حسن کمال
11 اپریل، 2016
یہ 31 مارچ 2016 کی بات ہے۔ نیوز چینل این ڈی ٹی وی کے ایک مقبول شبینہ چیٹ شو ‘لیفٹ رائٹ اینڈ سینٹر، پر ایک مباحثہ ہورہا تھا ۔ شو کی اینکر ندھی رازدان اس فیصلے کے موافقین اور مخالفین سے بات کررہی تھیں، جو صرف ایک دن پہلے کیا گیا تھا ۔ یہ تھا کہ ہندو عورتوں کو ہر اس مندر میں جانے اور اس حد تک جانے کی بنیادی حق حاصل ہے، جس میں اور جس حد تک مردوں کو جانے کی اجازت ہے۔ فیصلہ مہاراشٹر کی ایک مقتدر خاتون ایکٹیوسٹ پریتی دیسائی کی اس نالش کا نتیجہ تھا کہ عورتوں کو احمد نگر کے شبری مالا مندر کے اس مقام مقدس کے پاس جانے کی اجازت کیوں نہیں دی جاتی، جسے ژنی ( سنیچر) دیوتا کا آسن مانا جاتا ہے ۔ عام اعتقاد او رمندر کے مہنتوں کے مطابق شنی دیوتا کو عورتوں کا قرب پسند نہیں اور اگر ان کی خوشی کے خلاف عورتوں کو وہاں آنے دیا گیا تو تباہی بھی آسکتی ہے ۔ بات چیت کے دوران چاروں طرف سے اعتراضات کی بوچھار کا جواب دیتے ہوئے ، مندر کے ٹرسٹی نے چند انتہائی دلچسپ باتوں کا انکشاف کیا ۔ انہوں نے حسب توقع وہ بات تو بہر حال کہی جو سنگھ پریوار اور رام مندر کے تعلق سےکہتا رہتا ہے۔ یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ جب بھی یہ کہا جاتا ہے کہ رام مندر، بابری مسجد تنازع پر سپریم کورٹ کا فیصلہ سب کو منظور ہونا چاہئے تو سنگھ پریوار فوراً پکار اٹھتا ہے کہ اعتقاد قانون سے بالا تر ہوتا ہے۔ یہ تنازع سپریم کورٹ کے دائرہ اختیار سے باہر ہے۔ انہوں نے خاتون ایکٹیوسٹ پر حملہ کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ یہ لوگ اور یہ عناصر دراصل پچھلے دروازے سے یکساں سول کوڈ لانے کی ‘سازش’ کررہے ہیں ۔
انہوں نے بات بدلنے کی کوشش کی ، لیکن تیر کمان سے نکل چکا تھا ۔ بد قسمتی سے ندھی نے بھی یکساں سول کوڈ کی بات آگے نہیں بڑھائی ۔آپ میں سے بیشتر تو یہ سن کر اچھل ہی پڑے ہوں گے کہ ہندو دھرم کے ٹھیکہ دار بھی یونیفام سول کوڈ سے اتنا ہی ڈرتے ہیں ،جتنا مسلم پرسنل لا بورڈ ۔ دھرم کے ٹھیکہ دار صرف اس لئے یکساں سول کوڈ سے خائف نہیں ہیں کہ ایسا کوئی بھی کوڈ عورتوں کو مساوی حق دے سکتا ہے ۔ ان کی تشویش اس سے بھی سوا ہے ۔ وہ جانتے ہیں کہ یکساں سول کوڈ صرف شادی ، بیاہ اور طلاق تک محدود نہیں ہوگا ۔ اس میں اور بھی باتیں شامل ہوں گی ، جن کا تعلق صدیوں سے جاری غیر منصفانہ رسموں رواج سے ہے۔ جب بھی یکساں سول کوڈ کا نعرہ بلند کیا جاتا ہے تو کچھ لوگ تشویش کے باوجود خاموش رہنے کو ترجیح دیتے ہیں ۔ انہیں یقین ہوتا ہے کہ مسلمانوں کے ‘مکمل نمائندے ’ زیادہ دیر صبر نہ کر پائیں گے اور یہ جاننے کی کوشش کئے بغیر کہ یکساں سول کوڈ کی روپ ریکھا کیا ہوگی، اس کا خاکہ کیا ہوگا فوراً چیخ اٹھیں گے کہ مسلمانوں کو یکساں سول کوڈ منظور نہیں اور یہ کہ یہ ان کے مذہبی معاملات میں دخل اندازی ہے۔ دھرم کے ٹھیکے دار کا کام ہو جاتاہے ۔ اسے اپنی تشویش ظاہر کرنے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی ۔ اس سلسلہ میں تمام لعنت ملامت مسلمانوں کی ہوتی ہے، جو اسے انتہائی مرغوب ہے۔ وہ بچوں کی طرح میرے تو دونوں میٹھے کہہ کر ہنس دیتا ہے ۔ بہر کیف دونوں کو بالآخر ماننا ہی پڑے گا کہ عورتوں کے جو حقوق مذہب نے نہیں بلکہ ‘مرد غالب’ سماج نے سلب کئے ہیں ، اور اب انہیں ملنا ہی ہیں ۔ کچھ لوگ ایسے فیصلوں پر عملدر آمد بزور جبر روکنے کی کوشش ضرور کریں گے ،لیکن جب قانون بن جاتا ہے تو اسے دیر سو یر ماننا ہی پڑتا ہے۔
ایک فیصلہ ہوچکا ہے ، دوسرا باقی ہے ۔ جی نہیں ۔ ہم ممبئی کی حاجی علی درگاہ میں عورتوں کے داخلہ کی بابت فیصلے کی بات نہیں کررہے ہیں ۔ وہ تو بے حد معمولی بات ہے ہم ، طلاق مغلظہ ، یعنی ایک سانس میں تین بار طلاق کہہ کر بیوی کو گھر سے نکال باہر کرنے کی روش کی بات کررہے ہیں ۔جب سے سپریم کورٹ نےایک مسلم خاتون کی نا لش کے جواب میں یہ اشارہ کیا ہے کہ ججوں کی ایک کمیٹی طلاق مغلظہ سے متعلق تمام نکات کامطالعہ کرنے کے بعد عدالت عالیہ کو رپورٹ پیش کرے ، تب سے مسلم پرسنل لا بورڈ میں کھلبلی مچی ہوئی ہے۔ بورڈ کو اچھی طرح معلوم ہے کہ رپورٹ کیا ہوگی۔ بورڈ اعلان کردیا ہے کہ یہ معاملہ عدالت عالیہ کے دائرہ اختیار کے باہر ہے ۔ دلیل یہ دی گئی ہے کہ چونکہ مسلم پرسنل لا ء پارلیمنٹ کا بنایا ہوا نہیں ہے، قرآن حکیم پر مبنی ہے، اس لئے سپریم کورٹ اس میں دخل اندازی نہیں کرسکتا ۔ بد قسمتی سے بورڈ نے بسم اللہ ہی غلط کی ہے۔ بیسوی صدی کے اوآخر کی بات ہے ۔ چند مسلمانوں نے جن راقم بھی شامل تھا ،بورڈ کے کئی اراکین سے ، جن میں مولانا علی میاں ندوی رحمۃ اللہ علیہ ، مولانا عبدالکریم پاریکھ ، مولانا مختار ندوی اور مولانا مجاہدالاسلام قاسمی شامل تھے ،کئی ملاقاتیں کیں او ران سے کہا کہ موجودہ مسلم پرسنل لاء کی کم از کم دو مدیں قرآنی احکامات کی تحریف کرتی ہیں۔ پہلی مدزرعی زمین اور غیر منقولہ جائداد میں بیویوں او ربیٹیوں کے حصہ سے متعلق تھی اور جس میں سورۃ النساء میں بتائی جانے والی جائداد کی تقسیم کار کی تقلید کرنے کے بجائے ہندو کنیادان کی رسم کی تقلید جیسا اہتمام کیا گیا تھا ۔ دوسری مد کا تعلق طلاق مغلظہ سے تھا، جو سورۃ البقرۃ ، سورۃ النساء اور سورۃ طلاق میں بتائے جانے والے طریقہ طلاق کی سراسر نفی کرتا ہے ۔ اللہ بخشے مولانا مجاہد الاسلام قاسمی نے پہلی مد کے تعلق سے کہا تھا ‘‘میاں ہم لوگ حرام کھا رہے ہیں’’ ۔ اسی کے بعد 2004 ء میں بورڈ نے بھوپال اجلاس میں اس مد میں ضروری ترمیم کرلی تھی ۔ لیکن جہاں تک دوسری مد یعنی طلاق مغلظہ کاسوال ہے۔ ان تمام مقتدر عالمان دین نے اپنی بے بسی کا اظہار کیا، کیونکہ بورڈ ممبر وں کی اکثریت طلاق مغلظہ کو جائز سمجھتی تھی اور اپنے موقف میں کسی تبدیلی پر تیار نہیں تھی ۔ بہر حال اب یہ موقف ‘خطرے’ میں ہے۔
گزشتہ بیس پچیس برسوں میں مختلف ہائی کورٹوں نے نو فیصلوں میں طلاق مغلظہ کو ناجائز بتاتے ہوئے ، زن و شوہر کو ساتھ رہنے کا حکم دیا۔ ان میں کچھ شوہر ایسے بھی تھے ،جنہوں نے طیش کے عالم میں بیوی کو طلاق دے دی تھی او ربعد میں پچھتاتے تھے ، لیکن ، مولوی صاحبان، نے بتایا کہ طلاق ہوچکی ہے اور اب حلالہ کے بغیر رجوع نا ممکن ہے ۔ عدالتوں نے تمام شوہروں سے چند باتیں پوچھیں ۔ پہلی یہ کہ کیا وہ قرآن کو اپنے دین کی سب سے بڑی اور آخری کتاب سمجھتے ہیں ؟ اس بات میں جواب ملنے کے بعد ان سے پوچھا گیا کہ کیا کسی اور کا حکم قرآن کے حکم سے بڑا ہوسکتا ہے؟ جواب نفی میں ملنے کے بعد انہیں بتایا گیا کہ قرآن میں طلاق تین ہی بار دی جاتی ہے ، مگر ایک ایک ماہ کے وقفہ کے بعد او ریہ بھی حکم ہے کہ اس طلاق کے بعد بھی بیوی کو گھر سے باہر نہ نکالا جائے۔ اس کا حق مہر ادا کیا جائے اور اسے ‘‘اچھی طرح دے دلا کر رخصت کیا جائے’’ ۔ مسلم پرسنل لا بورڈ نے ہر فیصلہ سن کر اسے مسلمانوں کے مذہبی معاملات میں مداخلت قرار دیا اور اعلان کیا کہ اس فیصلے کے خلاف اپیل دائر کی جائے گی ۔ آج تک کوئی اپیل دائر نہیں کی گئی۔ اب تو فیصلوں کے خلاف اپیل کرنے کی مدت بھی ختم ہوچکی ہے۔بورڈ اچھی طرح جانتا تھا کہ اگر اپیل کی بھی جاتی تو اس کا کیا انجام ہوتا ۔ طلاق مغلظہ ایک ایسی مد ہے جس پر بورڈ میں بہت شدید اختلاف رائے ہے۔ اسی اختلاف کی وجہ سے بورڈ نے آج تک ہندو کوڈ بل، عیسائی کوڈ بل اور پارسی کوڈ بل کی طرح پرسنل لا ء کو کوڈ یفائی نہیں کروا یا، یعنی اسے پارلیمنٹ میں پیش کر کے قانون کی حیثیت نہیں دلوائی اور جب تک کوئی پرسنل لاء کوڈیفائی نہ ہو، تب تک عدالتوں کے لئے وہ لاء محض ایک ایسی تحریر ہوتا ہے ، جو عدالت کےلئے لائق اعتنا ء نہیں ہوتا ۔ مسلم پرسنل لاء کی اس وقت یہی کیفیت ہے۔ کوئی عدالت اسے قانون نہیں مانتی ، اس لئے اس پر عمل بھی نہیں کرتی ۔ بہر حال اب دیر چاہے جتنی لگے ، لیکن ججوں کی کمیٹی کی رپورٹ طلاق مغلظہ کی بے رحمی کی شکار مسلمان عورتوں کے حق ہی میں جائے گی ۔ یہ ایک تاریخی موڑ ہوگا ۔ دنیا کو یہ معلوم ہونا چاہئے کہ اسلام نےطلاق کی صورت میں انسان کو کتنی بڑی سہولت بخشی تھی، لیکن کچھ انسانوں نے اس سہولت سےکتنا بہودہ اور ظالمانہ سلوک کیا ہے۔
11 اپریل، 2016 بشکریہ : انقلاب، نئی دہلی
URL: