New Age Islam
Tue Apr 29 2025, 07:22 PM

Urdu Section ( 19 Dec 2023, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

You Have Lost This War, "Yahu" ‘یہ جنگ تم ہار گئے ’یاہو

ودود ساجد

17دسمبر،2023

آدھے سے زیادہ غزہ کو زمین دوز کرنے اور مغربی کنارے کے متعدد شہروں کو چاروں طرف گھیرنے کے باوجود اسرائیل یہ جنگ ہار گیا ہے۔ اس ظالمانہ او ریکطرفہ جنگ میں اسرائیل کا سب سے بڑا معاون امریکہ بھی اب اس جنگ سے خوف کھارہاہے۔ امریکی صدر جوبائیڈن کاتازہ بیان یہ ہے کہ اپنی بلا امتیاز بمباری کے سبب اسرائیل عالمی حمایت کھوتا جارہا ہے۔حالانکہ اس سے پہلے وہ خود کو صہیونی بھی قرار دے چکے ہیں۔امریکہ کے اخبارات لکھ رہے ہیں کہ خود بائیڈن بھی عالمی او رمقامی حمایت کھوتے جارہے ہیں۔ اسرائیل کے وزیر اعظم نتن یاہو کے خلاف نہ صرف اسرائیل میں بلکہ پوری دنیا میں مظاہرے ہورہے ہیں۔ ایک سروے کے مطابق 75 فیصد اسرائیلی شہریوں کا مطالبہ ہے کہ نتن یاہو کو مستعفی ہوجانا چاہئے۔ اسرائیل کی اپوزیشن جماعتوں کو بھی نتن یاہو کی ہلاکت خیز پالیسیوں سے اتفاق نہیں ہے۔ اسرائیل کا میڈیا مجموعی طور پر نتن یاہو کے خلاف لکھ رہاہے۔ یہاں تک کہ وہاں کے مشہور اخبار ’ہارٹز‘ میں تو مسلسل فلسطینیوں کے حق میں بھی مضامین شائع ہورہے ہیں۔ اسرائیل کے جو شہری ابھی تک حماس کے قبضہ میں ہیں ان کے اہل خانہ میں نتن یاہو کے خلاف غم و غصہ مسلسل بڑھتا جارہا ہے۔ اسرائیل کے بہت سے شہریوں نے پرتگال جیسے ممالک میں پناہ گزینی کی درخواستیں دیدی ہیں۔ وقتی جنگ بندی کے بعد شروع ہونے والی جنگ میں اسرائیل کے فوجی ہر روز مارے جارہے ہیں اور اس کے قیمتی ٹینک تباہ کئے جارہے ہیں۔

یہ پہلو بہت تکلیف دہ ہے کہ 18اکتوبر 2023 سے اب تک اسرائیل کے ظالمانہ حملوں میں 20 ہزار فلسطینی شہید او رپچاس ہزار سے زیادہ زخمی ہوچکے ہیں۔ ان میں بڑی تعداد معصوم بچوں اور عورتوں کی ہے۔ اقوام متحدہ اور آزاد اداروں کے ذرائع کے مطابق 18لاکھ فلسطینی بے گھر ہوگئے ہیں۔ اقوام متحدہ کی زیر نگرانی چلنے والے سینکڑوں اسکول او رہسپتال تباہ ہوگئے ہیں۔یہاں تک کہ اسرائیل کی فورسز نے فالو جا قبرستان پر بھی بمباری کرکے قبروں او رکتبوں کو مسمار کردیاہے۔ لیکن 1948 سے 2023 تک کے 75 برس کا سرسری جائزہ بتاتا ہے کہ اسرائیل کی جابر فورسز اس سے کئی گنا تعداد میں بے قصور او رنہتے فلسطینیوں کو شہید کرچکی ہیں۔ دربدری کے نتیجہ میں 20 لاکھ فلسطینی مصر، اردن،شام، سعودی عرب اور ترکی سمیت دنیا کے مختلف ممالک کو ہجرت پر مجبور ہوئے۔ اس سے بھی پہلے کے 28 برسوں کاجائزہ بتاتاہے کہ 1920 سے 1948 تک برطانوی قابض فورسز اور فلسطینیوں کے درمیان ہونے والی کشمکش میں 20 ہزار سے زیادہ فلسطینی شہید ہوئے تھے۔ اس کے بعد مصر اور اردن کے ساتھ ہونے والی اسرائیل کی جنگوں میں بھی کئی ہزار عرب شہری جاں بحق ہوئے تھے۔  اسرائیل کی فورسز کے طریقہ کار کا مشاہدہ بتاتاہے کہ روئے زمین پر سب سے زیادہ سفاک اسرائیلی فورسز ہی ہیں۔ ان کا ظلم دیکھ کر کوئی حساس انسان نہیں کہہ سکتاکہ انہیں انسانوں سے نپٹنے کے لئے تربیت دی گئی ہے۔اسرائیل کے وزیر دفاع گالانت نے تو کہا بھی ہے کہ ’ہمیں انسان نما جانوروں‘ کا سامنا ہے۔ اسرائیل نے فلسطین کے نوجوانوں، بوڑھوں، جوان عورتوں اور معصوم بچوں پر ظلم ڈھانے کے نئے نئے طریقے ایجاد کئے اور دنیا کے مختلف ملکوں کو ان کے متحرک طبقات کو کچلنے کے لئے اپنے تجربات سے مستفید کیا۔

اس جنگ میں اسرائیل کی طرف سے سفا کی کے وہ تمام طریقے اختیار کئے جارہے ہیں جو وہ اپنے وجود کے اولین ایام سے اختیار کرتا آرہاہے۔ لیکن اس جنگ کی نئی بات یہ ہے کہ اسے فلسطینی مزاحمت کاروں کی طرف سے پہلی بار ایسی خوفناک صورتحال کا سامنا ہے جس کا اس نے کبھی تصورتک نہیں کیا تھا۔ یہ نکتہ بہت اہم ہے کہ اسرائیل کو 7اکتوبر جیسی اچوک اور اچانک کارروائی کا شائبہ تک نہیں تھا۔ اگر ہوتا تو ہر گز اس سے بچنے کے انتظام سے غافل نہ رہتا۔ دنیا میں اسی نے پہلی بار 2011 میں ’آئرن ڈوم‘ سسٹم حاصل کیا۔ یہ سسٹم مزاحمت کا روں کی طرف سے آنے والے کسی بھی فضائی خطرہ سے 15-20 سیکنڈ پہلے آگاہ کرتا ہے اور کسی بھی راکٹ یا میزائل کو فضا میں ہی جاکر مار گرادیتا ہے۔ اس کے علاوہ اسرائیل کے تمام سرحدی علاقوں میں دوربین کیمروں اور انٹلی جنس ٹاوروں کی بڑے پیمانے پر تنصیب کی گئی ہے۔ لیکن اس کے باوجود 7اکتوبر 2023 کو اسرائیل کے یہ تمام انتظام دھرے رہ گئے۔

اب یہی صورتحال زمینی جنگ کی ہے۔ اسرائیل کی فورسز اپنے جنگی سازوسامان کے ساتھ اندرون غزہ گھس تو گئی ہیں لیکن ہر طرح کے حفاظتی انتظام سے لیس فوجیوں او رٹینکوں کو مزاحمت کاروں کے اچوک او ر اچانک حملوں کا سامنا ہے۔ فضائی بمباری میں گرائی گئی عمارتوں کے ملبہ سے اچانک آتشی ہتھیاروں کے ساتھ فلسطینی مزاحمت کار رونما ہوتے ہیں اور فوجیوں او رٹینکوں کو نشانہ بنا کر غائب ہوجاتے ہیں۔ اسرائیلی میڈیا کے مطابق اب تک 500 فوجی کمانڈرمارے گئے ہیں اور 5ہزار سے زائد زخمی ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ اسرائیل کے 200 مہنگے ٹینک بھی تباہ کئے جاچکے ہیں۔ ان میں سب سے معتبر اور خطرناک ٹینک ’میرکافا‘ بھی ہے جس کے ایک ٹینک کی قیمت 35لاکھ ڈالر ہے۔

اسرائیل او رحماس کا جنگی طاقت میں کوئی موازنہ نہیں ہے۔ اول الذ کر مکمل ایک ملک ہے جس کو ساری ترقی یافتہ دنیا کی اخلاقی،مادری اور عسکری مدد حاصل ہے۔ دوسری طرف زیر زمین ایک مزاحمتی تنظیم ہے جس پر ساری دنیا کے دروازے بند ہیں۔ سیاسی محاذ پر اہل غزہ کی بھاری حمایت کے باوجود غزہ پر حماس کے اقتدار کو دنیانے تسلیم نہیں کیا۔ ایسے میں مقابلہ جو بھی ہورہاہے اسے برابر کی دوطاقتوں کامقابلہ نہیں کہا جاسکتا۔ لیکن اسرائیلی فورسز کو جس قسم کی مزاحمت کا سامنا ہے وہ بالکل انوکھی، نئی اور غیر متوقع ہے۔ اس میں خطرناک ہتھیاروں کا دخل کم جوش وجذبات او رحمیت وغیرت کا دخل زیادہ ہے۔ اسرائیل کے وزیر اعظم نتن یاہو نے 8اکتوبر 2023 کو حماس کے خلاف جنگی کارروائی یہی کہہ کر شروع کی تھی کہ وہ جلد ہی حماس کا صفایہ کردیں گے۔ لیکن انہی کے حلیفوں او رخاص طور پر امریکہ او رفرانس نے انہیں بتایا کہ حماس کو اتنی جلدی ختم نہیں کیا جاسکتا۔مرحوم یاسر عرفات کی قیادت والی پی ایل او کی سابق تجربہ کارخاتون لیڈر حنان عشراوی نے بھی کہا کہ حماس کو ختم کرنا ممکن نہیں ہے۔ایک مہینے سے زائد کی جنگ کے بعد جب اسرائیل کو اندازہ ہوگیا کہ خوفناک جنگی کارروائیوں سے اسرائیل کے یرغمال شہریوں کو واپس حاصل نہیں کیا جاسکتا تو اس نے عارضی جنگ بندی پر رضا مندی ظاہر کی۔100 سے زائد شہریوں کو اس نے اس معاہدہ کے تحت حاصل کرنے کے بعد پھر خوفناک بمباری کرکے غزہ کو تباہ کردیا لیکن حماس نے واضح کردیا کہ باقی یرغمال اسرائیلی اسی وقت رہا کئے جائیں گے جب مکمل جنگ بندی ہوجائے گی۔ حماس کے ترجمانوں نے واضح طور پر کہا ہے کہ اسرائیل اپنی کارروائیوں سے ایک بھی یرغمال کو رہا نہیں کراسکتا۔ اگر بلا امتیاز بمباری او رتباہ کاری میں ہزاروں معصوم بچوں او رعورتوں کو بہنے والا خون بھی اہل غزہ کے حوصلہ کو متزلزل نہیں کرسکا تو سمجھنا مشکل نہیں ہے کہ انہیں اپنی سیاسی اور عسکری قیادت پر کتنا اعتماد ہے۔ غزہ میں اتنی تباہ کاری کے باوجود ابھی تک حماس کی سیاسی یا عسکری قیادت تک اسرائیلی فورسز کی رسائی نہیں ہوئی ہے۔اس کا بھی کوئی سراغ نہیں لگ سکا ہے کہ باقی 100 سے زائد یرغمال اسرائیلی کہا ں رکھے گئے ہیں۔70دنوں سے زیادہ کی جنگ میں اسرائیل کی حصولیابی کچھ بھی نہیں۔ اس کے برخلاف اس کانقصان بہت زیادہ ہے۔ فلسطینی شہیدوں کی تعداد اسرائیل کے جانی نقصان سے دس گنا ہے لیکن اولین سطور میں فلسطینیوں کے خون کی ارزانی کے جو اعداد ودشمار پیش کئے گئے ہیں ان کی روشنی میں اہل فلسطین کا ایسا نقصان تو ہمیشہ سے ہوتا آرہا ہے۔

اس قضیہ کا سب سے اہم عنصر عرب دنیا ہے۔ اسرائیل نے کئی عرب ملکوں سے خوشگوار تعلقات قائم کرلئے ہی۔باقی ملکوں سے اس کی بات چیت جاری تھی۔ پہلی بار خود سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان نے انکشاف کیا تھا کہ دونوں ملک ہر گزرتے دن کے ساتھ ایک دوسرے کے قریب آرہے ہیں۔انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ اسرائیل سے مراسم کی استواری میں مسئلہ فلسطین کا حل انتہائی اہم ہے۔ لیکن حماس کی 7اکتوبر کی کارروائی نے ان کوششوں پر ’بریک‘ لگادیا۔متعدد تجزیاتی رپورٹس کہتی ہیں کہ عرب ملکوں کے حکمراں اب بھی اس پہلو پر غور کررہے ہیں کہ جنگ کے خاتمہ کے بعد ان کے مراسم اسرائیل سے کس سطح کے ہوں گے او رریاست فلسطین کے خدوخال کیا ہوں گے۔ لیکن بعض رپورٹس ایسی بھی ہیں کہ اسرائیل کی روز افزوں ظالمانہ کارروائیوں کے سبب عرب ملکوں کے خیالات میں تبدیلی بھی آرہی ہے۔ تیونس، ترکی، متحدہ عرب ملکوں کے خیالات میں تبدیلی بھی آرہی ہے۔ تیونس،ترکی، مراقش، متحدہ عرب امارات اور بحرین میں عوامی بے چینی ہے۔ تیونس میں واقع عرب باومیٹر نامی تنظیم نے سروے کرکے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ اکثر عرب ملکوں کے عوام اپنے حکمرانوں سے نالاں ہیں اور ان کے درمیان ایران جیسے ملک کی قبولیت بڑھ رہی ہے جس نے حماس کی کارروائیوں کی تائید کی ہے۔ اس تنظیم کے تحقیق کاروں میخائل روینس، میری کلیئر روشے، امانی اے جمال، سلمہ الشامی او رمارک ٹیسلر کی تیار کردہ رپورٹوں سے کئی انکشافات اور اعداد وشمار حاصل ہوئے ہیں۔مثلاً بمباری میں غزہ کے 100 سے زیادہ تاریخی ثقافتی مقامات تباہ ہوگئے ہیں۔ اس کے علاوہ 45 فیصد رہائشی یونٹس برباد ہوگئی ہیں۔عرب ملکوں میں ان انکشافات سے سخت بے چینی او راضطراب ہے۔

میں نے اپنے پچھلے مضامین میں بتایا تھا کہ اسرائیل میں دوسرے ملکوں سے لاکر بسائے گئے نوآبادکاروں میں اکثریت شرپسندوں کی ہے جو فلسطینی علاقوں کی سرحدوں پر بسائے گئے ہیں۔یہ مسلسل اہل فلسطین سے جارحانہ چھیڑ چھاڑ کرتے رہتے ہیں۔ اب امریکہ سمیت کئی ممالک نے ان کے خلاف بھی نتن یاہو کو متنبہ کیا ہے۔ فرانس او ریورپ کے دوسرے کئی ملکوں نے نوآبادکار یہودیوں پر اپنے یہاں سفرکرنے پر پابندی لگادی ہے۔امریکہ نے بھی نتن یاہو سے کہا ہے کہ ان کے خلاف سخت کارروائی کریں۔’ہارٹز‘ اخبار نے تو 17نومبر 2023 کو ایک اداریہ لکھ کر نتن یاہو حکومت سے مطالبہ کیا تھا کہ ’جنگی جنون میں مبتلا نوآباد کار یہودیوں کو بالجبر روکے‘۔ اس اداریہ میں میں فلسطینیوں کا دفاع بھی کیا گیا ہے۔ادھر یہ پہلو بھی بہت اہم ہے کہ اب فلسطینی اتھارٹی کے سربراہ محمود عباس کے خلاف بھی فضا بن رہی ہے۔ 90فیصد فلسطینیوں نے ایک سروے میں حصہ لے کر کہا ہے کہ محمود عباس کو استعفی دے دینا چاہئے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جنگ جب بھی ختم ہوگی، فلسطین کے مستقبل میں رنگ بھرنے کے لئے ایک طرف جہاں محمود عباس کے لئے کوئی جگہ نہیں ہوگی وہیں کوئی بھی فیصلہ حماس کو ساتھ لئے بغیر نہیں کیا جاسکے گا۔ حماس کے سیاسی سربراہ اسماعیل ہانیہ نے صاف کہہ دیاہے کہ حماس کے بغیر فلسطین کے مستقبل کا خواب محض وہم اور دھوکہ ہے۔الجزیرہ او راسرائیل کے کئی کالم نگاروں کا تجزیہ ہے کہ اسرائیل کے دو دوست ممالک مصر اور اردن کبھی نہیں چاہیں گئے کہ حماس کا خاتمہ ہوجائے۔کیونکہ ان کے لئے اسرائیل کو قابو میں رکھنے کے لئے حماس کا وجود ضروری ہے۔ اکثر عرب او رمسلم ملکوں او رمسلمانوں کی قابل لحاظ آبادی والے ملکوں میں اسرائیل کی مصنوعات کا بڑے پیمانے پر بائیکاٹ بھی جاری ہے۔ آبناے ہرمز میں ’حوثیوں‘ نے ایسے کسی بھی پانی کے جہاز کو قبضہ میں لینے کا اعلان کیا ہے جواسرائیل کی طرف جارہا ہو۔ اس نے ایسے کئی جہازوں کو روک بھی رکھا ہے۔ یہ تمام ایسے نکات ہیں جن کی روشنی میں یہ نتیجہ اخذ کرنا غلط نہ ہوگا کہ نتیجہ کچھ بھی ہو اسرائیل یہ جنگ ختم ہونے سے پہلے ہی ہار گیا ہے۔

17دسمبر،2023، بشکریہ: انقلاب، نئی دہلی

--------------

URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/-lost-war-yahu/d/131340

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..