New Age Islam
Sun Apr 20 2025, 05:53 PM

Urdu Section ( 6 Jan 2025, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Hindu Extremism and Muslim Reaction! !ہندو شدت پسندی اور مسلم رد عمل

 ڈاکٹر خواجہ افتخار احمد

3 جنوری 2025

 ماضی سے حال اور حال سے مستقبل جڑا ہوتا ہے۔ اسی تناظر میں بالا عنوان کو ۲۵ برس بعد پھر کچھ  شائع اقتباسات اور حاشیوں کے ساتھ آپ کے سامنےپیش کر رہاہوں۔ قوموں کو اپنے صاحب فکر و نظر طبقے سے ایک شکایت رہتی ہے کہ بر وقت رہنمائی کی ہوتی تو شاید یہ دن دیکھنے نہ پڑتے۔ آج تیسری مرتبہ پھر ایسی ہی ایک جسارت کررہا ہوں۔  ہندو شدت پسندی اور مسلم رد عمل ۱۲ جنوری ۱۹۹۹  کومتعدد اردواخبارات میں شائع شدہ مضمون ہے ۔

کلیان سنگھ کی بی جے پی حکومت  اتر پردیش میں برسر اقتدار ہے۔ مسجد-مندر اشو اپنےشباب پر ہے۔ کلیان حکومت تمام سرکاری تعلیمی اداروں میں سرسوتی وندنا اوروندے ماترم گانے کا حکم نامہ جاری کرتی ہے اور اس کے گانےکو لازمی قرار دیتی ہے۔ مسلم رد عمل جو ایک فتوے کی شکل میں سامنے آیا اس تناظر میں جو لکھا پیش خدمت ہے۔

’’اتر پردیش کی کلیان سنگھ سرکار کے تمام تعلیمی اداروں میں وندے ماترم اور سرسوتی وندنا گائے جانے کو لازمی قرار دینے پر معتبر حلقے سے ایک فتوی جاری کیا جاتا ہے جس میں مسلم والدین کو اپنے بچے بچیوں کو سرکاری تعلیمی اداروں سے نکالنے کو کہا گیا۔ ارتکاب شرک اور توحید کے تناظر میں اس کودیکھا اور سمجھا گیا۔ اسلام میں خدائے وحدہٗ لا شریک کے ساتھ کسی کو بھی دانستہ شریک کرنا ایک مسلم کو کفر و شرک میں راست مبتلا کردیتا ہے جس کے بعد تجدید ایمان اور تجدید نکاح تک بات جا سکتی ہے۔عقیدہ یہ ہی ہے البتہ میرا سوال یہ ہے کہ ہمارے قومی ترانے جن گن من میں بھارت بھاگیہ ودھاتا کے الفاظ آتے ہیں ۔ودھاتا خدا کا ہندی زبان میں متبادل ہے ۔بھارت کو یہاں درجہ خالق دیا گیا ہے۔اس پر کیا موقف ہے؟ ریاستی اسمبلیاں اور مرکزی قانون ساز اداروں کی کارروائی جن گن من اور وندے ماترم سے شروع اور پر ختم ہوتی ہے۔ سرحد پر ہندوستانی سپاہی قطع نظر مذہبی وابستگی کے جب اپنی جان وطن عزیز کی سلامتی پر نچھاور کر رہاہوتا ہے تب وندے ماترم یا اس کی دھن ہی گائی جا رہی ہوتی ہے۔

اسی طرح سرسوتی جس کو  برادران وطن علم کی دیوی کی علامت مانتے اور پوجتے ہیں اس کی تعریف میں بھجن کیرتن کو کار نیک اور کار ثواب تصور کرتے ہیں۔ تعلیمی، ثقافتی، ادبی پروگراموں میں اس شمع کو روشن کیا جاتا ہے جس پر سرسوتی کی شکل بنی ہوتی ہے۔ سرکاری اسکولوں کی شروعات اسی وندنا سے کی جاتی ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اکثریت کا ہر عقیدہ، رسم ورواج، طریقہ معاشرت گویا تمام ہی زندگی کفر و شرک کے عقیدے پر مبنی ہے۔ اب مسلمان یا تو اکثریت کے خلاف جہاد کرے، کسی دارالاسلام میں ہجرت کرے جو کہیں موجود نہیں یا پھر ایک اور تقسیم کا مطالبہ کرے اور اپنا وہ حشر کرے جو آج ’’مملکت خداداد‘‘کا ہے ۔اتنا ہی نہیں اگر اس طرح کے فتوؤں کا چلن چل پڑا تو یادرکھیں قرآن کریم جو کفر و شرک اور بت پرستی       کے خلاف اعلان جہاد ہے۔اس کی ایک ایک آیت کھلے گی ۔ آپ سیاق و سباق بتاتےرہئےگا۔ کوئی سنےگاہی نہیں؟ نتیجہ اکثریت اور مسلمانان ہند کے درمیان براہ راست تنازعات کی کوئی تھا ہ ہی نہ ہوگی ،جیسا آج دیکھنے کو مل رہا ہے۔ آگے چلئے صبح کو جب اکثریت سو رہی ہوتی ہےتو آپ اس کو یہ کہہ کر جگاتے ہیں کہ نہیں ہے کوئی معبود سوائے اللہ وحدہٗ لا شریک کے جس کا سیدھا پیغام یہ ہوتا ہے کہ وہ تینتیس کروڑ دیوی دیوتا جنکی تم پوجا ارچنا کرتے ہوجن کے مندروں میں تم گھنٹیاں بجاتے ہو وہ سب کفرو شرک ہے اور یہ تم ایک ایسا سنگین جرم کررہے ہو جس کاٹھکانہ جہنم ہے۔خدا نہ کرے کہ اگر کوئی سر پھرا عدالت عظمی چلا گیا اور اسکی رٹ داخل کر لی گئی تو حضرات گرامی آپ کیا کرینگے؟ عدالت میں قرآن اللہ کا کلام ہے اس کو کیسے ثابت کرینگے علاوہ ازیں یہ ہماراعقیدہ ہے ۔لہٰذا فتوؤں سے مسائل کو حل کرنے کی کوشش نہ کریں۔ یہ روش کچھ ایسی پیچیدگیاں پیدا کر دے گی  جن سے نبرد آزما ہونا نا ممکن ہوجائیگا۔ آپکا تو عقیدہ ہوگا مگر دوسرا اس کے نفسیاتی، سماجی اور سیاسی مضمرات کے ساتھ امن عامہ،فتنہ و فساد کو حائل خطرات کی بنیاد پر اپنا مقدمہ سامنے لائے گا۔ مصلحت اور حکمت کا بھی کوئی دینی تقاضہ ہے۔ نجی و عوامی دو جہتیں الگ ہیں۔ وہ عناصر جو اس طرح کے سوال اٹھانے کےجواز فراہم کرنے کی منصوبہ بندی ایک گیم پلان کے تحت کر رہے ہیں کیا ان کا یہ پہلو ہمارے زیر نظر نہیں رہنا چاہئے۔ وہ پرسنل لاء سے مسلم  خاندانی نظام  کونشانہ بنانا چاہتے ہیں ۔خواتین کی برابری کےاشو کو ہوا دے کر آپ کی بچیوں میں بغاوت کے بیج بونا چاہتے ہیں۔ آپ کے مذہبی جذبات کواکساکر آپ کے رد عمل کی بنیاد پر اپنے یہاں ہندو بنیاد پرستی کوہوااور غذا دینا چاہتے ہیں ۔آج مخلوط حکومت ہے قانون سازی آسان نہیں۔ کل اکثریت میں بھی آ سکتے ہیں، ملک کی پوری نفسیات بدل سکتی ہے، ترجیحات کا رخ یو ٹرن لےسکتا ہے، قانون سازی جو آج نا ممکن ہے کل ممکن بھی ہو سکتی ہے (تین طلاق پر قانون سازی سامنے ہے، طلاق حسن، طلاق احسن کو ترجیح کیوں نہیں ملی؟ کیاحنفیت قرآن پر غالب آگئی؟ طلاق تفویض ( خاوند کے ذریعہ بیوی کو حق طلاق تفویض کرنا) کا تو کہیں ذکر اور حوالہ ہی نہیں ملتا؟

آپ کونسی دنیا میں رہ رہے ہیں۔ آزادی سے پہلے ہندو مہا سبھا، آر ایس ایس موجود تھی۔ ان کے نظریات، ہندو راشٹر کا تصور، ہندوتواور ہندو ثقافت پر مبنی نیشنلزم سب موجود تھا۔ لاکھوں تعلیمی ادارے ، ہزاروں تنظیمیں اس مشن پر دن رات کام کررہی ہیں۔ کروڑوں لوگوں کی ذہن سازی ہو چکی، ہزاروں شا کھائیں ملک کے طول و ارض میں روزانہ کی بنیاد پر تربیت کر رہی ہیں۔ سیکولرزم کے علمبرداروں کی موجودگی میں ہندو رسم و رواج کی بالا دستی سرکاری سطح پر جاری اور عام ہے ۔

یاد رکھیں کوئی بھی ملائم سنگھ اور ’گاندھی‘وندے ماترم، بھارت بھاگیہ ودھاتا،سرسوتی وندنا یا دیگر کسی بھی ویدک روایت کے خلاف آپ کے ساتھ کبھی کھڑا نہیں ہوگا، ٹی وی پر مہا بھارت، رامائن، جے ہنومان، مہا شو پوران سب سیکولر سیاست کی ہی دین ہیں!ابھی تک سب سیکولرزم کے ذیل میں ہو رہا ہے۔ کل اس بنیاد پر ہی بلند و بالاعمارتیں بنیں گی۔ مورتیوں پر پھول چڑھانا، ہاتھ جوڑ کر نمسکار کرنا، سرسوتی کی جیوت جلانا، یہ سب مولانا آزاد کی نواسی، مسلم اکثریتی ریاست کے وزیر اعلیٰ، مسلم اراکین ،قانون ساز ادارے کے ذریعہ سب یہاں تک تو لائے ہی جا چکے ہیں۔ یہ اس طرح کےموقف ہی ہیں جنھوں نے ملک کو ہندوتو کے راستے پر ڈال دیا ہے۔ ادھر سے کچھ چھیڑ ہوتی ہے اور آپ فوری گرفت میں آ جاتے ہیں۔

وہ جو شب وروز مساجد،مدارس، خانقاہوں میں گزارتےہیں ،بھول جاتے ہیں کہ عام مسلمان کاسابقہ ہر وقت اکثریت سے ہے۔ اس طرح کے فتوے، بیانات اور اقدامات سے اس کے  لئے کیا پیچیدگیاں پیدا ہوتی ہیں اور ہندو بنیاد پرست قوتیں اس طرح کی لغزشوں کو لیکر کہاں تک چلی جاتی  جا ہیں کبھی اسکا احاطہ بھی ہوگا؟ یاد رکھیں اگر آپ بیس کروڑ مسلمان کو فتوؤں سے چلائیں گے توکل کوئی دھرم سنسد بنا کر چلائے تو اس کے لئے تیار رہیے‘‘ ۔ آج کمبھ پریاگ سے کیا آوازیں اٹھ رہی ہیں، اسلام،مسلمان، قرآن اور رسالت مآبؐ کی توہین کس مقام پر پہنچ چکی ہے؟

ایک وقت بابری مسجد بچ رہی تھی صرف چبوترا جا رہا تھا، پھر تین سو میٹر پر شیلانیاس، آثار قدیمہ کی مسجدوں کی آبادکاری کو قدر تسلیم تک بات کا آجانا، اس سے قبل تالا کھلا، رتھ یاترا ،پھر شہادت۔ اس کے بعد بھی برسہا برس ملے ،مگر ہندو بنیاد پرستی کو جب تک یہاں تک نہ لے آئے چین نہیں آیا۔ آج بھی کیا سوچ ہے؟ صرف بیان بازیاں اور سازش کارونا۔ پانی سر تک آگیا اب کوئی ہندوگردی کا اس ملک میں عملاً مخالف نہیں بچا۔ آپ سےسب بھاگ رہےہیں ۔

پسپائی انتہا پر، نہ قیادت،نہ بصیرت، نہ حکمت، نہ مصلحت، نہ نظریہ،نہ مزاج، نہ تحریک، نہ قدم اور نہ اقدام! بس باہم تنقید، ضمیر فروشی کے فتوے،ایک دوسرے کو مجرم ٹھہرانا اس کے سوا کیا ہے؟ یاد رکھیں زوال دشمن یا مخالف کی دین نہیں ہوتا یہ محض اپنی نادانیوں کی کمائی ہوتا ہے۔ کسی بھی مسئلے کو سنجیدگی سے نہ سمجھنا مستقبل کےحوالے سے پیچیدگیوں پر نظر کا نہ ہونا، مربوط حکمت عملی کا فقدان، سب قائد اور کہیں قیادت نہیں؟ چو طرفہ گرتی، بکھرتی اور منتشر ہوتی ساکھ،جمود ہی جمود، باتیں بہت بڑی پر عمل اس کے قطعاًبرعکس! کب تک ایسا ہی چلے گا؟

آخر میں اتنا ہی کہونگا کہ کوئی وقت تھا جب آپ  کےبارے میں سوچا جاتا تھا۔ اب آپ کو اکثر یت کے بارے سوچنا بھی ہے اور کرنا بھی ۔ راستہ اب یہاں سے کھلے گا۔ دروازےفی الوقت بند ہیں، کھڑکیاں بھی کھلی نہیں! دریچوں کی چٹخنی ابھی نہیں لگی ہے بس اتنی زمین بچی ہے۔مضمون پڑھ کر کسی فکر کو محور فکر بناکر کچھ سنجیدہ کرنے کاقدم بڑھائیے، فیصلہ آپ کا ہے کیونکہ آپ اس کا اپنے کو مجاز سمجھتے ہیں، متحمل مانتے ہیں مگر اب تک ایسا دیکھنے کو آنکھیں بیتاب ہیں؟

3 جنوری، 2025، بشکریہ: انقلاب، نئی دہلی

-----------------

URL: https://newageislam.com/urdu-section/hindu-extremism-muslim-reaction/d/134256

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism

 

Loading..

Loading..