حسین امیر فرہاد
ناخواندہ اور نا سمجھ لوگ ہمیشہ بڑی آسانی سے ان عقل مندوں کے دام فریب میں آجاتے ہیں جنہیں عام طور پر لوگ پیر فقیر پیشوا بزرگ سمجھتے ہیں ۔ رب نے قرآن کریم میں انہیں مترفین کے نام سے متعارف کرایا ہے ۔ یہ ہمیشہ دوسروں کے مال پر پرتعیش زندگی گزارتے ہیں ۔ قارئین آپ ہی بتائیے ہمارے اس دور میں کس نے پیر فقیر یا مذہبی پیشوا کو کما کر کھاتے دیکھا ہے؟۔ ہمیشہ نا خواندہ اور نا سمجھ سیدھے سادے لوگ ان کے پیٹ بھر نے کا انتظام کرتے ہیں جب ہی ایک دانشور نے کہا تھا کہ اگر دنیا میں بے و قوف نہ ہوتے تو عقل مند کہاں سے کھاتے ؟ ۔ پاکستان کے ہر صوبے میں پیری مریدی کا کاروبار چل رہا ہے مگر سندھ میں سب سے زیادہ ہے ، اسی لئے یہاں کے مایہ ناز لکھنے والے ‘‘ امر جلیل صاحب مرحوم ’’ لکھتے ہیں کہ سندھ کو لوٹنا ہے تو یا پیر بن کر یا ڈکیٹ بن کر لوٹو ۔ یہ بھی لکھتے ہیں کہ ڈاکو کی زندگی خطرے سے خالی نہیں ہوتی پکڑے جانے ، گولی لگنے کا خوف ہر وقت لگا رہتا ہے ڈاکو جنگلوں میں چھپتا پھرتا ہے ۔ جب کہ پیر کے لئے ایسا کوئی خطرہ نہیں ۔ معاشرہ اس کی عزت بھی کرتا ہے اور پیر صاحب زیورات چوری نہیں کرتا عورتیں خود لاکر دیتی ہیں ۔ ان سے دعائیں منگواتی ہیں نذر و نیاز دیئے جاتے ہیں ۔ مگر جب تعلیم عام ہوئی تو تقدس کے کمبل میں ان لپٹے ہوئے لوگوں کی گرفت آہستہ آہستہ عوام پر کمزور پڑتی گئی تب انہوں نے رہنمائی کا روپ بدلا ۔روٹی ہی تو کمانی ہے چاہے جس فن کے ذریعے سے ہو ۔ تمام مکر و فن روٹی کے لئے ہے ۔
ملتان میں سابق وزیر اعظم جناب یوسف رضا گیلانی صاحب کا گھرانا بھی اسی قسم کے تقدس کے غلاف میں لپٹا ہوا تھا ۔جن دنوں نا اہلی کا ٹھپہ لگنے والا تھا تو موصوف نے اخباری نمائندوں کے سامنے کہا تھا کہ ہمارا کیا ہے ہماری عزت معاشرے میں پہلے بھی تھی آج بھی ہے اور اگر ہم وزیر اعظم نہ بھی رہے تب بھی رہے گی ۔ مگر عوام نےان کے دعوے کو غلط ثابت کیا گھرانے کی عزت پر کوئی توجہ نہیں دی ان کے گھرانے سے کوئی بھی کامیاب نہیں ہوا البتہ بیٹا الگ اغواہوا ۔ عوام نے دیکھ لیا کہ ہمارے نذرانوں سے پلٹنے والے یہ پیر و مرشد کی اولاد یورپ میں تعلیم حاصل کرتی ہے، ان کے گھروں میں گھی کے چراغ جلتے ہیں ہمیں دیا بھی نصیب نہیں ۔ تن پر لاکھوں کے سوٹ اور رہائش کے لئے بم پروف مکان بن رہا ہے، یہ بلٹ پروف ائیر کنڈیشنڈ موٹر میں پھرتے ہیں اور ہم پیدل پھر تے ہیں او رملتانی دھول پھانکتے ہیں ۔ عوام نے ان کی چھٹی کرادی کہ آرام کرو۔
یہ سمجھتے تھے کہ پاکستانی عوام کو ہمارا جسم ، ہمارا گھرانا، ہماراپہنا وا ، پسند ہے ۔ مگر عوام کو تو اپنے دکھوں کا مداوا چاہئے تھا ۔ یہ اپنے آپ کو خدا سمجھنے لگے تھے۔ ہم نے کئی بار ان کو احساس دلایا ہے کہ آپ حضرات ہماری طرح انسان ہیں کھائے پیئے بغیر آپ بھی زندہ نہیں رہ سکتے ہیں اور ہم بھی ۔ باتھ روم آپ بھی جاتے ہیں او رہم بھی جاتے ہیں ، تو ایسا نہ کریں کہ جس راستے سے گزرنا ہو وہاں دو گھنٹے ٹریفک بند کرادی جائے اور ایک خاتون کا رکشہ میں بچہ پیدا ہوجائے ۔ بعد میں اسے پانچ لاکھ رویپہ انعام بھی دیا جائے ۔ سرکاری خزانے سے۔ حالانکہ اپنے آپ کو سزا دینی چاہئے تھی ۔
ہمارے ہاں V.I.P کلچر کو ختم کرنے کی بات ہر ایک کرتا ہے مگر جو بھی آیا وہ اس شجر خبیتہ کی جڑوں میں پانی دیتا گیا روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ( کل کم انباء آدم و آدم من تراب ) آدم کی اولاد ہو اور آدم مٹی سے بنے تھے ۔ اللہ کا بھی فرمان ہے ۔ نفس واحدہ سے تمہاری تخلیق ہوئی ہے ۔ ہمارے ہاں کسی بڑی شخصیت کو جیل جاتے نہیں دیکھا، کیا جرائم صرف غریب لوگ کرتے ہیں امراء جرم کرتے ہی نہیں؟ ۔ ہم مسلم ہیں جب کہ اسلام مساوات کی تعلیم دیتا ہے ۔ دیکھا جائے تو مساوات پر پڑوسی ملک بھارت عمل کررہا ہے ۔
کچھ عرصہ پہلے سنجے دت کے پاس سے غیر قانونی اسلحہ بر آمد ہوا تھا اس اسلحے سے اس نے کوئی جرم نہیں کیا تھا ۔ 18 ماہ قید پہلے وہ کاٹ چکا تھا پھر زیر تکمیل فلموں کو مکمل کرنے کی اجازت ملی تھی گزشتہ دنوں بقیہ سزا ساڑھے تین سال کے لئے اس نے اپنے آپ کو پیش کیا، اسے بتایا دیا گیا کہ جیل میں تم کھانا ( دال روٹی چاول) کھاؤ گے ۔ اور تمہیں 30 روپیہ ماہانہ تنخواہ بھی ملے گی۔
اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ‘‘ کا سودادا یا قاسم دادا’’ کو سکندر مرزا کے زمانے میں جیل ہوئی تھی تو اسے بیوی بچے رکھنے کی اجازت بھی ملی تھی اور جیل میں گھومنے کے لئے ایک موٹر بھی ملی تھی وہ وارڈن تھا، ہمارے موجودہ زمانے میں زرداری صاحب کو جیل میں ائیر کنڈیشنر اور ٹیلی ویژن کی فیسلیٹی بھی حاصل تھی اور کھانا گھر سے آتا تھا اسی قسم کی مراعات یوسف رضا گیلانی کو بھی حاصل تھیں۔ اور آج کل پرویز مشرف کو بھی حاصل ہیں ۔ اس کے گھر کو جیل کا درجہ دیا گیا ، حالانکہ آج کل ہر پاکستانی اپنے مکان میں قیدی بنا ہوا ہے پنکھا جھل رہا ہے ۔ اسی قسم کے لوگوں کے قبر ستان پی ای سی ایچ سو سائٹی میں انشاء جی کا جانا ہوا جسے میں ویسٹ منسٹر ایبے کا قبرستان کہتا ہوں قبروں کو دیکھ کر وہ کہنے لگا فرہاد بھائی پتہ نہیں چلتا کہ صاحب مرگئے ہیں یوں لگتا ہے کہ صاحب نے رہائش گاہ بدل لی ہے ۔
حالانکہ جیل اذیت گاہ نہیں ہے تربیت گاہ ہے وہاں من پسند کھانے اور گھر جیسا ماحول اور آزادی نہ ہونے سے آدمی بیزار ہوکر جرائم سے توبہ کرتا ہے اسے جرائم سے نفرت پیدا ہوجاتی ہے۔ اسلامی سزا کوڑوں کابھی یہی مقصد ہے ۔ میں قیدیوں کو محکمہ لے جاتا رہا وہاں جلاد انہیں زمین پر پبلک کے سامنے لٹا کر مار تا تھا ایک آدمی نے اس کے سر کو گھٹنوں میں تھاما ہوتا تھا دوسرے نے لیٹے ہوئے آدمی کے پیر جکڑ ے ہوتے تھے ۔مقصد یہ ہوتا تھا کہ مجرم شرمندگی محسوس کرے اور آئندہ جرم نہ کرے ۔
آپ کہیں گے کہ کہاں فلمی اداکار اور کہاں رہنما ۔ دیکھئے جمہوریت میں قدر مشترک ہے ‘‘ کثرت کی پسند ’’ تو رہنما کو بہت کم لوگ پسند کرتے ہیں مگر سنجے دت کو تو ہندوستان ، پاکستان کے علاوہ افغان ، ایران، تمام خلیج ، اور مشرق وسطیٰ کے علاوہ بھی کئی ممالک پسند کرتے ہیں اور قدرِ مشترک اداکاری بھی ہے آصف علی زرداری صاحب نے بھی دو فلموں میں کام کیا تھا، ٹی وی پر ان فلموں کی جھلک بھی دکھائی گئی تھی ویسے بھی لیڈر اور اداکار میں کوئی خاص فرق نہیں ہوتا ۔ شہرت میں ہر ادا کا رہنما سے زیادہ شہرت رکھتا ہے۔ انہیں دیکھنے کے لئے پاکستانی سرحد پار جاتے ہیں وہاں پکڑے جاتے ہیں انہیں جیل ہوتی ہے بالآخر ان کی لاش ہی واپس آتی ہے ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور اس کے بیٹے سے بڑی شخصیت اور کون ہوسکتی ہے۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے بیٹے عبدالرحمان مصر میں تھے وہاں انہوں نے اپنے ایک دوست کے ساتھ نبیذ ( Wine) پی لی جس سے انہیں نشہ ہوگیا۔ یہ جرم مستوجب سزا تھا یہ دونوں حضرت عمر و بن العاص رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچے اور ان سے کہا سزادی جائے حضرت عاص نے انہیں ڈانٹ ڈپٹ کر نکال دیا، عبدالرحمٰن نے ان سے کہا کہ اگر آپ نے ہمیں سزا نہیں دی تو میں امیر المومنین سے شکایت کروں گا ۔ اس پر عمر و بن العاص مجبور ہوئے لیکن اتنی رعایت برتی کہ عبدالرحمٰن کو برسرعام کوڑے لگانے اور سر مونڈ کر تشہیر کرنے کے بجائے اپنے مکان کے اندر سزا دے دی، اور حضرت عمر کو اس کی کوئی اطلاع نہ دی ۔ چند دنوں کے بعد حضرت عمر و بن العاص کو امیر المومنین کی جانب سے خط ملا ۔ لکھا تھا ۔
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم ۔ اللہ کے بندے عمر کی جانب سے عاصی ابن العاصی ( یعنی گنہگار مجرم ولد گنہگار مجرم) کے نام ۔ ابن العاص تمہاری جرأت اور بد عہدی پر مجھے بے حد تعجب ہوا میں تمہیں معزول کرکے چھوڑوں گا،تم نے عبدالرحمٰن کو اپنے گھر کے اندر کوڑے لگوائے اور اس نے وہیں اپنا سر مونڈا حالانکہ تم جانتے تھے کہ یہ بات میری طبیعت کے خلاف ہے۔ عبدالرحمٰن تمہاری رعایا کا ایک فرد تھا تمہیں اس کے ساتھ وہی سلوک کرناچاہیے تھا جو دوسرے مجرموں کے ساتھ کرتے ہو ۔ لیکن تم نے کہاں کہ وہ امیر المومنین کا بیٹا ہے اس لئے اس کے ساتھ ترجیحی سلوک کرنا چاہئے ۔ حالانکہ تمہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ میرے نزدیک کسی شخص سے حق لینے میں کسی قسم کی رعایت اور نرمی کاسوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔ جس وقت تمہیں یہ خط ملے عبدالرحمٰن کو اونی چغہ پہناؤ اور پالان ( ننگی پیٹ کے اونٹ) پر سوار کر کے اسے مدینہ روانہ کردو تاکہ وہ اپنی بدکرداری کا مزہ چکھے ۔
حضرت عمر بن العاص نے اس حکم کی تعمیل کی جب عبدالرحمٰن مدینہ پہنچے تو ننگی پیٹ کے اونٹ پر سواری کیوجہ سے ان سے چلا نہیں جاتا تھے ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حکم دیا کہ اسے باقاعدہ سزادی جائے ۔ عبدالرحمٰن بن عوف پاس بیٹھے ہوئے تھے انہوں نے کہا امیر المومنین مجرم کو سزا مل چکی ہے، اب اسے اسی جرم کی پاداش میں دوبارہ سزا کیسے دی جاسکتی ہے؟ ۔ حضرت عمر نے اسے ان سنی کر دیا ، بیٹا چلایا کہ میں بیمار ہوں ۔ آپ مجھے مار ڈالنا چاہتے ہیں ۔ اس کے باوجود حضرت عمر نے انہیں قید کیا جہاں وہ بیمار ہوئے اور وفات پاگئے ۔ اس میں بظاہر سختی نظر آتی ہے لیکن اگر سربراہ مملکت اپنی اولاد کے ساتھ اس قسم کی سختی کی ایک نظیر قائم کردے تو ملک سےجرائم کا خاتمہ ہوجاتا ہے ۔ اسی لئے علامہ اقبال کو کہنا پڑا ۔
و ہ رنگی چھوڑ کر اک رنگی ہوجا
سراپا موم یا پھر سنگ ہو جا
ہم اس ہندو رام داس کی طرح ہیں جو لاہور میں کچھ دوستوں کے کہنے سے مسلمان ہوگیا تھا، مولوی نے اس کا نام عبداللہ رکھ دیا، مگر لاہور کی گلیوں میں سے گزرتے وقت جہاں مندر آیا وہ ڈنڈوت اور پرنام کرتا، مولانا کو کچھ لوگوں نے خبر دی کہ وہ ہندو جس کا نام رام داس تھا آپ نے مسلمان کیا تھا وہ آج بھی مندر کے سامنے سے گزرتے وقت بتوں کو سلام کرتا ہے ۔ مولوی نے کہا اسے میرے پاس لاؤ۔ جب وہ لایا گیا تو مولوی نے پوچھا سنا ہے کہ تو آج بھی مندروں کے سامنے سے گزرتے وقت ڈنڈوت کرتے ہو؟ اس نے کہا یہ بات سچ ہے مولوی صاحب زمانے کی عادت ہے ایک دم تو نہیں چھوٹے گی دیر لگے گی ، اور میں سوچتاہوں کہ ان بتوں کےساتھ بھی دشمنی کیوں مول لی جائے کیا پتہ کبھی کام آجائیں ۔......... تو عرض یہ ہے قارئین کہ ہمارے مسلمانی رام داس کی طرح ہے جو روڈ کراس کررہا تھا کہ ٹریفک کھل گیا اب نہ وہ واپس جاسکتا ہے نہ آگے بڑھ سکتا ہے ہم زمانے سے اس بفرزون میں کھڑے ہیں ۔ مبنی بر انصاف فیصلے کسی صحیح مسلمان کا کام ہے ہمار ا نہیں ۔ ہم اسلام دین کو بدنام تو کر سکتے ہیں سربلند نہیں ۔ آپ نے دیکھا ہوگا ایک اندھے فقیر کو جو لاٹھی ٹیکتا ہوا ہر ایک سے کہتا ہے اللہ کے لئے کوئی مجھے سڑک پار کرا دے ۔ ہم بھی اللہ کے بتائے ہوئے الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ ۔ کو گم کر چکے ہیں اب آوارہ گرد کی طرح ٹامک ٹوئیاں مار رہے ہیں ، کچھ سجھائی نہیں دیتا ، ہے کوئی اللہ کا بندہ جو ہمیں سیدھے راستے پر لگادے؟
ہمارے بربادی کا سبب ۔ راوی بیان کرتا ہے کہ دوران سفر کسانوں کی ایک بستی میں پہنچا تو وہاں کے لوگوں کی زبو ں حالی دیکھ کر اسے حیرت ہوئی ۔ بہت سے تو آہ و گریا کررہے تھے ۔ پوچھا کہ تمہاری قوم تو اچھی بھلی تھی یہ تمہیں کیا ہوگیا ؟ کہنے لگے شو مئی قسمت کہ ہمارے پاس ارض حجاز سے معہ پرچہ ترکیب ایک بیج آیا تھا جو اللہ نے اپنے برگزیدہ پیغمبر کے توسط سےبھیجا تھا او راللہ نے ان کی خوش حالی کی ضمانت دی تھی جو اس پر عمل کرے وہ لہلہاتی شاداب کھیتوں کے مالک ہوں گے ۔ کہا اس کی بدولت آپ دنیا کی امامت کرو گے ۔ البتہ یہ یاد رہے کہ بوائی کے بعد اس فصل کو قرآن کا چھینٹا دینا ضروری ہے یہ بھول نہ جانا ۔ وہاں ا س پر تجر بے ہوئے تھے بڑے بہترین تنائج بر آمد ہوئے تھے ۔ کمال یہ ہے کہ مخالفین نے بھی اس پر تجربہ کیا ان کے ہاں بھی حیران کن نتائج بر آمد ہوئے ۔ پھر ہم پر سستی، کسلمندی ، سہل انگاری ، اور ہڈ حرامی کا غلبہ ہوا تو بلا دافرنگ سے کچھ سودا گر آئے اور انہوں نے ہمیں غلام بنا لیا وہ یہاں تقریباً سو سال رہے اور ایک نئے بیج کو معاف کرایا جس کا نام جمہوریت ہے۔
ہماری بد قسمتی کہ ہم نے اس حجازی بیج کو تلف کردیا اور پرچے کو ایک طرف کردیا، فرنگی سودا گر چلے گئے لیکن ہماری کچھ سمجھ میں نہیں آتا 65 سال ہونے کو آئے یہ نیا بیج یہاں پنپ ہی نہیں رہا ہے ۔ کتنے تجربے کئے لیکن ہر بار ناکامی ہوئی ۔ بیج والوں سے دریافت کیا کہ کیا وجہ ہے آپ کا بیج ( جمہوریت) یہاں کی زمین میں بار آور نہیں رہا ہے؟ وہ ہنس کر جواب دیتے ہیں کہ تمہارے ہاں اس بیج کے لئے فضا ساز گار نہیں ہے ۔ پہلے فضا سازگار بنالو پھر بیج بوؤ ۔ اب ہم نہ ادھر کے رہے نہ ادھر کے ۔ پر انا بیج ہم کھو چکے ہیں ، نئے بیج کے لئے ماحول سازگار نہیں ۔ ہماری مثال اس شخص جیسی ہے کہ لال بتی کی وجہ سے ٹریفک بند دیکھ کر وہ سڑک پار کرنا چاہتا ہے ، آدھی سڑک وہ پار کر چکا ہے کہ دو طرفہ ٹریفک کھل گیا اب نہ وہ آگے بڑھ سکتا ہے نہ پیچھے ہٹنا ممکن ہے ۔پہلے کچھ آسودگی تھی مگر فرنگی سوداگر وں کی واپسی کے بعد ہماری حالت بہت خراب ہوگئی ۔ ہم ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں ، نہ ہمارا کوئی پروگرام ہے نہ کوئی رہنما ہے ۔ ہم غول بیابانی کی طرح صحرا میں اُڑ تے پھررہے ہیں ۔
پوچھا آپ کی اس بستی کا نام کیا ہے ، اور بیج کا نام لیا ہے اور پرچہ ترکیب کہا ں ہے؟ کتنی آبادی ہے یہاں کی ؟ کہابستی کا نام تو پاکستان ہے۔ بیج کا نام احیائے اسلام ہے ۔ پرچہ ترکیب قرآن کریم ہے ۔ تعداد ہماری اٹھارہ کروڑ ہے ۔ مگر ہم شتربے مہار بنے پھرتے ہیں ۔ کیا ہمارا کوئی علاج ہے؟ راوی نے کہا پرچے کو غنیمت جانو، اسے تھامے رہو ، اس پر دوبارہ عمل کرو، کام ہوجائے گا۔
یہ بتاؤ جب فرنگی سوداگر آپ کو بیج دے رہاتھا اور اس تعریف بھی کررہا تھا تو اس وقت آپ لوگوں نے پرچہ ترکیب جو اللہ نے اپنے برگزیدہ پیغمبر کے توسط سے بھیجا تھا ، اُس کی طرف دھیان نہیں دیا؟ فرمایا تھا رب نے ۔وَإِن تُطِعْ أَكْثَرَ مَن فِي الْأَرْضِ يُضِلُّوكَ عَن سَبِيلِ اللَّهِ ( 116۔6) ( اے نبی) اگر آپ اکثریت کے پیچھے چلوگے تو زمین پر اکثریت تو گمراہوں کی ہوتی ہے وہ آپ کو بھی گمراہ کردیں گے ، یہ تو بڑی واضح نفی ہے جمہوریت کی؟ ۔ ہاں مسافر کیا کریں ہماری بد قسمتی تھی کہ ہمارے علماء کرام بھی جمہوریت پر فریفتہ ہوچکے تھے ۔ اٹھتے بیٹھے جمہوریت کی مالا جپتے ہیں ۔ ہم پر ان کی گرفت بڑی مضبوط ہے۔
ہم پیدا ہوتے ہیں تو یہی پیشوا ہمارے کانوں میں اذان دیتے ہیں ، پھر ہم ان سے پارہ پڑھتے ہیں، جب ہم جوان ہوتے ہیں تو یہ ہمارا نکاح پڑھتے ہیں جب ہم مرتے ہیں تو یہی ہمیں غسل دیتے ہیں اور ہمارا جنازہ پڑھتے ہیں ۔ یہ خود اٹھتے بیٹھتے جمہوریت کی مالا جپتے ہیں ۔ ہمیں بتاتے ہیں کہ یہ عین اسلام ہے۔
لاریب کہ آپ لوگ بڑے بدنصیب ہیں ۔ بہت بڑی غلطی کر بیٹھے ہو، آپ ایک بستی جاناچاہتے ہیں آگے جاکر دو راہا آیا وہاں سے آپ نے غلط راستہ اختیار کیا کچھ دور جاکر آپ کو احساس ہوا کہ آپ نے غلط راستہ اختیار کیا تو آپ وہیں کھڑے کھڑے کہتے ہیں یا اللہ میری توبہ ہے میں تو غلط راستے پر چل پڑا ہوں ۔ اسے توبہ نہیں کہتے ترجع الٰی مفرق ۔ آپ کو لوٹنا پڑے گا دوراہے تک جہاں سے غلط راستہ اختیار کیا ہے وہیں سےصحیح راستہ اختیار کرنا پڑے گا اس طرح آپ اپنے مقصد میں کامیاب بھی ہوں گے اور اسے کہتے ہیں تو بہ ۔
دسمبر ، 2013 بشکریہ : ماہنامہ صوت الحق ، کراچی
URL:
https://newageislam.com/urdu-section/pakistan-way-maturity-/d/97812