رویندر پٹوال
14 جون 2023
پرولا گاؤں دہلی سے تقریباً
385 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے، جو اتراکھنڈ کے اترکاشی ضلع میں آتا ہے۔ یہ گاؤں
یمونوتری راستے سے تھوڑی دور واقع تھا، جو گائوں سے مسلسل نقل مکانی کی وجہ سے اب ایک
قصبے میں تبدیل ہو چکا ہے۔ قصبے کی آبادی تقریباً 4,000 بتائی جاتی ہے جو کہ 2011 تک
2,500 کے لگ بھگ تھی۔ پرولا میں تقریباً 40 مسلم خاندان بھی رہتے ہیں۔ ان میں سے کچھ
لوگ کپڑے کی دکان چلاتے ہیں، اور گزشتہ 50 سالوں سے وہاں رہ رہے ہیں۔
جنچوک نے سینئر صحافی ترلوچن بھٹ
کے حوالے سے 10 جون کو پرولا میں فرقہ وارانہ کشیدگی کے واقعہ پر اپنی رپورٹ میں تفصیلی
معلومات دی ہیں۔ یہاں ہم ان حالات کو جاننے کی کوشش کریں گے، جن کی وجہ سے آج صورتحال
یہ بن گئی ہے کہ پرولا سے اقلیتی برادری کے خاندان ہجرت کرنے پر مجبور ہو رہے ہیں۔
اس حقیقت کو پورا میڈیا مسلسل چھپا
رہا ہے کہ ایک 14 سالہ ہندو لڑکی کو ایک مسلمان لڑکے سے نہیں بلکہ ہندو لڑکے سے محبت
تھی۔ واقعہ 26 مئی کا ہے، جس میں الزام لگایا گیا ہے کہ ایک 14 سالہ ہندو لڑکی کو دو
مسلم نوجوانوں نے اغوا کرنے کی کوشش کی، لیکن مقامی لوگوں کو شک ہوا اور لڑکی کو بچا
لیا گیا۔
لیکن ایک لڑکا اس میں سینی نام
کا ہندو ہے۔ صحافی ترلوچن بھٹ کے مطابق، "عبید خان اور جتیندر سینی دونوں اصل
میں بجنور کے رہنے والے ہیں، اور ان کی دکانیں ایک دوسرے کے آمنے سامنے ہیں۔ دونوں
دوست تھے اور سینی کا اس لڑکی سے معاشقہ تھا۔ جیسا کہ دوستوں کے مابین اکثر ہوتا ہے،
عبید نے بھی محبت کے معاملات میں اپنے دوست کا ساتھ دیا۔ یہ خبر پھیلائی جا رہی ہے
کہ وہ بڈکوٹ میں پرولا کے باہر پکڑا گیا ہے، سہی نہیں ہے۔ یہ لوگ پرولا میں ہی اکٹھے
گھوم پھر رہے تھے اور یہ کہانی گھڑ لی گئی۔
آج بھی دونوں لڑکے POCSO ایکٹ کے تحت حراست میں ہیں۔ لیکن یہ معاملہ پورے
اتراکھنڈ میں گرمایا ہوا ہے۔ یہاں تک کہ الجزیرہ نے بھی آج اس پر اپنی خبر شائع کی
ہے۔ لو جہاد کا شوشہ چھوڑ کر، پورے معاملے کو اتراکھنڈ دیو بھومی کے لیے سب سے بڑا
خطرہ قرار دیتے ہوئے، مسلمانوں کے خلاف جلوس، مظاہرے، 15 جون تک بھاگنے کی وارننگ اور
ہندوتوا تنظیموں اور خود ساختہ مذہبی رہنماؤں کے نعرے ہر ایک جہادی کو اتراکھنڈ سے
نکال باہر کرنے کے لیے گونجنے لگے۔
اس کا اثر بھی ہوا ہے۔ پرولا سے
درجنوں مسلم خاندان ہجرت کر چکے ہیں۔ کچھ خاندان اب بھی وہاں موجود ہیں، لیکن ان کی
دکانیں 15 دنوں سے زیادہ سے بند ہیں۔ نوبھارت ٹائمز کے 30 مئی کے اخبار کی سرخیوں میں
تھا کہ، "اتراکاشی: لو جہاد کے خلاف سڑکوں پر غصہ، پرولا میں راتوں رات 42 مسلمان
تاجر فرار۔" اس خبر میں مزید بتایا گیا ہے کہ کس طرح پورے علاقے کے لوگ اس معاملے
پر برہم ہیں اور پرولا میں مظاہرہ کے لیے لوگ اپنے گھروں سے گاؤں گاؤں میں ڈھول نگاڑے
لے کر نکل آئے۔
حالانکہ اس رپورٹ میں نبھاٹا کی
صحافی رشمی کھتری/راگھویندر شکلا نے ہندو ملزم جتیندر سینی کا بھی ذکر کیا ہے، لیکن
بتایا گیا ہے کہ دونوں نوجوان لڑکی کو وکاس نگر سے بھگا کر لے جانا چاہتے تھے۔ مجموعی
طور پر پوری خبر میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ لوگ مسلمانوں سے بہت ناراض
ہیں، وہ ان کی دکانوں کے بورڈ اکھاڑ رہے ہیں اور انہیں پرولا خالی کرنے کی تنبیہ کر
رہے ہیں۔ اسی طرح کی رپورٹ کم و بیش تمام ہندی اخبارات کی ہونی چاہیے، کیونکہ آج ہندی
اخبارات کو نکالنے کے لیے سرکاری اشتہارات کی طرفداری پہلی شرط ہے، پھر دوسرے نمبر
پر عوام کی اکثریت کی خواہش کے مطابق خبریں ہی کسی حد تک اس کی فروخت کی ضمانت دے سکتی
ہیں۔
پرولا کی دکانوں پر پوسٹر چسپاں
-------------
27 مئی کے بعد 29 مئی کو پرولا میں ہندو سنگٹھنوں کی جانب سے مظاہرے
کیے گئے، جس میں مسلمانوں کو علاقہ خالی کرنے کا انتباہ دیا گیا۔ اس وقت تک درجنوں
خاندان پرولا کو خالی کر چکے تھے۔ جو مسلمان دکاندار بچے رہ گئے، وہ ایک طویل عرصے
سے یہاں رہ رہے ہیں اور اپنا کاروبار کر رہے ہیں۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ آس پاس کے
دیہات کے لوگ اچھے سلوک اور مناسب قیمت کی وجہ سے ان کی دکانوں سے خریداری کو ترجیح
دیتے تھے۔ ایسے میں اس بات کو رد نہیں کیا جا سکتا کہ مسلمان تاجروں کو پرولا سے باہر
کا راستہ دکھانے کے پیچھے کچھ ہندو دکانداروں کا ہاتھ ہے۔
اس سلسلے میں مسلم تاجروں نے پولس
انتظامیہ سے رجوع کیا اور اپنی سیکورٹی کا مطالبہ کیا لیکن انہیں مایوسی ہوئی۔ پرولا
ٹریڈ یونین کے صدر برج موہن چوہان نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ انہوں نے مسلم تاجروں
سے اپنی دکانیں کھولنے کی اپیل کی ہے۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ اگر
ابھی نہیں تو ایک ہفتے بعد حالات بہتر ہوں گے تو دکانیں کھول سکتے ہیں۔ ہماری طرف سے
دکانیں بند رکھنے کے لیے کوئی زبردستی نہیں کی گئی۔
لیکن اس کے ساتھ ہی وشو ہندو پریشد
اور بجرنگ دل کے کھل کر سامنے آنے کے بعد صورتحال اور بھی سنگین ہو گئی ہے۔ مسلمانوں
کی دکانیں بند پڑی ہیں، جن پر 15 جون سے پہلے پرولا خالی کرنے کی وارننگ کے ساتھ پوسٹر
چسپاں کیے گئے ہیں۔ قصبے میں مہاپنچایت کے انعقاد کی خبر نے فرقہ وارانہ کشیدگی میں
کئی گنا اضافہ کر دیا ہے۔ دوسری طرف مسلم کمیونٹی سے خبریں آرہی ہیں کہ وہ دہرادون
میں اپنی مہاپنچایت منعقد کریں گے۔
آج تک کی خبر کے مطابق، پوسٹرز
میں لکھا گیا ہے، 'لو جہادیوں کو اطلاع دی جاتی ہے، 15 جون 2023 کو ہونے والی مہاپنچایت
سے پہلے اپنی دکانیں خالی کر دیں، اگر ایسا نہیں کیا گیا تو یہ وقت پر منحصر ہو گا...'
- یہ پوسٹر مسلمانوں کی دکانوں پر دیوبھومی رکھشا ابھیان نامی مہم کے حصے کے طور پر
چسپاں کیے گئے ہیں۔
بات پرولا تک ہی محدود رہتی تو
بھی غنیمت تھا۔ اس کی آگ اب اتراکھنڈ کے دیگر علاقوں میں بھی پھیلنے لگی ہے۔ اس کی
آگ اترکاشی کے ساتھ ساتھ برکوٹ، چنیالی سوڈ اور بھٹواری میں بھی پھیل چکی ہے اور یہاں
بھی ہندوتوا تنظیموں کی قیادت میں مظاہرے اور جلوس نکالے گئے ہیں۔
اتراکھنڈ ریاست 23 سال پہلے اتر
پردیش سے الگ ہوئی تھی۔ پہلے اتراکھنڈ کا علاقہ پہاڑی علاقہ کے نام سے جانا جاتا تھا۔
لیکن تقسیم کے وقت دہرادون، ہریدوار، اودھم سنگھ نگر کے ساتھ یوپی کے میدانی علاقے
بھی اس میں شامل ہو گئے۔ پہاڑی علاقوں میں مسلمانوں کی بہت کم آبادی تھی۔ گڑھوال کے
علاقے میں 250 سال قبل مغل خاندان کا ایک خاندان تہری ریاست میں پناہ گزین تھا جس کے
ساتھ دوسرے مسلمان خاندان بھی تیمارداری کے لیے آئے تھے۔ بعد میں مغل خاندان کے افراد
کو وہاں سے جانا پڑا لیکن ان کے ساتھ آنے والے خاندانوں نے اتراکھنڈ کو پسند کیا اور
یہیں رہ گئے۔
اسی طرح کچھ لوگ الموڑہ اور نینی
تال میں بھی آئے ہوں گے۔ لیکن یہ تعداد میدانی علاقوں میں اچھی خاصی ہے، جس کی وجہ
سے اتراکھنڈ کی سیاست میں مسلم کمیونٹی کی شکل میں فرقہ وارانہ بالادستی کامیاب ہوتی
ہے، جو ہماچل پردیش کے معاملے میں بی جے پی-آر ایس ایس کے لیے کام نہیں آتی۔ یہی وجہ
ہے کہ اس بار ہماچل میں جہاں بی جے پی کو اسمبلی انتخابات میں شکست کا منہ دیکھنا پڑا
وہیں اتراکھنڈ کے معاملے میں ایسا نہیں ہوا۔
نئی ریاست میں پہلے 10-15 سال آسانی
سے گزر گئے، کیونکہ ریاستی کام کاج کے لیے نوکریوں کی آمد تھی، لیکن گزشتہ 8-10 سالوں
میں حالات دن بدن خراب ہوتے جا رہے ہیں۔ نئی ریاست، نئے لیڈر اور بیوروکریسی اب پرانی
ہوچکی ہے، اب سوال اپنے لیے نہیں بلکہ اپنے رشتہ داروں کو فٹ کرنے کا ہے۔ سرکاری ملازمتوں
کے علاوہ کان کنی، لکڑی، شراب اور سرکاری ٹھیکے ہی وہ ذرائع ہیں جن سے کچھ آمدنی ہو
سکتی ہے۔
بی جے پی کو ریاست میں انتخابی
جیت کے بعد ہی سرکاری ملازمتوں میں دھاندلی اور بدعنوانی کی خبروں سے دو چار ہونا پڑا۔
اتراکھنڈ کے پہاڑی علاقوں کے نوجوانوں کی بڑی تعداد مشتعل ہوگئی۔ اوپر سے 75 سال گزرنے
کے بعد بھی فوج میں بھرتی ہونا پہاڑی نوجوانوں کے لیے سب سے بڑا سہارا ہے۔ لیکن اس
میں مودی حکومت نے اب صرف 4 سال کی نوکری کا انتظام کیا ہے۔ 'انکیتا بھنڈاری قتل کیس'
نے پورے اتراکھنڈ کو سڑکوں پر لا کھڑا کیا تھا، جس میں بی جے پی لیڈر کے بیٹے کی حرکت
زبان زد عام و خاص ہو گئی تھی۔ یہ تحریک اپنے آپ میں اتراکھنڈ کی تشکیل کے بعد سب سے
بڑی تحریک تھی۔
وزیر اعلیٰ پشکر سنگھ دھامی، جنہیں
انہیں کے علاقے کے لوگوں نے انتخابات میں شکست کا منھ دکھایا تھا، پر مرکزی حکومت کی
پوری نظر عنایت تھی، جس نے ہارنے کے باوجود انہیں ہی وزیر اعلیٰ کا عہدہ دیا۔ کرناٹک
میں بسواراج بومائی جی کو بغیر بنیاد کے وزیر اعلیٰ کے اقتدار میں رہنے کے لیے جس بحران
کا سامنا کرنا پڑا، کچھ ویسا ہی اتراکھنڈ میں ہے۔ کرناٹک میں بھی بومئی جو آر ایس ایس
کے پس منظر سے نہ ہونے کے باوجود ٹیپو سلطان، لو جہاد اور حجاب تنازعہ کے ساتھ کرناٹک
میں سرخیوں میں رہے۔ پشکر سنگھ دھامی کے پاس بھی ریاست کے لوگوں کو دینے کے لیے کچھ
خاص نہیں ہے۔ بڑھتی ہوئی بے روزگاری، مہنگائی اور انکیتا بھنڈاری اسکینڈل نے 2024 کو
بی جے پی کے لیے ایک ڈراؤنا خواب بنا دیا تھا۔
ایسے میں وہ تمام تدبیریں آزمائی
جا رہی ہیں، تاکہ لوگوں کو روحانی+مذہبی+اجنبی مذاہب سے نفرت کے بیج بو کر ان کے دنیاوی
غموں سے ان کا دھیان بھٹکایا جا سکے۔ اس کی بنیاد پہلے ہی رکھی جا چکی ہے۔ حال ہی میں،
ملک میں ہریدوار میں دھرم سنسد چلا کر ایک خاص مذہب کے خلاف نفرت انگیز تقریر کا معاملہ
دیکھا جا چکا ہے۔
لیکن اس سے بھی بڑا پہلو اتراکھنڈ
کو دیگر تمام ریاستوں سے الگ کرتا ہے۔ 2011 کی مردم شماری کے مطابق، اتراکھنڈ میں اعلیٰ
ذات کی آبادی بہت زیادہ ہے۔ سب سے بڑی آبادی چھتریوں پر مشتمل ہے، اور برہمن چھتری
مل کر آبادی کا 58 فیصد بنتے ہیں۔ اس کے علاوہ، اتراکھنڈ میں دیو بھومی ہونے کا شرف
بھی حاصل ہے، جس کا مودی سرکار نے موقع بموقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اتراکھنڈ کی اکثریتی
آبادی کو تقریباً آئینے میں اتاد دیا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ اتراکھنڈ میں
بی جے پی کو ایک سال کے اندر 3-3 وزرائے اعلیٰ مل گئے، جن میں سے سبھی مرکزی حکومت
کے کہنے پر مقرر کیے گئے اور ہٹائے گئے، لیکن ریاست میں کسی نے کچھ نہیں کیا۔ گویا
اتراکھنڈ بھی گجرات بن گیا ہے۔ حالیہ برسوں میں دلتوں کے خلاف تشدد اور امتیازی سلوک
کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے، لیکن اکا دکا احتجاجوں کے ساتھ یہ سب ٹھنڈے پڑ گئے ہیں۔
بڑی اپوزیشن پارٹی کانگریس بھی
دلتوں، اقلیتی برادری کے ووٹ حاصل کرنا چاہتی ہے لیکن کھلے عام ان کے حق میں آنے سے
کتراتی ہے۔ یہاں تک کہ ہندوتوا کے ایجنڈے کے تحت کئی بار اس کے نچلے درجے کے کارکنوں
کو بھی مسلمانوں اور دلتوں کے خلاف تشدد میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے دیکھا گیا ہے۔ اس
کی بنیادی وجہ ریاست میں اعلیٰ ذات کا غلبہ ہے، جس کا شکار ریاستی اکائی بھی ہے۔ بجرنگ
دل کھلے عام پرولا میں فرقہ وارانہ منافرت کی آگ کو ہوا دے رہی ہے، لیکن کیا کانگریس
کرناٹک کی طرح اتراکھنڈ میں بھی کھل کر چیلنج کرے گی؟
حالانکہ اتراکھنڈ میں روشن خیال
شہریوں، اساتذہ، فنکاروں اور بائیں بازو کی جماعتوں کی موجودگی بھی برقرار ہے اور انہوں
نے اس واقعہ پر انتظامیہ کو میمورنڈم دے کر اپنا احتجاج بھی ظاہر کیا ہے، لیکن ان کی
آواز اب صرف ان کے ساتھ ہی گونجتی ہے۔ مخالفت کی خاطر مخالفت کی علامت سے آگے بڑھ کر
اتراکھنڈ کے عام لوگوں کے سامنے ہمت کے ساتھ سچائی کو رکھنے کے لیے اب نوجوانوں کی
نئی نسل کم ہوتی جا رہی ہے۔
لیکن اتراکھنڈ کے بے روزگار لوگ
کب تک اپنے پیٹ میں لگی آگ کو بھول کر پرولا کی جھوٹی داستان کے بہکاوے میں بہتے رہیں
گے، جن کی بہن اور بیٹی دراصل لینڈ مافیا، کان کنی مافیا، ہزاروں کی تعداد میں پہاڑ
میں ککرمتوں کی طرح اگ آئے ہوٹلوں جال میں ایک اور 'انکیتا بھنڈاری' کا مقدر بننے والی
ہیں۔ یہ تو وقت ہی بتائے گا۔
(رویندر پٹوال جنچوک کی
ادارتی ٹیم کے رکن ہیں۔)
Source: उत्तराखंड: लव जेहाद की झूठी कहानी की आड़ में मुसलमानों के खिलाफ घृणा अभियान
Hindi Article: Hate Campaign Against Muslims Under The Guise Of Love
Jihad उत्तराखंड:
लव जेहाद की झूठी कहानी की आड़ में मुसलमानों के खिलाफ घृणा अभियान
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism