گریس مبشر، نیو ایج اسلام
(حصہ 1)
22 فروری 2025
انتہا پسند اسلامی تنظیموں کے خلاف ایک اہم اقدام کے طور پر، ہندوستان نے حال ہی میں اپنے انسداد دہشت گردی قوانین کے تحت حزب التحریر پر پابندی لگا دی ہے، اور مبینہ طور پر قومی سلامتی کے خدشات اور انتہا پسندی کو بھڑکانے میں، اس جماعت کے کردار کا حوالہ دیا ہے۔ یہ فیصلہ بنیاد پرستی کو روکنے اور ملک کے آئینی ڈھانچے کو چیلنج کرنے والے گروہوں کا مقابلہ کرنے کی، ہندوستان کی وسیع ترین کوششوں کا ایک حصہ ہے۔ حزب التحریر ایک طویل عرصے سے اسلامی خلافت کے احیاء کے لیے وقف ایک غیر متشدد سیاسی تحریک ہونے کا دعویٰ کرتی رہی ہے، اس کے نظریے اور بھرتی کرنے کے طریقوں نے دنیا بھر میں خطرے کا الارم بجا دیا ہے، جس کی وجہ سے جرمنی، روس اور مشرق وسطیٰ اور وسطی ایشیا کے بہت سے ممالک نے اس پر پابندی عائد کر دی ہے۔
اہم نکات:
حزب التحریر کی بنیاد 1953 میں یروشلم میں شیخ تقی الدین النبھانی نے رکھی تھی، جو اسلامی فقیہ اور مصری اخوان المسلمین کے سابق رکن تھے۔
حزب التحریر کے نظریے کی بنیاد اسلامی نظام حکومت کی سخت تشریح پر ہے۔ یہ قوم پرستی، جمہوریت اور سیکولرازم کو مسترد کرتی ہے، اور اس کے بجائے اسلامی قانون کے تحت متحدہ خلافت کے احیاء کی بات کرتی ہے۔
حزب التحریر جدید دور کی سب سے پراسرار اور متنازعہ فیہ اسلامی تحریکوں میں سے ایک ہے۔ یہ ایک انتہائی منظم تحریک ہے جس کا نظریہ بالکل واضح ہے اور یہ کئی دہائیوں کے جبر و استبداد کے باوجود آج تک زندہ ہے۔
…
حزب التحریر ایک بین الاقوامی اسلامی سیاسی تنظیم ہے، اور ایک طویل عرصے سے یہ متنازعہ فیہ اور بحث کا موضوع رہی ہے۔ 1953 میں قائم کی گئی اس جماعت کا مقصد اسلامی خلافت کا احیاء نو ہے، جسے یہ جماعت دنیا بھر کے مسلمانوں کے لیے ایک واحد جائز حکومتی نظام مانتی ہے۔ اگرچہ یہ جماعت اپنے مقاصد کے حصول کے لیے عدم تشدد طریقوں پر زور دیتی ہے، لیکن بہت سی حکومتوں نے اس کے بنیاد پرست سیاسی نظریے کی وجہ سے، اسے غیر قانونی قرار دیا ہے۔
اس مضمون میں حزب التحریر کے ماخذ، نظریاتی فریم ورک، قیادت کے نقطہ نظر، اور اس کی میراث پر روشنی ڈالی گئی ہے، اور اس کے لیے اس کے لیڈروں اور اس کی اشاعتوں کے اقتباسات پر پر انحصار کیا گیا ہے۔
بنیاد اور ابتدائی تاریخ
حزب التحریر کی بنیاد 1953 میں یروشلم میں شیخ تقی الدین النبھانی نے رکھی تھی، جو ایک اسلامی فقیہ اور مصر کے اخوان المسلمین کے سابق رکن تھے۔ نبھانی نے، بزعمِ خویش عرب دنیا کے سیکولرائزیشن اور موجودہ اسلام پسند تحریکوں کی ناکامی سے مایوس ہو کر، ایک ایسی سیاسی جماعت بنانے کی کوشش کی، جس کا مقصد اسلامی نظامِ حکومت کا حل پیش کرنے کے نام پر خلافت کا احیاء نو تھا۔
النبھانی نے کہا کہ حزب التحریر کا طریقہ کار دیگر اسلامی تحریکوں کے مقابلے میں منفرد ہے:
"ہم موجودہ حکومتی نظام میں شرکت کے ذریعے، اقتدار حاصل کرنے کے معنی میں عملی سیاست میں شامل نہیں ہیں۔ ہمارا کام صرف اور صرف فکری اور سیاسی ہے، جس کا مقصد امت کے ذہن کو بدلنا ہے۔"
اپنے آغاز سے ہی، حزب التحریر نے بڑے پیمانے پر سرگرمی کے بجائے، گہری نظریاتی تربیت کے ذریعے اراکین کو بھرتی کرنے پر توجہ دی ہے۔ یہ جماعت تیزی سے اردن، شام اور مشرق وسطیٰ کے دیگر حصوں میں پھیل گئی، لیکن اسے علاقائی حکومتوں کی جانب سے فوری جبر و استبداد کا سامنا کرنا پڑا، کیونکہ ان میں سے اکثر نے اسلامی ریاست کے حزب التحریر کے مطالبات کو، اپنی حکومت کے لیے براہ راست خطرہ سمجھا۔
نظریاتی فریم ورک
حزب التحریر کے نظریے کی بنیاد اسلامی نظام حکومت کی سخت تشریح پر ہے۔ یہ قوم پرستی، جمہوریت اور سیکولرازم کو مسترد کرتی ہے، اور اس کے بجائے اسلامی قانون کے تحت متحدہ خلافت کے احیاء کی بات کرتی ہے۔
خلافت کا کردار
خلافت ہی، حزب التحریر کے مطابق، مسلمانوں کے لیے واحد جائز نظام حکومت ہے، کیونکہ یہی منشاء ربانی ہے۔ حزب التحریر کا کہنا ہے کہ آج تمام مسلم اکثریتی ممالک خدائی حکومت کے بجائے "انسان ساختہ" قوانین کا شکار ہیں، جو بدعنوانی، جبر اور کمزوری کو جنم دیتے ہیں۔
جیسا کہ حزب التحریر کے بعد کے رہنما عبدالقدیم زلوم لکھتے ہیں:
1924 میں خلافت کی تباہی کے بعد سے امت تاریکی میں زندگی بسر کر رہی ہے۔ اس کے دوبارہ قیام سے ہی مسلمان دنیا میں اپنا وقار اور صحیح قیادت دوبارہ حاصل کر سکیں گے۔
حزب التحریر ایک ایسی خلافت کا تصور پیش کرتی ہے جس کا دائرہ تمام خطہ اسلامی تک پھیلا ہوا ہو، جس میں صرف ایک خلیفہ حاکم ہو، جو زندگی کے تمام پہلوؤں یعنی حکمرانی، معیشت اور معاشرت میں اسلامی قانون (شریعت) کا نفاذ کرے۔
جمہوریت کا رد
حزب التحریر جمہوریت کو مضبوطی سے مسترد کرتی ہے، اور یہ کہتی ہے کہ یہ مغرب کا مسلط کردہ نظام ہے جو اسلام سے مطابقت نہیں رکھتا۔ حزب التحریر کے خیال میں حاکمیت صرف اللہ کی ہے، لوگوں کی نہیں۔
النبھانی نے اپنی تحریروں میں لکھا ہے:
’’جمہوریت قانون سازی کا حق انسانوں کو دیتی ہے، جب کہ اسلام میں قانون سازی صرف اللہ کا حق ہے۔‘‘
حزب التحریر سیکولر حکومتوں کے تحت انتخابی سیاست کو ناجائز سمجھتی ہے اور ان میں شرکت کو اسلامی اصولوں کے ساتھ غداری کے طور پر دیکھتی ہے۔
نیشنلزم اور نیشنل اسٹیٹ کی مخالفت
حزب التحریر کا ایک سب سے مخصوص نظریاتی موقف یہ ہے کہ یہ قوم پرستی کو قطعی طور پر مسترد کرتی ہے۔ حزب التحریر عالم اسلام کے اندر کھڑی کی گئی ملکی سرحدوں کو، استعماری طاقتوں کی طرف سے مسلط کردہ ایک مصنوعی تقسیم سمجھتی ہے، جس کا مقصد اسلامی وحدت کو پارہ پارہ کرنا ہے۔
زلوم نے اس نکتے کی وضاحت کرتے ہوئے کہا:
"نام نہاد عرب دنیا، نام نہاد مسلم دنیا - یہ نوآبادیاتی پیداوار ہیں۔ ہماری وفاداری اسلام سے ہے ملکوں سے نہیں۔
اس قوم پرستی مخالف موقف کی وجہ سے اکثر حزب التحریر کو مختلف حکومتوں کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا ہے، ہے جو قومی شناخت کو اپنے استحکام کے لیے اہم سمجھتے ہیں۔
طریقہ کار: غیر متشدد لیکن بنیاد پرست
اپنی بنیاد پرست بیانیے کے باوجود، حزب التحریر ایک غیر متشدد طریقہ کار پر عمل کرنے کا دعویٰ کرتی ہے۔ اس جماعت کا کہنا ہے کہ وہ مسلح جدوجہد کے بجائے فکری اور سیاسی سرگرمیوں کے ذریعے خلافت کو قائم کرنا چاہتی ہے۔
حزب التحریر کے ترجمانوں میں سے ایک نے کہا:
ہم دہشت گردی اور تشدد کو مسترد کرتے ہیں۔ ہمارا طریقہ ایک نظریاتی جدوجہد پر مبنی ہے، جس کا مقصد موجودہ حکومتوں کے کرپشن کو بے نقاب کرنا اور امت کو اسلامی حکومت کے لیے تیار کرنا ہے۔
تاہم، ناقدین کا کہنا ہے کہ حزب التحریر کے بیانیے سیکولر حکومتوں کو ناجائز اور مغربی اثر و رسوخ کو استعمار کی ایک شکل کے طور پر پیش کرکے، انتہا پسندانہ تشدد کو ہوا دے سکتے ہیں۔
حزب التحریر کی عالمی توسیع
اپنے قیام کے بعد سے لیکر اب تک حزب التحریر مشرق وسطیٰ سے بہت آگے تک پھیل چکی ہے۔ آج، یہ 40 سے زیادہ ممالک میں کام کر رہی ہے، جس کے مضبوط گڑھ وسطی ایشیا، جنوبی ایشیا، اور یورپ ہیں۔
مشرق وسطیٰ میں موجودگی
عرب دنیا میں حزب التحریر کی سرگرمیوں کو جبرا دبایا گیا۔ مشرق وسطیٰ کی کئی حکومتیں، خاص طور پر مصر، اردن اور سعودی عرب، اس جماعت کو غیر قانونی قرار دے چکی ہیں اور اس کے ارکان کو قید کر چکی ہیں۔
اس کے باوجود، حزب التحریر کے کئی عرب ممالک میں خفیہ نیٹ ورک ہیں، خاص طور پر شام میں، جہاں اس نے اسلام پسند دھڑوں کو متاثر کرنے کی کوشش کی ہے۔
وسطی ایشیا میں اس کی طاقت
حزب التحریر وسطی ایشیاء میں خاص طور پر ازبکستان، کرغزستان اور قزاقستان میں نمایاں اثر رکھتی ہے۔ ان ممالک کی حکومتیں حزب التحریر کو ایک بڑے سیکورٹی خطرے کے طور پر دیکھتی ہیں، اور اس پر لوگوں کو بنیاد پرست بنانے اور ریاستی حکومتوں کو کمزور کرنے کی کوشش کا الزام لگاتی ہیں۔
بالخصوص ازبک حکومت، حزب التحریر کے خلاف کریک ڈاؤن کرنے میں جارحانہ رویہ اپنا رہی ہے، اور اس کے ہزاروں مشتبہ ارکان کو قید کر رہی ہے۔
جنوبی ایشیا میں اس کی ترقی
حزب التحریر نے پاکستان اور بنگلہ دیش میں مضبوط قدم جمائے ہیں، جہاں اس نے بھرتی کے لیے فوجی افراد اور تعلیم یافتہ اشرافیہ کو نشانہ بنایا ہے۔ اس نے بارہا پاکستان میں ایک اسلامی ریاست کے قیام کے لیے فوجی بغاوت کا مطالبہ کیا ہے۔
پاکستان میں حزب التحریر کے ایک بڑے لیڈر نے کہا:
’’مسلم فوجوں کو غدار حکمرانوں کو ہٹا کر خلافت قائم کر لینی چاہیے، کیونکہ وہ ایسا کرنے کی طاقت رکھتے ہیں۔‘‘
فوجی مداخلت کی یہ کھلی دعوت، حزب التحریر کی سرگرمیوں پر متعدد حکومتی کریک ڈاؤن کا باعث بنی ہے۔
یورپ میں اس کی گرفت
حزب التحریر نے مغربی ممالک میں بھی مقبولیت حاصل کی ہے، خاص طور پر برطانیہ میں، جہاں اس کی مسلم برادری پر نمایاں گرفت ہے۔ اگرچہ جرمنی اور روس میں اس پر پابندی عائد ہے، لیکن یہ آزادی اظہار کے بینر تلے کچھ مغربی ممالک میں قانونی طور پر کام جاری رکھے ہوئے ہے۔
حزب التحریر کی یورپی شاخیں فکری مباحثوں پر بہت زیادہ توجہ مرکوز کرتی ہیں، ایسے لیکچرز اور کانفرنسوں کا اہتمام کرتی ہیں جن میں مغربی جمہوریت اور اس کی خارجہ پالیسی کو تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہیں۔
میراث اور تنازعہ
اسلامی تحریکوں پر اس کے اثرات
حزب التحریر نے اسلامی بیانیے کی تشکیل میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اگرچہ یہ کبھی بھی خلافت قائم کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکی، لیکن عالم اسلام کی وحدت پر اس کے زور نے کئی عصری اسلامی تحریکوں کو متاثر کیا ہے۔
القاعدہ اور داعش سمیت کچھ جہادی گروپ، بالواسطہ طور پر خلافت کے حزب التحریر کے نظریے سے متاثر ہوئے ہیں۔ تاہم، حزب التحریر ان گروہوں کے تشدد کے استعمال کو باضابطہ طور پر مسترد کرتی آئی ہے، جس سے ایک تضاد پیدا ہوتا ہے کہ ان کا نظریاتی ہدف تو ایک ہی ہے لیکن ان کے طریقہ کار میں اختلاف ہے۔
حکومتی کریک ڈاؤن اور پابندیاں
کئی حکومتیں حزب التحریر کو اپنے استحکام کے لیے خطرہ سمجھتی ہیں، اور اس پر پابندی عائد کر چکی ہیں۔ جن ممالک نے حزب التحریر کو غیر قانونی قرار دیا ہے ان میں: مصر، پاکستان، روس، جرمنی، چین (خاص طور پر سنکیانگ جہاں حزب التحریر پر لوگوں کو سپریٹ ازم پر اکسانے کا الزام ہے)
پابندیوں کے باوجود، حزب التحریر ان میں سے بہت سے علاقوں میں خفیہ طور پر اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہے۔
داخلی چیلنجز
حزب التحریر کو داخلی رسہ کشی کا بھی سامنا ہے، جس میں قیادت کے حوالے سے تنازعات اور اسٹریٹیجک بحثیں شامل ہیں، کہ آیا موجودہ سیاسی ڈھانچے کے ساتھ منسلک رہنا ہے یا اپنے پیورسٹ طریق کار کو جاری رکھنا ہے۔
مزید برآں، پرتشدد انتہا پسند جماعتوں کے عروج نے حزب التحریر کے لیے، ایک غیر متشدد تنظیم کے طور پر اپنی شبیہ کو برقرار رکھنا مشکل بنا دیا ہے۔ بہت سے لوگ اس کے نظریے کو بنیاد پرستی کی طرف ایک قدم کے طور پر دیکھتے ہیں۔
حزب التحریر جدید دور کی سب سے پراسرار اور متنازعہ اسلامی تحریکوں میں سے ایک ہے۔ یہ ایک انتہائی منظم تحریک ہے جس کا نظریہ بالکل واضح ہے، اور یہ کئی دہائیوں کے جبر و استبداد کے باوجود آج تک زندہ ہے۔
اگرچہ اس نے خلافت کی بحالی کا اپنا مقصد حاصل نہیں کیا ہے، لیکن اسلامی سیاسی فکر پر حزب التحریر کے اثرات ناقابل تردید ہیں۔ یہ دیکھنا ابھی باقی ہے کہ آیا یہ کبھی بھی اپنے نظریے کو ایک ٹھوس سیاسی طاقت میں تبدیل کر سکے گی یا نہیں، لیکن عالمی اسلامی بیانیے پر اس کی گرفت ابھی ختم ہونے والی نہیں ہے۔
حزب التحریر کے نظریے کی تفصیلی تردید: اعتدال پسند اسلام کی آوازیں
حزب التحریر خود کو ایک فکری اور سیاسی تحریک کے طور پر پیش کرتی ہے، جس کا مقصد خلافت اسلامی کو بحال کرنا ہے۔ اگرچہ یہ عدم تشدد کا دعویٰ کرتی ہے، لیکن اس کی نظریاتی بنیادوں یعنی جمہوریت، قوم پرستی کی تردید اور موجودہ سیاسی نظاموں میں شرکت سے انکار نے، اسے حکومتوں اور اعتدال پسند مسلم علماء کے لیے تشویش کا باعث بنا دیا ہے۔
پوری اسلامی تاریخ میں، متعدد قابل قدر علماء اور اسلامی رہنماؤں نے ایسے خیالات کا اظہار کیا ہے، جو براہ راست حزب التحریر کے بنیادی نظریات سے متصادم ہیں۔ اس مضمون میں کلاسیکی اسلامی علماء، جدید مسلم دانشوران، اور ہم عصر سیاسی شخصیات کے بیانات کی روشنی میں، حزب التحریر کے نظریے کی ایک جامع تردید پیش کی گئی ہے، جو اسلام کی زیادہ متوازن اور عملی تفہیم کی بات کرتے ہیں۔
1. خلافت کا غلط استعمال: ایک تاریخی اور مذہبی تناظر
حزب التحریر کا دعویٰ:
حزب التحریر کا دعویٰ ہے کہ 1924 میں خلافت عثمانیہ کا خاتمہ عالم اسلام کے زوال کا آغاز تھا۔ اس کا دعویٰ ہے کہ ایک مرکزی خلافت کا قیام نو ایک دینی فریضہ ہے، اور آج مسلمانوں کو درپیش مسائل کا ایک واحد حل۔
1924 میں خلافت کی تباہی کے بعد سے امت تاریکی میں زندگی بسر کر رہی ہے۔ اس کے دوبارہ قیام سے ہی مسلمان دنیا میں اپنا وقار بحال کر سکتے ہیں اور صحیح قیادت دوبارہ حاصل کر سکتے ہیں۔ – عبدالقدیم زلوم، سابق حزب التحریر رہنما
تردید: خلافت کوئی دین کا ستون نہیں ہے
پوری تاریخ میں علماء اسلام نے خلافت کی نوعیت اور اس کی ضرورت پر بحث کی ہے۔ اگرچہ اسلام میں نظام حکومت کو اہمیت حاصل ہے، لیکن یہ اسلام کے پانچ ستونوں (کلمہ شہادۃ، صلاۃ، زکوٰۃ، صوم، حج) میں سے ایک نہیں ہے، اور نہ ہی یہ ایمان کا بنیادی اصول ہے۔
1.1 خلافت پر کلاسیکی علماء کی رائیں
مشہور اسلامی فقیہ امام الغزالی (1111-1058) کی دلیل ہے کہ مسلمانوں کی وحدت کی بنیاد سیاسی نظام سے زیادہ ایمان اور اخلاقی اقدار پر ہے:
’’عوام کی فلاح و بہبود کا انحصار کسی ایک حکمران یا ایک خلیفہ کے وجود پر نہیں، بلکہ معاملات کے منصفانہ انتظام، تحفظ کو یقینی بنائے جانے اور اسلام کے اصولوں کو برقرار رکھنے پر منحصر ہے۔‘‘ امام غزالی، احیاء علم الدین
اسی طرح، ابن خلدون (1406-1332)، عظیم مورخ اور ماہر عمرانیات نے کہا کہ اسلام میں سیاسی قیادت وقت کے ساتھ ساتھ قدرتی طور پر ارتقاء پذیر ہوئی ہے، اور یہ طاقت سخت تاریخی نمونوں کے بجائے معاشرے کی ضروریات پر مبنی ہونی چاہیے:
"خلافت جیسا کہ ابتدائی اسلام میں تصور کیا گیا تھا اس وقت کے لیے موزوں تھا۔ نظام حکومت کی تشکیل معاشی اور سماجی حالات سے ہوتی ہے، اور کسی ایک نمونے کو تمام عمر کے لیے لازمی نہیں سمجھا جا سکتا۔ – ابن خلدون، مقدّمہ
1.2 خلافت پر عصر حاضر کے علماء کی رائیں
معروف جدید اسلامی اسکالر شیخ یوسف القرضاوی (2022-1926) نے اس نظریہ کی تردید کی ہے کہ عالم اسلام کے لیے ایک متحدہ سیاسی نظام ضروری ہے:
’’قرآن یا مستند احادیث میں کہیں بھی یہ حکم وارد نہیں ہے کہ مسلمانوں کا صرف ایک واحد حکمران ہونا چاہیے۔ مذہب میں وحدت اور نیک کاموں میں تعاون ضروری ہے، لیکن ایک ریاست کے ماتحت سیاسی وحدت کا قیام نہ تو ضروری ہے اور نہ ہی خدائی حکم۔" - یوسف القرضاوی
ابتدائی اسلامی تاریخ میں بھی، کہ جس میں خلافت کے تصور کا جنم ہوا لیکن اس پر کبھی بھی عالمی سطح پر اتفاق رائے قائم نہ ہو سکی۔ خلفاء راشدین (661-632) کا نظام حکومت بعد کے اموی اور عباسی خلفاء سے مختلف تھا، جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ حکومتی نظام حالات کے مطابق تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔
خلافت کے قیام کو ایک فرضِ دینی قرار دینا، تاریخی حقائق اور فقہ اسلامی دونوں سے جہالت کا شاخسانہ ہے۔ انصاف، سلامتی، اور اچھی حکمرانی - نہ کہ ایک متحدہ سیاسی وجود - حقیقی اسلامی نظریات ہیں۔
2. جمہوریت اور انتخابات کو مسترد کرنا: ایک بیجا اختلاف
حزب التحریر کا دعویٰ:
حزب التحریر جمہوریت کو مسترد کرتی ہے، اور یہ کہتی ہے کہ صرف شریعت مسلمانوں میں رائج ہونی چاہیے، اور سیکولر نظام کے تحت انتخابات ناجائز ہیں۔
’’جمہوریت قانون سازی انسانوں کے سپرد کرتی ہے، جب کہ اسلام میں قانون سازی صرف اللہ کا حق ہے۔‘‘ - تقی الدین النبھانی، بانی حزب التحریر
تردید: اسلام شوریٰ اور عوامی اشتراک عمل کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔
جمہوریت کے خلاف حزب التحریر کی مخالفت گورننس کی سخت اور لفظی تشریح سے جنم لیتی ہے۔ تاہم، اسلام خود شوریٰ، جوابدہی، اور عوامی اشتراک عمل کی حوصلہ افزائی کرتا ہے، یہ سب جمہوری اصولوں کے مطابق ہیں۔
2.1 قرآن اور حدیث سے شوریٰ کا ثبوت
قرآن نے واضح طور پر حکومت میں مشاورت کا حکم دیا ہے:
’’اور وہ جنہوں نے اپنے رب کا حکم مانا اور نماز قائم رکھی اور ان کا کام ان کے آپس کے مشورے سے ہے اور ہمارے دیے سے کچھ ہماری راہ میں خرچ کرتے ہیں۔‘‘ (قرآن 42:38)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ریاستی معاملات میں مشاورت کا راستہ اختیار فرماتے تھے۔ آپ نے بڑے فیصلوں سے پہلے اپنے صحابہ سے مشورہ لیا، تاہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو وحی الٰہی کی رہنمائی حاصل تھی۔ جمہوریت اگر جواب دہی اور مشاورت سے چلتی ہے تو یہ غیر اسلامی کیسے ہو سکتی ہے؟
2.2 جمہوری اصولوں کی حمایت کرنے والے مسلم اسکالرز کے بیانات
ایک مصری اصلاح پسند محمد عبدہ (1905-1849)کا کہنا ہے کہ جمہوریت انصاف اور مشاورت کے اسلامی اصولوں کے مطابق ہے:
"جمہوریت کا جوہر - انصاف، جوابدہی اور مشاورت - یہ وہ باتیں ہیں جن کا اسلام مطالبہ کرتا ہے۔ مسئلہ خود جمہوریت کا نہیں، بلکہ ان لوگوں کا ہے جو کسی بھی نظام کے تحت طاقت کا غلط استعمال کرتے ہیں۔
اسی طرح، ہندوستان کے ایک اسلامی اسکالر مولانا وحید الدین خان (2021-1925) نے جمہوریت کا دفاع کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ اسلام آمریت کے خلاف ہے:
"عوام کی منتخب کردہ اور ان کے سامنے جوابدہ حکومت آمرانہ حکومت سے زیادہ اسلامی اقدار کے قریب ہوتی ہے۔ ظلم حرام ہے چاہے مذہب کے نام پر ہو یا سیکولرازم کے نام پر۔
حزب التحریر کا جمہوریت کو مسترد کرنا اسلامی نظام حکومت کی غلط تفہیم پر مبنی ہے۔ قرآن و سنت میں جا بجا مشاورت، اشتراک عمل اور احتساب کی ترغیب دی گئی ہے، اور یہ تمام باتیں جمہوری اصولوں کے مطابق ہیں۔
3. قوم پرستی اور مسلم شناخت: ایک غلط مخالفت
حزب التحریر کا دعویٰ:
حزب التحریر قوم پرستی کو مسترد کرتی ہے، جسکا اس کا یہ دعویٰ ہے کہ یہ نوآبادیاتی پیداوار ہے، جس کا مقصد امت مسلمہ کو تقسیم کرنا ہے۔
"نام نہاد عالم اسلام - یہ نوآبادیاتی پیداوار ہیں۔ ہماری وفاداری اسلام سے ہے ملکوں سے نہیں۔ - حزب التحریر کا بیان
تردید: اسلام تنوع اور مقامی شناخت کو تسلیم کرتا ہے۔
حزب التحریر کا قوم پرستی کو مسترد کرنا اسلامی تعلیمات سے متصادم ہے، جو کہ تنوع اور مقامی شناخت کو خدا کی تخلیق کا حصہ تسلیم کرتی ہے۔
3.1 قرآن اور پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کا قومی شناخت کو تسلیم کرنا
قرآن فرماتا ہے:
’’اے لوگو! ہم نے تمہیں ایک مرد اورایک عورت سے پیدا کیا اور تمہیں شاخیں اور قبیلے کیا کہ آپس میں پہچان رکھو۔‘‘ (قرآن 49:13)
اس آیت میں واضح طور پر تسلیم کیا گیا ہے کہ مختلف شناختوں کا وجود ہے، اور وہ فطری طور پر غیر اسلامی نہیں ہیں۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے خود قبائلی شناختوں کو تسلیم کیا ہے، لیکن نسل پرستی اور ظلم کی مذمت کی ہے۔
3.2 قومیت اور اسلام پر علما کی رائیں
جنوبی ایشیا کے ایک فلسفی اور شاعر محمد اقبال (1938-1877) نے کہا کہ اسلام میں ایک وسیع تر روحانی فریم ورک کے اندر قوم پرستی کی گنجائش پیدا ہو سکتی ہے:
اپنے وطن سے محبت اسلام سے محبت کی نفی نہیں ہے۔ ایک مسلمان اپنی مذہبی شناخت کو ترک کیے بغیر محب وطن ہو سکتا ہے۔
اسی طرح اردن کے شہزادے حسن نے جو کہ ایک جدید اسلامی اسکالر ہیں، کہا:
"اسلامی وحدت ایک روحانی بندھن ہے، لیکن سیاسی وحدت ہمیشہ عملی نہیں ہوتی۔ ایک عادل حکمران خواہ مسلم اکثریت ملک کا ہو یا غیر مسلم ریاست کا، ایک ظالم خلیفہ سے افضل ہے۔
حزب التحریر کا قوم پرستی کی مخالفت کرنا، اسلامی تعلیمات کو نظر انداز کرنے کے مترادف ہے، جس میں تنوع اور مقامی نظام حکومت کو تسلیم کیا گیا ہیں۔ مذہب میں وحدت کے لیے قومی ریاستوں کو تحلیل کرنا ضروری نہیں ہے۔
حرف آخر: آگے کا راستہ
حزب التحریر کے نظریات اسلامی تاریخ کی منتخب اور سخت تشریح پر مبنی ہیں، جن میں صدیوں کی فقہی ترقی اور سیاسی حقائق کو نظر انداز کیا گیا ہے۔ کلاسیکی سے لے کر جدید دور تک کے علما، ہمیشہ سے ایک غیر لچکدار اور یک سنگی ریاست کے بجائے، انصاف، مشاورت اور موافقت پذیری کی بات کرتے آئے ہیں۔
عالمِ اسلام کے لیے اصل چیلنج خلافت کا قیامِ نو نہیں بلکہ انصاف، تعلیم اور اچھی حکومت کا فروغ ہے۔ جیسا کہ قرآن فرماتا ہے:
’’بیشک اللہ حکم فرماتا ہے انصاف اور نیکی اور رشتہ داروں کے دینے کا اور منع فرماتا بے حیائی اور برُی بات اور سرکشی سے۔‘‘ (قرآن 16:90)
مسلمانوں کا ایک بہتر مستقبل ترقی، تعلیم اور اخلاقی قیادت میں مضمر ہے، نہ کہ ایسے سیاسی ماڈل کا خیال جمانے میں، جو کہ جدید دنیا کے لیے موزوں ہی نہیں ہے۔
…
English Article: Hizb ut-Tahrir: Radical thoughts influencing global mainstream politics – Part 1
URL: https://newageislam.com/urdu-section/hizb-tahrir-radical-thoughts-politics/d/134751
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism