حسین امیر فرہاد
کسی کی بات کو بگاڑ لینا کوئی مشکل کام نہیں ۔ غالب نے کہا تھا
تھا زندگی میں موت کاکھٹکا لگا ہوا۔ اُڑنے سے پیشتر بھی میرا رنگ زرد تھا
کھٹکا خطرے کو بھی کہتے ہیں اور لیور، پرزے کو بھی کہتے ہیں (دروازے کو کھٹکا لگا دو) نیچے دیئے گئے محسن بھوپالی کے شعر میں کھٹکا ڈر اور خدشے کے طور پر استعمال ہوا ہے۔
یست ہمسائے سے مانگا ہوا زیور تو نہیں
ایک کھٹکا سالگا رہتا ہے کھو جانے کا
غالب کے اس شعر کو اس مقدمے میں شامل کیا گیا تھا جو غائبانہ طور پر غالب پر کراچی میں چلا یا گیا تھا، غالب بھی عجیب آدمی تھا وہ اپنے ساتھ کوئی کھٹکا لگا کر آئے تھے جس کی وجہ سے ان کا رنگ زرد رہتا تھا ۔ آنے وا لی نسلیں اس پر یقین کرلیں گی ۔ کیونکہ اس لغو خیال کو تقویت دینے کے لئے مواد تو غالب کے دیوان میں موجود ہے۔ خیر یہ کھیل کسی انسان کے ساتھ تو کھیلا جاسکتا ہے مگر خالق کائنات سے یہ گھناؤنا کھیل کھیلا او رکچھ لوگ کھیلتے ہیں جو اس جل جلالہ کو نہیں مانتے ۔ مسلمانوں میں کثرت سے ایسےلوگ گزرے ہیں جنہوں نے یہ کھیل کھیلا اور کچھ لوگ اب بھی کھیل رہے ہیں ۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ موجودہ نسل نے ان افسانوں کو حقیقت سمجھ لیا، پشتو کی مثال پیش خدمت ہے ۔ کہ سچائی کے آتے آتے ۔ جھوٹ بستیاں اجاڑ دیتا ہے۔ دشمنوں کی کوشش ہوتی ہے کہ قرآن میں کوئی ایسا لفظ مل جائے جو ان کےمقصد اور ہنر میں کام آئے ۔ اللہ نے پیش بندی کی فرمایا ۔
الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي أَنزَلَ عَلَىٰ عَبْدِهِ الْكِتَابَ وَلَمْ يَجْعَل لَّهُ عِوَجًا (1۔18)
حمد و ثنا کے شایان شان ہے وہ ذات جس نے اپنے بندے پر کتاب نازل کی جس میں کوئی ٹیڑھ پن نہیں ۔ سبحان اللہ ۔ ہمارا اس پر ایمان ہے۔ مگر دشمنان دین یہ ٹیڑھ پن خود ہی پیدا کرلیتے ہیں ۔ کچھ لوگ بھی صعوبت کی جگہ سہل انگاری پسند کرتے ہیں ۔ جہاد میں جانے میں لنگڑا لولا اور مرنے کابھی خطرہ ہے ۔ ان کو جہاد جیسے فریضے سے روکنا تھا تو یہ حدیث گھڑدی ۔
کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم مع صحابہ کرام جہاد سے تشریف لارہے تھے تو صحابہ کرام سے فرمایا رجعنامن جھاد الا صغر الہٰی جھاد الاکبر ۔ ہم چھوٹے جہاد سے لوٹے ہیں بڑے جہاد کی جانب ۔ علما ء نے اس کی تفسیر بیان فرمائی ۔ جنگ و جدل والے جہاد سے بڑا جہاد اپنے نفس سے جہاد کرنا ہے ۔ جب یہ انکشاف ہوا تو اب لوگ بڑے جہاد میں سرگرم ہوگئے ایک عد تبیح لے کر بیٹھ گئے ۔ کیا ضرورت ہے اس جہاد کی طرف جانے کی جس میں مرنے اور لنگڑا لولا ہونے کابھی خطرہ ہے اور ہےبھی چھوٹا جہاد۔
یہ بڑا جہاد تو چھوٹے جہاد پر جانے سےپہلے بھی موجود تھا پھر چھوٹے جہاد پر گئے کیوں ؟ لگے رہتے بڑے جہاد میں دشمن ان کی اینٹ سے اینٹ بجا دیتے ۔ یہی دشمن کی منشا ء تھی ۔ حقیقت یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا فرمایا ہی نہیں تھا ۔ بس دشمنوں کو بھی یہ روایت فائدہ مند تھی اور سہل انگاروں کے لئے بھی لہٰذا رواج پا گئی ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا نام مبارک ساتھ ہوا اور رو ایت کو قدامت یا مرور زمانہ کی سند حاصل ہو پھر اس پر عمل جاری رہتا ہے ۔ غلام احمد قادیانی بھی جہاد کے خلاف تھے اور بش ابامہ بھی جہاد کے خلاف ہیں ۔ اسی جہا د سے شہادت بھی وابستہ ہے جس کے بلند درجات ہیں ۔ اس کو ڈیلیٹ کرنے کے لئے یہ روایت گھڑلی گئی کہ ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (مداد العالم افصل من دم الشھداء ) عالم کی دوات کی سیاہی شہدا کے خون سے افضل ہے۔
فرضی شہادت بھی گئی ۔ اب ملا جی کے دوات کی سیاسی تلاش کیجئے ۔ اللہ کا فرمان ہے کہ دنیا میں چلو پھرو ........
فَسِيرُوا فِي الْأَرْضِ فَانظُرُوا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُكَذِّبِينَ (137۔3) زمین میں گھو مو پھرو اور دیکھو کہ حق کو جھٹلا نے والوں کا کیا انجام ہوا ۔ ہم ایک مولوی صاحب سے کسی معاملے میں ملنے کو ھاٹ گئے مرید نے کہا آپ انتظار کریں وہ اس وقت (فَسِيرُوا فِي الْأَرْضِ) کا وظیفہ فرمارہے ہیں ۔ یعنی بیٹھے بیٹھے دنیا کی سیر کررہے ہیں ۔
ایسے بہت سارے حقائق ہیں جن کی جگہ افسانوں نے لے لی ۔ ان میں ایک ‘‘ قبلہ اوّل’’ کا افسانہ بھی ہے ۔ قبل کے معنے ہیں ۔ Before-Previously-First of all قبل المسیح قبل از تاریخ ، الظہر ،قبل کا شی، کعبہ کے معنی Glory. Highrank اور Cubic چو کور مربعہ کو بھی مکعب کہتے ہیں علیٰ کل حال کعبہ کی عظمت اور بزرگی میں کیا شک جسے اللہ نے بیتی کہا ہو میرا گھر ۔ وَإِسْمَاعِيلَ أَن طَهِّرَا بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ (125۔2) میرے گھر کو طواف کرنے والوں، قیام کرنے والوں کے لئے صاف رکھ جو ابراہیم و اسماعیل نے کھڑا کیا تھا ۔ جَعَلَ اللَّهُ الْكَعْبَةَ الْبَيْتَ الْحَرَامَ قِيَامًا لِّلنَّاسِ (97۔5)اپنا گھر کعبہ بنانے کامقصد رب نے بتایا قیام للناس ہے، انسانیت کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنا ہے۔ اس اپنے گھر کو اللہ نے وَلْيَطَّوَّفُوا بِالْبَيْتِ الْعَتِيقِ (29۔22) بھی کہا ہے ۔ عتیق کے معنے ہیں Old-Antique بزرگ اور نادر گھر اور یہ کہہ کر اس پر مہر ثبت کردی ۔إِنَّ أَوَّلَ بَيْتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِي بِبَكَّةَ مُبَارَكًا وَهُدًى لِّلْعَالَمِينَ (96۔3) میرا پہلا گھر جو مرکز ہدایات ہے اوادم کے لئے وہ مکہ میں ہے ۔ بلا شبہ عظمت او ربزرگی ،عافیت اور امن گھر کا ہے ۔ یہ اللہ کے نظام کا محسوس نشان ہے۔
وَحَيْثُ مَا كُنتُمْ فَوَلُّوا وُجُوهَكُمْ شَطْرَهُ (144۔2) اور تم جہاں کہیں ہو اپنی توجہ اور نگاہوں کا مرکز کعبہ کو بناؤ بڑا واضح بیان ہے۔ مگر اسلام آباد سے شائع ہونے والا مجلّہ شہر یہ ( پیام) کے مدیر اگست کے شمارے میں لکھتے ہیں ۔
( قبلہ اوّل کی آزادی) بیت مقدس کو تمام ابراہیمی ادیان میں نہایت احترام کا مقام حاصل ہے ۔ سید المرسلین خاتم النبیین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو ان کے نزدیک بھی مسجد اقصیٰ بہت محترم پائی یہاں تک کہ قرآن حکیم میں آپ کے واقعہ معراج کو بیان کرتے ہوئے مسجد اقصیٰ کی بھی تجلیل و تحسین کی گئی ۔ سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَىٰ بِعَبْدِهِ لَيْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى الَّذِي بَارَكْنَا حَوْلَهُ لِنُرِيَهُ مِنْ آيَاتِنَا ۚ إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ (1۔17)
پاک ہے وہ ذات جو لے گئی اپنے بندے کو راتوں رات مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک ، وہی مسجد جس کے ارد گرد کو ہم نے برکت والا بنایا تاکہ ہم اسے اپنی نشانیاں دکھائیں بے شک وہ ذات خوب سننے والی اور دیکھنے والی ہے۔
ایک عرصے تک حضور صلی اللہ علیہ وسلم اقصیٰ کی طرف رخ کر کے نماز پڑھتے رہے یہاں تک کہ ایک روز آپ مصروف نماز تھے کہ اللہ کا حکم آیا کہ رخ مسجد حرام کی طرف کرلیں ۔ آپ نے دوران نماز ہی اپنا رخ مسجد حرام کی طرف پھیر لیا ۔ مضافات مدینہ میں آج مسجد قبلتین ( دو قبلو ں کی مسجد) موجود ہے۔ زائرین مدینہ عام طور پر اس مسجد میں نماز پڑھنے کی سعادت حاصل کرتے ہیں ۔ ان حقائق سے معلوم ہوتا ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کی امت کے نزدیک مسجد اقصیٰ کو نہایت بلند مقام حاصل ہے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم چونکہ مسجد حرام سے پہلے اس کی طرف منہ کر کے نماز ادا کرتے رہے اس لئے مسلمان اسے اپنا قبلہ اوّل جانتے ہیں ۔
عرض یہ ہے ۔ کہ قدس شہر ہے اس میں مسجد اقصیٰ کو بیت المقدس قبلہ اوّل کہتے ہیں ۔ یہ نہ قبلہ اوّل نہ دوم نہ سوم نہ چہارم ، ہے۔ مگر قرآن سے ناواقف لوگ اسے قبلہ اوّل کہتے ہیں ( قدس) میں ایام النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بابرکت دور میں مسجد اقصیٰ کے وجود کا تصور نہیں تھا بیت المقدس حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں فتح ہوا ۔ جہاں ہیکل تھا وہاں عیسائی کچرا پھینکا کرتے تھے کیونکہ عیسائودں کو یہودیوں سے سخت نفرت تھی ، وہ یہودیوں کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے خون کا ذمہ دار سمجھتے تھے ،حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں ایسا کرنے سے منع فرمایا اور اپنے ہاتھوں سے وہ کچرا صاف کیا اور ہیکل کے کھنڈرات کے قریب صلوٰۃ ادا کی ۔ اس وقت وہاں کوئی مسجد تھی ہی نہیں ۔ امیہ کے دور میں عبدالمالک بن مروان نے سن 72 ھ مطابق 691 ء عیسوی میں اس مقام پرجہاں حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے صلوٰۃ قائم کی تھی ایک مسجد تعمیر کروائی جسے مسجد اقصیٰ کا نام دیا گیا اور جو آج تک اسی نام سے مشہور ہے اور اس پر مرمر کی تختی لگی ہے۔ بیت المقدس کے بارے میں قبلہ اوّل کا تصور بھی یہود ی سازش کانتیجہ ہے ۔ دین سے ناواقف لوگ اسے قبلہ اوّل کہتے ہیں ۔ مگر رب نے ان کی سازش پر چونا پھیر دیا رب کا فرمان ہے ۔ إِنَّ أَوَّلَ بَيْتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِي بِبَكَّةَ مُبَارَكًا وَهُدًى لِّلْعَالَمِينَ (96۔3) سب سے پہلا گھر ( قبلہ اوّل) جو لوگوں کے لئے بنا یا گیا ۔ وہ گھر ہے جو مکّہ میں ہے، برکت والا ،ہدایت والا، ہدایت گاہ ہے پورے عالم کے لئے ۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دور ہمایونی میں ہجرت سے پہلے اگر کہیں مسجد تھی تو وہ یثرب تھا جو بعد میں مدینۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم کہلایا یہاں مکاوی تجار کی آمد و رفت رہتی تھی لوگ ایمان لائے تھے حضرت ایوب انصاری رضی اللہ عنہ جیسے لوگ وہاں رہتے تھے یہی وجہ تھی کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی اور طرف ہجرت نہیں فرمائی مدینے تشریف لے گئے ۔ یہ بھی یاد رہے کہ فتح مکہ ( مکہ آزاد) ہونے کے بعد نہ تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم مکہ منتقل ہوئے اور نہ ہی صحابہ کرام میں سے کوئی دوبارہ مکہ میں آباد ہوا۔ عربی زبان میں دور کو اقصیٰ کہتے ہیں اور مساجد وہاں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد سے پہلے ہی تھیں وہی مسجد جس کے ارد گرد کو ہم نے برکت والا بنایا، اس وقت مدینے کا نام یثرب تھا ۔ قدس بلاشبہ انبیاء کا گہواراہ رہا ہے۔ اس کے اطراف تو یہود و نصاریٰ کی بستیاں تھیں ۔ یہ وہ مقام نہیں جس کے متعلق رب کا ارشاد ہے ( جس کے ارد گرد کو ہم نے برکت والا بنایا)
عربی زبان میں نزدیک کے لئے قرب اور دوری کے لئے ‘‘ بُعد’’ اور اقصیٰ بھی کہتے ۔ جیسے پرانے کے لئے قدیم او ر عتیق اب آپ عربی کے مستند لغت میں اقصیٰ کے معنی ملاحظہ فرمائیں ۔Distant دور بعید ۔ فارسی فاصلہ دار Far دور بعید الگ ، علیحدہ ، پرے ۔Go far away دور تک جانا Move away چال چلنا ، جانا ، حرکت کرنا ۔ فارسی ، حرکت کردن، حرکت دادن، نقل مکانی کردن ۔ یہ ہے اقصیٰ کے معنی ، وہ اقصیٰ مسجد جس کاوجود ایام النبی صلی اللہ علیہ وسلم میں نہیں تھا جہاں دین پہنچا ہی نہیں تھا اس طرف حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا منہ کرنا اور نماز پڑھنا دین اور زبان عربی سے نا واقفیت کی دلیل ہے۔
یہ تو ایسا ہی ہے جیسے خیبر پختو نخواہ کو یمن والا خیبر سمجھا جائے ، یا سوات کے مدائن شہر کو عرب کامدائن سمجھا جائے ۔
اس بات کی وضاحت بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ مدیر اعلیٰ نے یہ بھی لکھا ہے ۔ ( بیت مقد س کو تمام ابراہیمی ادیان میں نہایت احترام کا مقام حاصل ہے) دین تو نوح علیہ السلام سے لے کر ایک ہی چلا آرہا ہے اسلام ۔ فَاتَّبِعُوا مِلَّةَ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا (95۔3) وَاتَّبَعَ مِلَّةَ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا (125۔4) وَاتَّبَعْتُ مِلَّةَ آبَائِي إِبْرَاهِيمَ (38۔12) ان تمام آیات کریمات میں ابراہیم علیہ السلام کی اتباع کا حکم فرمایا گیا ہے۔ او ریہ دین ایک ہی تھا ‘‘ اسلام ’’ ادیان نہیں تھے ۔ ہوا یہ کہ رب نے فرمایا الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا (3۔5)
وہ دین جو چلاآرہا تھا اسے تمہارے لئے مکمل کردیا گیااور ہم نے اپنی تمام نعمتیں اس پر نچھاور کیں اور ہم دین اسلام سے راضی ہوئے ۔ ہمیں دین ابراہیم علیہ السلام کی اتباع کاحکم دیا گیا ہے ۔ ابراہیم علیہ السلام نے اس کعبے کو تعمیر کیا اور یہاں اپنے بیٹے کو آباد کیا اور دعا مانگی ۔ اس کی تولیت اسماعیل علیہ السلام کے پاس تھی ان کی اولاد میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم پیدا ہوئے تو ان کے پاس رہی جو ہجرت کےبعد نہ رہی ۔ تو قبلے سے پھر نے کا حادثہ یہود نصاریٰ کو پیش آیا ۔ سَيَقُولُ السُّفَهَاءُ مِنَ النَّاسِ مَا وَلَّاهُمْ عَن قِبْلَتِهِمُ الَّتِي كَانُوا عَلَيْهَا (142۔2) نادان لوگ ضرور کہیں گے ( چاہے وہ یہودی ہو ں یا نصاریٰ) اور سوچیں ہے کہ تمام انبیا ء بنی اسرائیل کا قبلہ حضرت ابراہیم و اسماعیل علیہ السلام کا تعمیر کردہ کعبہ ہے تو اس کے ساتھ یہ حادثہ کیوں پیش آیا ۔ کہ وہ اس قبلے سے پھر گئے ۔
رہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم تو وہ آسمان کی طرف منہ اٹھا اٹھا کر دیکھتے تھے کہ اے مولا نظام کا مرکز تو یہ کعبہ ہے جو دوسروں کے قبضے میں ہے اس کی تولیت ہمارے پاس نہیں ہے ۔ رب نے تسلی دی کہ تمہاری یہ خواہش بہت جلد پوری کردی جائے گی ۔ ملاحظہ ہو ۔ قَدْ نَرَىٰ تَقَلُّبَ وَجْهِكَ فِي السَّمَاءِ فَلَنُوَلِّيَنَّكَ قِبْلَةً تَرْضَاهَا ۚ فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ (144۔2) بے شک ہم تیرا بار بار آسمان کی طرف منہ کرنا دیکھ رہے ہیں ۔ ہم عنقریب تجھے اس قبلے کا والی بنادیں گے ۔ پھر تم جہا ں کہیں بھی ہو اپنی نگاہوں کا مرکز اس کعبہ پر مرکوز رکھو ۔
یہودیوں نے ایسے بہت سے افسانے تراش رکھے ہیں مثلاً وہ کہتے ہیں اِن کے نبی کو تو یہ بھی علم نہ تھا کہ کہ میری امت میں اتنی مستعداد ہے کہ پچاس نمازیں روزانہ پڑھ سکے وہ تو بھلا ہو ہمارے پیغمبر کاکہ انہیں سمجھا کر اللہ کے پاس واپس بھیجا کہ کم کراؤ ۔ تب جاکر پچاس کی پانچ کردی گئیں اس طرح اللہ کا پچاس نمازوں کا منصوبہ نا کام کیا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کی جان چھڑائی ۔
عیسائی اس معاملے میں پیچھے کیوں رہتے انہوں نے یہ شوشا چھوڑا کہ وحی ملنے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم پسینے میں تر، خوف کے عالم میں گھر لوٹے اور آپ کو تسلی اس وقت ہوئی جب ورقہ بن نوفل نامی ایک عیسائی راہب نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مقامِ نبوت پر سرفراز ہونے کی مبارکباد دی ۔ قابلِ غور امر یہ ہے کہ عیسائی راہب پھر بھی مسلم نہ بنا! یا للعجب !!
اللہ نےبتانا مناسب نہیں سمجھا ، جبرئیل نےبھی یہ بشارت نہ دی اور جن کے سر پر نبوت کا تاج رکھا گیا وہ بھی نہیں سمجھے اگر کچھ سمجھا تو اندھا عیسائی راہب سمجھا ۔
قرآن نے بتایا کہ نزول وحی کے سلسلے میں اللہ نے جو نشانیاں رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو دکھا ئیں ان کو نہ تو ان کے دل نے جھوٹ جانا اور نہ ہی ان کی نگاہ نے دوسری جانب توجہ کی، نہ ہی حد سے آگے بڑھی ۔ فَأَوْحَىٰ إِلَىٰ عَبْدِهِ مَا أَوْحَىٰ مَا كَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَأَىٰ (11؍10۔53) پھر ہم نے اپنے عبد پروحی کی جو کچھ وحی کرنا تھی ۔ اس کےدل نے اس کو جھوٹ نہ جانا جو ا سنے دیکھا ۔ مَا زَاغَ الْبَصَرُ وَمَا طَغَىٰ لَقَدْ رَأَىٰ مِنْ آيَاتِ رَبِّهِ الْكُبْرَىٰ (18۔17۔53) (اس کی نگاہ نہ تو ہٹی اورنہ حد سے بڑھی ۔ بے شک اس نے اپنے رب کی بڑی نشانیاں دیکھیں) مگر کذابوں نے لکھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ڈر کے مارے کانپ رہے تھے ۔
امر لازم یہ ہے کہ آدمی جو کچھ لکھے پہلے تحقیق کرلیا کرے کہ حقیقت ہے یا افسانہ ۔ افسانے سے نہ صرف لکھنے والا گمراہ ہوتا ہے بلکہ اللہ کے بندوں کو بھی گمراہ کرتا ہے ۔ ہم میں سے اکثر ایسے ہیں کہ تحقیق سے جان چراتے ہیں ۔ تحقیق میں تقلید نہیں ہوتی آدمی اپنے لئے نئی راہیں تراشنا ہے ۔ کام ہے ذرا مشکل ۔ علامہ اقبال فرماتے ہیں ۔
تحقیق کی بازی ہوتو شرکت نہیں کرتا
ہو کھیل مریدی کا تو ہرتا ے بہت جلد
تاویل کا پھندہ کوئی صیاد لگا دے
یہ شاخ نشیمن سے اتر تا ہے بہت جلد
دوسروں کی طراشیدہ راہوں پر چلنا کوئی مشکل کام نہیں ہے لیکن اپنے لئے نئی راہیں طراشنا اور قابل عمل بنانا مشکل کا م ہے ۔ مسلمانوں کے ساتھ ہزار سال سے یہی کچھ ہورہا ہے ۔ انتقامی جذبے والے دشمن پہلے شہر ت حاصل کرتےہیں اس کے بعد کتابیں لکھ ڈالتے ہیں اس طرح جو لوگ ان کی شہرت سے مرعوب ہوتے ہیں وہ ان کے ہر رطب و یا بس کو صحیفہ آسمانی کا درجہ دیتے ہیں ۔ بلا تحقیق من گھڑت تحریر کے لئے لکھنے والا خود تو گنہگار ہوتا ہے، ساتھ ساتھ وہ دوسروں کو گمراہ کرنے کا بوجھ بھی اٹھائے گا ۔
آج اگر قرآن مجید کی موجودگی کے باوجود مسلمانوں کو سرنگ کی دوسری جانب روشنی دکھائی نہیں دیتی تو اس کی وجہ یہی ہے کہ ہمارے درمیان وحی کی عظمت کے مقابلے میں علما ء و فقہا ء کی عظمت کہیں زیادہ مستحکم ہوگئی ہے ۔ ہم قرآن شریف کے راس مطالعے اور اس سے اپنا چراغ فکر روشن کرنے کے بجائے یہ ضروری خیال کرتے ہیں کہ ہمارے اس خیال کی تائید علما ء قدیم کے اقوال سے ہوتی ہے یا نہیں ۔ اللہ کے کلام کے مقابلے میں انسانی کلام یا کتب کو اہمیت دینابھی شرک ہے۔
أَنتُمُ الْأَعْلَوْنَ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ (139۔3)
کفر اور ایمان دراصل دو الگ الگ رویے ہیں ۔ یہ کوئی ایسی شناخت نہیں جو قوموں کو پیدائشی طور پر و دیعت ہوتا ہو ۔انبیائے کرام نے جب بھی مردہ روحانی معاشرے میں زندگی کا صور پھونکا کفار و مشرکین کے معاشرے سے دیکھتے دیکھتے اہل ایمان کی ایک بڑی تعداد سامنے آگئی ۔ پھر یہی لوگ جب قومی مسلمان بن گئے اور ان کی روحانی زندگی زوال پذیر ہوتی گئی تو ان ہی قوموں میں ایسے نفوس بھی پیدا ہوگئے جنہوں نے اللہ سے بغاوت اور سرکشی کی نئی تاریخ رقم کی ۔ افسوس کہ اہل ایمان کے یہ طائفے جن میں بغاوت اور سر کشی کا ظہور ہوا ، اس حقیقت کو نہ سمجھ پائے کہ کفر ہو یا اسلام اس کا انحصار زبانی دعویٰ پر نہیں بلکہ عمل پر ہے ۔ خدائے واحد کی اطاعت شعاری پر کسی مخصوص قوم یا فرد کی اجارہ داری نہیں ۔ قرآن مجید نے بڑی تفصیل کے ساتھ اس بات کی وضاحت کی ہے کہ کس طرح اہل یہود مدت سے اس خیال میں گم ہیں کہ وہ اب بھی اپنے تمام فکر و عمل کے زوال کے باوجود تمام اقوام عالم پر فضیلت رکھتے ہیں ۔
نومبر، 2013 بشکریہ : ماہنامہ صوت الحق ، کراچی
URL:
https://newageislam.com/urdu-section/facts-fictions-/d/24390