New Age Islam
Fri Sep 13 2024, 02:50 PM

Urdu Section ( 19 Aug 2013, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Jihadists and the Hooligans of War جہادی اور جنگی غنڈے

 

حازم الامین

31 مارچ 2013

( انگریزی سے ترجمہ ۔ نیو ایج اسلام)

اسلام پسند ہماری ہی  طرح ، اس دنیا کے لوگ ہیں۔ ‘‘جنسی جہاد ’’ کے فتویٰ نے اس دور کی پیشن گوئی کی جو تبدیلیوں کے درمیان پیدا ہوا ، جن کا  مشاہدہ عرب ممالک نے کیا ۔ سب سے پہلے ایک فتوی، مردوں کو دودھ پلانے کے بارے شائع کیا گیا تھا، اور اس کے بعد، ایک اور فتوی، کسی کی بیوی کے ساتھ ، اس کی موت کے بعد، جماع کرنے کے بارے میں ، بھر ایک فتوی مائیکی ماؤس کو قتل کرنے کے بارے میں شائع کیا گیا تھا ، اور اسی طرح۔

وہ اس دنیا اور آخرت کے لوگ ہیں۔ لالچ کا ایسا پیمانہ ہے کہ ، ان عقائد کے ساتھ ہم آہنگی پیدا نہیں کی جا سکتی جس کا وہ حوالہ دیتے ہیں۔ انہوں نے خوشیوں کی طرف، جو لالچ دکھایاہے  وہ تعجب کی بات ہے۔ وہ اس نقطہ نظر میں سبقت لے گئے، جو ہم ظاہر کرتے ہیں ۔ ان خوشیوں کے تئیں جو  ہم چاہتے ہیں، ہمارے تذبذب اور شرمندگی سے ملے جلے تأثر  کے ساتھ ، ایسا لگتا ہے کہ یہ صرف ہماری مامونیت کی بہتات ہے جو ہم پر ایسے متذبذب جدیدیت  کے ذریعے مسلط کیا گیا ہے، خود جس کی ، اس میں کوئی علامت نہیں ملتی ، جس کے ہم وارث ہیں یا جس میں رہتے ہیں ۔ دوسری طرف وہ غیر متذبذب عزم کے ساتھ بغیرکسی شرمندگی کے ان خوشیوں کو حاصل کرنا  چاہتے ہیں۔ ہر اعتبار سے فتاوے بہت  مضبوط ہیں اگر چہ  اقدار کے ساتھ ان کا  کوئی تعلق نہیں ہے ۔

ہم نے اپنے ساتھ، ان تمام جنگوں میں خواہشات اور تصورات کا مظاہرہ کیا ہے، جو ہم نے لڑی ہیں  ۔ لیکن ہم میں سے کسی کے پاس بھی، جنگ کے دوران خوشی کی درخواست کرنے کی قوت نہیں تھی۔ ہم میں سے بہت لوگوں نے، ان کی حفاظت کرتے ہوئے  خوشی حاصل کی ، لیکن مذہبی نصوص کے بغیر ۔ یہ عمل  اس شخص کی اس طرح تھا، جو کچھ چراتا ہے، اور بعد میں اسے واپس کردیتا ہے ۔انہوں نے،  انہیں اس جنگ کے اقدار کے طور پر، غور کئے بغیر، خوشیوں  کی درخواست کی، جو وہ لڑ رہے تھے۔ جنگ نے اس کے تمام انتہائی قبیح  اقدار کے ساتھ، اعلان شدہ ​​خوشی کے حصول کے درخواست کے اضافے  کو برداشت نہیں کیا۔ لیکن آج، کوئی آواز بلند کرتا  ہے، اور یہ  کہتا ہے کہ اس طرح کی خوشیاں حاصل کرنا، اس  جنگجو کا حق ہے، جو اپنے والدین کے قریب نہیں ہے ۔

سچ یہ ہے ،کہ دیگر جنگوں میں، خوشیوں کی ہماری الجھن اور اسراف، ہمیں ان اسلام پسندوں کے مقابلے میں ہماری طرح زیادہ دیکھنے کا باعث بنتا ہے، جو خوشیوں کی درخواست کرتے ہیں ۔ ہم نےہمارے الجھن اور تردد میں، شاید ان سے زیادہ خوشی حاصل کر لی ہے۔ ان کے لئے عمل ، دینا اور لینا نہیں ہے۔ یہ ایک فتوی کا اطلاق اور مجاہدین  کے  حق کی تکمیل ہے۔ لہذا، وہ، اور اس میں ملوث شخص، دونوں، ا ن خوشیوں کے بہت سارے پہلوؤ سے  محروم ہیں۔

فتوں کا جنون

فتوں  کے اس جنون، تصاویر، ویڈیوز اور بحث و مباحثے نے، اسلام پسندوں کو ،ایک ایسی  حد تک گرا دیا ہےجہاں ہم اور وہ عام "غیر جہادی " جنگوں، کے غنڈے، جنہوں نے سابق لبنانی جنگ اور اس طرح کی دوسری جنگیں لڑیں، بھی نہیں پہنچے ہیں۔ ان کی خواہشات ظاہر کر کے  اور ضرورت سے زیادہ ان کے بارے  میں بول کر کے، انہوں نے اس شیخ کی شخصیت کو ٹکڑے ٹکڑے  کر دیا ، جس سے کہ وہ ابھر کر سامنے آئے ۔ وہ  ایک ہی وقت میں خوشی اور  جہاد دونوں  چاہتے ہیں۔ تاہم، ہم نے ، ہماری خوشیوں اور ان سے شرمندگی کو  چھپاتے اور ان کی چوری کرتے ہوئے ،"جہاد" اختیار کر لیا ، اس لئے کہ  ہم نے یہ سوچا  کہ  وہ  اس جنگ کے معاہدوں کی خلاف ورزی کر رہے ہیں، جس میں ہم مصروف ہیں ۔

وہ، شیخ جو  ویڈیوز اور ان سیٹلائٹ چینلز پر آتے ہیں ، ایسا لگتا ہے کہ ، وہ جس کے بارے میں بات کر رہے ہیں، اس کا تصور اور علم ،ان کے پاس  بہت کم ہے۔ وہ نااہل گلوکاروں کی لہر سے مشابہت رکھتے ہیں۔ یہاں تک کہ ان میں سے کچھ نے، ان ممالک میں پارلیمنٹ کے لئے اسے بنایا ہے، اس سلفی شیخ کی طرح جنہوں نے مصر میں ناک کی سرجری کروائی تھی، یہاں تک کہ ان میں سے  کچھ نے ایک بہت بڑی مسجد میں خود کے لئے ایک پلیٹ فارم محفوظ کر رکھا ہے، اس شیخ کی طرح جس نے  تیونس میں "جنسی جہاد" کا فتوی دیا ۔ نااہل گلوکار ان کے اپنے معاشروں میں، دوسروں کے مقابلے میں کم مؤثر نہیں ہیں۔ مثال کے طور پر، سحبان عبدالرحیم قاہرہ میں بہت معروف و مشہور ہو گیا ہے، اگر چہ وہ مصر کے موسیقی جذبات کی توہین کی نمائندگی کرتا ہے ۔

"اخوان المسلمین" کے کچھ دانشور، ان شیخوں کو  الگ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں،  جو اسلام پسندوں  کے عروج کے مسئلہ سے اس طرح کے فتوے صارد کرتے ہیں ۔ اسے حاصل کرنا ناممکن ہے۔ وہ شیخ اس بغاوت کی جائز اولاد ہیں۔ اخوان المسلمین خود کو ان سے الگ کرنے کی کوشش کرتی ہے ، لیکن مشکل اوقات میں ان کے ساتھ اتحاد بنا لیتی ہے۔ سلفی شیخ وہ ہیں جو  مذہبی چینلز پر مصر کے صدر محمد مرسی کا دفاع کرتے ہیں۔ مرسی کی کارکردگی فتوی دینے والے شیخوں کے ذریعہ کی گئی غلطیوں سے خالی نہیں ہے۔ ان کی زبان اکثر تقریروں کے دوران، ان کی مدد کرنے میں ناکام ہوتی ہے ، کیونکہ اس کا تعلق ، ان شیخوں کے  فتوی کی تشریحات سے ہوتاہے ۔ اسی وجہ سے ان کی زبان معاون  نہیں ہوتی ہے جب وہ ان لوگوں سے خطاب کرنا چاہتے ہیں ، جو سے ان شیخوں کے مخاطبین نہیں ہیں۔ وہ شخص اچھی طرح سے  انگریزی میں بات نہیں کرتا ، جبکہ اس  نے امریکہ میں تعلیم حاصل کی ہے ۔ اور کبھی کبھی، غیر ملکی حکام کے ساتھ کھڑے ہوتے ہوئے ، اس کی جسمانی حرکات و سکنات بھی مناسب نہیں ہوتے، اس لئے کہ وہ وجدانی شعور کے ذریعہ محفوظ ہوتا ہے، اور وہاں  کوئی ایسی متن یا فتوی نہیں ہوتا، جو یہ بتائے کہ کیا جائز ہے اور کیا نہیں ۔

فتاوے  اسلام پسندوں کے عروج سے نازل ہوتے  ہیں۔ انہوں نے جو حاصل کیا ہے، اس میں ان کے استحکام کی مشکلات کے مشہور مظہر بھی ہیں۔ اور یہ اس وجہ سے ہے۔، کہ وہ اپنے فتوں کے بارے میں، جو  ثقافت کی نمائندگی کرنے کا دعوی کرتے ہیں،  وہ واقعی اس سے غیر مانوس ہے ۔ میرا مطلب اسلامی ثقافت نہیں ہے، بلکہ ان معاشروں کی ثقافت ہے جن سے وہ ظاہر ہوئے ہیں ۔ " مردوں کودودھ پلانے " کے فتویٰ نے مقامی باشندوں کوحیران کر دیا تھا،  اس سے زیادہ اس نے عالمی رائے عامہ کو حیران کر دیا تھا ۔ آج، "جنسی جہاد" کا مذاق بنایا  جا رہا ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ وہ لوگ جو اس فتوی کے بارے میں گفتگو کرتے  ہیں  اس کا مذاق بنا تے ہیں،اور مزید وہ اس کا  خود سے مذاق بناتے ہیں۔  "تیونس کے مذہبی امور کے وزیر نورالدین الخادمی ،اس شیخ کی تردیدی کی وجہ سے جس نے " جنسی جہاد " کا فتوی جاری کیا تھا ، تذلیل آمیز تضحیک کا موضوع بنے ہو ئے ہیں ، اور وہ یہ تھا : ‘‘ تیونس کی عوام اور ریاستی اداروں کو اس پر عمل کرنا واجب نہیں ہے’’

مقصود اتھارٹی کی شبیہ

"جہاد کے ملک" میں خوشی کی درخواست کرنا ، مقصودع  اتھارٹی کی تصویر کی عکاسی کرتا ہے۔ فتوی اس کی نوعیت  اور مواد کا مظہر  ہے۔ جب اس کا موازنہ ، مساوات کے اقدار اور آزادی اظہار کے ساتھ کیا گیا ، جس نے انقلابات کوجنم  دیا ،تو اس  فتوی کے غیر شرعی ہونے کی حد کا انکشاف ہو گیا ۔ اس طرح خوشی کی درخواست کرنے سے  خودسری ، اجارہ داری اور استبدادیت  کا پتہ چلتا ہے "مجاہد کو خوش کرنا ۔" مؤخر الذکر مردانگی ، اور جو  صحیح ہے، اس کے حصول کے دعوے کی عکاسی کرتا ہے۔ تیونس کی خواتین ان کے جعلی ‘‘مرضی’’ پر شام جا رہی ہیں ۔  وہ صرف"مجاہدین"  کی خاطر سرحدوں کو پار کرتے ہیں  اور بھاگ دوڑ  کے شہروں میں پہنچتے ہیں ۔۔۔ ۔

ہو سکتا ہے کہ یہ سچ نہ ہو ۔ ہو سکتا ہے کہ  یہ  اس حقیقت کی ایک ایسی تصویر ہو ،جس کی خواہش جہاد کے مفتیوں نے کی ہو۔ وہ اس  دنیا کے باہر جا رہے ہیں۔ وہ خدا سے ملنے نہیں جا رہے ہیں ۔ لیکن ان کی دنیا ہماری طرح نہیں ہے۔ ان کی دنیا واضح اور یقینی ہے۔ ان کی دنیا کو ایسے نصوص کی حمایت حاصل ہے، جس  کا دعوی ہے کہ سب کچھ ایک حق ہے ۔ تاہم، ہماری دنیا ہچکچا ہٹ اور تذبذب کا شکار ہے، اور کسی بھی چیز میں اس کی سچائی کا اعتماد نہیں ہے۔ ہم جنگوں کے غنڈیں ہیں ۔۔۔ وہ ان کے جہادی ہیں۔

حازم الامین ایک لبنانی رائٹر اور صحافی ہیں، جو روز نامہ  الحیات میں کام کرتے ہیں ۔ وہ  اخبار کے لئے ایک فیلڈ رپورٹر تھے، اور انہوں نے،  لبنان، افغانستان، عراق اور غزہ کی جنگوں کی رپورٹنگ کی ہے۔ وہ یمن، اردن، عراق، کردستان اور پاکستان میں، اسلام پسندوں پر اور یورپ میں مسلم مسائل پر رپورٹنگ میں ماہر ہیں۔ انہیں علاقائی میڈیا کے ذریعہ ،عرب اور لبنانی سیاست کے انتہائی  ذہین مبصرین میں سے ایک کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔

ماخذ:  http://english.alarabiya.net/en/views/2013/03/31/Jihadists-and-the-hooligans-of-war-.html

URL for English article:

 https://newageislam.com/radical-islamism-jihad/jihadists-hooligans-war/d/10984

URL for this article:

https://newageislam.com/urdu-section/jihadists-hooligans-war-/d/13094

 

Loading..

Loading..