حسین امیر فرہاد
عینک عربی لفظ ہے معنی ہے تیری آنکھ عیونک کے معنی ہے تیری آنکھیں ۔ مگر ہمارے ہاں عینک اسے کہتے ہیں جس کی ڈنڈیاں کانوں سے لپٹی ہوئی ہوتی ہے اور ناک پر ٹکی ہوتی ہے ۔بے شک لفظ عربی ہے مگر ہم نے معنوی تبدیلی کر کے اپنے استعمال میں لے لیا ہے ۔ جسے ہم عینک کہتے ہیں اسے عرب نظارات کہتے ہیں جس سے نظر آر پار ہوتی ہے ۔ اس کی دو اقسام ہیں، نظارات الشمسیہ ( Sun Glasses) دوسری قسم ہے ۔ نظارات الطبیہ ( Medical Glasses) پھر میڈیکل گلاس میں دو اقسام کی عینکیں ہیں ‘‘ للبعید’’ دور کے لئے اور ‘‘ للقریب ’’ نزدیک کے لئے ۔
کمزور نظر والا بہتر ہے کہ بغیر عینک کے گھوما پھرانہ کرے ۔ میرے ایک دوست نے عینک بننے کو دی تھی اور وہ بغیر عینک کے پھرتے تھے نتیجہ یہ کہ غلط گھر میں گھس گئے اتنی ٹھکائی ہوئی کہ تین دن تک فارسی بولتے رہے اور گھر میں پڑے رہے ۔
ہمارے ماہر اطبا ء اور سرجن دنیا سے پیچھے نہیں ہیں ہر معاملے میں اپنوں نے کا رہائے نمایاں انجام دیئے ہیں ۔ ہر چند کہ انہیں یہ سہولتیں اور مراعات بھی میسر نہیں ہیں جو مغرب کے اطباء کو میسر ہیں مگر اپنے کام میں لگے ہیں ۔ دین نہیں صرف مذہب کی چٹانیں جب ان کے سامنے آتی ہیں تو یہ بے بس ہوجاتے ہیں اِن کے پاس کوئی علاج نہیں ہوتا ۔ مثلاً انسانی اعضا ء کی پیوندکاری ۔ یہ ایک ایسا انسانی مسئلہ ہے کہ ہر سال ہمارے ہاں لاتعداد میں ضائع ہو جاتی ہیں ۔ اس سلسلہ میں ایک تحریر مفتی محمد شفیع مرحوم کے رسالے میں پڑھی تھی عنوان تھا ( انسانی اعضاء کی پیوند کاری شریعت اسلامیہ کی روشنی میں ) اس میں چند نامور علماء اور مفتیان بھی شامل تھے کہ ہم انسانی اعضا ء کی پیوند کاری کو کسی صورت میں بھی جائز نہیں سمجھتے ۔ حتیٰ کہ اضطراب حالت میں بھی ۔
حالانکہ ‘‘ اسلامی فقہ اکیڈمی سعودیہ عربیہ ’’ او ربہت سی دیگر مسلم حکومتوں نے اسے جائز قرار دیا تھا ۔ مفتی محمد شفیع مرحوم نے اپنی تحریر میں لکھا ہے۔
انسان کا وجود دراصل ایک چلتی پھرتی فیکٹری ہے ، جس میں سینکڑوں نازک مشینیں کام کرر ہی ہیں ، یہ سب مشینیں ان کے پیدا کرنے والے نے ودیعت اور امانت کے طور پر دی ہے ۔ ان کو ان چیزوں کا مالک نہیں بنایا ۔ البتہ امانت کے طور پر دینے والے مولائے کریم نے ان سرکاری مشینوں کے استعمال کی آزادانہ طاقت و اجازت دی ہے ۔اس سے یہ دھوکہ ہوجاتا ہے کہ میں اپنی جان اور اعضا ء کا خود مالک ہوں مگر حقیقت حال یہ نہیں ہے ۔ صفحہ 32 پر لکھتے ہیں ‘‘ خرید فروخت یا بخشش و ہدیہ اپنی اپنی مِلک ( ملکیت) میں ہوسکتا ہے روح انسانی اور اعضا ء انسانی اس کی مِلک نہیں جو وہ کسی کو دے سکے۔
اس کے بعد مودودی صاحب اور احتشام الحق صاحب کا فتویٰ بھی آیا ۔ دونوں کی ایک ہی رائے تھی کہ شریعت اس کی اجازت نہیں دیتی ۔ تو پرویز صاحب نے لکھا تھا جس کا عنوان تھا ۔
( اندھوں کو بینائی مت دو )
ہمارے دور میں میڈیکل سائنس نے اتنی ترقی کرلی ہے کہ ایک مردہ انسان کی ( بیکار) آنکھ کو زندہ اندھے انسان کی آنکھ میں پیوست کر کے اسے بینا ( دیکھنے والا) بنادیا جاتا ہے ۔ یہ انسانیت پر بہت بڑا احسان ہے ۔ لیکن ہمارے تاریکی پسند حضرات کے نزدیک ایسا کرنا خلاف اسلام اور شریعت کی رو سے ناجائز ہے ۔ کوئی دس سال ادھر کی بات ہے جماعت اسلامی کی طرف سے یہ فتویٰ صادر ہوا تھا کہ اسلام کی رو سے مردوں کے اعضا ء کی زندہ انسانوں میں پیوستگی ناجائز ہے ۔ ( ایشیا، 24 مارچ 1968 ء بحوالہ قرآنی فیصلے جلد چہارم باب ششم) اب مولانا احتشام الحق صاحب نے ارشاد فرمایا ہے کہ! شریعت اسلام کی رو سے ایک انسان کا خون دوسرے انسان کے بدن میں چڑھا نا جائز ہے مگر ایک بدن کے اعضا ء کی پیوند کاری دوسرے بدن کے ساتھ اسلام میں نا جائز ہے ۔ ( روز نامہ جنگ کراچی ۔ 23 جنوری، 1978)
سچ کہا تھا اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے کہ
مکتب و ملا و اسرارِ کتاب
کور مادر زاد و نورِ آفتاب
ضمناً ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آپ نے دیکھا کہ دونوں فتوؤں میں کہا گیا ہے کہ ‘‘ شریعت اسلامی کی رو سے ’’ اور ‘‘ اسلام کے نزدیک’’ ۔۔۔۔ سند اور حوالہ نہ جماعت اسلامی والوں کے نزدیک ضروری ہے اور نہ مولانا احتشام الحق صاحب کے لئے ۔۔۔۔۔۔۔ یہ صاحبان خود ہی اسلام اور شریعت ہوتے ہیں ۔ (قرآنی فیصلے جلد پنجم 26)
یہ ہے مذہب کی طرف سے فتویٰ ۔ غالباً اسی قسم کے فتوؤں کی روشنی میں مودودی صاحب بھی اعضاء کی پیوند کاری کے خلاف تھے کہا تھا کہ لاش کی بے حرمتی ہے ۔ بعد از مرگ آنکھوں کا عطیہ دینے پر انہوں نے یہ آیت کریمہ بھی کوڈ کی تھی ۔ وَمَن كَانَ فِي هَٰذِهِ أَعْمَىٰ فَهُوَ فِي الْآخِرَةِ أَعْمَىٰ (17:72) دنیا کا اندھا آخرت کا اندھا ہوگا ۔ حالانکہ اس کا مفہوم یہ ہے کہ جس نے دنیا میں حق کو نہ پہچانا آنکھیں ہوتے ہوئے اندھا بنا رہا ، محروم رہا اور آخرت میں بھی محروم رہے گا ۔ افسوس کہ کسی کو بھی یہ آیا ت نظر نہ آئی؟ رب کا ارشاد مبارک ہے ۔وَأَمَّا مَا يَنفَعُ النَّاسَ فَيَمْكُثُ فِي الْأَرْضِ ( 13:17)
زمین پر بقاء صرف اس عمل کو حاصل ہے جو ینفع الناس ہو۔ جس میں اللہ کی مخلوق کے لئے نفع رسانی ہو۔ تو نفع رسانی جس عمل میں ہو اسے اپنا لینا چاہئے ۔ ہاں اگر ان کا کوئی قانون قرآن سے متصادم ہو اسے چھوڑ دینا چاہئے ۔ ان فتوؤں کے چند دن بعد ضیا ء الحق جوان دنوں ( صدر پاکستان تھے) نے اپنی آنکھوں کا عطیہ دینے کا اعلان کیا ، تو مودودی صاحب نے بھی رجوع فرمایا اور پیوند کاری کے جواز کا فیصلہ دیا ۔حالانکہ ضیاء الحق صاحب کا اعلان ان کے بہاولپور میں حادثہ پیش آنے کے سبب ( عطیہ چشم) کسی کے کام نہیں آیا ۔
آیت بالا سے ثابت ہواکہ ہر وہ عمل جو اللہ کے بندوں کی نفع رسانی کے لئے ہو اسے اللہ کے ہاں بقاء حاصل ہے ۔
سری لنکا ایک چھوٹا سا ملک ہے مگر وہ دنیا کو آنکھیں دان دیتا ہے ۔ حتیٰ کہ ان کے صدر جب کسی ملک کے دورے پر جاتے ہیں تو خیر سگالی کے طور پر آنکھوں کاتحفہ لے کر جاتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ان کی لیبر اور ہنر مندوں کو گلف میں احترام کی نظروں سے دیکھا جاتاہے ۔ او ر اپنا ملک ہو یا دیگر ممالک کئی چیزیں ان کے لئے کسٹم ڈیوٹی سے فری ہوتی ہیں ۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے ۔ مَن قَتَلَ نَفْسًا بِغَيْرِ نَفْسٍ أَوْ فَسَادٍ فِي الْأَرْضِ فَكَأَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِيعًا وَمَنْ أَحْيَاهَا فَكَأَنَّمَا أَحْيَا النَّاسَ جَمِيعًا ( 5:32)
جس کسی نے خون کے بدلے خونی اور زمین میں فساد پھیلانے والے کے علاوہ کسی اور کو قتل کیا تو گویا اس نے تمام انسانیت کو قتل کیا اور اگر کسی کی جان بچائی تو اس نے گویا پوری انسانیت کی بخش دی ۔ خون یا اعضا ء جسم ہوں کیا اس سے بڑا کام بھلائی کا کوئی اور ہوسکتا ہے ؟ 1965 کی جنگ میں زخمی جوان جنہیں خارجی خون دیا گیا وہ آج بھی زندہ ہیں کیا یہ زندگی بخش کام اللہ کے ہاں نا پسند یدہ ہے ؟
بھارت میں ایک جوان عورت ( ایک بچے کی ماں) جس کا شوہر ایک حادثے کا شکار ہوگیا تھا وہ ایک بیٹا اور بیوی چھوڑ گیا تھا یہی بیٹا اس عورت کی زندگی کا محور تھا وہ بہت بڑی کوٹھی کار اور بینک بیلنس کی مالکہ تھی، وہ بچے کو ڈاکٹر کے ہاں لے گئی تھی ۔ ڈاکٹر نے دو دن بعد رپورٹ دیکھ کر بچے کی ماں کو بتایا کہ اسے کینسر ہے اور آخری اسٹیج پر ہے یہ چند دن کا مہمان ہے اس کی ہر خواہش پوری کریں ۔ ماں کی تو دنیا اندھیر ہوگئی وہ روتی دھوتی رہی مگر بچے کو علم نہ ہونے دیا ۔ بلائنڈ آشرم والوں کو ڈاکٹر سے پتہ چلا تو وہاں کی منتظمہ ان سے ملی او رایک جوان لڑکی کو بھی ساتھ لائی کہا آپ کا صدمہ ناقابل برداشت ہے۔ لیکن بیٹے کے مرنے کے بعد آنکھیں ان لڑکی کو دےکر اس کی زندگی میں روشنی لائیں ۔ بچے کی ماں نے پہلے تو انکار کیا تیسرے دن وہ منتظمہ پھر ملنے آئیں تو اس نے کہا کہ یہ تو اناتھ آشرم کی لڑکی ہے ، یہاں بن ماں باپ کے بچے بھی ہیں میرا اس لڑکی سے انسانیت کے علاوہ او رکوئی رشتہ نہیں ہے ۔آپ کو اپنے بچے کے ہر عضو سے پیار ہے ۔ وہ تو اب دنیا میں نہیں رہے گا سب کچھ جل جائے گا ۔ صرف آپ کے بیٹے کی پیاری پیاری آنکھیں باقی رہیں گی ، کیا آپ یہ پسند نہیں کرتی کہ آپ کا بیٹا نہ رہے مگر اس کی پیاری پیاری آنکھوں سے کوئی دوسرا اس سنسار کی رنگینیوں او رنعمتوں کو دیکھتا رہے ؟ بچے کی ماں نے دو دن کے بعد منتظمہ کو اور لڑکی کو بلایا کہا مجھے منظور ہے مگر یہ لڑکی کبھی کبھار یہاں آیا کرے کہ میں اپنے پیارے بیٹے رمیش کی آنکھوں کے درشن کیا کروں۔ جس پر فریقین رضا مند ہوگئے ۔
ہمیں بھی اس ماں کی نقش قدم پر چلنا چاہیے کہ ہمارے پیارے دنیا میں رہیں نہ رہیں ان کی آنکھوں سے کوئی کام لیتا رہے ۔ ایسے ماں باپ کو عزیز و اقارب کو اللہ کا اجر ملے گا جس نے کسی کی تاریک دنیا کو بصارت دی ۔
دوسرا واقعہ آپ کی خدمت میں پیش ہے ۔ امریکہ میں لمبا سفر کرنے والوں کے لئے سڑک کے کنارے جگہ جگہ ریسٹورنٹ بنے ہیں جس میں ضروریات کی ہر سہولت موجود ہوتی ہے ۔ طعام گاہ میں لوگ بھرے ہوئے تھے برساتی موسم تھا ایک کانسٹیبل اور پولیس آفیسر بھی کھانا کھارہے تھے کہ ایک آدمی گھسا اور پستول نکال کر سب کو للکار ا کہ کوئی حرکت نہ کرے ورنہ گولی مار دوں گا۔ سب سے پہلے آکر اس نے پولیس آفیسر کی پستول نکال کر اپنے پاس رکھ لی پھر نقد ی بٹور نے لگا آخر میں کاؤنٹر والے سے کہا کہ تم بھی کیش نکالو۔ اتنے میں ایک عورت چیختیں سنائی دینے لگی درد کے مارے اس کا برا حال تھا، اس کا شوہر اسے پردے کے پیچھے لے گیا، پھر اس نے با آواز بلند کہا آپ میں سے کوئی ڈاکٹر ہے؟ ۔ ایک آدمی اس کے پاس گیا کہا میں ڈاکٹر ہوں ۔ کہا میری بیوی کوبچہ ہونے والا ہے مدد درکار ہے ۔
وہ باہر گیا اور اپنی گاڑی سے اپنا بیگ لایا، چند لمحوں بعد بچے کی رونے کی آواز گونجی ، طعام گاہ کے ہر شخص کو خوشی ہوئی کہ ایک زندگی وجود میں آئی ۔۔۔۔۔۔ مگر کچھ دیر بعد ڈاکٹر نمودار ہوا کہ عورت کا خون بہہ گیا ہے اگر اسے بر وقت خون نہیں ملا تو وہ مر جائے گی ، عورت کے شوہر سے اس کا بلڈ گروپ معلوم ہوا مگر وہ ہے ۔ O NAGATIVE کیا آپ میں سے کوئی ہے اس گروپ کا ؟ کسی کی طرف سے جواب نہیں ملا مگر ڈاکو نے کہا میرا خون او نیگیٹو گروپ ہے ۔ سب نے اس کی منت سماجت کی مگر وہ انکار کرتا رہا ۔ اس کے لئے چندہ کیا گیا طعام گاہ والے نے بھی انسانی زندگی بچانے کے لئے ہزار ڈالر دیئے مگر وہ انکار کرتا رہا پولیس آفیسر نے بھی کہا کافی رقم تمہارے لئے جمع ہوگئی ہے ۔
ڈاکو نے کہا آپ خاموش رہیں آپ زیادہ سے زیادہ مجھے کورٹ لے جاسکتے ہیں وہ جو سزا تجویز کریں وہ مجھے منظور ہے مگر وہ میرا خون نہیں لے سکتے ۔ ڈاکو نے پوچھا یہ ہرے رنگ کی اوپل کس کی ہے ؟ ایک آدمی نے جواب دیا یہ میری ہے جناب ۔ ڈاکو نے اس سے کار کی چابی لی او رشمال کی طرف چل پڑا ۔ جب پُل تک پہنچا تو دیکھا کہ پل کے اوپر سے پانی بہہ رہا ہے ۔ کچھ دیر گاڑی کی چھت پر بیٹھا نظارہ لیتا رہا پھر واپس ہوا برسات بھی شروع ہوچکی تھی ۔ یہاں طعام گاہ میں پولیس آفیسر کو اپنے ہیڈ کواٹر سے فون آیا کہ کہیں ٹھہر جاؤ آگے پُل پر پانی بہہ رہا ہے پُل ڈوب گیا ہے ۔ پولیس آفیسر نے مسکرا کر سب سے کہا اب مزہ آئے گا ، آگے پُل ڈوب گیا ہے وہ یہیں آئے گا ۔ اتنے میں ڈاکو اندر آیا کار والے کو کار کی چابی واپس دی اور ڈاکٹر سے کہا اگر وہ عورت زندہ ہے تو میرا خون لے لیجئے ۔
ڈاکٹر نے اپنا کام بڑی خوش اسلوبی سے انجام دیا مریضہ ہوش میں آگئی کسی نے بچے کو نہلا کر اس کے پہلو میں لٹا دیا تھا برسات بھی تھم گئی ۔ پولیس کانسٹیبل نے ڈاکو سے کہا کہ تم ہماری آفر ٹھکرادی تھی اب خود آگئے اب تو رقم ملے گی نہ رہائی ۔ آفیسر نے بھی کہا بیوقوف آدمی تم نے رقم کیوں ٹھکرائی ، اور خون دینے سے انکار کیو ں کیا ؟۔
کہا آپ مجھے خون کی قیمت دے رہے تھے ، او رمیری رگ رگ میں دوڑنے والا خون میری ماں کی امانت ہے وہ میں کسی قیمت پر بھی فروخت نہیں کروں گا ۔ ہاں فری مانگتے تو میں دے دیتا جیسے اب دیا ہے ۔ ڈاکو نے سب کے بٹوے واپس کردیئے تھے لو گ طعام گاہ سے نکلنے لگے برسات تو رک گئی تھی ۔ پولیس والے بھی نکل گئے کانسٹیبل نے کہا وہ جس نے ریسٹورنٹ کو لوٹا تھا ۔ اور آپ کی سروس گن بھی چھین لی تھی ۔ آفیسر نے کہا چلو بیکار کی باتیں مت بناؤ گن تو یہ دیکھو میرے ہولسٹر میں ہے ۔ وہ کتنی بڑی بات کہہ گیا کہ خون میری ماں کی امانت ہے ۔ کیا ہم اس کے صلے میں اس کا یہ جرم فراموش کر کے اسے سدھرنے کا موقع نہیں دے سکتے ؟
قارئین کرام ہمارے ہاں نشئی لوگ خون فروخت کرتےہیں ان کا بھی ایک ایجنٹ ہوتا ہے اسے علم ہوتا ہے کہ کس میں کون سے گروپ کا خون ہے کچھ پیسے ایجنٹ لیتا ہے ، کچھ خون دینے والا اور کچھ خون لینے والا ٹیکنیشن لیتا ہے ۔ یہ خون کسی کام کا نہیں ہوتا مگر کیا کیا جائے اس وقت کراچی میں رقم کے بدلے خون نہیں ملتا خون کے بدل میں خون ملتا ہے ۔ یہ بڑا دشوار مرحلہ ہے ۔ بلڈ بینک والے کہتے ہیں دو تین جوانوں کو لاؤ وہ خون دیں تو بدلے میں خون ملے گا ۔ اس طرح لوگ مجبور ہوکر چرس او رہیروئن پینے والوں کو خون لیتے ہیں ۔ جو علماء اعضا ء کی منتقلی یا خون کا عطیہ دینے کے خلاف ہیں ۔ اگر ان کے کسی عزیز کے لئے خون درکار ہو اور خون مل جائے تو اللہ کا شکر ادا کریں گے اور خون دینے والا کا بھی ۔ وہ بھول جائیں گے کہ مودودی صاحب کا کیا فتویٰ ہے اور احتشام الحق صاحب کاکیا فرمان ہے ۔ رب کا ارشاد یاد رکھئے ۔ وَأَمَّا مَا يَنفَعُ النَّاسَ فَيَمْكُثُ فِي الْأَرْضِ (13:17)
زمین پر بقا ء صرف اس عمل کو حاصل ہے جو لوگوں کو فائدہ پہنچائے ۔
جنوری ، 2014 بشکریہ : صوت الحق، کراچی:
URL:
https://newageislam.com/urdu-section/human-organ-transplant-/d/76899