حسین امیر فرہاد
پاکستان اس وقت شہر نا پرسان بنا ہوا ہے ۔ اس کی وجہ ہماری سمجھ میں جو آرہی ہے ، وہ ہے ہمارا ‘‘ قانون ’’ ہمارا قانون ہے ترقی یافتہ او رمہذب قوموں والا اور ہم ابھی تک غیر مہذب طو ر پر زندگی گزاررہےہیں ۔ بقول حسن نثار صاحب ہم ‘‘ قوم نہیں ہیں ہجوم ہیں ’’ ہمیں ریوڑ سے تشبیہ دینا درست نہیں ہے ۔ کیونکہ چرواہے کی ایک سیٹی یا بے معنی آواز سے منتشر بھیڑیں اکٹھی ہو کر ریوڑ سے مل جاتی ہیں ، مگر ہمیں اللہ کی کتاب، رسول علیہ السلام کی ہدایات ، پولیس کی طاقت، رینجر کی گولی بھی قانون و اخلاق کے دائرے میں نہیں لاسکی ۔ ترقی یافتہ قوموں کی پولیس جائے حادثہ کے گرد ایک ٹیپ کھینچ لیتی ہے جس پر لکھا ہوتا ہے Police پبلک اس کے باہر کھڑی ہوتی ہے جیسے لو ہے کی باڑ کھینچی گئی ہو ۔ مجال ہے کوئی نزدیک جائے ۔ ایک ہم ہیں کہ ہمیں بنوں اور ڈیرہ اسماعیل خان کی جیلوں کی سلاخیں اور دیواریں بھی نہیں روک سکتیں ۔
جہاں لکھا ہو یہاں پیشاب کرنامنع ہے ، وہاں اگر پیشاب نہ کرے تو پھر پاکستانی نہ ہوا ۔ ہر جگہ لکھا ہوتا ہے ‘‘ پان تھوکتنا منع ہے ’’ میں نے ایک مضمون میں حکومت کو مشورہ دیا تھا کہ کراچی میں تمام سرکاری دفاتر کی دیواروں کو زمین سے پانچ فٹ تک کتھئی رنگ دیا جائے تاکہ پان تھوکنے کی گل کاری چھپ جائے ۔ کسی دفتر کی سیڑھیاں چڑھتے وقت دیکھئے تو کونوں پر اگالدان کاگمان ہوتاہے ۔ کیا یہ ہوتے ہیں مہذب قوموں کے طور طریقے؟ سڑکوں پر سپیڈ لیمٹ کے سائین بورڈ اول تو نظر نہیں آتے اس پر شباب لوٹانے والی دواؤں کے اشتہارات لگے ہوتے ہیں ۔ اگر وہ نظر آ بھی جائیں تو اسے کون خاطر میں لاتا ہے ۔ ایک شخص پٹرول پمپ پر پٹرول ڈلوارہاتھا، پمپ والے نے کہا سگریٹ بجھا دیجئے یہاں سگریٹ نوشی منع ہے ۔ سگریٹ پینے والے نے جواب دیا فضول بکواس نہ کر یہ کوئی مسجد نہیں ہے ۔
یہاں مہذب قوموں والا قانون اس طرح بے اثر ہے جیسے الیکشن میں کالے مسٹر لوبو کے انگوٹھے پر کالی سیاہی نظر نہیں آتی تھی تو پر یرزائڈنگ آفیسر نے اس کے لئے سفید رنگ کا انتظام کیا ۔ ضرورت ہے قوم کو دیکھ کر قانون میں تبدیلی کی جائے اور قانون کے نفاذ کو یقینی بنایا جائے ۔ انگریز نے بھی سخت جان قوم پشتونوں کے لئے فرنیٹر کرائم ریگولیشن قائم کیا تھا جو غالباً اب تک قائم ہے ۔ پورے ہندوستان میں ایک قانون اور N.W.F.P. میں دوسرا قانون ۔
سعودی عرب ، ملائشیا ، انڈو نیشیا اور سنگا پور میں منشیات فروشوں کے لئے موت کی سزا ہے ۔سعودیہ کو چھوڑکر باقی ملکوں میں ہماری طرح انگریزی قانون ہے مگر انہوں نے ترامیم کی اور اپنے ملک کے لئے جو قانون مفید پایا وہ لاگو کیا ۔ ایک ہم ہیں کہ ہم انگریز کے عطا کردہ قانون کو عطیہ خداوندی صحیفہ آسمانی اور مدینے کا سرمہ سمجھتے ہیں ، اس میں تبدیلی کا سوچ بھی نہیں سکتے ، یا ہوسکتا ہے کہ ہم نے انگریز سے آزاد ی حاصل کرتے وقت ڈرونز حملوں کی طرح کوئی زبانی معاہدہ کیا ہو کہ بے شک اگر ہم نے آپ کے دیئے ہوئے قانون میں ذرا سی تبدیلی کی تو آپ ٹرافلگر سوائر میں ہماری ننگی کمر پر کبوتر کے سامنے کوڑے برسائیں ، اگر ایسا کوئی معاہدہ ہے تو بے شک آپ اس معاہدے پر تھوک دیں، آخر پنڈت جواہر لال نہرو صاحب نے بھی کشمیر میں رائے شماری کےمعاہدے پر U.N.O. میں دستخط کئے تھے انہوں نے اور ان کے بعد جتنے سر براہ آئے سب نے باری باری اس معاہدے پر تھوکا ۔ کسی نے ان کا کیا ،کیا بگاڑا؟ ۔ خیر جن کی مثالیں میں نے دی وہ آزاد قومیں ہیں ، آزاد تو ہم بھی ہیں مگر ہمارے گلے میں انگریز کی غلامی کی ٹائی اب بھی بندی ہے ۔ خلیجی ریاستوں میں جہاز سے اتر کر اندر جاتے وقت ماہ رمضان میں ایک بورڈ سامنے رکھا ہوتا ہے اس پر لکھا ہوتا ہے کہ آپ مسلم ملک میں آئے ہیں یہاں رمضان کا مہینہ ہے اس میں کھلے عام خورد ونوش ممنوع ہے۔ یہ بھی انگریز کے قانون میں اضافہ ہے مگر ہر شخص کو اس کااحترام کرنا پڑتا ہے اور عربوں کو اس کی کوئی سزانہیں ملی ۔ کہ یہ نئی چیز کہاں سے لائے ؟ ۔
اسرائیل میں چاہے تل ابیب ہو، حیفا ہو، جنینہ ، طول کرم ، باب الخلیل یا بیت اللحم ہرجگہ اسرائیلی علاقہ میں راستورانت یوم السبت ( سنیچر) کے دن بند ہوتے ہیں اور کھلے عام سگریٹ پینا منع ہے صرف مسلمانوں کے منطقہ میں ہوٹل کھلے ہوتے ہیں ۔ سبت ان کا مقدس دن ہے ہر ایک احترام کرتا ہے ۔ یقین نہ ہو تو بند ر روڈ سیون ڈے ہسپتال جاکر خود دیکھ لیں ہر سنیچر کو دونوں کینٹین بند ملیں گے ۔ کیونکہ یہودوں کے ہاں سبت کے دن آگ جلانا منع ہے ۔ انہیں سبتین بھی کہتے ہیں یوم السبت Holy Saturday ان کا مقدس دن ہے ۔
یہ تمام تمحید اس لئے پیش کی کہ عید سے تین دن قبل لاہور میں دو بھتہ خور پکڑے گئے انہوں نے اعتراض بھی کیا ۔ یہ چونکہ ڈاکو فسادی تھے اللہ نے ان کے لئے سزا مقرر کی ہے دایاں ہاتھ بایاں پاؤں کاٹ کر انہیں سزا دی جائے ( 5:33) تاکہ دوسرے بھتہ خوروں کے دل میں ڈر پیدا ہوجائے ۔ آخر ہم قرآن کے منکر کو بھی قرآنی سزا دینے میں ید طولیٰ رکھتے ہیں ریمنڈ ڈیوس کو ہم نے سزادی تھی جب کہ وہ قرآن کو مانتا ہی نہیں تھا ۔ تو جو قرآن کو مانتا ہے اسے قرآنی قوانین کی سزا کیوں نہیں دی جاتی ۔
سعودیہ نے تیز رفتاری کو ختم کرنے اور گاڑیاں چلانے والوں میں ڈر پیدا کرنے کےلئے طائف اور مکہ کے درمیان پہاڑی راستے پر پتھر تراش کر چبوترے بنائے ہیں ان پر ایکسیڈنٹ شدہ گاڑیوں کو رکھا ہے ساتھ لکھا ہے ۔ فلاں تاریخ کو اس گاڑی میں فلاں بن فلاں مع بیوی بچوں کےسفر کرتے ہوئے ہلاک ہوئے تھے ۔ پسماندہ گان میں ایک بچی رہ گئی ۔ یہ پڑھنے کے بعد لوگ مرات، ریاض العفیف ، دو آدمی، الحساء تک اعتدال سے کار چلاتے ہیں ۔ ضروری ہے کہ غلط کام کرنے والوں کے دلوں میں جرم سے کراہت اور قانون کا ڈر پیدا کیا جائے ۔ یہی وجہ ہے کہ قطر میں اس وقت تک جرائم کی شراح بہت کم تھی جب تک مجرم کو شوٹ کر کے بعد میں اس کی لاش ایک گھنٹے تک سبز مارکیٹ میں پڑی رہتی تھی اب پتہ نہیں کیا ہے ۔ وجہ یہ ہے پرانے حاکموں کو زمین کھا گئی اب یورپ کے پرھے لکھے نوجوان حاکم بنے ہیں وہ اپنے وطن کو ویسے ہی بنانا چاہتے ہیں جہاں وہ رہ کر آئے ہیں ۔ کویت نے بھی اپنا پھانسی گھر ایسی جگہ قائم کیا ہے کہ ہر گزرنے والے کو نظر آتا ہے اور اس کا پتہ پانی ہوجاتا ہے ۔ وہ جب تک کویت میں رہتا ہے با لکل سیدھا رہتا ہے ۔ جرم کرنے کا خیال بھی دل میں نہیں لاتا ۔ اللہ تعالیٰ کا حکم بھی یہ بھی یہی ہے کہ سزا دیتے وقت عوام دیکھے ۔ ملاحظہ فرمائیے ۔
الزَّانِيَةُ وَالزَّانِي فَاجْلِدُوا كُلَّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا مِائَةَ جَلْدَةٍ وَلَا تَأْخُذْكُم بِهِمَا رَأْفَةٌ فِي دِينِ اللَّهِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَلْيَشْهَدْ عَذَابَهُمَا طَائِفَةٌ مِّنَ الْمُؤْمِنِينَ (24:2)
زانیہ اور زانی دونوں کو سو سو کوڑے مارو اور دین کے معاملہ میں تمہیں ان پر رحم نہیں کرنا چاہیے ۔ اگر اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہو اور چاہیے کہ دونوں کی سزا کے وقت مسلمانوں کی ایک جماعت موجود ہو۔
بڑا واضح بیان ہے رب کا ۔ سزا کے وقت مسلمانوں کی ایک جماعت موجود ہو۔ اس سے دوسروں کو عبرت ملتی ہے ۔
مگر کویت ایکسیڈنٹ شدہ کار او رمرنے والوں کی لاشیں ٹی وی پر نہیں دکھاتے ، میں نے پوچھا بھی تھا انہوں نے کہاکہ ایکسیڈنٹ شدہ کاریں اور مسخ شدہ لاشیں دکھا کر ہماری تیز رفتار زیر تکمیل پرو جیکٹوں کی تیاری میں تاخیر ہوتی ہے ۔ ہمیں ہر کام میں تیزی چاہیے ۔ مرنے والوں کا کیاہے یہ سب Foreigner ہیں کویتی تو ہیں نہیں مرتے ہیں تو مرنے دو آج نہیں تو کل مریں گے ۔ ہر ایک نے مرنا ہے جس ہمارا کام کر کےمرے۔
میں پھرکہوں گا کہ ہر قانون شکن جس کے دل میں قانون کا احترام نہیں اس کے دل میں قانون کا خوف بٹھا دیا جائے تو وہ ٹھنڈا ہوجائے گا۔ میں لاہور سے سپر ہائیوے پر ایک بس کے ذریعے پشاور جارہا تھا ، وہ بس کو چلا کیا اُڑائے لئے جارہا تھا ۔ کئی لوگوں نے پکار پکار کر کہا بھائی ذرا آہستہ آہستہ ، استاد ذرا آہستہ مگر وہ کسی کی نہیں سنتا تھا، بس ایسے چلارہا تھا جیسے کوئی چھوٹی کار ہوا اور ڈرائیور سرکس کا کھلاڑی ہو ۔ میں اس کے نزدیک بیٹھا تھا میں نے پستو میں پوچھا یہاں کہیں نزدیک ہسپتال ہے؟ کہا کیوں کیا ضرورت پڑ گئی؟ میں نے کہا ابھی ضرورت تو نہیں ہے مگر پڑ سکتی ہے ، یونہی پوچھ رہا ہوں ۔ کہا نزدیک ترین ہسپتال پنڈی میں ہے ۔ میں نے کہا یہاں تو ملٹری کا C.M.H. بھی ہے ۔ سنو دوست ! کیا فائدہ تمہاری آنکھ کھلے تو تم دیکھو کہ تمہاری ٹانگ ڈوریوں سےاوپر بندھی ہوئی ہے اور تمہاری پلنگ لوہے کی ہے ، چادر صاف ستھری ہے پلنگ کے ساتھ لوہے کی کبٹ بھی ہے جس میں کسی نے انگور لاکر رکھے ہیں اور تم نے لمبی پا پلین کی قمیض پہن رکھی ہے بغیر شلوار کے ۔ ساتھ والی پلنگ پر بھی کوئی لیٹا ہے اور وہ بھی لوہے کی ہے ۔ اور تم لیٹے ہوئے آدمی سے پوچھو یہ کون سی جگہ ہے ، میں کہاں ہوں ؟
وہ جواب دے گا آپ C.M.H. میں ہیں ، اللہ نے بڑا فضل کیا پوری بس میں تین آدمی ہلاک ہوئے ، تمہاری صرف ایک ٹانگ ٹولی ہے ایکسلیٹر والی باقی سب خیرت ہے ۔ اس نے مجھے خاموش کیا کہا مشرا اللہ سے خبر مانگو دعا کرو کہ ہم پشاور خیریت سے پہنچیں ۔ یا اللہ مدد فرما ۔ وہ پھر پشاور تک آیت الکرسی پڑھتا ہوا جا رہا تھا کہ مشرا ( بزرگو) تم نے مجھ کو ایسا سین دکھایا کہ مجھے بیوی بچے یاد آگئے ۔ میں نے کہا اگر میں دو تین سفر میں آپ کے ساتھ رہا تو تمہیں چٹھی کا دودھ بھی یاد آجائے گا ۔ اور جو میں نے یاد دلایا ہے وہ ضرور یاد رکھو .... لوہے کی پلنگ ..... بلو پا پلین کی قمیض .... لوہے کی چھوٹی سی الماری ...... اس میں انگور کا تھیلہ یہ چیزیں یادرہیں گی تو تمہارا سفر پشاور سے لاہور اور لاہور سے پشاور بغیر خطرے کے رہے گا ۔ اور تمہارے بچے کبھی غم زدہ نہیں ہوں گے ۔ کویت کے طویل سڑکوں پر جو عراق اور سعودیہ کو جاتی ہیں ان پر ایسے بورڈ نظر آئے جن پر لکھا ہوتا ہے ۔ لاتسرعہ الموت یسرعہ منک ۔ تیزی مت دکھا موت تم سے زیادہ تیز ہے ۔ جو ڈرائیور اپنے بچوں کو یاد رکھتا ہے وہ دوسرے کے بچوں کو بچا کر چلتا ہے۔
جنوری، 2014 بشکریہ : ماہنامہ صوت الحق ، کراچی
URL:
https://newageislam.com/urdu-section/disaster-became-our-destiny-/d/76885