حسین امیر فرہاد
اگست، 2013
ماہنامہ ‘‘پیام’’ اسلام آباد کی اشاعت مئی 2013 میں طلاق خلع کے عنوان سے ایک مضمون شائع ہوا ہے لکھنے والے ہیں علامہ حسین نقوی صاحب جو شعبہ تحقیق کے ڈائر یکٹر ہیں ( کہاں پتہ نہیں )یہ دعویٰ بھی کیا گیا ہے کہ اُمید ہے یہ مضمون بہت سی گتھیوں کو سلجھانے کا باعث بنے گا۔ یہ دعویٰ تو سراسر غلط ثابت ہوا معاملہ مزید الجھ گیا ہے۔ عربی زبان میں علامے دو قسم کے ہوتے ہیں ایک تو نشان کو علامۃ کہتے ہیں مثلاً میرے معلم نے کتاب میں درس کے خاتمے پر مور کا پررکھا تھا وہ میں نے نکال لیا وہ جب درس دینے آیا تو دیکھا کہ (نشان )مور کا پر کہیں اور رکھا ہے۔ اسی لئے اس نے پکا رکر کہا ‘‘ من لغیر العلامہ ’’ کس نے نشان کی جگہ بدل دی ہے ۔ یا ہم کہتے ہیں اس لاش پر چھری کے زخموں کے علامات تھے ۔ Trade mark کو عربی میں علامۃ التجاریۃ ۔ کہتے ہیں ۔ علامہ کے دوسرے معنی ہیں علم ( جاننے) کے ماہر ۔ علامہ صاحب کا یہ بھی پتہ نہیں چلا کہ علامہ حسین نقوی صاحب کس شعبہ میں ماہر ہیں ۔ وجہ یہ ہے کہ بیس صفحے کا مضمون ہے اور دو کامل صفحے منابع و مصادر ( ماخذات) کے ہیں۔ جو صاحب کسی مضمون کی شہادت میں دوسروں کے حوالے پیش کرتا ہے وہ لائبریرین تو ہو سکتا ہے علامہ نہیں ۔
فرماتے ہیں اسلام جو کہ شرف و کرامت کی بنیاد پر قائم ہے مرد او ر عورت کو ایک ہی نظر سے دیکھتا ہے ،دونوں کے حقوق کی بات کرتا ہے، کسی پر ظلم روا رکھنے کا قائل نہیں ہے۔ دوسری طرف ہم دیکھتے ہیں کہ طلاق کا اختیار سو فیصد شوہر کے ہاتھ میں ہے؟ جب تک شوہر طلاق نہ دے بیوی جلتی او ر نبھاتی رہے ، بہت سے افراد کایہی خیال ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ اسلام کی نظر میں اس مرض کی کوئی دوا نہیں ہے۔ درحقیقت یہ طرز فکر قطعی طور پر اسلامی اصولوں کے منافی ہے ۔ جو دین ہمیشہ عدل کا دم بھر تاہے قیام بالقسط یعنی انصاف کا قیام اپنا نصب العین اور تمام انبیاء کا اساسی دستور بتاتا ہے وہ ایسا کیونکر کر سکتا ہے ۔ کیا ایسا ممکن ہے کہ اسلام اپنا قانون اس انداز سے وضع کرے کہ جس کے نیتجے میں ایک انسان پھنس جائے اور پھر کبھی اس سے نہ نکل سکے ۔
ملاحظہ فرمایا کتنا دلچسپ موضو ع ہے ہر ایک کی خواہش ہوگی کہ ا س کا حل موصوف کیا بتاتے ہیں مگر آپ حیران ہوں گے پیاز ہے چھلکا اتار تے جائیے آخیر میں ہاتھ کچھ نہیں آئے گا۔ اگاتھا کرسٹی کے ناول میں یہ بات تو ہوتی ہے کہ 200 صفحوں کا ناول پرھئے پتہ نہیں چلے گا کہ مرڈرکس نے کیا، مگر آخر کے دو صفحوں میں پتہ چل ہی جائے گا کہ قاتل کون تھا ، مگر اس مضمون میں کوئی پتہ نہیں چلے گا کہ حل کیا ہے۔ اتنا ہے کہ فقہاء علماء اور اماموں کی ڈھیری لگادی ہے کہ فلاں نے اس بارے میں کیا کہا ہے ، فلاں کی کیارائے ہے ۔ بھائی فلاں اور فلاں کو چھوڑ ئیے آپ اپنی تحقیق بتائے کہ آپ کس نتیجے پرپہنچے ہیں ۔ میرا خیال ہے کہ یہ مضمون کسی دوسری زبان سے اردو میں ترجمہ کیا گیا ہے۔ کااردو میں ترجمہ کرنے والے کو ہر دو زبانوں پر عبور ہونا چاہیے۔ مثلاً شیکسپیر کی کتاب کی جو آب و تاب ہے وہ انگریز ی میں ہے بلکہ وہ انگریزی ادب کا شاہکار ہے ۔ اسے اردو میں منتقل کر لیجئے تو بچوں کی کہانیاں بن جائیں گی۔
اول تو یہ ذہن نشین رہے کہ زن و شوہر کی علیحدگی کو قرآن طلاق کہتا ہے خلع نہیں یہ لفظ قرآن کریم میں ایک ہی جگہ ہے۔ فَاخْلَعْ نَعْلَيْكَ إِنَّكَ بِالْوَادِ الْمُقَدَّسِ طُوًى (12۔20)جو تیاں اتار دو تم وادی مقدس میں آگئے ہو۔ اس کے علاوہ کہیں یہ لفظ نہیں ہے۔ اخلہ سبیلیہ الیٰ مسجون۔ To releases open the way for prisoner قیدی کو رہا کردو To let go جانے دو، نکال دو۔آزاد کردو۔ یہ تمام معنی خلع کے بنتے ہیں مگر قرآن کریم میں زن و شوہر کی علیحدگی کے لئے طلاق آیا ہے نہ کہ خلع۔ رب نے طلاق مرتٰن یعنی دو مرتبہ کی رعایت دی ہے۔ انسانوں نے رب کی عطا کردہ رعایت ٹھکرادی ۔ اور دو یا تین مرتبہ کا کام ایک ہی مرتبہ میں نمٹادیا ۔ اگر ڈاکٹر کسی مریض کو دو ادے اُس بوتل میں جس پر خوراک کا نشان لگا ہوتا ہے ا ور کہہ دے (ثلاثہ جرعات فی یوم واحد)تین خوراک ایک دن میں تو اس کا مطلب ہے آپ کو یہ دوا ایک ہی بار حلق سے نیچے اتار نا منع ہے بلکہ آپ نے دن کو تین حصوں میں تقسیم کرکے ایک ایک خوراک لینی ہے۔ نہ کہ ایک ہی بار تین خوراک لینی ہے۔ اگر ایک بار لی تو ایک ہی خوراک شمار ہوگی۔
طلاق مرتٰن کا یہ مطلب کہاں سے نکلتا ہے کہ آپ ایک ہی نشست میں تین طلاق دےکر فارغ ہوجائیں، نہ تو ڈاکٹر نے ثلاثہ جرعات بالمرۃ ( تین گھونٹ ایک ہی مرتبہ) کہا ہے۔ او رنہ رب نے الطلاق بالمرۃ ( طلاق ایک ہی مرتبہ کہا ہے) لیکن ہمارے ملک کا اصول یہی ہے کہ یہ جادوئی لفظ منہ سے نکلا بیوی ہاتھ سے ۔ طلاق کا معنی ہیں چھوڑنا یا آزاد کرنا میں جب عرب فورس میں تھا تو سال میں دو بار چاند ماری کے لئے جانا ہوتاتھا ۔ ہمیں دو قسم کے حکم ملا کرتے تھے ۔ خمسہ رمی راقدً اطلاق طلقہ طلقہ علی ھدف ۔ پانچ گولیوں کو لیٹ کر طلاق دو یعنی آزاد کردو ( طلقہ طلقہ)ایک ایک کرکے ھدف پر ۔ سٹین گن میں 32/30 گولیاں ہوتی تھیں ۔ 32 گولیوں سے یک بارگی جان چھڑا نے والے کو سزا اور برخواست بھی کیا جاتا تھا ۔ دوسرا حکم ہوتا تھا ۔ خمسہ رمی راقدً اطلق سریع بالمرۃ علیٰ ھدف۔ یعنی پانچ گولیوں کو طلاق دو، لیٹ کر سرعت سے ایک ہی بار ھدف پر چھوڑ دو۔
جس نے طلقہ طلقہ کے حکم ملنے پر ایک ہی بار ساری بندوق خالی کردی اسے فیل کردیا جاتا تھا ، جو اللہ کی طرف سے دو بار کی رعایت قابل توجہ نہیں سمجھتا ایک ہی بار تین طلاق کہہ کر اسے تین طلاقیں سمجھ کر بیوی کو فارغ کردیتا ہے۔ وہ کیسے پاس ہوسکتا ہے؟ ۔ پریزائیڈ نگ آفیسر کو لینڈیڈیٹ سے اس قسم کے سوالات پوچھنے چائیں نہ کہ مردہ کیسے نہلایا جاتاہے یا دعائے قنوت پڑھ کر سنائیے ۔ یاد رہے کہ ایک ہزار طلاق بہ یک نشست ایک ہی طلاق کہلائے گی ۔ طلاق کہنے کی چیز یا پڑھنے کی چیز نہیں ہے ۔ یہ عمل ہے اس عمل کے لئے میاں بیوی ایک ساتھ مجاز اتھارٹی کے پاس جائیں او رکہیں کہ ہم علیحدگی چاہتے ہیں ۔ وہ رجسٹر میں درج بھی کردے گا اور فارغ بھی کردے گا رب کا بھی یہی حکم ہے آپ اکیلے میں ( طلق رَأساً) Immediately یہ عمل نہیں کرسکتے ۔ نہ آپ نے نکاح اکیلے میں کیا تھا ۔ جب نکاح کا بندھن توڑنا ہو تو اس کے لئے قرآن کا حکم ہے ۔ وَإِنْ خِفْتُمْ شِقَاقَ بَيْنِھمَا فَابْعَثُوا حَكَمًا مِّنْ أَھلِہ وَحَكَمًا مِّنْ أَھلِھا إِن يُرِيدَا إِصْلَاحًا يُوَفِّقِ اللَّہ بَيْنَھمَا (35۔4) اور اگر میاں بیوی کے درمیان علیحدگی کا خدشہ ہو تو دو حاکم عورت کی طرف سے دو شوہر کی طرف سے لووہ صلح کرائیں اللہ موافقت پیدا کرے گا۔ اگر فیصلہ نہ ہوسکا تو بات طلاق تک پہنچے گی ۔ یہ ہے اللہ کا حکم جو طلاق سے پہلے لازم ہے۔ ایک بار پھر دھرا دوں کہ بندوق کی گولی کوطلاق دو ۔ یعنی بندوق میں بند گولی کو آزاد کردو یا چھوڑ دو یہ پڑھنا یا بولنے کی بات نہیں ہے یہ ایک عمل ہے ۔ اور یہ غلط بات ہے کہ اس عمل کا اختیار مرد کے ہاتھ میں ہے چونکہ نکاح کاعقد کہتے ہیں یعنی Agreement contract اس کی جمع ہے عقود۔ جب نکاح Agreement یا contract ہے مابین فریق اول اور فریق ثانی تو علامہ کس طرح کہتے ہیں کہ اس عقد نکاح کو صرف مرد ختم کرسکتا ہے۔ کیا دنیا کے کسی حصے میں کوئی ایگر یمنٹ ایک پارٹی ختم کرسکتی ہے اور دوسری پارٹی نہیں؟ اسے اختیار نہیں ہوتا ۔ ایسا تو تاریک بر اعظم افریقہ میں بھی نہیں ہوتا مگر کمال کی بات یہ ہے کہ جہاں کہیں خلاف قرآن بات آتی ہے وہاں سے علامہ صاحب صاف نکل جاتے ہیں اور الزام دوسروں کے سرڈال لیتے ہیں۔ مثلاً ملاحظہ ہو۔ ( بہت سے افراد کا یہی خیال ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اسلام کی نظر میں اس مرض کی کوئی دوا نہیں ہے۔) یہاں علامہ صاحب قرآن کریم کو ناقص قرار دے کر سارا بوجھ دوسروں کے سر پر رکھ کر خود ایک طرف ہٹ جاتےہیں ۔ یہ ایک جگہ نہیں دسیوں جگہ علامہ صاحب نے یہ کمال دکھایا ہے۔ رب بے شک کہتا رہے کہ الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا (3۔5) آج ہم نے تمہارے لئے دین کو کامل کردیا اور اپنی تمام نعمتیں تم پر نچھاور کردیں او رہم دین اسلام سے راضی ہوئے ۔ مگر علامہ صاحب راضی نہیں ہوئے وہ اسے ناقص قرار دے رہے ہیں۔
علامہ صاحب ہر چند کہ دوسروں پر تھوپتے ہیں مگر فرماتے ہیں کہ مرد طلاق کاحق رکھتا ہے عورت کے لئے خلع کا دروازہ کھلا ہے انہوں نے گویا عورت کی گلو خلاصی کا حل دریا فت کیا ہے ۔ ابتدا میں ہم لکھ چکے ہیں کہ ان کا عقیدہ ہے جو کچھ ہے لفظ طلاق میں ہے۔ اور یہ لفظ مذاق میں بھی بیوی کو نہیں کہنا چاہیے ۔ حقیقت یہ ہے کہ طلاق کالفظ عربوں میں قبل اسلام بھی رائج تھا، چھوڑ نے اور آزاد کرنے کےلئے ۔ ہم لاکھو الفاظ عربی کے متبادل اپنی اپنی زبانوں میں ادا کرتے ہیں۔ہم طلاق کا متبادل لفظ بیوی کے لئے ہر روز استعمال کرتے ہیں مگر ہماری از واجی زندگی میں کوئی فرق نہیں پڑتا مثلاً ( جاؤ بازار جو کچھ خرید نا ہے خرید و، تم میر ی طرف سےآزاد ہو) یہ وہی طلاق کا متبادل لفظ ہے مگر اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ۔
ٹی وی پرانگریزی فلم آرہی تھی ،قاتل ایک مکان میں چھپا تھا پولیس پیچھا کررہی تھی مکان کے قریب کتے زور لگا رہے تھے مگر زنجیر میں بندھے تھے اور زنجیر پولیس والوں کے ہاتھ میں تھی یہ حالت دیکھ کر آفیسر نے کہا Release the dogs نیچے عربی ترجمہ لکھا ہوا تھا اطلق کلاب ۔ کتوں کو طلاق دو ۔ میں مسکرایا تو میری بیوی نے پوچھا کیا بات ہے ؟ ۔ میں نے کہا ان کے آفیسر نے حکم دیا کہ ( اطلق کلاب) لیکن یہ نہیں کہا (مرۃ واحد مرتان ، اوثلاثہ مرات )ایک طلاق ، دو، یاتین طلاقیں ۔ جو لوگ ایک زبان سے واقف نہ ہوں وہ ٹھوکر کھاتے رہتے ہیں ۔
عربی زبان میں کوئی جادو منتر نہیں ہے کہ اس میں جب طلاق کہہ دیا جائے اور مردکہے تو طلاق ہوتی ہے کسی دوسری زبان میں نہیں ۔ یوکے فرانس اور امریکہ میں لا تعداد مسلمان ہیں وہ تو عربی زبان سے واقف ہی نہیں ایک انگریز مسلمان طلاق کے لئے کیا کہے؟ ....... Divorceمیں نے تمہیں Divorce کیا، Divorce کیا، Divorce کیا۔ پھر ان کے مابین تو طلاق نہیں ہوگی ؟ کیونکہ عربی میں طلاق نہیں دی۔ ویسے ان کے ہاں صحیح اسلامی طریقہ ہے کورٹ میں جاکر علیحدگی ہوتی ہے۔ ڈ نمارک اورناروے میں تو نکاح اور طلاق تو مذہبی دائرہ میں آتے ہی نہیں دو پسند کرنے والے کورٹ میں ایگریمنٹ کرتے ہیں اور جب دیکھتےہیں کہ گاڑی اور آگے نہیں چل سکتی ہے تو دونوں کینسل بھی کرالیتےہیں ۔
علامہ کہتے ہیں فقہاء یہی کہتے ہیں کہ جب تک شوہر طلاق پر راضی نہ ہو اس وقت تک طلاق نہیں ہوسکتی ( ص 26)
الف۔ فقہاء نے اس روایت سے استدالال کیا ہے کہ بیوی کو طلاق کا اختیار دینے کی شرط باطل ہے (ص 20)
امام کا یہ فرمانا کہ طلاق مردکے ہاتھ میں ہے اس کا معنی یہ ہے کہ مرد عورت کو طلاق دے نہ کہ عورت (20)
علامہ نے ہر جگہ خلع علاج اور حل دریافت کیا ہے جب کہ غیر قرآنی لفظ خلع تو ہمارے ہاں معروف ہے ۔ اور اس پر عمل جاری ہے۔ علامہ صاحب فرماتے ہیں ( بیوی کو طلاق کا اختیار دینے کی شرط باطل ہے) یہ خلاف قانون ہے ہمارے ہاں نکاح نامہ جو حکومت کی منظوری سےرائج ہے اس کا پیرا گراف 18 اور 19 میں یہ شرط رکھی گئی ہے کہ آیا شوہر نے بیوی کو طلاق کا حق تفویض کیا ہے۔ اگر کیا ہے تو کسی شرط کے ساتھ یا بلا کسی شرط ؟ ۔ اسے علامہ باطل قرار دے رہے ہیں۔
اس مضمون میں علامہ صاحب نے کئی مقامات پر واضح کیا ہے عورت طلاق نہیں دے سکتی، علیحدہ نہیں ہوسکتی رجعی طلاق کے بغیر مرد رجوع کرسکتاہے عورت نہیں ہاں خلع ان کا چھٹکارہ کرسکتی ہے۔ کیا مرد رجوع بغیر عورت کی مرضی کے کرسکتا ہے ۔ ایسا وہی کہہ سکتا ہے جو دین سے ناواقف ہو۔ اللہ کا فرمان ہے، يَا أَيُّھا الَّذِينَ آمَنُوا لَا يَحِلُّ لَكُمْ أَن تَرِثُوا النِّسَاءَ كَرْھا (19۔4)
اے ایمان کےدعویدار و! وہ عورتیں تم پر حلال ہی نہیں کہ تم ان کے مالک بن بیٹھوں اور وہ تم سےکراہت کرتی ہوں جب حلال نہیں تو ظاہر ہے حرام ہوگئیں کیا یہ شرط کافی نہیں طلاق اور علیحدگی کے لئے یہ تو بہت بڑا ہتھیار ہے عورت کے پاس ۔ اب تو عورت کو پاکستان کے قانون کے تحت بھی طلاق کا حق حاصل ہے ،ملاحظہ ہو نکاح نامہ پیرا گراف 18 اور 19 ۔ اگر نہ بھی ہوتا تو ( النساء کرھا)ہی علیحدگی کے لئے کافی ہے۔ اگر کوئی عورت اپنے شوہر سے کہہ دے کہ مجھے تم سے کراہت آتی ہے یا مجھے تم سے نفرت ہے ۔ تو پھر جائز فعل ( حقوق زوجیت) بھی زنا محسوب ہوگا۔ عورت شوہر کو ناپسند کرتی ہے ،نفرت کرتی ہے اور کراہت کرتی ہے۔ مگر شوہر کے گھر سے نہیں نکلتی سوچتی ہے جوانی تو اس نے لوٹ لی اب اتنے بچوں اور سفید بالوں کے ساتھ میں کہاں جاؤں گی پڑوی رہتی ہے اس نا پسندیدہ شوہر کے ساتھ اور جو کچھ ہوتا ہے ان میاں بیوی کے درمیان ( لاَ یَحِل لَکُم) وہ حلال نہیں حرام یعنی زنا میں شمار ہوتا ہے۔
وہ جو ہماری لسٹ میں کافر کہلاتےہیں او ربلا د الغرب میں رہتے ہیں وہ صحیح اصولوں پر چلتے ہیں ان کے ہاں شوہر بغیر رضا مندی اور خواہش کے بیوی کے بستر پر چلا جائے اور صبح بیوی رپورٹ درج کرائے تو حوالات اورکورٹ کچہری تک بات پہنچتی ہے ۔ میاں بیوی کا رشتہ باہم رضا مندی پیار محبت کا رشتہ ہے نکاح سےمیاں بیوی کا قرب یوں ہے جیسے آنکھ اور نیند کا رشتہ ۔ مضمون میں فقہا ء او راماموں کا ذکر ہے۔ آج اکیسویں صدی میں امت مسلمہ نویں دسویں صدی کی فقہی دنیا میں جینے پر مجبور ہے۔ مذہبی زندگی کی قیادت اُن افراد کے ہاتھوں میں تھمادی گئی ہے جو اپنی اپنی قبروں میں صدیوں سے آرام فرمارہے ہیں اور جنہیں یقیناً اکیسویں صدی کے حالات سے ناواقفیت کے لئے مورد الزام نہیں ٹھہرا یا جاسکتا ۔ صدیاں گزر گئیں امت زندہ چلتی پھرتی قیادت اور زندہ ذہن و فکر سے محروم ہے۔ یہ ہے وہ صورت حال جس کی شکایت اللہ کی کتاب اپنے حاملین سےکررہی ہے ۔ یٰرَبِّ اِنَّ قَوْمِی اتَّخَنْوْا ھٰذا الْقُرْاٰنَ مَھْجُوْرًا ۔ یا رب یہ میری قوم ہے جس نے قرآن کو اپنی اپنی مفادات کی رسیوں سے باندھ کر رکھا تھا ۔
اگست ، 2013 بشکریہ : صوت الحق ، کراچی
URL:
https://newageislam.com/urdu-section/talaq-e-khula-/d/13098