New Age Islam
Sat Oct 12 2024, 12:26 AM

Urdu Section ( 14 Jun 2014, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Our Collective Lawlessness Has Caused Our Ruin تباہی ہمارا مقدر بن گئی

 

 

حسین امیر فرہاد

پاکستان اس وقت شہر نا پرسان  بنا ہوا ہے ۔ اس کی وجہ ہماری  سمجھ میں  جو آرہی ہے ، وہ  ہے ہمارا  ‘‘ قانون ’’ ہمارا  قانون ہے ترقی یافتہ او رمہذب  قوموں والا  اور ہم ابھی  تک غیر مہذب  طور پر زندگی گزار رہے ہیں ۔ بقول  حسن نثار  صاحب ہم  ‘‘ قوم نہیں ہیں ہجوم  ہیں ’’ ہمیں ریوڑ سے تشبیہ  دینا درست  نہیں ہے ۔ چرواہے  کی ایک سیٹی  یا بے معنی  آواز سے منتشر  بھیڑیں  اکٹھی ہوکر راستے پر آجاتی ہیں ، مگر ہمیں  اللہ کی کتاب ، رسول علیہ السلام  کی ہدایات ، پولیس کی طاقت، رینجر کی گولی بھی قانون  و اخلاق کے دائرے میں نہیں لا سکی ۔ ترقی  یافتہ  قوموں کی پولیس جائے حادثہ  کے گرد ایک ٹیپ  کھینچ لیتی ہے جس پر لکھا  ہوتا ہے  Police  پبلک اس کے باہر ہی کھڑی ہوتی ہے جیسے  لوہے  کی باڑ کھینچی ہو ۔ مجال ہے کہ کوئی نزدیک جائے ۔ ایک ہم ہیں کہ ہمیں بنوں اور ڈیرہ  اسماعیل خان کی جیلوں کی سلاخیں اور دیوار  یں بھی  نہیں روک سکیں ۔

جہاں لکھا ہو یہاں پیشاب  کرنا منع ہے، وہاں اگر پیشاب نہ کرے تو پھر پاکستانی نہ ہوا ۔ ہر جگہ لکھا ہوتا ہے  ‘‘ پان تھوکنا منع ہے ’’ میں ایک مضمون میں حکومت  کو مشورہ  دیا تھا کہ کراچی  میں تمام  سرکاری دفاتر  کی دیواروں  کو زمین  سے پانچ فٹ  تک کتھئی رنگ دیا جائے تاکہ پان تھوکنے  والوں کو گل کاری چھپ  جائے ۔ کسی دفتر کی سیڑھیاں  چڑھتے وقت دیکھئے  تو کونوں پر اگالدان کا گمان ہوتا ہے ۔ کیا یہ ہوتے ہیں مہذب  قوموں  کے طور طریقے ؟ سڑکوں پر سپیڈ لمٹ کے سائن بورڈ اوّل  تو نظر نہیں آتے اس  پر شباب  لوٹانے والی دواؤں کے  اشتہارات  لگے ہوتے ہیں ۔ اگر  وہ نظر آبھی  جائیں تو اسے کون  خاطر میں لاتا  ہے ۔ ایک  شخص پٹرول پمپ  پر پٹرول ڈلوارہا تھا ، پمپ والے نے کہا سگریٹ بجھا دیجئے یہاں سگریٹ نوشی منع ہے ۔ سگریٹ پینے والے نے جواب دیا فضول بکواس  نہ کر یہ کوئی مسجد نہیں ہے ۔

یہاں مہذب قوموں  والا قانون  اس طرح بے اثر ہے جیسے  الیکشن میں کالے مسٹر لوبو کے انگلوٹھے  پر کالی سیاہی  نظر نہیں آتی تھی تو پریزائڈنگ آفیسر نے اس کے لئے سفید رنگ کا انتظام کیا ۔ ضرورت  ہے قوم کو دیکھ کر قانون میں تبدیلی  کی جائے اور  قانون  کے نفاذ کو یقینی بنایا جائے ۔ انگریزنے جنگجو اور سخت جان قانون  پشتونوں کے لئے  فرنٹیر  کرائم ریگو لیشن  قائم کیا  تھا جو غالباً اب تک قائم ہے ۔ پورے  ہندوستان  میں ایک قانون  اور  N.W.F.P. میں دوسرا قانون ۔

سعودی عرب ، ملائیشیا ، انڈو نیشیا اور سنگا پور  میں منشیات  فروشوں  کے لئے موت  کی سزا ہے ۔  سعودیہ  کو چھوڑ کر باقی  ملکوں میں ہماری  طرح انگریزی قانون  ہے مگر انہوں نے ترامیم کیں اور اپنے ملک کے لئے جو قانون مفید پایا وہ لاگو کیا ۔ ایک ہم ہیں کہ ہم انگریز  کے عطا ء کردہ قانون  کو عطیہ خداوندی  صحیفہ  آسمانی  او رمدینے کا سرمہ سمجھتے ہیں  ، اس میں تبدیلی کا سوچ بھی نہیں سکتے، یا ہوسکتا ہے کہ ہم نے انگریز سے آزادی  حاصل کرتے وقت ڈرونز حملوں  کی طرح کوئی  زبانی معاہدہ  کیا ہو کہ بے شک  اگر ہم نے آپ  کے دیئے ہوئے قانون میں ذرا سی تبدیلی  کی تو آپ  ٹرافلگر سکوائر  میں ہماری ننگی  کمر پر کبوتروں  کے سامنے کوڑے برسائیں ، اگر ایسا  کوئی معاہدہ ہے توبے شک آپ اس معاہدے پر تھوک  دیں  ، آخر پنڈت جواہر لال نہرو صاحب نے بھی کشمیر میں رائے شماری کے معاہدے پر  U.N.O. میں دستخط کئے تھے انہوں نے اور ان کے بعد جتنے  سربراہ آئے سب نے باری باری اس معاہدے پر دستخط پر تھوکا ۔ کسی نے اس پر پیشاب کیا، کیا بگاڑ ا ان کا ؟۔ خیر جن کی مثالیں  میں نے دی وہ آزاد قوم ہیں، آزاد تو ہم بھی ہیں مگر ہمارے گلے  میں انگریز کی غلامی کی ٹائی اب بھی بندھی ہوئی ہے ۔ خلیجی  ریاستوں  میں جہاز سے اتر کر اندر جاتے وقت ایک بورڈ سامنے رکھا  ہوتا ہے اس پر لکھا ہوتا ہے کہ  آپ مسلم ملک میں  آئے ہیں یہاں رمضان کا مہینہ ہے اس میں کھلے عام خورد و نوش ممنوع  ہے ۔ یہ بھی انگریز کے قانون میں اضافہ ہے مگر ہر شخص کو اس کا احترام کرنا پڑتا ہے اور عربوں کو اس کی کوئی سزا نہیں ملتی ۔

اسرائیل میں چاہے تل ابیب ہو، حیفا جنینہ ، طول کرم ، باب الخلیل  یا بیت اللحم  ہر جگہ اسرائیلی علاقہ میں ریسٹورینٹ یوم السبت ( سنیچر) کے دن بند ہوتے ہیں او رکھلے عام سگریٹ پینا منع ہے صرف مسلمانوں  کےمنطقہ میں ہوٹل کھلے ہوتے ہیں ۔ سبت ان کامقدس دن ہے ہر ایک احترام کرتا ہے ۔ یقین نہ ہو تو ایم اے جناح روڈ سیون ڈے ہسپتال جاکر خود دیکھ لیں ہر سنیچر کو دونوں کینٹین بند ملیں گی ۔ کیونکہ  یہودوں کے ہاں سبت  کے دن آگ جلانا منع ہے ۔

یہ تمام تمجید اس لئے پیش کی کہ عید سے تین دن قبل  لاہور میں دو بھتہ خور پکڑے گئے انہوں نے اعتراف بھی کیا ۔ یہ چونکہ ڈاکو فسادی  تھے اللہ نے ان کے لئے سزا مقرر کی ہے دایاں ہاتھ بایاں پاؤں کاٹ کر انہیں سزادی جائے ( 5:33) تاکہ دوسرے بھتہ خوروں کے دل میں ڈر پیدا  ہوجائے ۔ آخر ہم قرآن  کے منکر کوبھی قرآنی  سزا دینے  میں ید طولیٰ  رکھتے ہیں ریمنڈ ڈیوس  کو ہم نے سزا دی  تھی  جب کہ وہ قرآن کو مانتا ہی نہیں تھا ۔

سعودیہ نے تیز رفتار ی کر ختم کرنے  اور گاڑیاں  چلانے والوں  کے دلوں میں  ڈر پیدا کرنے کے لئے طائف  او رمکہ کے درمیان  پہاڑی  راستے  پر پتھر تراش  کر چبوترے  بنائے ہیں ان پر ایکسیڈنٹ  شدہ گاڑیوں کو رکھا ہے ساتھ لکھا ہے ۔فلاں تاریخ کو اس گاڑی میں فلاں  بن فلاں مع بیوی  بچوں کے سفر کرتے  ہوئے ہلاک ہوئے تھے ۔ پسماندگان  میں ایک بچی رہ گئی ۔ یہ پڑھنے کے بعد لوگ مرات، ریاض العفیف ، دو آدمی  ، الحسا ء تک اعتدال سے کار چلاتے ہیں ۔

ضروری ہے کہ غلط کام کرنے والوں کے دلوں میں جرم سے کراہت اور ڈر پیدا کیا جائے ۔یہی  وجہ ہے کہ قطر میں اس وقت تک جرائم کی شرح بہت  کم تھی  جب تک مجرم کو شوٹ  کر کے بعد میں اس کا لاش ایک گھنٹے تک سبزی مارکیٹ  میں پڑی رہتی  تھی اب پتہ  نہیں کیا ہے وجہ یہ ہے پرانے  حاکموں  کو زمین کھا گئی اب یورپ  کے پڑھے لکھے نوجوان حاکم بنے ہیں وہ اپنے وطن  کو ویسے ہی  بناناچاہتے ہیں  جہاں وہ رہ کر آئے ہیں ۔

کویت نے بھی اپناپھانسی  گھر ایسی جگہ قائم کیا ہے کہ ہر  گزرنے والے کو نظر آتاہے اور ا س کاپتہ  پانی ہو جاتاہے ۔ وہ جب تک کویت میں  رہتاہے با لکل سیدھا رہتاہے ۔ جرم  کرنے کا خیال بھی دل میں  نہیں لاتا ۔ اللہ  تعالیٰ کاحکم بھی  یہ ہے ملا حظہ فرمائیے ۔

الزَّانِيَةُ وَالزَّانِي فَاجْلِدُوا كُلَّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا مِائَةَ جَلْدَةٍ ۖ وَلَا تَأْخُذْكُم بِهِمَا رَأْفَةٌ فِي دِينِ اللَّهِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ۖ وَلْيَشْهَدْ عَذَابَهُمَا طَائِفَةٌ مِّنَ الْمُؤْمِنِينَ (24:2)

زانیہ اور زانی دونوں کو سو سو کوڑے مارو اور دین کے معاملہ  میں تمہیں ان پر رحم نہیں کرناچاہیے ۔ اگر اللہ  اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہو اور چاہئے  کہ دونوں  کی سزا کے وقت مسلمانوں  کی ایک جماعت موجود ہو۔

بڑا واضح بیان ہے رب کا ۔ سزا کے وقت مسلمانوں کی ایک جماعت موجود ہو۔ اس سے دوسروں کو عبرت ملتی ہے ۔ مگر کویت ایکسیڈنٹ شدہ کار او ر مرنے  والوں کی لاشیں  ٹی وی پر نہیں دکھاتے ، میں نے پوچھا بھی تھا انہوں نے کہا کہ ایکسیڈنٹ شدہ کاریں  او رمسخ شدہ لاشیں  دکھا کر ہمارے تیز رفتار زیر تکمیل  پرجیکٹوں  کی تیاری  میں تاخیر  ہوتی ہے ہمیں ہر کام  میں تیزی  چاہئے ۔ مرنے والوں  کا کیاہے آج  نہیں تو کل مریں گے ۔ ہر ایک نے مرنا ہے بس ہمارا  کام کر کے مرے۔

میں پھر کہوں گاکہ ہر قانون  شکن  جس کےدل  میں قانون کااحترام  نہیں اس کے دل میں  قانون کا خوف بٹھا  دیا جائے تو وہ ٹھنڈا  ہوجائے گا ۔ میں لاہور کے سپر ہاوئے پر ایک بس کے ذریعے پشاور جارہا تھا ، وہ بس کو چلا کیا اڑائے لئے جارہاتھا ۔ کئی  لوگوں  نے پکار پکار  کر کہا بھائی ذرا آہستہ مگر وہ  کسی کی نہیں سنتا تھا ، بس  ایسے چلا رہا تھا جیسے کوئی چھوٹی کار ہو اور ڈرائیور سرکس کا کھلاڑی ہو ۔ میں اس کے نزدیک بیٹھا  تھا میں  نے پشتو میں پوچھا  یہاں کہیں  نزدیک  ہسپتال ہے؟ کہا کیوں کیا ضرورت پڑ گئی ؟۔میں نے کہا ابھی ضرورت تو نہیں ہے مگر پڑ سکتی ہے ، یونہی  پوچھ رہا ہوں ۔کہا نزدیک  ترین ہسپتال پنڈی میں ہے ۔ میں نے کہا یہاں تو ملٹری  کا C.M.H. بھی ہے ۔ سنو دوست  کیا فائدہ  تمہاری آنکھ  کھلے تو تم  دیکھو کہ تمہاری  ٹانگ ڈوریوں سے اوپر لٹکی  ہوئی ہے اور تمہارا پلنگ لوہے کا ہے، چادر صاف ستھری ہے پلنگ  کے ساتھ لوہے کی کیبنٹ  بھی ہے جس میں کسی نے انگور لاکر  رکھے ہیں اور تم نے لمبی  بلیو پاپلین  کی قمیض  پہن رکھی ہے بغیر شلوار  کے ۔ ساتھ والے پلنگ پر بھی  کوئی لیٹا ہے وہ بھی لوہے  کا ہے ۔ اور تم لیٹے ہوئے آدمی سے پوچھو یہ کون سی  جگہ ہے، میں کہاں  ہوں ؟

وہ جواب دے کہ آپ C.M.H. میں ہیں اللہ نے بڑا فضل کیا پوری بس  میں تین آدمی ہلاک ہوئے ، تمہاری  صرف ایک ٹانگ  ٹوٹی ہے ایکسیلیٹر  والی باقی  سب خیرت ہے ۔ اس نے مجھے  خاموش کیا کہا مشرا اللہ سے خیر مانگو دعا کرو کہ ہم پشاور خیرت سے پہنچیں ۔ یا اللہ مدد فرما ۔ وہ پھر پشاور  تک آیت الکرسی  پڑھتا گیا ۔ بولا کہا  مشرا ( بزرگو)  تم نے تو مجھ کو ایسا سین دکھایا کہ مجھے بیوی  بچے یاد  آگئے ۔ میں نے کہا اگر میں  دو تین  سفر میں  آپ کے ساتھ  رہا تو تمہیں چھٹی  کا دودھ  بھی یاد  آجائے گا ۔ اور جو  میں نے یاد دلاہے  وہ ضرور یاد رکھو ..... لوہے کا پلنگ ....... بلیو پاپلین کی قمیض ...... لوہے کہ چھوٹی  سی الماری ....... اس پر انگور کا تھیلہ یہ چیزیں  یاد رہیں گی  تو تمہارا سفر  پشاور سے لاہو ر او رلاہور سے پشاور بغیر خطرے کے رہے گا ۔ اور تمہارے بچے  کبھی غم زدہ نہیں ہوں گے ۔ کویت  کی طویل سڑکوں پر جو عراق  او رسعودیہ  کو جاتی ہے ان پر ایسے  بورڈ نظر آئے جن  پر لکھا ہوتا ہے ۔ لاتشر عہ الموت یسرعہ منک ۔ تیزی مت دکھا موت تم سے زیادہ تیز  ہے ۔جو ڈرائیور  اپنے بچوں کو یاد  رکھتاہے وہ دوسرے کے بچوں  کو کبھی نہیں  کچل سکتا بچا کر چلتا ہے ۔ ہم قانون کی حدود  میں جینا جب سیکھیں گے ۔ جب قانون  ہر ایک  کے لئے  ہو۔ یہ نہ ہو کہ بڑے قانون کے جال کو مکھڑی  کا جالا سمجھ  کر توڑ دیں  اور نادار اس میں تڑپ تڑپ کر جان دے دے۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ  کے بیٹے عبدالرحمان  مصر میں تھے  وہاں انہوں نے اپنے ایک دوست  کےساتھ نبیذ (Wine ) پی لی جس سے انہیں نشہ ہوگیا ۔ یہ جرم  مستو جب سزا  تھا یہ دونوں  حضرات عمر و بن  العاص رضی اللہ عنہ  کے پاس پہنچے  اور ان سے کہا سزادی  جائے حضرت عباص نے انہیں ڈانٹ ڈپٹ کر نکال دیا  ، عبدالرحمٰن نےان سے کہا  کہ اگر آپ  نے ہمیں سزا نہیں  دی تو میں امیر المومنین  سے شکایت کروں گا۔ اس پر عمر وبن العاص مجبور ہوئے  لیکن اتنی رعایت برتی کہ عبدالرحمٰن  کو بر سر عام  کوڑے لگا  نے اور سر مونڈ کر تشہیر کرنے کے بجائے  اپنے مکان کے اندر سزا دے دی، اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ  کو اس کی کوئی اطلاع نہ دی ۔ چند دنوں کے بعد حضرت عمر و بن  العاص  کو امیر المومنین کی جانب سے خط ملا ۔ لکھا تھا ۔

بسم اللہ الرحمٰن الریم ۔ اللہ کے بندے عمر کی جانب سے عاصی ابن  العاصی  ( یعنی گنہگار  مجرم والد گنہگار مجرم)  کے نام ۔ ابن العاص  تمہاری  جرأت اور بد عہدی  پر مجھے بے حد تعجب  ہوا  میں تمہیں  معزول  کر کے چھوڑوں گا تم نے عبدالرحمٰن  کو اپنے گھر  کے اندر کوڑے  لگوائے  اور اس نے وہیں اپنا سر  مونڈا  حالانکہ تم جانتے تھے  کہ یہ بات میری طبیعت  کے خلاف ہے ۔ عبدالرحمٰن  تمہاری  رعایا  کا ایک فرد تھا تمہیں  اس کے ساتھ وہی سلوک کرناچاہیے تھا جو دوسرے  مجرموں کے ساتھ  کرتے ہو ۔ لیکن  تم نے کہا  کہ وہ امیر المومنین  کابیٹاہے  اس لئے اس کے ساتھ تر جیحی سلوک کرنا چاہیے ۔ حالانکہ تمہیں اچھی  طرح  معلوم ہے کہ میرے نزدیک کسی شخص  سے حق لینے  میں کسی کسی قسم  کی رعایت اور نرمی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔ جس  وقت تمہیں یہ خط ملے عبدالرحمٰن  کواونی چغہ  پہناؤ اور پالان ( ننگی پیٹ کے اونٹ)  پر سوار کر کے اسے مدینہ روانہ کر دو تاکہ  وہ اپنی بدکرداری  کا مزہ چکھے ۔

حضرت عمر و بن العاص  نے اس حکم کی تعمیل  کی جب عبدالرحمٰن  مدینہ پہنچے تو ننگی پیٹ کے اونٹ پر سوار  کی وجہ  سے ان سے چلا نہیں  جاتا تھا ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حکم دیا کہ اسے باقاعدہ سزا دی جائے ۔ عبدالرحمٰن  بن عوف  پاس بیٹھے  ہوئے تھے انہوں نے  کہا امیر المومنین  مجرم کو سزا مل چکی ہے ، اب  اسے اسی جرم کی پاداش  میں دوبارہ  سزا کیسے دی جاسکتی ہے ؟ ۔ حضرت  عمر نے اسے ان سنی  کر دیا، بیٹا  چلایا کہ میں بیمار ہوں ۔ آپ مجھے مار ڈالنا چاہتے ہیں ۔ اس کے باوجود حضرت عمر رضی اللہ عنہ  نے انہیں قید  کیا جہاں وہ بیمار  ہوئے اور  وفات پا گئے ۔ اس میں بظاہر  سختی نظر آتی ہے لیکن  اگر سربراہ  مملکت  اپنی اولاد کے ساتھ اس قسم کی سختی  ایک نظیر قائم کردے  تو ملک  سے جرائم کا خاتمہ  ہوجاتا ہے ۔ اسی لئے علامہ اقبال کو کہنا پڑا ۔

دو رنگی چھوڑ اک رنگ ہوجا

سراپا موم یا پھر سنگ ہو جا

ہم اس ہندو رام داس کی طرح  ہیں جو لاہور  میں کچھ دوستوں  کے کہنے سے مسلمان ہوگیا تھا، مولوی نے اس کا نام عبداللہ رکھ دیا ۔ مگر لاہور  کی گلیوں میں سے گزرتے وقت جہاں  مندر آیا  وہ ڈنڈوت اور پرنام کرتا  ، مولانا  کو کچھ لوگوں نے خبر دی کہ وہ ہندو جس کا نام رام داس  تھا آپ  نے مسلمان کیا تھا وہ آج  بھی مندر  کے سامنے  سے گزرتے وقت بتوں کو سلام کرتا ہے ۔ مولوی نے کہا سے میرے  پاس لاؤ۔  جب وہ لایا گیا تو  مولوی نے پوچھا سنا ہے کہ تو آج  بھی مندروں کے سامنے  سے گزرتے وقت ڈنڈ وت کرتے ہو؟ ۔ اس نے کہایہ بات سچ ہے مولوی صاحب زمانے کی عادت ہے ایک دم تو نہیں  چھوٹے گی دیر لگے گی ، اور میں سوچتا ہوں کہ ان بتوں  کےساتھ بھی دشمنی کیوں مول لی جائے ۔ کیا پتہ کبھی کام آجائیں ...... تو عرض  یہ ہے کہ قارئین  کہ ہماری  مسلمانی رام  داس کی طرح ہے ، ہمارے بڑے  جب قانون  کو پامال کردیتےہیں  تو عوام کےدلوں  میں قانون کااحترام کیسے پیدا ہوسکتا ہے ۔مبنی  بر انصاف  فیصلے  کسی صحیح  مسلمان کا کام ہے ہمارا نہیں ۔ ہم اسلام دین کو بد نام تو کر سکتے ہیں  سر بلند نہیں ۔

فروری ، 2014  بشکریہ : ماہنامہ صوت الحق ، کراچی 

URL:

https://newageislam.com/urdu-section/our-collective-lawlessness-caused-our/d/87540

 

Loading..

Loading..