حسین امیر فرہاد
فروری، 2013
عمران خان نے بڑی ہمت سے کام لیا مگر اپنے ہدف تک پہنچ نہ سکا اسے واپس آنا پڑا، وجوہات یہ بتائی گئیں کہ آگے بڑھنا خطرے سے خالی نہیں تھا۔ اور وزیرستان کے طالبان نے یہ اطلاع بھی دی تھی کہ بے شک عمران خان کا مقصد نیک ہے مگر عمران خان سیکولر ہیں اور وہ بھی برسرِ اقتدار آکر سیکولر نظام قائم کریں گے جو ہمیں منظور نہیں ۔ لہٰذا ہم مخالفت کریں گے ۔ تقریباً یہی بات تو صوفی محمد صاحب نے بھی وضاحت سےکہی تھی ،حکومت نے اُس کے سامنے گھٹنے ٹیک دیئے تھے اور اس کے کہنے پر دیر اور ملحقہ علاقوں میں شریعت کو رٹ کانفاذ کردیا تھا۔ اب ایک طرف امریکہ ہے دوسری طرف طالبان ، ان کے بیچ میں ہیں پاکستانی عوام اور آگ ، دھواں خون، لاشیں اور تباہ شدہ آبادی کا ملبہ ہے۔
فریق اول یعنی طالبان کی منشاء کاعلم قارئین آپ کو ہوگیا کہ وہ سیکولرزم کے خاتمے اور شریعت کے نفاذ سے کم پر رضا مند نہیں ہیں۔اس کے نفاذ کے لئے وہ دور دور سے ثبوت اور دلائل لاتے ہیں۔ حتیٰ کہ ملالہ یوسف زئی کے بارے میں موسی علیہ السلام و خواجہ خضر کی مثال پیش کررہے ہیں ۔ ملالہ کو مارنے والے جس واقعہ کا سہارا لے رہے ہیں وہ درج ہے۔
پھر وہ دونوں چلے، یہاں تک کہ ان کو ایک لڑکا ملا، اور اس شخص نے اُسے قتل کردیا ۔موسیٰ نے کہا آپ نے ایک بے گناہ کی جان لے لی، حالانکہ اس نے کسی کا خون نہیں کیا تھا۔ یہ کام تو آپ نے بہت ہی برُا کیا ہے( 74۔18)
قرآن نے اس لڑکے کے لئے طغیانا وکفرا کے الفاظ سے بیان کئے ہیں ۔ وہ، سرکش ، او رباغی تھا ظاہر ہے یہ اوصاف بچے کے نہیں ہوسکتے۔ معلوم ہوتا ہے کہ وہ مفرور مجرم ہونے کے علاوہ ایسے جرائم کا مرتکب تھا جن کی بناء پر حکومت اس کو قتل کرنا چاہتی تھی ان بزرگ نے اس کوقتل کردیا ۔ قرآن کریم سے یہ بھی اندازہ ہوتاہے کہ یہ بزرگ حکومت کے افسر بھی تھے اور مجرموں کو پکڑ نااور ان کو سزادینا ان کے منصب میں شامل تھا اسی لیے انہو ں نے کہا تھا ۔ وَمَا فَعَلْتُہُ عَنْ أَمْرِي ( 82۔18)، مفسرین کرام اس آیت کا ترجمہ ‘‘ یہ میں نےاپنے اختیار سے نہیں کیا’’ کرتے ہیں۔ لیکن لفظ امر کے ساتھ جب عن کی PROPOSITION آجاتی ہے تو اس کے معنی ہوتے ہیں کہ میں نے جو کام کیا ہے وہ اپنے اختیارات کے اندر کیا ہے۔ اس آیت نے یہ بات بخوبی واضح کردی کہ ان بزرگ نے جو کچھ کیا وہ اپنے اختیارات کے اندر کیاہے اور اس پر کسی قسم کی حرف گیری نہیں ہوسکتی ۔ (ازہر عباس خواجہ)
وَأَمَّا الْغُلَامُ فَكَانَ أَبَوَاهُ مُؤْمِنَيْنِ فَخَشِينَا أَن يُرْھقَھُمَا طُغْيَانًا وَكُفْرًا (80۔18)الْغُلٰم کے الفاظ قرآن نے بیان کئے ہیں۔ وہ جوان ، تھا لغت میں غلام کا ترجمہ YOUTH ہے۔ طغیانا وکفرا تھا سرکش ، اور باغی تھا یُّرْ ھِقَھُمَا کا ترجمہ ہے ۔ ناشکرا، نافرمان۔ یہ اس کے لیے سزا تھی جو اسے ملی بچہ باغی اور نافرمان کیسے ہوسکتا ہے ؟ چلئے خضر ہی سہی حالانکہ اس نام کے کسی بزرگ کاذکر قرآن کریم میں نہیں ہے۔ خضر کو تو علم تھا اس کے بغاوت اور ناشکرے پن کا اور حکم ملا تھا اسے قتل کرنے کا وَمَا فَعَلْتُہُ عَنْ أَمْرِي ۔ یعنی انہو ں نے اپنی مرضی سے قتل نہیں کیا۔ لیکن ملالہ کے بارے میں ان کے قاتلوں کو اسے مارنے کا حکم کہا ں سے ملا اور انہیں کیسے علم ہوا کہ وہ بھی سرکش اور باغی ہے،ناشکری و نافرمان ہے؟
ہمارا موضوع تھا امریکہ کا پوری دنیا میں سیکولر نظام کا قیام اور طالبان کی کوشش اس نظام کا خاتمہ کرنا۔ اور پاکستانی عوام، کا آگ، دھوئیں خون ، لاشیں اور بربادی کے مناظر سے نجات پانا ہے۔ پاکستانی عوام اس وقت انتشار کا شکار ہیں دیہاتی اور غریب غربا ء پاکستانی قوانین یا عدلیہ کے آگے نہیں ٹھہر سکتے۔ مالی طور پر آدمی زیر بار ہوجاتا ہے ایک مکان کا قبضہ چھڑانے کے لیے دوسرا مکان بیچنا پڑتا ہے۔ او رنام رکھا ہے۔ سستا انصاف ۔ دیکھئے خود مصنف حضرات اپنے قانون کے بارے میں کیا کہتے ہیں ؟۔
ملاحظہ فرمائیے دو چیف جسٹسوں کا اعتراف جو ریٹائرمنٹ کے بعد کیا گیا ۔
اسلام آباد میں 29 جون 2005 کو چیف جسٹس ناظم حسین صدیقی صاحب کے اعزاز میں دی گئی الوداعی پارٹی میں موصوف نے فرمایا ۔ کہ انصاف کی فراہمی اکیلے ججوں کا کام نہیں ۔ ‘‘ انصاف کی فراہمی ایک خواب بن چکا ہے’’ ہمارا فرض ہے کہ عوام کو سستا انصاف مہیا کریں ....... ملاحظہ فرمایا! انصاف کی فراہمی ایک (خواب بن چکی ہے اور سستا انصاف) چیف جسٹس محمد افضل ظلہ صاحب نے فرمایا تھا ۔ موجودہ نظام عدلیہ میں انصاف ملنا محال ہے۔ یہاں جو وکیل موجود عدالتی نظام میں کیس کو بہتر طریقہ پر پیش کرتا ہے فیصلہ اس کے حق میں ہوتا ہے بغیر یہ پتہ چلائے کہ سچ کیا ہے اور جھوٹ کیا ہے ۔( بحوالہ ریڈیائی تبصرہ ۔ ہفتہ 3 اکتوبر 1992ء تبصرہ نگار متین فکری)
قارئین کرام ملاحظہ فرمایا۔یعنی ملز م کو سزا ملنا یا بری ہوجانا ،یہ منحصر ہے وکیل کی قابلیت پر نہ کہ سچائی اور حقائق پر اس سے بڑا ظلم او رکیا ہوگا کہ ملزم کی باگ ڈور ایک ایسے شخص کے ہاتھ میں ہو، جو نہایت پڑھا لکھا ہوتاہے اور اس نے ملزم کو سزا سے بچانے کے لئے (مدعی سے) رقم ٹھہرائی ہوتی ہے۔ طالبان اگر شریعت چاہتے ہیں تو اللہ کا حکم اللہ کی تاکید ہے کہ اسلامی زندگی صرف اسلامی نظام کے تابع ہی ممکن ہے ہجرت کے فرض ہونے کا عملی طور پر مغموم ہی یہ ہےکہ غیر اسلامی نظام میں زندگی بسر کرنے سے شدید طور پر منع کیا گیا ہے ارشاد عالی ہے ۔إِنَّ الَّذِينَ تَوَفَّاھُمُ الْمَلَائِكۃُ ظَالِمِي أَنفُسِھِمْ قَالُوا فِيمَ كُنتُمْ قَالُوا كُنَّا مُسْتَضْعَفِينَ فِي الْأَرْضِ قَالُوا أَلَمْ تَكُنْ أَرْضُ اللّہِ وَاسِعَۃً فَتھَاجِرُوا فِيْھَا فَأُولَٰئِكَ مَأْوَاھُمْ جھَنَّمُ وَسَاءَتْ مَصِيرًا (97۔4) بیشک جن لوگوں کی قبض روح فرشتوں نے اس وقت کی کہ ( وہ غیر اسلامی نظام میں پرے تھے ) اور وہ اپنی جانوں پر ظلم کررہے تھے تو فرشتے قبض روح کےبعد حیرت سے کہتے ہیں کہ تم کسی حالت غفلت میں تھے۔ یا تم کس حال میں مبتلاء تھے۔ انہوں نے جواب دیا ہم زمین میں کمزور او رمجبور تھے ۔ تو فرشتے کہتے ہیں کہ کیا اللہ کی زمین وسیع نہیں تھی کہ تم اس میں ہجرت کرجاتے؟ یہ وہ لوگ ہیں جن کا ٹھکانہ جہنم ہے اور وہ بہت ہی برُا ٹھکانہ ہے۔ یہ بھی تو ممکن ہے کہ طالبا ن اس برے ٹھکانے سے ڈر کر سیکولر کے بجائے دینی اور شر یعتی نظام کے لئے کوشاں ہوں؟
انگریزی قانون میں کورٹ ریزلٹ (نتیجہ الحکم کا انتظار دھوپ میں مکئی بھوننے کا انتظار ہے ۔ مانا کہ وہ قانونی تقاضے پورے کرتے ہیں ان کی راہ میں رکاوٹیں ہیں مگر اتنی دیر کرنا کہ تریاق از عراق آمد مار گزیدہ مردہ می شود انصاف کے طالب کے ساتھ یہ زیادتی ہے۔ ہمارے ہاں سستے انصاف کا شہرہ ہے۔ سستا او رمہنگا یعنی انصاف بکاؤ جنس تو ہے۔ البتہ مہنگا نہیں ہے سستا ہے۔ جب کہ اسلام کا تو یہ طرہ امتیاز ہے کہ انصاف فوری ہوگا اور مفت ہوگا۔ انہی صعوبات کو دیکھتے او رجھیلتے ہوئے ‘‘دیر’’ کے لوگ اٹھے اور حکومت کو سرنگوں کیا اور شریعت کورٹ کا قیام عمل میں آیا ۔ اب وزیر ستان والوں کا بھی مطالبہ ہے شریعت کا نفاذ او رسیکولر نظام کا خاتمہ ہو۔ شریعت تو ہر مسلمان کامطمع نظر ہونا چاہئے ۔ مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ طالبان کی شریعت ہمیں ہضم نہیں ہوتی کیونکہ جس شریعت کا نفاذ چاہتے ہیں گویا ہمارے پاؤں میں وہ جوتا پہنانا چاہتے ہیں جو ہم چھ سال کی عمر میں پہنتے تھے ۔ اس جوتے میں ہم چلتے پھرنے سے قاصر ہیں اور ہم انہیں لمبی ہیل والی سینڈل پہنانا چاہتے ہیں جسے پہن کر طالبان ہمارا ساتھ نہیں دے سکتے ۔اور ہم ان کی شریعت کے نظارے بھی دیکھ چکے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمارا منتشر شیرازہ جو بکھر ا ہواہے وہ یک جا ہو ملک میں امن و امان ہو، خون خرابہ ختم ہو۔ آخر ہم انسان ہیں، گوشت کھاتے ہیں تو ہڈیوں کے ساتھ نہیں کھاتے نہ ہی ہم مچھلی ریڑھ کی ہڈی او رکانٹوں کے ساتھ کھاتے ہیں ۔ مونگ پھلی چھلکے کے ساتھ نہیں کھاتے ۔ مفید چیز کھا لیتے ہیں اور جو ہماری صحت کے لئے مضر ہوا سے پھینک دیتے ہیں ۔ ہمیں عربوں کی طرح ملائشیا کی طرح مختلف قوانین کاجائزہ لینا چاہیے جہاں ہمیں اچھائی نظر آئے اسے اختیار کر لینا چاہئے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ اچھی بات مسلمان کی گم شدہ اونٹنی ہے جہاں نظرآئے مہار پکڑ کر گھر لے آئے۔ بلا شبہ اسلام میں پیوند کاری جائز نہیں ہے۔ مگر اچھی بات پیوندکاری نہیں ہے یہ تو مسلمانوں کی میراث ہے۔ اس سے اسلام مجروح نہیں ہوتا ۔ 10 نومبر 2012 کو BBC نے بتایا کہ بھارت نے قانون بنایا کہ سرِ راہ عورتوں سے چھیڑ چھاڑ کرنے والوں کے لئے پاسپورٹ اور ڈرائیونگ لائسنس کا اجرا ممنوع قرار دے دیا گیا ہے انگریز نے بھارت سے نہیں پوچھا کہ یہ تم نے ، کیا کیا کس سے پوچھ کر کیا اگر ہم بھی اپنے قوانین میں اپنے حالات کو دیکھتے ہوئے تھوری بہت تبدیلی کرلیا کریں تو امید ہے ہمیں بھی کچھ نہیں کہے گا ۔مثلاً سپریم کورٹ کے حکم پر سی این جی کی قیمتوں کا کم ہونا اس کے توڑ میں پمپوں کی طویل ہڑتال ۔ اس کا بہترین علاج یہ تھا کہ پمپوں کو نیلام کرنے کا اعلان کر دیا جاتا ۔
یہاں ہمیں عربوں کو دیکھنا ہوگا، ان کے ہاں دو قسم کی عدالتیں ہیں ایک قاضی کورٹ دوسری وکلاء والی جس کاجی چاہے جس عدالت میں جائے ۔ اتنا ضرور ہے کہ جو قاضی قید و بند اور سزائے موت دے سکتا ہے وہ تمام جدید لوازمات سے لیں ہوتا ہے۔ قسم تحقیق۔ INVESTIGATION SECTION ۔ ہوتا ہے جو موقع واردات پر جاکر جدید ایجادات سے تحقیق کرتے ہیں۔ مثلاً پوڈرچھڑک کرفنگر پرنٹ اٹھانا فوٹو گراف کے ذریعے اُسے انلا رج کرکے عدالت میں پیش کرنا وغیرہ وغیرہ ۔
مگر امریکہ چاہتا ہے کہ ۔( میں چمن میں چاہے جہاں رہوں میرا حق ہے فصل بہار پر) پوری دنیا میں ہمارا نظام ہو ہم جہاں جائیں ہمیں غیریت اجنیبت محسوس نہ ہو ۔ جیسے نٹینینٹل ہوٹل میں قیام و طعام ایک سا ہوتا ہے امریکہ میں ہو یا پاکستان میں ۔
قدیم مصریوں کا عقیدہ تھا کہ روح ایک مدت تک گھومتی رہتی ہے اگر اس کے لئے جسم محفوظ رکھا ہو تو وہ دبارہ جسم میں گھس جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فراعنہ کی شہزادیوں کے ساتھ ان کی چہیتی باندیوں ، بلّیوں وغیرہ اور بغبغان یعنی طوطا وغیرہ کی لاشوں کو بھی حنوط کردیتے تھے تاکہ جب شہزادی بیدار ہوتو اکیلا پن محسوس نہ کرے۔ اُسے وہی ماحول ملے جو وہ چھوڑ کر گئی تھی۔ امریکی بھی کردار و عادات میں فراعنہ سے کم نہیں وہ چمن میں چاہے جہاں پھریں انہیں وہی ماحول ملے جس کے وہ عادی ہوں جو ان کے وطن میں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وکلاء اور ججوں کے شلیف میں وہی کتابیں ملیں گی جو یو کے، امریکہ ، بھارت اور آسٹریلیا میں جج اور وکیل کے پاس ہوتی ہیں۔ ان کا قانون بھی ارتقا ئی منازل طےکرتا ہوا یہاں تک پہنچاہے۔ ہمیں ان سے وہ چیزیں لے لینی چاہئے جو قرآن کے متصادم نہ ہوں۔ یہ عربوں نے بھی کیا ہے اور ملائیشیا وغیرہ میں بھی ہوا ہے ۔ زندہ قومیں ایسا کرتی ہیں۔
رب کا ارشاد مبارک ہے ۔ وَأَمَّا مَا يَنفَعُ النَّاسَ فَيَمْكُثُ فِي الْأَرْضِ ( 17۔13) زمین پر بقا اس عمل کو حاصل ہے جو ینفع الناس ہو۔ جس میں اللہ کی مخلوق کے لئے نفع رسانی ہو۔تو نفع رسانی جس عمل میں ہوا سے اپنا لیناچاہئے ۔ ہاں اگر ان کا کوئی قانون قرآن سے متصادم ہوا سے چھوڑ دینا چاہئے۔ یعنی گوشت کھائیے او ر ہڈی پھینک دیجئے ۔ مثلاً برطانیہ، کینڈا اور حالیاً ساؤتھ افریقہ میں بھی غلام بازی ( HOMOSEXUALITY) کو قانونی تحفظ حاصل ہے۔ ضروری تو نہیں کہ ہم ان کی تقلید کریں اور اپنے ہاں بھی اغلام بازی کو جائز قرار دیں۔
یوں لگتا ہے کہ ہم ابھی تک انگریزی کی غلامی سے آزاد نہیں ہوئے ہیں یا ہم نے آزادی کے وقت انگریز سےکوئی معاہدہ کیا ہے کہ اگر ہم نے کبھی بھی آپ کے دیئے ہوئے قوانین میں رد وبدل کی کوشش کی تو بے شک آپ آکر ہمیں پھر سے غلام بنالیں۔ وہ بے شک ردو بدل کرتےہیں جولائی 2007 کی ابتداء میں برطانیہ کے دارالا امراء میں یہ بحث چھڑی تھی کہ اسلامی شریعت کے کچھ قوانین اپنا لینے میں کچھ حرج نہیں ہے۔ مانا کہ انگریز نے سینکڑوں سال محنت اور جانفشانی سے اپنے لیے قوانین وضع کئے ہیں مگر ضروری نہیں کہ وہ ہمارے لئے سب کے سب مفید اور کار آمد ہوں ۔ ہمیں شاہراہِ حیات پر چلنے کےلئے خود راستے تر اشنےہوں گے۔ ہمارے آئین میں ہے کہ صدر، وزیر اعظم ، گورنر اور وزرائے اعلیٰ عدالتی کٹہرے میں کھڑے ہونے اور احتساب سے مستثنیٰ ہیں آخر کیوں؟ عرض یہ ہے کہ گناہ اور جرم کوئی بھی کرسکتا ہے کسی کو بھی احتساب یا سزائے مستثنیٰ نہیں ہونا چاہیے۔
قرآن کریم کی رو سے مقتدرین کے لیے دوگنی اور شدید سزا کاحکم ہے۔ فرمایا رب نے يَا نِسَاءَ النَّبِيِّ مَن يَأْتِ مِنكُنَّ بِفَاحِشۃٍ مُّبَيِّنۃ ٍ يُضَاعَفْ لہَا الْعَذَابُ ضِعْفَيْنِ (30۔33) صد ر، وزیر اعظم ، گورنر ، وزرا ء اور ان کے اقربا کے لئے تو دوگنی سزا ہونی چاہئے ۔ ضروری امریہ ہے کہ ہم اپنے لئے قوانین ترتیب دیں جس کا محور قرآن کریم ہو۔ اگر ہم اپنے وطن میں اپنے خالق کا دیا ہواقانون بھی نافذ نہ کر سکیں تو انگریز سے آزادی کیوں حاصل کی تھی۔ اگر ہم نے سیکولر نظام حیات میں زندگی گزارنی تھی تو بقول نو شابہ صدیقی صاحبہ کے ہم نے اتنی قربانیاں کیوں دیں کشت و خون کیو ں کیاگیا ہم نے ہجرت کیوں کی بھارت بھی سیکولر او رہم بھی سیکولر تقسیم ہند کی کیا ضرور ت تھی ؟ ۔ ہم تو احیائے دین چاہتے تھے کیونکہ اسلام کاشجر طیب دوسرے نظا مہائے عالم کے سائے میں سر سبز رہ ہی نہیں سکتا ۔ ہر قوم کو حق ہے کہ وہ اپنی امنگوں کے مطابق نظام قائم کرے اور زندگی گزارے ۔ یہ نماز روزہ اور سجدے تو ہم ہند میں بھی کرسکتے تھے۔ اچھے اور محفوظ طریقے پر سکتے تھے ۔ یہی بات تو ہمدرد والے حکیم محمد سعید دہلوی جو نماز فجر کی نماز کے لئے گھر سے نکلے او رمار ڈالے گئے ان کے برادر نے کہی تھی کہ میں تم سے بڑا ہوں دیار کفر میں رہ رہا ہوں اور زندہ ہوں تم دارالسلام اسلام کے قلعے میں رہتے ہوئے مارڈالے گئے ۔ یہ نماز روزہ اور سجدے تو ہم ہند میں بھی کرسکتے تھے ۔ جب مولانا حسین احمد مدنی نے فرمایا تھا قومیں اوطان سے بنتی ہیں مذہب سے نہیں ہمیں نہرو نے مکمل مذہبی آزادی دی ہے۔ تو علامہ اقبال نے بستر مرگ سے جواب دیا تھا؎
عجم ہنوز نداد رموز دیں ورنہ
ذو دیو بند حسین احمد ای چہ بو العجمی است
سرودِ برسرِ ممبر کو ملت از وطن است
چہ بے خبر زِ مقامِ محمدِ عربی است
حصول آزادی ، قربانیاں نقل مکانی اور ہجرت ہم نے اس لئے نہیں کی تھیں کہ ہمیں ہندوستان میں سجدے کی جگہ نہیں مل رہی ہے علامہ نے فرمایا تھا ۔ کہ :
ملا کو جوہے ہند میں سجدے کی اجازت
ناداں یہ سمجھتا ہے کہ اسلام ہے آزاد
سجدے کو تو اجازت تھی مگر ہم احیائے دین چاہتے تھے جس میں اپنا اختیار ہو اپنا نظام عدلیہ ہو کیونکہ اللہ کا ارشاد ہے ۔لَّمْ یَحْکُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللہُ فَاْ و لئِکَ ھُمُ الْکٰفِرُوْنَ ، اور جو کوئی حکم نافذ نہ کرے اس کے مطابق جو اللہ نے اتارا ہے سووہ لوگ کافر ہیں ، ظالم ہیں، فاسق ہیں( 45۔47۔48۔5) حضور کو بھی حکم ہوا کہ فَا حْکُمْ بَیْنَھُمْ بِمآ اَنزَلَ اللہُ جو اللہ نے اتارا ہے اس کے مطابق فیصلہ کرو ان آیات کریمات سے یہ بات بالکل واضح ہوگئی کہ قانون کا ماخذ و منبع صرف ما انزل اللہ ہے۔
فروری ، 2013 ماہنامہ صوت الحق ، کراچی
URL:
https://newageislam.com/urdu-section/imran-khan’s-peace-march-/d/10479