حسین امیر فرہاد
اقوام کی زندگی میں مرکزیت نہایت اہم ہوتی ہے۔ جب انسانیت نے تہذیب و تمدن کا لبادہ اوڑھا تواس کی بقاء اور حفاظت کے لئے قوت و اقتدار لازمی گردانے گئے ۔ قوت و اقتدار کے لئے مرکز لازمی ہوتاہے جو اقوام کا دارالسطنت کہلاتاہے۔ دنیا جانتی ہے کہ قوموں کےعروج و زوال میں مرکز بڑا اہم کردار ادا کرتا ہے۔ بڑی سے بڑی سلطنت کو مغلوب کرنے کے لئے اس کا دارالخلافہ فتح کر لینا کافی ہوتا ہے ۔ یہ دارالخلافہ اینٹ اور پتھر کی عمارات کاہی مجموعہ ہوتاہے۔ مگر درحقیقت اس قوم کی قوت و اجتماعیت ، اس کے تہذیب و تمدن اور اس کی نظریہ زندگی اور نظام حکومت کا نشان ہوتا ہے اگر ا س کے اس مبینہ نشان میں زوال آجائے تو اس سے یہی مطلب لیا جاتاہے کہ اس کے نظریہ زندگی، تہذیب و تمدن اور نظام حکومت میں انحطاط واقع ہوگیا ۔ دنیا کی ہر محسوس اور غیر محسوس نظام کشش و جاذبیت اس کے مرکز کی طرف ہوتی ہے ۔ اگر یہ مرکزی کشش ختم ہوجائے تو پھر اس نظام کا شیرازہ بکھر جاتا ہے اور افراد ملت ، کشش و مرکزیت سے آزاد ریت کے ذروں کی مانند ہوا میں اڑتے پھرتے نظر آتے ہیں اور اس طرح اجتماعیت کی ساری قوت کھو بیٹھتے ہیں ۔
بنی نوع انسان پر اللہ کی حاکمیت ، اس کے عطاء کئے جانے والے ضابطہ حیات اور رشد و ہدایات کے لئے ایک مرکز ضروری تھا۔ چنانچہ بہ حکم رب العزت حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ہاتھوں دنیا کے بت کدوں میں یہ اللہ کا گھر یعنی الہٰی حاکمیت کامرکز جسے کعبہ کہا گیا وجود میں آیا اور جس کا مقام مکہ ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ذریعہ اعلان کروا دیا گیا کہ ساری دنیا کی انسانیت کا یہی مرکز امن و سلامتی کا گہوارہ ہے اور اسی میں تمام بنی نوع انسان کو داخل ہونے کی ہدایت کی گئی۔ کسی خاص قوم یا گروہ کےلئے یہ اعلان نہیں تھا بلکہ ساری انسانیت کے لئے تھا ۔جَعَلَ اللَّهُ الْكَعْبَةَ الْبَيْتَ الْحَرَامَ قِيَامًا لِّلنَّاسِ (5:97) فرمان رب ہوا کہ کعبہ کو ہم نے واجب الاحترام بنایا تاکہ انسانیت کا قیام ہو ( وہ اپنے پیروں پر کھڑی ہوسکے)۔ چاہے وہ دنیا کے کسی گوشہ میں آباد ہوں اور یہ اعلان قیامت تک کے لئے جاری ہے جو ضابطہ حیات انسانیت کی سر بلندی کے لئے دیا جانا تھا اس کی تکمیل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کےذریعہ قرآن مجید میں کرد ی گئی جواحکامات الہٰیہ اور رشد و ہدایت کا سرچشمہ ہے۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام نےکعبہ کی تولیت کےلئے اپنے بڑے فرزند حضرت اسماعیل علیہ السلام کو وقف کردیا او ریہی وہ عظیم قربانی ہے جس کا ذکر قرآن میں کیا گیا ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دوسرے فرزند حضرت اسحاق فلسطین ہجرت کر گئے تھے جہاں ان کی اولاد کے حصہ میں رسالت رہی جو بعد میں بنی اسرائیل کہلائے اور جنہوں نے یروشلم کے بیت المقدس کو اپنا قومی مرکز بنایا۔ یہودیوں کامذہب قومی تھا اس لئے ان کا مرکز بیت المقدس بھی قومی رہا۔ برخلاف اس کے اسلام بنی نوع انسان یعنی دنیا کی ساری انسانیت کےلئے نظام زندگی کا اعلان تھا، جس کے لئے اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ہاتھوں اس کے مرکز کی بنیاد رکھ دی تھی جس کو ساری انسانیت کےلئے امن اور سلامتی کا ضامن ٹھہرایا۔ اس مرکز کا مقام مکہ تھا اور اس مرکز کوکعبہ کہا گیا اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ذریعہ یہ اعلان کروایا گیا کہ جو بھی اس نظام زندگی کو اپنانا چاہے وہ اس مرکز یعنی بیت الحرام میں داخل ہوجائے ۔ اس طرح بیت الحرام کویہودی مذہب سے بہت قبل عالم انسانیت کی اجتماعیت اور اللہ کی حاکمیت کامرکز اور امن و سلامتی کامقام بنا دیا گیا۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں پیدا ہوئے ۔ یہیں سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کاآغاز ہوا۔ یہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رفقائے کارکی جماعت تیار کرلی تھی اور اسی مقام پر عالم انسانیت کامرکز بھی واقع تھا جو اس وقت قریش کے قبضہ و تصرف میں تھا۔ جس کو قریش نےبتکدہ بنایا ہوا تھا ۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ فرض بھی عائد تھا کہ وہ دین ابراہیمی علیہ السلام کو فروغ دیں ، اللہ کی حاکمیت قائم کریں اور کعبہ میں ساری انسانیت کا اجتماع کریں ۔
مکہ میں رہتے ہوئے اس مرکز دین پرمکمل قبضہ و تصرف حاصل کرنا ایک مشکل امر تھا ۔ اس امر کے لئے یہ ضروری تھا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ سےباہر کسی اور مقام پر اللہ کی حاکمیت اور اسلامی مملکت قائم کریں اور بعد حصول قوت و اقتدار مکہ پر قبضہ و تصرف حاصل کریں ۔ اسی غرض وغایت کے لئے اللہ کے پروگرام کے تحت وہ واقعہ عظیم عمل میں آیا جس کو ہجرت کہتے ہیں جس کا ذکر سورۃ اسریٰ کی ابتدائی آیات میں کیا گیا ہے اور جس کی اہمیت کے باعث ہی اسلام میں سن ہجری کا آغاز ہوا۔ جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پروگرام پر عمل در آمد فرما لیا اور مدینہ میں حکومت الہٰیہ قائم کردی تو یہ حقیقت انسان آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں بار بار یہ خیال آتا تھاکہ یہ کیسے ممکن ہوسکتا تھا کہ اس نظریہ و نظام یعنی اسلام کا مرکز تو کعبہ ہو اور وہ مخالفین اسلام کے قبضہ و تصرف میں ہو۔
جب مدینہ میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکومت الہٰی قائم کردی تو ا س وقت وہاں یہودی بکثرت آباد تھے اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کو بنی اسرائیل کی نبوت و رسالت کی کڑی ہونے پر زور دیتے تھے اور پھر اعتراض کرتے تھے کہ بیت المقدس کی موجودگی میں کعبہ کو کیوں اپنا مرکز اور قبلہ بنایا گیا ۔ بناء بریں سورۂ البقرہ کی آیات نمبر 142 تا 144 نازل ہوئیں جس میں صریحی طور پر کہہ دیا گیا کہ یہ یہودیوں کی جہالت اور نادانی ہے۔ بیت المقدس یہودیوں کا قومی مرکز ہے اور اسلام کی دعوت نوع انسانی کو ایک مرکز پر جمع ہونے کی دعوت ہے۔ظاہر ہے کہ اس عالمگیر دعوت کا مرکز وہی ہوناچاہئے جو مشرق و مغرب یعنی ساری دنیا کو محیط ہو نہ کہ وہ جو کسی خاص قوم یا نسل کامرکز ہو۔ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مخاطب ہوکر فرمایا کہ ‘ ‘تمہارے دل میں جو یہ آرزو بار بار ابھر رہی ہے کہ اس مرکز پر قبضہ و تصرف تمہارا ہونا چاہئے ۔ تو ایسا ضرور ہوکر رہے گا۔ اس دوران تم اپنی ساری توجہ اسی طرف مرکوز اور اپنی سعی وکاوش اسی آرزو کو پورا کرنے کےلئے مختص کردو۔’’ دنیا اس کی شاہد ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے رفقاء نے ساری قوت کو مجتمع کیا اور آخر کار مکہ پر فتح حاصل کرلی۔
کعبہ کی طرف رخ کرنے کا مفہوم ایسا ہے جیسا کہ کہا جاتاہے کہ ہر اشترا کی کا رخ ماسکو کی طرف ہوتا ہے۔ گویا وہ اپنی زندگی اس مشن کی کامیابی کےلئے صرف کردیتا ہے ۔ اسی طرح مومن کا شعار بھی یہی ہوتا ہے کہ وہ اپنا رخ کعبہ کی طرف رکھے یعنی قرآنی نظام حیات کے پروگرام کی تکمیل اس کا مقصود حیات ہو۔ اس میں انہیں کامیابی حاصل ہوئی ۔ زندگی گزارنے کے لئے اللہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن نازل فرمایا۔ ( قَدْ جَاءَكُم مِّنَ اللَّهِ نُورٌ وَكِتَابٌ مُّبِينٌ ، يَهْدِي بِهِ اللَّهُ مَنِ اتَّبَعَ رِضْوَانَهُ سُبُلَ السَّلَامِ وَيُخْرِجُهُم مِّنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ بِإِذْنِهِ وَيَهْدِيهِمْ إِلَىٰ صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ ) (5:15:16) ۔
تمہارے پاس اللہ کی طرف سے روشنی آگئی اور ایک ایسی حق نما کتا ب جس کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو جو اس کی رضا کے طالب ہیں سلامتی کے طریقے بتاتا ہے اور اپنے حکم سے ان کی سیدھی راہ کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔
شاہرا ہ حیات پر سفر کے لئے اور کیا چاہئے ، روشنی بھی آگئی اور رہنمائی کے لئے کتاب بھی ۔ حق تو یہ تھا کہ ہم وحی کی اس روشن مشعل کو لے کر بلا خوف و خطر زندگی کا راستہ طے کرتے، گمراہ کرنے والوں کی آوازوں پر کان نہ دھرتے مگر ایسا نہ ہوا ہمیں جس نے غلط راہ کی طرف پکارا ہم اُسی کے ہولئے۔ یہ بھی بھول گئے کے رب سے کُشتی ، زور آزمائی یا پنجہ آزمائی کہتے ہیں ۔
مثلاً رب نے بیت المقدس کے بارے میں واضح طور پر فرمایا ۔ إِنَّ أَوَّلَ بَيْتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِي بِبَكَّةَ مُبَارَكًا وَهُدًى لِّلْعَالَمِينَ ( 3:96) سب سے پہلا گھر ( قبلہ اوّل) جو لوگوں کے لئے بنایا گیا ۔ وہ گھر ہے جو مکّہ میں ہے، برکت والا، ہدایت والا، ہدایت گاہ ہے پورے عالم کےلئے۔ یہ بڑا واضح بیان ہے اوّل تو ہماری زبانوں میں بھی اوّل ہی ہوتاہے یعنی ‘‘پہلا’’ (First)اسے تو نو مسلم بھی اوّل ہی سمجھے گا مگر جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے ۔ باغ تو سارا جانے ہے۔ بیت المقدس کے بارے میں قبلہ اوّل کا تصور یہودی سازش کا نتیجہ ہے ۔ دین سے ناواقف لوگ اسے قبلہ اوّل کہتے ہیں ۔ اس کعبہ ابراہیمی قبلہ دوم، ہوجاتا ، یہی یہودی چاہتے تھے اور انہیں کامیابی ہوئی وضعی روایات سے۔ رب کا فرمان آپ نے ملا حظہ فرمالیا۔ کہإِنَّ أَوَّلَ بَيْتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِي بِبَكَّةَ مُبَارَكًا ۔ مگر رہنمائی کے دعویدار بضد ہیں میڈیا پر بھی یہی پرچار کررہے کہ قبلہ اوّل قدس میں ہے قبلہ ابراہیمی علیہ السلام جومکہ مکرمہ میں ہے۔ وہ نہیں ہے۔ تو اسے کہتے ہیں قرآن سے پنجہ آزمائی۔
بلا شبہ یہ تو جلد یا بدیر دنیا سے چلے جائیں گے مگر یہ رہنماء ہیں ان کے پیچھے انہیں ماننے والوں کا لشکر جو بھٹک جائے گا انہیں کون راہ راست پر لائے گا۔ ماجھی جب ناؤ ڈبوئے اسے کون ترائے۔
(1) ہمارے زعماء کو دیکھئے کہ کچھ عرصہ پہلے یعنی 9 جولائی 2003ء کو ( جیو چینل) پر مباحثہ ہورہا تھا جس میں جنرل (ر) حمید گل صاحب اور مشاہد حسین صاحب کو مدعو کیا گیا تھا ۔ مشاہد حقین صاحب نے کہا کہ ہم تمام مسلمانوں کے ساتھ ہیں ۔ ہم کسی طور پر اسرائیل کو تسلیم نہیں کریں گے ( وہ مسلمانوں کا قبلہ اوّل ہے)
(2)جنرل حمید گل صاحب نے فرمایا کہ ہم کیسے اسرائیل کو تسلیم کرلیں وہ مسلمانوں کا وطن وہاں قبلہ اوّل ہے اگر ہم اس سے دست بردار ہوگئے تو ہمیں ایک دن حرمین کو بھی چھوڑ ناپڑے گا۔
(3) لیاقت بلوچ صاحب نے 17 جولائی، 2006 کو یہی بات کہی کہ ہم قبلہ اوّل کو کیسے فراموش کریں؟۔ قرآ ن سے نابلد حضرات بیت المقدس کو قبلہ اوّل کہتے ہیں ۔ بیت المقدس کبھی بھی مسلمانوں کا قبلہ نہیں رہا نہ اوّل نہ ثانی اور نہ ثالث۔ بے شک یہ انبیاء علیہ السلام کا گہوارہ ضرور ہا ہے۔ مگر قبلہ اوّل نہیں ہے۔
(4) اب 2014۔08۔09 کو امیر جماعت الاسلامی سراج الحق صاحب نے کپیٹل ٹی وی سے پروگرام ( عوام) میں فرمایا کہ نہیں دس کو تو ہم عمران خان کا ساتھ نہیں دے سکتے کیونکہ ہمارا اپنا پروگرام ہے قبلہ اوّل کے بارے میں ۔ یہ ہیں زعماء جو رہنماء کہلاتے ہیں ان کی غلط تعلیمات قرآن سے پنجہ آزمائی نہیں تو اور کیا ہے ۔ کہ فرمارے ہیں اور عبدالرب کچھ ۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دور ہمایونی میں ہجرت سے پہلے اگر کوئی مسجد تھی تو وہ یثرب تھا جو بعد میں مدینۃالنبی صلی اللہ علیہ وسلم کہلایا یہاں مکاوی تجار کی آمد و رفت رہتی تھی لوگ ایمان لائے تھے حضرت ایوب انصاری رضی اللہ عنہ جیسے لوگ وہاں رہتے تھے یہی وجہ تھی کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی اور طرف ہجرت نہیں فرمائی مدینے تشریف لے گئے ۔ یہ بھی یاد رہے کہ فتح مکہ کے بعد نہ تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم مکہ منتقل ہوئے اورنہ ہی صحابہ کرام میں سے کوئی دوبارہ مکہ میں آباد ہوا۔
عالم اسلام میں یہ نعرہ کہ بیت المقدس ( فلسطین) ہمارا قبلہ اوّل ہے کہا ں تک درست ہوسکتا ہے! رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا بیت المقدس کی طرف توجہ کرنا یا نماز میں اس طرف رخ کرنا سب یہودیوں کی وضعی روایات ہیں ۔ اگر بیت المقدس کو آج مسلمان قبلہ اوّل مانتا ہے تو گویا اللہ کامقرر کردہ بنی نوع انسان کی اجتماعیت کا مرکز جس کا قیام حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ہاتھو ں بحکم اللہ عمل میں آیا تھا یعنی کعبہ قبلہ دوم قرار پایا۔ کیا ایسا تصور و خیال نص قرآن او رمنشا ئے الہٰی کے خلاف نہیں ہے ! کیا اسلام کا ماخذ یہودیت ہے! یہ امر صاف مظہر ہے کہ مسلمانوں میں جب انحطاط آیا اور اللہ کے عطاء کردہ نظام حیات اور احکام و قوانین میں ملاوٹ ہونے لگی تو یہودیوں نے اس سے خوب فائدہ اٹھایا اور مسلمانوں کے عقائد اور تصورات میں شگوفے مرتسم کردیئے جن کو آج تک تمام عالم اسلام اپنے سینوں سے لگائے پھرتا ہے ۔ یہ اسی طرح ہے جیسے بیت المقدس میں دوران نبوت مسجد اقصیٰ کے وجود کا تصور حالانکہ بیت المقدس حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں فتح ہوا۔ اس وقت وہاں کوئی مسجد ہی نہ تھی ۔ عبدالملک بن مروان نے سن 72 ھ مطابق 691 ء عیسوی میں اس مقام پر جہاں حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے نماز ادا کی تھی ایک مسجد تعمیر کروائی جسے مسجد اقصیٰ کا نام دیا گیا اور جو آج تک اسی نام سے مشہور ہے۔ قرآن میں بیان کردہ مسجد اقصیٰ سے مراد عبدالملک بن مروان کی بیت المقدس میں تعمیر کردہ مسجد نہیں بلکہ مدینہ کا اسلامی مرکز ہے۔
جب سراج الحق صاحب سے کیپٹل ٹی وی اینکر خصوصی بات چیت کررہے تھے تو پوچھا آپ کیا چاہتے ہیں؟ تو سراج الحق صاحب نے جواب دیا کہ ہم جمہوریت کی بقا ء چاہتے ہیں ۔ مشاہد حسین صاحب یا جنرل (ر) حمید گل اپنے فن اپنے سبجیکٹ میں ماہر ہوں گے دین کی معلومات واجبی ہوں گی مگر سراج الحق صاحب کا تو سبجیکٹ دین اور قرآن ہوگا وہ کیسے قرآن کریم کی آیت ( انعام 116) کو پھلانگ گئے ۔ ( میرا خیال ہے تمام پارٹیوں کے عہدے لیاقت کی بنا پر تقسیم نہیں ہوتے خدمات ہوں گی جیسے جلسے جلوس میں شامیا نے کھڑے کرنا، پیاسوں کے لئے پانی کا انتظام کرنا وغیرہ وغیرہ) ورنہ سراج الحق صاحب یہ جواب نہ دیتے کہ ہم جمہوریت کی بقاء چاہتے ہیں جمہوریت ( کثرت رائے) کے خلاف قرآنی آیت ملاحظہ فرمائیے۔
وَإِن تُطِعْ أَكْثَرَ مَن فِي الْأَرْضِ يُضِلُّوكَ عَن سَبِيلِ اللَّهِ (6:116)
( اے نبی) اگر تم اکثریت کے پیچھے چلوگے تو زمین پر اکثریت تو گمراہوں کی ہوتی ہے وہ تمہیں بھی گمراہ کردیں گے۔
ہمارے سارے مولانے حضرات جمہوریت کی نیلم پری جان دیتے ہیں، اس کی ایک جھلک پر فدا ہیں ان کے لئے کرنے کا کام یہ ہے کہ سب مل کر اس آیت کو قرآن کریم سے نکال باہر کریں پھر جو کچھ جی میں آئے کرتے پھریں۔ علامہ کہتے ہیں کہ جمہوریت میں کھوپڑیاں گنی جاتی ہیں ان کے اندر دماغ نہیں دیکھے جاتے۔ جمہوریت میں کثرت رائے کو آئین اور قانون بنانے کا حق دیا جاتاہے۔ مثلاً برطانیۃ العظمہ ، کینیڈا اور ساؤتھ افریقہ میں اغلام بازی کو قانونی شکل دی گئی ہے تین شرطیں رکھی ہیں ۔ مفعول لڑکا بالغ ہو، رضامندی سے ہو اور شارع عام نہ ہو۔ یہ دارالامراء دارالعوام اور پارلیمنٹ کے ممبران کی کثرت رائے نے جائز قرار دیا ہے، بغیر یہ دیکھے کہ مذہب کا کیا حکم ہے؟ کل اگر ایک دو ممبران کی رائے اغلام بازی کے خلاف ہوگئی تو اغلام بازی پربرطانیہ ، کینڈا ، اور ساؤتھ افریقہ میں پابندی بھی لگ سکتی ہے۔ یہ ہے مغربی جمہوریت کی ساحری ، جبکہ دین میں فوقیت اللہ کے کلام کو حاصل ہوتی ہے طاقت کا سر چشمہ عوام نہیں ہوتے ۔ ایک بار جے سالک نے بھری اسمبلی میں کہا تھا کہ خدا اور خدا کے بیٹے نے فرمایا ہے..... سارے مولوی حضرات باہر نکل آئے۔ میں نے لکھا تھا ہو ر گنّے چوپو! آخر آپ لوگوں نے غیر مسلم کو اسمبلی میں بھیجا ہی کیوں؟ اب بھگتو وہ تو بیٹے کے علاوہ پوری فیملی کا ذکر کرے گا۔
جہاں قرآن کے مطابق آئین بنتا ہے وہاں وہ کیوں جائے جس کا قرآن پر ایمان ہی نہ ہو۔ غیر مسلموں کو چاہئے کہ اپنے مطالبات مسلم نمائندے کے گوش گزار کریں وہ پھر ان کے حقوق کے لئے اسمبلی میں لڑے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کا منشور ہے ۔
(1) اسلام ہمارا دین ہے (2) سوشل ازم ہماری معیشت ہے (3) طاقت کا سر چشمہ عوام ہے۔
اگر اِن میں سے پاکستان پیپلز پارٹی کا کوئی ممبر ایک بھی انکار کرے تو وہ ممبر نہیں رہ سکتا ۔ تو کیا ڈاکٹر کھٹومل رکن ضوبائی اسمبلی ( سندھ) ا س منشور کو مانتا ہے کہ اسلام ہمارا دین ہے؟ ۔ کچھ پتہ نہیں کون کیا کررہا ہے ۔ جب ہی تو میں کہہ رہا ہوں کہ ( گدلا پانی ہے اور اندھی مچھلیاں ) یوں لگ رہاہے دین کے ساتھ فٹبال کھیلا جارہا ہے۔
قارئین کرام میں اپنے موضوع سے ہٹ گیا ہوں۔ قرآن کا حکم ہے ۔ ( اے نبی ) اگر تم اکثریت کے پیچھے چلوگے تو زمین پر اکثریت تو گمراہوں کی ہوتی ہے وہ تمہیں بھی گمراہ کر دیں گے۔ اور اسمبلی ممبران چاہے وہ حزب اقتدار میں ہوں یا اختلاف میں ، علما ہوں یا غیر علماء سب ہی جمہوریت کی بقاء چاہتے ہیں اس کی کمزوری پر فکر مند رہتے ہیں سب ہی اس غم میں گھلے جارہے ہیں کہ کہیں جمہوریت پٹریوں سے اتر نہ جائے۔ یہ قرآن سے پنجہ آزمائی اور دست و گریبانی نہیں تو اور کیا ہے؟
یہ سطور لکھ ہی رہا تھا ( 2014۔08۔10) بعد دو پہر ۔ کہ وزیر اعظم صاحب کے مشیر خاص عرفان صدیقی صاحب کیپٹل ٹی وی کی اسٹیج پر تشریف لائے ۔ اس وقت میز بان نسیم زہرہ صاحبہ تھیں مشیر خصوصی نےبھی جمہوریت کے بارے میں نیک خواہشات کا اظہار کیا او رکہا کہ دعا ہے یہ سلطنت قائم رہے وغیرہ وغیرہ ۔ لیجئے مشیر خاص کو بھی علم نہیں کہ یہ بادشاہت ہے یا جمہوریت ۔
سلطنت کا لفظ حفیظ جالندھری مرحوم نے ترانے میں استعمال کیا تھا نہ انہیں علم تھا اور نہ کسی اور کو محسوس ہوا، ورنہ اعتراض کرتا، یہ عربی لفظ ہے سلطنت کا ایک سلطان ہوتا ہے اگر پاکستان سلطنت ہے تو اس کا سلطان کون ہے؟ ۔ بات وہیں کنگڈم تک آجاتی ہے۔ سلطان کے بعد سلطان کا بیٹا سلطان ہوتا ہے۔ اگر بیٹی ہوتو وہ بھی رضیہ سلطان بن سکتی ہے۔ مگر یہ کسی کے باپ کی جاگیر یا سلطنت نہیں ہے۔ سلطنت کا ترجمہ ہے ۔To Proclaim Sultan قرآن کریم میں طاقت اور اتھارٹی کوبھی کہا گیا ہے ۔ اتھارٹی پاور۔ سورۃ رحمٰن ۔ میں فرمایا ۔ يَا مَعْشَرَ الْجِنِّ وَالْإِنسِ إِنِ اسْتَطَعْتُمْ أَن تَنفُذُوا مِنْ أَقْطَارِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ فَانفُذُوا ۚ لَا تَنفُذُونَ إِلَّا بِسُلْطَانٍ ( 55:33) گروہ جن والس اگر تم میں ہمت ہو کہ تم اقطار السماوات کی حدود میں سے نکل کر دکھاؤ مگر ایسا تم نہیں کرسکتے طاقت کے بغیر ۔ اگر کیپٹل ٹی وی والوں کا ارادہ ہوکہ پاکستان کو سلطنت میں تبدیل کردیا جائے پھر تو رہنے دیں ورنہ ان الفاظ کو بدل دیں۔ کسی سلطان کے پایہ تخت کو دارالسلطنت کہتے ہیں اور خلیفہ کے مرکزی مقام کو دارالخلافہ پاکستان کے کیپٹل کو دارالحکومت کہتے ہیں ۔ آج کل وزیر اعظم نواز شریف صاحب کو حزب اختلاف والے بادشاہ اور اس کی حکومت کو بادشاہت کہتے ہیں ۔ وہ کوشش کررہے ہیں کہ یہ سلطنت ہے۔ ہمارا ہر ٹی وی چینل کہتا ہے بھارت کے دارالخلافہ دہلی میں ........ دہلی اگر دارالخلافہ ہے تو خلیفہ کون ہیں؟۔ اسلام آباد کو دارالخلافہ یا دارالسلطنت کہنابھی جائز ہے۔ کیونکہ نہ پاکستان میں خلیفہ راج ہے ا ور نہ کسی سلطان کا دارالسلطنت ہے۔ یہ ایک جمہوری ریاست ہے اور دارالحکومت اسلام آباد ہے۔ جہاں نہ اسلام کہیں نظر آتاہے اور نہ جمہوریت۔
نومبر، 2014 بشکریہ : ماہنامہ صوت الحق ، کراچی
URL:
https://newageislam.com/urdu-section/disagreement-with-quran-e-kareem/d/101039