقت والی بیماری ہے یہ بھی قرآن کے پڑھنے سےنہیں اس پر عمل کرنے سے دور ہوتی ہے ۔ اگر جسمانی بیماری قرآن کی آیات پڑھنے سے دور ہوتی تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اور صحابہ کرام نے خارجی علاج کیوں کرایا ۔ مدینے کی پہاڑیوں میں روغن بلیسان اور دمہ کی بیماری کے لئے مدوخہ ملتا ہے جس کے کش لگانے سے فائدہ ہوتا ہے اور یہ اسی بابرکت زمانے سے استعمال ہوتا ہے ۔ ایک علاج یرقان کا ہے دائیں کلائی پرنس کاٹتے ہیں تین دن تک پیلا پیلا پانی نکلتا ہے ،میرے ساتھی اکثر تولیہ لپیٹ لیتے تھے کیونکہ پیلا پیلا نکلتا تھا ۔ تین دن کے بعد وہ ٹھیک ہوجاتے تھے ۔ یہ علاج حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دور سے چلا آرہا ہے ۔ ایک اور علاج اسی با برکت دور کا آج بھی عرب میں مشہور ہے ۔ پچنے لگوانا یہ علاج حجام کرتے ہیں حجام نائی کو نہیں کہتے پچنے لگانے والے کو کہتےہیں سر کے ایک حصے کے بال صاف کردیئے جاتے ہیں وہاں حجام اُستر ے سے ضربیں لگا کر اس جگہ کو نرم کرتے ہیں پھر سینگ کے ذریعے اپنے منہ سے مریض کا خون چوستے ہیں اور تھو کتے ہیں ۔ یہ بلڈ پریشر کے لئے ہوتا ہے ، عرب فورس میں میرے جن ساتھیوں نےکرایا وہ کہتے تھے مثل والدت الیوم جیسے آج پیدا ہوا ہو ں ، کسی کسی کو سال بعد پھر بھی ضرورت پڑتی تھی ۔ ہندوستان پاکستان میں بھی عمل ہوتا ہے او ریہاں سینگ کے علاوہ جونکیں بھی استعمال ہوتی ہیں ۔ تو سماء والے قطب دوراں والے ۔
اگر قرآن سے جسمانی عوارض کا علاج ممکن ہوتا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام خارجی علاج کیوں کراتے ۔ قرآن کی آیات سے تو ان کے سینے معمور تھے کر لیتے علاج ۔ اور آج اس اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اربوں کھربوں روپیہ ڈاکٹروں اور ہسپتالوں کے بنانے پر کیوں اڑایا جارہاہے ۔ یہ سب ختم کیا جائے اور قطبِ دوراں جیسے کسی صاحب کو بٹھا دیاجائے ۔ مرض تو ختم نہیں ہوگا البتہ مریض نہیں رہے گا ۔ آج کل پرویز مشرف کراچی میں ہیں اور ان کا دل بھی فعال نہیں ہے ۔ انہیں شفا ء یابی کے لئے کوئی وظیفہ بتا دے ۔ وارے نیارے ہوں گے ۔
مشکل یہ ہے کہ ان حضرات سے کوئی حاجت پوری نہ ہونے پر یہ گرفت میں آ نہیں سکتے یعنی ان سے یہ باز پرُس نہیں ہو سکتی کہ آپ نے تو کہا تھا کہ فلاں آیت رات سوتے وقت اور صبح فجر کی نماز کے بعد پندرہ بار پڑھا کر لڑکی کا باپ مان جائے گا ۔ اور اگر لڑکی کی شادی دوسرے سے ہوجائے ۔ تو ان تک پہنچنا نا ممکن ہے ۔
دریائے نیل میں ایک کشتی جارہی تھی ، وہ بھنور میں پھنس کر چکر لگانے لگی ۔ یوں لگتا تھا ڈوب جائے گی ۔ ہر ایک دعائیں مانگ رہاتھا ، پاکستانی پکاررہا تھا اے مولاعلی رضی اللہ عنہ اے شیر خدا میری کشتی پار لگادینا ۔ مصری اللہ سے فریاد کررہےتھے ۔ افریقی اپنے مورو گورو سے دعائیں مانگ رہے تھے ہندی بھگوان کو مدد کے لئے ہندوستان سے بلارہے تھے اور انگریز گاڈ سے فریاد کررہے تھے معاً ان میں سے ایک آدمی اٹھا کہا بند کرو یہ رونا دھونا کشتی نہیں ڈوبے گی ۔
لوگوں نے کہا کیسے؟
کہا ہم جو کہہ رہے ہیں نہیں ڈوبے گی۔ اس کاساتھی قریب ہی میں بیٹھا ہوا تھا جو اسے بچپن سے جانتا تھا ۔ اس نے کہا یا محمود میں تو تمہیں جانتا ہوں تم سیوط میں فول مدمس ( ابلی لوبیا) کا ٹھیلہ لگاتے ہو تم کہاں سے بزرگ بن گئے کہ دعویٰ کرنے لگے کہ نہیں ڈوبے گی۔ اگر کشتی ڈوب گئی تو ؟ محمود نے کہا حجش ( حجش گدھے کے بچے کو کہتےہیں) اگر کشتی نہیں ڈوبی تو پھر میری عزت اور توقیر دیکھنا یہ لوگ میرے پیردابیں گے دنیا بھر کی نعمتیں میرے قدموں میں رکھیں گے دولت کی ریل پیل ہوگی، ہم دونوں مزے سے زندگی گزاریں گے ۔ یہ کلامی ھدف الظلام ۔ میرا دعویٰ اندھیر ے کا تیر ہے۔
یا محمود اگر تیر نشانے پر نہ لگا تو ؟
اگر نہ لگا تو ان کےہاتھ میرے گریبان تک پہنچ سکتے ، یہ ادھر ڈو بیں گے اور ادھر ڈوبوں گا ۔ یہ جتنے بھی غلط طریقوں سے کام چلانے والے ہیں یہ اندھیرے کے تیر ہیں لگا تو لگا ، نہیں لگا تو پھر انہیں ،ڈھونڈ چراغِ رخ زیبا لے کر ۔ اور اکثر عمل کرانے والے حاجت مند تو یہ سوچتے ہیں کہ اعلیٰ حضرت نے تو سب کچھ درست بتایا ہوگاہم ہی سے کوئی کوتاہی ہوئی ہوگی شادی فلاں دن میں بے وضو تھا اور میں نے وظیفہ پڑھا تھا ۔ فلاں دن میرے کپڑے ناپاک تھے وغیرہ وغیرہ ۔
جھوٹے وعدے چھوٹی تسلیوں اور امیدوں سےمریض کا مرض اور بڑھتا جاتا ہے حتیٰ کہ لا علاج ہوجاتاہے ۔ اسی لئے یہ لوگ انسانیت کے دشمن ہیں ۔ قرآن یا قرآنی آیات کی برکت اپنی جگہ مقد م ہے مگر صاحب قرآن کی طرف سے ایک آیت ایسی نہیں ملے گی کہ میری آیت سے یہ کام بھی لیا جاسکتا ہے اور اس طرح لینا چاہئے ؟
چھری کی دھار کی تیزی تسلیم ہے مگر یہ پیچ کو کھولنے کے لئے نہیں ہے ۔ کوئی ایک آدمی نہیں لاتعداد لوگ قلم سے ناڑہ ڈالتےہیں کچھ لوگ قلم پر کپڑا لپیٹ کر کان صاف کرتےہیں کبھی کبھی اپنے کان کو زخمی بھی کر بیٹھتےہیں ۔ عقل مند قومیں پراپرٹول یوز کرتی ہیں قلم لکھنے کے لئے ہے اس نام کی ایک سورۃ بھی قرآن میں ہے ۔ اور یہ بھی اللہ کا فرمان ہے ۔الَّذِي عَلَّمَ بِالْقَلَمِ ( 96:4) جس نے قلم سے لکھنا سکھایا ۔ بابر کت کلام اس رب ذولجلال کی جانب سے ہے جو تمہیں اور قلم دونوں کو وجود میں لایا، اب اگر چھری سے پیچ کھولتے ہوئے کوئی ہاتھ زخمی کر بیٹھے قلم سے کان زخمی کرلے تو قصور کس کا ہے؟
بات صرف اتنی ہے کہ ہم من حیث القوم منافق ہیں سگریٹ کی ڈبیا پرکینسر زدہ منہ کی تصویر بھی دی ہوتی ہے اور اشتہار بھی دکھائے جاتےہیں ڈراموں ، فلموں کا اداکاروں کو سگریٹ کا کش لگاتے بھی دکھاتے ہیں ۔ جگہ جگہ سگریٹ کی فیکٹریاں قائم ہیں ان کے پاس لائسنس ہیں اور حکومت کو ٹیکس ادا کرتے ہیں ۔ اسلحے کی وجہ سے ہمارا ملک خون میں رنگا ہوا ہے ۔ یہ بند نہیں ہو سکتا کیونکہ ایک پستول کے لائسنس کے رینول پر حکومت کے خزانے میں ہزار روپیہ سالانہ جمع ہوتا ہے ۔ امریکہ نے وزیر ستان میں شکار گاہ بنارکھی ( آج کل تو صبر سے کام لے رہاہے)پہلے روزانہ پاکستانیوں کو ٹھکانے لگاتا تھا ۔ کوئی بات نہیں پیسے دیتا ہے امداد کرتا ہے ۔ مطلب یہ ہے جہاں سےحکومت کو آمدنی ہو سب کچھ جائز ہے ۔ جب یہ حالت ہوتو بگاڑ ہم ہی لارہے ہیں اور سدھار کے لئے جدوجہد بھی ہم ہی کرتے ہیں تو بات کیسے بنی گی؟ ۔اللہ تعالیٰ نے اس قسم کے منافقا نہ رویے کے متعلق بڑا نفیس اشارہ فرمایا ہے ۔ وَلَا تَكُونُوا كَالَّتِي نَقَضَتْ غَزْلَهَا مِن بَعْدِ قُوَّةٍ أَنكَاثًا تَتَّخِذُونَ ( 16:92) کہیں تم اپنی حالت اس عورت جیسی نہ بنا لو کہ جس نے بڑی محنت سے سوت کا تا اور پھر خود ہی ٹکڑے کر ڈالا ۔
یارب ہم اس عورت جیسے ہوگئے ہیں ہمارے ماضی کے حکمران ، موجودہ حکمران اور حکمرانی کے منتظر حضرات سب ہی اس عورت کی طرح ہیں ۔ آپ کی کتاب سے یہ امید تھی کہ یہ ہمیں سیدھی راہ پر لگا دے گی مگر وہ کتاب تو قطب آن لائن کے حوالے کردی گئی انہوں نے اس سے وہ فائدہ نکالے جو جبرئیل اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی معلوم نہیں ہوں گے۔ مشکل یہ ہےکہ سامعین و ناظرین ہر ایک حاجت مند ہوتا ہے اور ضرورت مند تنکے کو بھی سہارا سمجھتا ہے ہ وان کے بازوں کو حاجت روا سمجھ کر ان کے دام فریب میں آجاتے ہیں ۔
اللہ کا واضح ارشاد قرآن کریم میں موجود ہے۔قُلْ إِنَّمَا أَدْعُو رَبِّي وَلَا أُشْرِكُ بِهِ أَحَدًا ، قُلْ إِنِّي لَا أَمْلِكُ لَكُمْ ضَرًّا وَلَا رَشَدًا ( 72:20:21) اے نبی کہو ان سے کہ میں بھی اپنےرب کو پکارتا ہوں ۔اس پکار میں کسی اور کو شریک نہیں کرتا کہ یہ شرک ہے اور میں نہ تمہیں نقصان پہنچا سکتا ہوں نہ تمہیں بھلا ئی ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ پیغام بھی ہمیں پہنچا دیا ہر گھر میں قرآن کے دفتین بھی موجود ہے۔إِنَّ اللَّهَ لَا يَغْفِرُ أَن يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَٰلِكَ لِمَن يَشَاءُ ( 4:48) اللہ صرف شرک کو معاف نہیں کرتا ا س کے سوا جتنے اور گناہ ہیں وہ جس کو چاہے معاف کردیتا ہے ۔
وَمَن يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدِ افْتَرَىٰ إِثْمًا عَظِيمًا ۔ اللہ کے ساتھ جس کسی نے اوروں کو شریک ٹھہرایا اس نے تو بہت ہی بڑا جھوٹ اور گناہ کیا ہے۔ رب نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے فرما یا کہ ان سے کہہ دو ۔قُل لَّا أَقُولُ لَكُمْ عِندِي خَزَائِنُ اللَّهِ ( 6:50)( اے نبی) کہ میں تم سے یہ نہیں کہتا کہ میرے پاس خزانے ہیں ۔
رب جل جلالہ تصدیق فرمارہے ہیں نہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس خزانےہیں نہ نبی کسی کونفع و نقصان پہنچا سکتے ہیں مگر چند لوگ سر پھرے ایسے کہ ان کو رب کی اس بات پریقین ہی نہیں آتا وہ کہتے ہیں کہ ۔ بھر دو جھولی میری یا محمد یہ شرک اس لئے ہےکہ اللہ اور اس کے نبی کو ایک ہی درجہ دیا جارہا ہے ۔ نبی کے بارے میں رب نے فرمایا کہ ان کے پاس کوئی خزانہ نہیں ہے پھر رکن عالم یا بہاؤ الدین ذکریا کے پاس کیا ہوگا ان کا اپنا نواسا یا پوتا سابقہ وزیر اعظم کا بیٹا اغوا ہوا ہے آج تک نہیں ملا ۔اگر یہ بزرگ جو زمانے سے اپنی اپنی قبروں میں جا سوئے اگر کچھ کر سکتے ہوتے تو یوسف رضا گیلانی صاحب کے بیٹے کو آزاد کرالیتے جو ان کا اپناخون ہے۔
مگر جو مرگیا وہ گیا اللہ کا فرمان ہے۔ لَا يَسْمَعُوا دُعَاءَكُمْ وَلَوْ سَمِعُوا مَا اسْتَجَابُوا لَكُمْ ( 35:14) مردے تمہاری کوئی پکار نہیں سنتے ،بفرض محال اگر سن لیتے تو جواب دینے سے قاصر ہیں ۔
دوسری جگہ بھی ارشاد ہے ۔۔۔۔ دعوت حق کو صرف زندہ لوگ سنتے ہیں مردے نہیں ۔ مردہ نہ و سن سکتا ہے نہ جواب دے سکا ہے ۔ آگے فرمایا۔وَمَا أَنتَ بِمُسْمِعٍ مَّن فِي الْقُبُورِ ( 35:22)
( اے نبی) تم ان کو نہیں سنا سکتے جو قبروں میں جا سوئے
اس آیت کریمہ میں تو قبر و ں کا ذکر بھی ہے، کیا اس آیت کریمہ کے بعد بھی قبروں پر جانے کا ان سے کچھ مانگنے کا ، انہیں کچھ سنانے کا کوئی جواز پیدا ہوتا ہے؟ ۔یہ تو اللہ کے ساتھ ضد بازی ہےکہ وہ جل جلالہ فرماتے ہیں کہ یہ مردے نہ تو تمہاری سن سکتے ہیں نہ ہی کوئی مد د کرسکتے ہیں ۔اور آپ جاکر انہیں اپنے دکھڑے سناتے ہیں اور ان سے مدد مانگتے ہیں ؟ ۔ گویا آپ کو اللہ کے فرمائے ہوئے پر اعتبار نہیں ہے ۔ کچھ عورتیں مزار کی جالی میں کپڑے کی دھجیاں باندھتی نظر آئیں کچھ خطوط باند ھ رہی تھیں اور یہ سماء ٹی وی پر دکھایا جارہاتھا او رابلیس کامشن پورا ہورہا تھا ۔
مست رکھو ذکر و فکر صبح گاہی میں اُسے پختہ تر کردو مزاجِ خانقا ہی میں اُسے
تم اُسے بیگانہ رکھو عالم کردار سے تا بساط ِ زندگی میں اُس کے سب مہرے ہوں مات
آج دیکھ لیجئے بساط عالم پر ہمارے سب مہرے بات ہیں دنیا میں جہاں کہیں دھماکہ ہوتا ہے پاکستان کا نام لیا جاتا ہے ۔ پچھلے دنوں نیویارک ائیرپورٹ پر شاہ رخ خان کوگھنٹوں ٹھہرایا گیا خان کی وجہ سے اسے پاکستانی سمجھا گیا تھا پھر بھارتی سفیر کی مداخلت پر سے چھوڑا گیا ۔ باہر ممالک کی ٹیمیں ہمارے ہاں کھیلنے نہیں آتیں ، کوئی سرمایہ نہیں لگاتا کہتا ہے بجلی نہیں ہے تو کارخانہ کیسے چلے گا ۔ہمارے ہاں کے ایک وزیر نے کہا تھا کہ بجلی بھی آنے والی ہے،کہا جب آئے تو ہمیں بلالینا ۔ انڈیا کی ایک سفارتکار کو پچھلے دنوں اس لئے گرفتار کیا تھاکہ اس نے اپنی گھریلو انڈین ملازمہ کو زدو کوب کیا تھا ۔ نتیجہ یہ ایک گھنٹے کے اندر اندر نئی دہلی میں امریکی سفارتخانے سے تمام سیکوریٹی اٹھالی گئی اور وہ تڑی گی گئی کہ امریکہ کو اس سفارتکار عورت کو رہا کرنا پڑا ہمارے تو پرویز مشرف کے ساتھی کے ائیر پورٹ پر جوتے اتار لئے گئے تھے ۔ اللہ نے فرمایا وَتْعِژ مَنْ تَشَا ء وَ تُذِل مَنْ تَشَآء ’’ انگریزی میں عزت کا ترجمہ ہے Glory, Power full, Strong, ۔ غالب ، فتح مند ، طاقتور ہے۔ دنیا کے اندر اگر ہم سر بلند ی سےرہنا چاہتے ہیں تو ہمیں طاقتور بننا پڑےگا اس آیت کے یہ معنی نہیں کہ اللہ جسے چاہے عزت دیتا ہے اور جسے چاہے ذلت دیتا ہے ۔ عربی میں پاکستانی عزت کو اکرام یعنی Honoring Tribute کہتے ہیں ۔ افسوس کہ ہمارے زعماء نے دنیا کے بھرے بازار سے ہمارے لئے ذلت خریدی او رزندگی گزارنے کے لئے اس نہج پر ہم چل رہےہیں ۔ مصائب کا خاتمہ نہیں ہورہا ہے سفر بھی ختم نہیں ہورہا ہے البتہ ہمارا خاتمہ قریب ہے۔
ابنِ انشاء نے کہا تھا کہ اس قوم کی تباہی میں کیا شک کہ جس نے علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ جیسی شخصیت کو قوالوں کے حوالے کردیا ۔
سچی بات تو یہ ہے کہ ابتداء میں ہم نے لکھا تھا کہ ہم من حیث القوم منافق میں شاید کچھ دوستوں کو برُا لگا ہو ۔ منافق اسے کہتے ہیں جس کے دل میں کچھ ہو او رزبان پر کچھ اور ہو۔ مثلاً ہم علامہ اقبال کو قائد اعظم جتنی عزت دیتےہیں انہیں بانیان پاکستان میں اعلیٰ مقام دیتے ہیں بچوں کی نصابی کتب میں ان کی تصویر نظر آتی ہیں ۔ سر جھکا ئے گہری سوچ میں ڈوبے ہوئے نظر آتے ہیں ۔ وہ کیوں ں گہری سوچ میں ڈوبے ہوئے ہیں نہ بچوں کو اس کا علم ہے نہ بڑوں نے غو رکیا اور تو اور رہنما ئی کے دعویدار بھی نہیں جانتے ۔ یا جانتے ہوئے انجان بنے ہیں ۔علامہ سر جھکاکر یہی سوچتےہوں گے ۔ قوم میرا احترام کرتی ہے، مگر میرا کہا نہیں مانتی میں نے ہزاروں مقامات پراپنی شعری زبان میں قوم کو قبروں ، مزاروں ، درگاہوں ، پیروں کی زیارت گاہوں سے روکا ہے ۔ کہ انسانیت کی اس سے بڑی تذلیل او رکیا ہوسکتی ہے کہ زندگی مردے کے آگے گڑگڑائے ، کہ میرا یہ کام کردے میرا وہ کام کردے ۔ میں غلاف چڑھاؤ ں گی ، پھولوں کی چادر چڑھاؤں گا دیگیں چڑھاؤں گا ۔ وغیرہ وغیرہ ۔
علامہ نے یہ نہیں سوچا کہ اوپر جو قرآن کریم کی آیات کریمات پیش کی ہیں اس کے علاوہ لا تعداد آیات میں ہمیں آگاہ کیا ہے خبر دار کیا ۔
فرمایا ۔ ذَٰلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمْ لَهُ الْمُلْكُ وَالَّذِينَ تَدْعُونَ مِن دُونِهِ مَا يَمْلِكُونَ مِن قِطْمِيرٍ ( 35:13)
وہی اللہ تمہارا رب ہے بادشاہی اسی کی ہے اور اسے چھوڑ کر تم اسے پکارتے ہو جو کھجور کی گھٹلی کے چھلکے کے برابر طاقت نہیں رکھتے ۔ اللہ فرمایا ۔ أَلَمْ تَعْلَمْ أَنَّ اللَّهَ لَهُ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَا لَكُم مِّن دُونِ اللَّهِ مِن وَلِيٍّ وَلَا نَصِيرٍ ( 2:107) کیا تم نہیں جانتے کہ آسمانوں اور زمین کی ملکیت اللہ کی ہے اس کے علاوہ تمہارا کوئی دوست او رمددگار نہیں ۔ ( یہ درگاہیں تو کچھ حیثیت نہیں رکھتیں ) فرمایا رب نے ۔ أَن يَتَّخِذُوا عِبَادِي مِن دُونِي أَوْلِيَاءَ ۚ إِنَّا أَعْتَدْنَا جَهَنَّمَ لِلْكَافِرِينَ نُزُلًا ( 18:102)
جو میرے بجائے میرے بندوں کو کار ساز او رمدد گار ہیں ، کیا سوچتے ہیں ؟ ہم نے ایسے کافروں کے لئے جہنم کی مہمانداری تیارکر رکھی ہے ۔ اللہ کے علاوہ دیگر سہارے تلاش کرنا شرک ہے ۔ فرمایا رب نے قَالُوْ ا بَلْ وَجَدْ نَا آبَا ئَنَا کَذٰلِکَ یَفْعَلُوْنَ ۔ جب انہیں منع کیا جاتا ہے ۔ تو کہتے ہیں کہ ، ہم نے اپنے باپ دادا کو یہی کرتے پایا ہے ۔ ارشاد ہے۔
مَثَلُ الَّذِينَ اتَّخَذُوا مِن دُونِ اللَّهِ أَوْلِيَاءَ كَمَثَلِ الْعَنكَبُوتِ اتَّخَذَتْ بَيْتًا وَإِنَّ أَوْهَنَ الْبُيُوتِ لَبَيْتُ الْعَنكَبُوتِ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ ( 29:41:42) جن لوگوں نےاللہ کو چھوڑ کر دوسرے سر پر ست ( سہارے) بنا لئے ہیں ان کی مثال ایک مکڑی جیسی ہے جو اپنا ایک گھر بناتی ہے ۔ اور سب گھروں سے زیادہ کمزور گھر مکڑی کا ہی ہوتا ہے ۔ کاش یہ لوگ علم رکھتےہیں یہ لوگ اللہ کو چھوڑ کر جس چیز کو بھی پکارتے ہیں اللہ ان کو خوب جانتا ہے ۔ وہ زبردست حکمت والا ہے ۔
علامہ صاحب سرجھکاکر سوچا نہ کریں گردن میں درد ہونے لگے گا ۔ہمیں اپنے حال پر چھوڑ دیں ۔ ہم اللہ کے فضل و کرم سے مسلمان ہیں اللہ کو مانتے ہیں ، رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو دل و جان سے مانتے ہیں ، دین کو مانتے ہیں اور قرآن کو مانتے ہیں مگر ان کی کہی ہوئی ہدایات کو نہیں مانتے ۔
ڈاکٹر غلام جیلانی برق کہتےہیں ۔ ایک ہرےبھرے کھیت میں زمیندار اپنے بیل کے ساتھ داخل ہوتاہے وہاں ایک ماہر اقتصادیات اور ایک عالم نباتات ، پہلے سے موجود ہیں ۔ اب یہ تمام اس کھیت کو مختلف زاویۂ ہائے نگاہ سے دیکھ رہے ہیں ، بیل صرف آزادی کا منتظر ہے کہ مالک ٹلے تو میں اس ہرے بھرے کھیت سے پیٹ بھروں ۔زمیندار اندازہ لگارہا ہے کہ اس دفعہ کتنا قرضہ بیباق ہوجائے گا ۔ ماہر اقتصادیات سوچ رہا ہے کہ اس سال اس ملک کی خوشحالی پر اچھی فصلوں کا کیا اثر پڑے گا ۔ اور عالم نباتات ان پودوں کے عناصر ترکیبی ، اختلاف الوان اور زمینی بیکٹیر یا اور پتوں کی حیرت انگیز مشین پر غور کررہا ہے۔
قرآن حکیم کھیتی کی طرح ہے ۔کسی نے اس کو متصوفانہ انداز سےدیکھا ، کسی نے اس کی سحربیانی کی تعریف کی ، واعظ نے اس میں سے دلچسپ کہانیاں انتخاب کیں، ملاذ کرِ حور وشراب و طہور پر مست ہوگیا ، مفتیوں نےاسےمسائل فقہی کا ایک ضابطہ سمجھا ، گدی نشینوں نے سجدہ تعظیمی کے جواز پر آیات ڈھونڈیں ، راہب نے ترکِ دنیا کے دلائل پیش کئے ۔ اور بعض نے اسے منتروں جنتروں اور ٹوٹکوں کی کتاب بنا ڈالا ۔ لیکن مجھے اس کتاب میں انسان کی سیاسی، اقتصادی، اخلاقی ، سطوت کے بے بہا گر ملے۔ میں نے نگارستان گیتی کی اس میں تفصیل دیکھی اور مجھے حتماً معلوم ہوگیا کہ اللہ کے قول و فعل میں مکمل مشابہت ہے ۔ کائنات کیا ہے ۔ قرآن کی تفصیل اور قرآن کیا ہے کائنات کا متن۔
جون ، 2014 بشکریہ : ماہنامہ صوت الحق ، کراچی
URL:
https://newageislam.com/urdu-section/publicising-sufism-our-media-/d/98220