حسن کمال
28 ستمبر،2021
دہشت گردی کے خلاف جنگ اب
نہ کسی ایک ملک کا نعرہ رہ گیاہے او رنہ ہی کسی ایک ملک کے لئے نعرہ لگا کر اپنی
ناکامیوں سے عوامی توجہ ہٹانے کا حربہ رہ گئی ہے۔ اس وقت بہت دلچسپ صورت حال نظر
آرہی ہے۔ جب سے کابل پر طالبان کا انتہائی تیز رفتار او رغیر متوقع قبضہ ہوا ہے تب
سے کئی ملک ایک ہی بار کہہ رہے ہیں کہ طالبان انہیں یقین دلائیں کہ افغانستان کو
ان کے خلاف دہشت گردانہ حملے کے لئے ہر گز استعمال نہیں کرنے دیا جائے گا۔اس چیختے
چلاتے مطالبے میں امریکہ سب سے آگے ہے۔ اس کا مطالبہ ہے کہ طالبان ایک بار پھر
القاعدہ کی آماجگاہ نہ بنے۔ اس کی وجہ یہ مفروضہ ہے کہ 9/11 کا سانحہ القاعدہ کی
سازش تھا او رالقاعدہ کا سرغنہ اسامہ بن لادن اس وقت افغانستان ہی میں موجود تھا۔
حالانکہ آج تک یہ ثابت نہیں کیا سکا ہے کہ اسامہ بن لادن براہ راست اس سازش میں
ملوث تھا۔یہ تو امریکہ بھی مانتا ہے کہ اس سانحہ کے ذمہ دار افراد میں ایک بھی
افغانی شامل نہیں تھا۔ اسامہ بن لادن کو ماردینے کے بعد امریکہ نے خود کہا تھا کہ
افغانستان میں القاعدہ کا خاتمہ بالخیر ہوچکا ہے۔ اس لئے اب امریکہ کا یہ واویلا
عجیب لگتاہے کہ طالبان کو چاہئے کہ القاعدہ کو دوبارہ منظم نہ ہونے دیں۔ ستم ظریفی
دیکھئے کہ کابل ایئرپورٹ پر جو خود کش دھماکہ ہوا تھا، وہ داعش نے کیا تھا۔ اس کا
اعتراف خود امریکی خفیہ ایجنسیوں نے کیا تھا اور بوکھلاہٹ دیکھئے کہ اس کے جواب
میں امریکہ فوج نے جوڈرون حملہ کیا او رپھر یہ بھی دعویٰ کیا کہ اس حملے کے ذمہ
دار مجرم کو مار دیا گیا وہ دعویٰ بھی جھوٹا نکلا۔
کہانی اس وقت شرو ع ہوئی
جب داعش کے ویکلی میگزین نے یہ خبر دی کہ کابل ایئرپورٹ پر خودکش دھماکہ کرنے والا
اس کا ایک رضا کار تھا۔ یاد رہے اس دہشت گرد حملے میں 13امریکی فوجیوں سمیت 183/
افغان مرد، عورتیں اور بچے بھی مارے گئے تھے۔ داعش رضاکار کا نام عبدالرحمان
الغوری بتایا گیا۔ دوسرے ہی دن ہندوستانی میڈیا میں سرکاری ذرائع کے حوالے سے یہ
خبر دی گئی کہ یہ دہشت گرد یعنی عبدالرحمان الغوری ہریانہ کے کسی تعلیمی ادارے میں
زیر تعلیم تھا۔ خفیہ ایجنسیوں کواس کے بارے میں یہ اطلاع ملی کہ الغوری کا داعش سے
تعلق ہے،چنانچہ اسے 2016 ء میں فرید آباد سے گرفتار کرلیا گیا۔خفیہ ایجنسیوں کے
مطابق اس سے باز پرس کی گئی تو معلوم ہوا کہ وہ افغان شہری ہے او ر کشمیریوں پر
ہونے والے مظالم کا انتقام لینے کے لئے گؤ رکشکو ں پر حملے کرکے انہیں قتل کرنے کا
پلان بنا رہا تھا۔ یہ کام اسے داعش نے سوپناتھا۔ذرائع کے مطابق وہ تین سال تک جیل
میں بند رہا۔ اس کے بعد اسے افغانستان واپس روانہ کردیا گیا۔ جہاں مبینہ طو رپر
اشرف غنی سرکار نے اسے کابل کے جیل میں ڈال دیا۔ پھر جب 15/ اگست،2021 ء کو اشرف
غنی اچانک فرار ہوگئے اور طالبان کابل میں داخل ہوگئے تو جیل کا عملہ بھی وردی اتا
رکر او رسب چھوڑ چھاڑ کر بھاگ کھڑا ہوا۔ قیدیو ں نے جیل کے تالے توڑ دیئے اور سب
آزاد ہوکر نکل بھاگے۔ اس میں الغوری بھی تھا۔ الغوری پھر داعش والوں سے جا ملا او
راسے خود کش دھماکے کی ڈیوٹی دی گئی۔ ہے نا خوفناک لیکن بہت دلچسپ کہانی۔
لیکن یہ کہانی کئی سوالوں
کوبھی جنم دے رہی ہے۔ الغوری مبینہ طو رپر کشمیریوں کا انتقام لینا چاہتا تھا۔
ہندوستان میں اگر کسی دہشت گرد کا کشمیری کنکشن معلوم ہوجائے تو اس کے ساتھ کیا
سلوک ہوگا یہ بتانے کی ضرورت نہیں۔ آج بھی ہندوستانی جیلوں میں نہ جانے کتنے
کشمیری دہشت گردی کے الزام میں بغیر مقدمہ بند ہیں۔ الغوری کا توکشمیر کے علاوہ
داعش کا کنکشن بھی معلوم کرلیا گیا تھا۔ پھر اسے تین سال تک بند رکھنے کے بجائے
کوئی بڑی اور عبرت ناک سزاکیوں نہیں دی گئی؟ پھر اسے کابل کیوں بھیج دیا گیا۔ سب
سے عجیب بات یہ ہے کہ یہ بہت بڑا واقعہ تھا، لیکن کم از کم ہمیں یاد نہیں کہ 2016
ء میں اتنے بڑے واقعہ پر ہمارے میڈیا میں کوئی ہنگامہ برپا ہوا ہو۔ اس کی اطلاع تو
ہم سب کو آج یعنی پانچ سال بعد ملی ہے۔
آج ہم بجا طورپر طالبان
سے مطالبہ کررہے ہیں کہ افغانستان کی سرزمین کو ہندوستان کے خلاف دہشت گرد کا
رروائیوں کے لئے استعمال نہ کیا جائے تو یہ سوال پوچھا جانا ضروری ہے کہ الغوری نے
باز پرس کے دوران داعش کے بارے میں بہت کچھ بتایا ہوگا او روہ تمام باتیں حکومت
ہند نے اشرف غنی سرکار کو بھی بتائی ہوں گی۔ تو کیا یہ بہتر نہ ہوگا کہ سرکار وہ
تمام باتیں اب طالبان حکومت کو بھی بتادے۔ یہ ہم اسلئے کہہ رہے ہیں کہ امریکہ تک
نے یہ کہا ہے کہ داعش اور طالبان ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہیں۔ اس لئے یہ تو طے
ہے کہ طالبان داعش کو فنانس نہیں کررہے ہوں گے۔ تو پھر اب داعش کو کہا ں سے فنڈ مل
رہا ہے۔ اگر حکومت ہند الغوری کی فراہم کردہ تمام اطلاعات طالبان سرکار کو بتادے
تو عین ممکن ہے کہ بہت سے رازوں پر سے پردہ اٹھ جائے۔ یہ اس لئے ضروری ہے کہ داعش
اس وقت دنیا کے لئے سب سے بڑا خطرہ ہے۔ امریکہ تو اس کا تازہ ترین شکار ہوا ہے۔
لیکن افغانستان کے تمام ہمسائے بھی داعش کے کرایے کے قاتلوں سے تشویش میں مبتلا
ہیں۔ ہندوستان کو ا س لئے تشویش ہے کہ کہیں داعش کا منحوس سایہ جموں کشمیر پر نہ
پڑے۔ چین میں بھی اسے خطرہ مانا جارہاہے،کیونکہ چینی حکومت کے دعوے کے مطابق سنگیانگ
کے کچھ مسلمان نوجوان داعش کے بہکاؤے میں آچکے ہیں، جس کے سبب چین کو سخت اقدامات
اٹھانا پڑے تھے۔ ترکمانستان میں بھی چند انتہا پسند تنظیمیں داعش سے مدد لے سکتے
ہیں۔ پاکستان کی تشویش تو کچھ زیادہ ہی ہے۔
افعانستان صرف داعش کا ہی
نہیں، تحریک طالبان پاکستان او ربلوچ علاحدگی پسند تنظیموں کا بھی گڑھ بن چکا ہے۔
اس طرف پاکستان میں کئی خود کش دھماکے ہوئے۔ ایک ایسے ہی خود کش دھماکے میں 9/
چینی اور تین پاکستانی انجینئر ہلاک ہوئے تھے۔ ایک خود کش دھماکہ تو کوئٹہ کے اس
ہوٹل پر بھی کیا گیا تھا، جہاں تھوڑی دیر بعد چینی سفیر آنے والا تھا۔ پاکستان کی
تشویش کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ طالبان نے عام معافی کا اعلان کیا تھا، جس کی وجہ
سے ان کرایے کے قاتلوں کو بھی معافی ملی ہوئی ہے۔ اس معافی کا فائدہ اٹھا کر داعش
والے بھی دبک کر بیٹھ گئے ہیں، لیکن اس بات کا شدید خطرہ موجود ہے کہ چند دنوں بعد
یہ پھر سر اٹھانا شروع کرسکتے ہیں، اسی لئے افغانستان کے تمام ہمسایہ ممالک طالبان
پر داعش کے خلاف کارروائی کرنے کامطالبہ کررہے ہیں۔
امریکہ کو چاہئے تھا کہ
دوحہ معاہدہ میں یہ بات بھی رکھتا کہ داعش کے خاتمہ سے پہلے امریکہ فوجیں نہیں
نکالے گا۔ اس نے ایسا نہیں کیا۔ الٹے اس کی فوجیں 85/ ارب ڈالر مالیت کا فوجی سازو
سامان چھوڑ کر بھاگ نکلیں جو ان دہشت گردوں کے ہاتھ بھی لگ سکتا
ہے۔ اس لئے یہ ضروری ہے کہ حکومت ہند عبدالرحمان الغوری کی فراہم کردہ تمام
معلومات طالبان کے وزیر داخلہ کے سپر د کرے تاکہ یہ معلوم کیا جاسکے کہ اسامہ بن
لادن کی موت کے بعد داعش سمیت ان تمام دہشت گرد عناصر کو مالی مدد کہا ں سے مل رہی
ہے اور اس وقت ان کی ڈور کن ہاتھوں میں ہے۔
28 ستمبر،2021، بشکریہ: انقلاب، نئی دہلی
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic
Website, African
Muslim News, Arab
World News, South
Asia News, Indian
Muslim News, World
Muslim News, Women
in Islam, Islamic
Feminism, Arab
Women, Women
In Arab, Islamophobia
in America, Muslim
Women in West, Islam
Women and Feminism