حسن کمال
21جنوری،2020
سب سے پہلے شاہین باغ کے شاہیناؤں کو ہمارا عقیدت، محبت اور احترام سے لبریز سلام، جنہوں نے اس کڑکڑاتی، رگوں میں خون جماتی سردی کے یخ بستہ دنوں او ربرفیلی راتوں میں ایک بے حس او ربے غیرت حکومت کے ظالم ارادوں کے خلاف پر امن احتجاج کی وہ مثال پیش کی ہے، جسے دیکھ کر ساری دنیا ششدر ہے۔ ہم اس احتجاج کا ایک ویڈیو دیکھ رہے تھے۔ کیمرہ ایک نوجوان ماں کے سامنے گیا، جس کی گود میں ایک نوزائیدہ بچی ہمک رہی تھی۔ بچی کی عمر پوچھے جانے پر ماں نے بتایا کہ بچی کی عمر صرف 23دن ہے۔ ہماری ریڑھ کی ہڈی میں سردی کی لہر دوڑ گئی۔یقین جانیں اس رات ہم ٹھیک سے سو نہ سکے۔ بار بار ہماری آنکھ کھل جاتی تھی۔ ہر بار ہمیں اس بچی کی خیال ستاتا تھا کہ نہ جانے کس حال میں ہو۔ پھر سوچ کر ہمارے دل کو تسلی ہوگئی کہ اللہ نے ماں کی گود کو ممتا کی وہ حرارت بخشی ہے جو کسی بھی سردی کو مات دے سکتی ہے۔ جس کے آگے جدید ترین الیکٹرک ہیٹر بھی کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ ہمارا خیال درست نکلا۔ اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ بچی بالکل محفوظ وسلامت ہے۔ اللہ اس بچی کی عمر دراز کرے۔ وہ بڑی ہوکر فخر سے کہہ سکے گی کہ ظلم کے خلاف احتجاج میں اس معصوم بچپن بھی شامل تھا۔
آپ سوچ رہے ہوں گے کہ مضمون کاعنوان تو کچھ اور ہے، یہ ہم شاہین باغ کیوں جاپہنچے۔ اس کی ایک بڑی وجہ ہے۔ اس 23دن کی بچی کے بعد جس چیز نے ہمیں چونکا یا وہ خواتین میں سے کسی کے ہاتھ میں ڈاکٹر بابا صاحب بھیم راؤ امبیڈکر کی ایک بڑی تصویر تھی۔ ہماری آنکھیں چمک اٹھی۔ اللہ اللہ، ہم نے مسلم دلت ایکتا پر میلوں لمبے کالم لکھ ڈالے۔ بے حساب او ربے تکان لیکچر دے ڈالے لوگ پھر بھی نہ سمجھ پائے۔ سمجھیں وہ، جن کے بارے میں ہمیشہ کہا جاتا ہے کہ اجی یہ بیچاریاں کیا جانیں کہ یہ سب کیا ہوتا ہے۔ اللہ نے توبس اتنا کہا ہے کہ ہم نے عورت کو مرد سے بس ایک درجہ کم بنایا ہے، جس کا تعلق جسمانی ساخت اور قوت سے بھی ہوسکتا ہے لیکن ملّاؤں نے تو اسے ہزار درجہ کم قرار دینے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔ لیکن گر بات مسلمان عورت کی سمجھ میں آگئی ہے تو جان لیجئے کہ خواب حقیقت بننے کی راہ پر چل نکلا ہے۔ اگر شاہین باغ کی بیدار مغز اور با شعور خواتین کو یہ احساس ہوگیا کہ آج ہمارے آئین کے معمار اعظم ڈاکٹر امبیڈکر کی معنویت او راہمیت اس ملک کی بقا کے لئے کتنی ضروری ہے تو انہیں اس نتیجے پر پہنچتے بھی زیادہ دیر نہیں لگے گی کہ دلتوں اور مسلمانوں میں سیاسی سطح پر اتحاد سے زیادہ سماجی پیمانے پر اتحاد کیسے اس ملک کی سماجی تاریخ کا رخ پھیر سکتا ہے،جو ایک دن سیاسی دھارے کارخ بھی پھیر سکتا ہے۔
ڈاکٹر امبیڈکر او رمسلمانوں کامعاملہ عجیب رہا ہے۔ آزادی سے پہلے جب بھی کانگریس کے اعلیٰ ذاتوں نے ڈاکٹر امبیڈکر کو نظر انداز کرنے کی کوشش کی،مسلمانوں نے ڈاکٹر امبیڈکر کا ساتھ دیا۔ عجیب بات یہ ہے کہ آزادی کے بعدمسلمانوں کے ایک بہت بڑے طبقہ نے عموماً اور سیاست میں شامل مسلمانوں نے خصوصاً، (جن کی اکڑیت اشرافیہ تھی) ڈاکٹر امبیڈکر سے چشم پوشی ہی اختیار کئے رکھی۔اس کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ کانگریس کی اعلیٰ ذات لیڈر شپ نے ہمیشہ ڈاکٹر امبیڈکر کی بلندوبالا شخصیت کونظر انداز کرنے کی کوشش کی۔کانگریس کی اس لیڈر شپ نے ڈاکٹر امبیڈکر کو بحالت مجبوری برداشت کیاتھا۔ انہیں برداشت کرنے کے کئی ایسے اسباب تھے، جن پر مذکورہ لیڈر شپ کابس نہیں چل پاتا تھا۔پہلا سبب یہ تھا کہ ڈاکٹر امبیڈکر کی قابلیت کالوہا ہندوستان سے لے کر برطانیہ تک انگریز حکمراں بھی مان چکے تھے۔ ڈاکٹر امبیڈکر بحیثیت دانشور اپنے تمام ہم عصر سیاست دانوں سے زیادہ بلند قامت تھے، ان کے ہم عصروں میں ظاہر ہے مہا تما گاندھی،محمد علی جناح،پنڈت نہرو، سردار پٹیل او رمولاناآزاد شامل تھے۔ ان تمام لیڈروں نے جتنی کتابیں لکھی تھیں، ڈاکٹر امبیڈکر نے ان سب کوملا کر بھی ان سے زیادہ کتابیں لکھ ڈالی تھیں۔ مذکورہ لیڈروں کو انگریزی پر تو بہت دسترس تھی (مولانا آزاد نے انگریزی بہت بعد میں سیکھی تھی) ڈاکٹر امبیڈکر کو انگریزی کے علاوہ مراٹھی اور سنسکرت پر بھی عبور حاصل تھا۔ ڈاکٹر امبیڈکر ویدوں، پرانوں اور شاستروں کے اتنے بڑے جانکار اور عالم تھے کہ بڑے سے بڑا پنڈت بھی ہندو دھرم پر ان کے آگے منھ کھولتے ڈرتا تھا۔ کانگریس کے مذکورہ لیڈروں کو ویدوں، پرُانوں اور شاستروں کی بہت معمولی جانکاری تھی۔ ڈاکٹر امبیڈکر کا سب سے بڑا وصف ہندوستان کی سماجی تاریخ اور نظام کی پیچیدگیوں کی بے نظیر واقفیت تھا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ انہیں اس کمیٹی کا سربراہ بنایا گیا، جسے آئین کی تصنیف کاکام سونپا گیا تھا۔ اگرہندوستان میں عورتوں، اقلیتوں اور دلتوں اور پسماندہ طبقات کے حقوق کے تحفظ کا اہتمام ہے تو وہ صرف اور صرف ڈاکٹر امبیڈکر کے دم کاظہور ہے۔ اس لئے مسلمانوں میں ڈاکٹر امبیڈکر او ران کے نظریات کا احیا ایک بے حد مبارک نوید ہے۔
آج سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ مسلمان اگر دلت برادری سے قریب ہونا چاہیں تو کیسے ہوں اور کس دلت رہنما کی قیادت تسلیم کر کے قریب جائیں۔ آج دلت قیادت کاشیرازہ بالکل منتشرنظر آتا ہے۔ ڈاکٹر امبیڈکر او رکانشی رام جیسا کوئی قائدآج بھی نظرنہیں آتا، اس میں کوئی شبہہ نہیں کہ امبیڈکر کے بعد کانشی رام ہی ایسے لیڈر تھے، جن پر دلت اور مسلمان یکساں طور پر اعتبار کرتے تھے۔انہوں نے اتر پردیش میں غیر اشرافیہ مسلمانوں اور دلتوں کو اتنا قریب کردیا تھا کہ تمام ملک کی سیاست میں ہلچل مچ گئی تھی۔ لیکن کانشی رام کے بعدیہ اتحاد قائم نہیں رہ سکا۔ آج صرف وامن میشر ام ایسے دلت رہنما ہیں، جن کی طرف بار بار نگاہیں اٹھتی رہتی ہیں۔ان میں دانشورانہ صلاحیتیں بھی بدرجہ اتم پائی جاتی ہیں۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ انہوں نے دلتوں میں تو ہمات، اندھے اعتقاد اور فضول رسمیات کے خلاف اور سائنسی سوچ کے حق میں بیدار ی کی ایک ایسی لہر دوڑا دی ہے،جو ان سے پہلے کوئی نہیں کرسکاتھا۔ وہ اکیلے دلت مسلم،دلت ایکتا کے مبلغ ہیں، بلکہ تمام دیگر پسماندہ طبقات کوبھی ایک ساتھ لانا چاہتے تھے۔ ان کی سماجی رہنمائی کے بارے میں دورائیں نہیں، لیکن ایک مسئلہ ایسا ہے، جہاں پر پہنچ کر مسلمانوں کی سوچ کے قدم رک جاتے ہیں۔ ہم بہر حال ایک ایسے ملک میں رہتے ہیں،جہاں جیسا بھی ہو ایک جمہوری نظام ہے۔ سیاسی جماعتیں اور پنچایت سے لے کر پارلیمنٹ تک کے انتخابات ایسی حقیقت ہیں، جن کے بغیر کام ہی نہیں چل سکتا۔ میشرام نے بے نظیر سماجی قیادت کامظاہرہ کیا ہے۔ لیکن وہ دلتوں کی بھی کوئی واضح سیاسی رہنما ئی نہیں کر پارہے ہیں۔ وہ بی جے پی اور کانگریس کوایک جیسی پارٹیاں سمجھتے ہیں اور شاید غلط بھی نہیں سمجھتے۔ لیکن جب انتخابات ہوتے ہیں تو جہاں ان دونوں کے سوا کوئی تیسری جماعت نہیں وہاں دلت بھی کنفیوژ رہتے ہیں کہ کیا کریں۔ظاہر ہے کہ اس صورت میں وہ مسلمانوں کوبھی ساتھ نہیں لے پاتے۔ میشرام کی اپنی کوئی پارٹی ہے نہیں، اس لئے بی جے پی بڑی ہوشیاری سے کچھ دلتوں کو خرید کر انہیں ٹکٹ دے دیتی ہے اور دلت ووٹر جھانسے میں آجاتا ہے۔
تواب لے دے کر بی ایس پی سپریمو مایا وتی رہ جاتی ہیں۔ مایاوتی پر مسلمانوں نے بار بار اعتماد کیا اور مایا وتی نے بار بار اس اعتماد کوٹھیس پہنچائی۔ کئی بار ایسا ہواکہ مایاوتی نے عین اس وقت بی جے پی کاہاتھ پکڑلیا، جب مسلمان مایاوتی سے آس لگائے بیٹھے تھے۔ اب تو دلتوں کے بھی بیشتر طبقات ان پر بھروسہ کرنے سے ہچکچا رہے ہیں، مایاوتی کبھی تو بہوجن سماج کے لئے خود کووقف کرنے کا اعلان کرتی ہیں، تو کبھی سروجن سماج بنا کر اعلیٰ ذاتوں سے سمجھوتے کرنے لگتی ہیں۔کبھی وہ سیکولر طاقتوں کے ساتھ رہنے کی قسم کھاتی ہیں تو کبھی بی جے پی کی گود میں یو ں سماجاتی ہیں،جیسے اس سے ان کا جنم جنم کا ناتہ ہو۔ مسلمان دلت کے ساتھ ہے او ررہے گا،لیکن شاید ان کے ساتھ نہیں جو مایاوتی کے ساتھ ہیں۔ اس وقت مایاوتی مسلمانوں اوردلتوں کے درمیان دیوار سی بنی ہوئی ہیں۔ مسلمانوں کوان پر اب بالکل اعتبار نہیں رہ گیا ہے۔ مسلمان بہت بے چینی سے کسی نئے اور نوجوان دلت لیڈر کی تلاش میں ہیں۔ خود دلتوں کو بھی اسی کا انتظار ہے۔
21جنوری،2020 بشکریہ: انقلاب،نئی دہلی
URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/ambedkar-yes-kanshi-ram-yes/d/120851
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism