حسن کمال
2 جولائی، 2014
جب سے خبر ہوئی ہے کہ ممبئی کے نزدیک واقع کلیان سے چا رمسلم نوجوان دولت اسلامیہ عراق و شام ( داعش) کے ‘‘جہاد’’ میں حصہ لینے کے لیے عراق و شام کی سرحدوں پر پہنچ گئے ہیں۔ مسلم دانشوروں سمیت عام مسلمانوں میں ایک بےچین سی خاموشی چھائی ہوئی ہے ۔ خاموشی کی ایک وجہ یہ ہے کہ گزشتہ چند برسوں میں لفظ جہاد کے معنوں میں اتنی پیچیدگی پیدا کردی گئی ہے کہ اس کے تعلق سے کوئی تبصرہ آرائی آسان نہیں رہ گئی ہے۔ جہاد ایک نہایت متبرک اور مقدس فریضہ ہے ، لیکن مختلف غیر ذمہ دار عناصر گزشتہ چند برسوں سے جس طرح روبہ عمل لائے ہیں، ا س نے جہاد کی بابت بے شمار غلط فہمیاں ،بدگمانیاں ، وسوسے اور اندیشے پیدا کر دیے ہیں ۔ خاموشی کا دوسرا سبب یہ ہے کہ شدت سے یہ محسوس کیا جارہا ہے کہ ان مسلم نوجوانوں کا واقعہ ہندوستان بالخصوص مہاراشٹر کے مسلمانوں کے لیے بہت مثبت اور آرام دہ نہیں ثابت ہوگا ۔ اس کی کچھ علامتوں کا اندازہ ہونے بھی لگا ہے ۔ مختلف سیکورٹی ایجنسیاں ، جن کا رویہ ماضی میں مسلمانوں کی طرف کبھی بہت ہمدردانہ نہیں رہا ہے، ان نوجوانوں کے والدین سے باز پریس کی ‘‘ تیاریاں’’ کررہی ہیں ۔ یہ بھی طے ہے کہ ثواب دارین کی تمنا میں عراق و شام جانے والے ان نوجوانوں کی وجہ سے ان کے عزیز و اقارب اور دوست احباب بھی مشکلوں میں پڑ سکتے ہیں ۔ یہ کہنا بھی حقیقت سے بہت دور نہ ہوگا کہ اس علاقے کے تمام مسلم نوجوان اشتباہ کی زد میں آجائیں گے ۔ بہر حال ان خدشوں اور اندیشوں پر مغز پاشی کرنے سے پہلے یہ تجزیہ ضروری ہے کہ داعش کا جہاد، جہاد کی اصل تعریف پر پورا بھی اترتا ہے کہ نہیں؟
جہاد کے دائرہ میں یوں تو ہر وہ سعی یا کوشش آتی ہے ، جو بندوں تک اللہ کی وحدت کا پیغام پہنچانے کے لیے کی جائے ، لیکن جہاد کو اگر جنگ و جدال کے محدود معنوں میں بھی لیا جائے تو یہ جہاد صرف منکروں ، مشرکوں اور منافقوں کے خلاف کرنے کی ہدایت دی گئی ہے۔ ‘ داعش ’ نے جو جہاد چھیڑ رکھا ہے، وہ ان میں سے کسی کے خلاف نہیں ہے ۔ ایک مسلم فرقہ نے دوسرے مسلم فرقہ کے خلاف ‘‘ جہاد’’ بر پا کر رکھا ہے ۔ گویا ایک کلمہ گو گروہ نے دوسرے کلمہ گو گروہ کے خلاف اعلان جہاد کردیا ہے۔ یہ جہاد کسی بھی طرح جہاد فی سبیل اللہ کی تعریف پر پورا نہیں اترتا ۔ عرب دنیا یا مشرق وسطیٰ رقبہ کے اعتبار سے ایک خاصا بڑا علاقہ ہے ، لیکن اس علاقہ میں جو ممالک موجود ہیں ، وہ بہت زیادہ بڑے نہیں ہیں۔ اس علاقہ میں یوں تو متعدد ممالک ہیں، لیکن در حقیقت عراق، شام اور سعودی عرب کے سوا کوئی ایسا ملک نہیں ہے، جس کی آبادی ایک کروڑ کاہند سہ چھوتی ہو۔ بیشتر عرب ممالک میں اکثریت سنی فرقہ کی ہے۔ صرف عراق، کویت اور بحرین میں شیعوں کی تعداد زیادہ ہے ۔ جہاں شیعہ اقلیت میں ہیں، وہاں ان کو اقتدار سے دور کھے جانے کی شکایت ہے اور جہاں سنی اقلیت میں ہیں وہاں انہیں بھی یہی شکایت ہوتی رہتی ہے۔ یہ شکایت عام طور پر خاموش ہوتی ہے، لیکن کبھی کبھی یہ شور بھی ہوجاتی ہے ۔ چنانچہ اگر عراق کے سیاسی اقتدار پر ان کی گرفت بہت مضبوط تھی، جواب ڈھیلی پڑتی رہی ہے، وہیں بحرین کے شیعوں کو یہ شکایت ہے کہ اکثریت میں ہونے کے باوجود انہیں سیاسی اقتدار سے دور رکھا جاتا رہا ہے۔ اتفاق سے شام کے سنیوں کی بھی یہی شکایت ہے۔ دونوں ممالک میں مسلح بغاوت کی کمان ‘ داعش’ کے ہاتھوں میں ہے جو بنیادی طور پر ایک سنی گروپ ہے۔ ‘ داعش ’ کوئی بہت پرانی تاریخ کا حامل گروپ نہیں ہے، ا س کا نام پہلے بھی کبھی کبھی سنائی دے جاتا تھا، لیکن عراق میں امریکی فوجوں کی واپسی اور شام میں بشارالاسد کے خلاف تحریک کے آغاز کے بعد اس مسلح گروپ نے اچانک بہت زیادہ شہرت حاصل کرلی ہے ۔ بر سبیل تذکرہ شیعہ ۔ سنی مسلکی اختلاف کی تاریخ خاصی پرانی ہے۔لیکن اس سلسلہ میں یہ حقیقت کسی قیمت پر فراموش نہیں کرنی چاہئے کہ اس اختلاف کی نوعیت دینی یا مذہبی ہر گز نہیں ہے ۔ وہ پانچ بنیادی ارکان یا ستون ، جن پر اسلام کی عظیم الشان عمارت کھڑی ہے، تو حید و رسالت ،نماز، روزہ ، زکوٰۃ اور حج ہیں ۔ ان بنیادی اصولوں پر دونوں فرقوں میں سر مو اختلاف نہیں ہے۔ اختلافات کا سلسلہ خلافت سے شروع ہوتا ہے۔ سنی مصر ہیں کہ خلافت کا جو سلسلہ تاریخ میں محفوظ ہے، وہ بالکل بجا اور دوست ہے۔ شیعوں کو خلفاء کی تاریخی ترتیب سے انکار ہے۔ اس بحث میں پڑے بغیر کہ دونوں میں سے کون صحیح ہے، یہ تو بلا خوف تردید کہا جاسکتا ہے کہ تنازع کا تعلق دین سے نہیں بلکہ تاریخ یا ہسٹری سے ہے۔ ہسٹری بھی وہ جو وقت نے اب سے صدیوں پہلے لکھ دی تھی ۔ چنانچہ اس تاریخ سے اختلاف تو ضرور کیا جاسکتا ہے، لیکن اسے بدلا نہیں جاسکتا ۔
یہ بھی ناقابل تردید حقیقت ہے کہ شیعہ ۔ سنی دنگوں کی تاریخ تو مل جاتی ہے، لیکن شیعہ ۔ سنی جنگوں کی کوئی تاریخ نہیں ملتی ۔ ایران سب سے بڑا شیعہ ملک ہے ، لیکن سوائے ایک بار کے جب امریکیوں کو شر انگیز سرپرستی کے بل پر صدام حسین فوجیں لے کر ایران پر چڑھ دوڑے تھے ، کبھی کسی عرب ملک نے ایران پر چڑھائی نہیں کی ۔ صدام حسین کی کارروائی کو بھی سنی ۔ شیعہ جنگ کا رنگ دینا تاریخی حقائق کا مذاق اڑانا ہوگا۔ تاریخ کے اوراق پلٹئے تو اندازہ ہوگا کہ ایرانیوں اور رومنوں کے مابین کئی جنگیں ہوئیں ۔ قرآن حکیم کے سورۃ الرّوم میں ان جنگوں میں سے ایک کا تفصیلی ذکر بھی موجود ہے ، وگرنہ تاریخ میں عربوں اور ایرانیوں کی صرف ایک جنگ کاذکر ملتا ہے۔ یہ جنگ ا س وقت ہوئی تھی جب لشکر اسلام نے 633 صدی عیسوی میں خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی کمانداری میں ایران پر یلغار کی تھی ۔ لیکن اس وقت ایران یا فارس پر ساسانی خاندان کا راج تھا ۔ اس جنگ کے وقت وہاں دین زرتشت کا دور دورہ تھا اور وہاں کا بادشاہ یزدگرد سوم تھا ، جو آتش پرست تھا ۔ اسی بادشاہ کی ایک شہزادی شہر بانو کی شادی شہید کربلا حضرت حسین ابن علی رضی اللہ عنہ سے ہوئی تھی اور یہی بی بی شہر بانو امام زین العابدین رضی اللہ عنہ کی والدہ ماجدہ تھیں ۔ اسی نسبت سے اہل ایران کے دلوں میں شہیدان کربلا اور تمام اہل بیت کے لیے جو ہمدردی اور محبت پیدا کی ، وہ آج تک اسی شدت سے موجود ہے اور دنیا میں ایسی ہمدردی اور محبت کی بہت کم مثالیں پائی جاتی ہیں ۔
وجہ جاننا دشوار نہیں ہے ۔ پہلے عربوں کو ورغلا یا گیاکہ ایران ایٹم بم درحقیقت شیعہ بم ہے، جس کا نشانہ عرب کے سنی ہوں گے۔ یہ پروپیگنڈہ بہت دور نہیں جاسکا، کیونکہ عرب عوام نے اس جال میں پھنسنے سے انکار کردیا ۔ اس کے بعد یہ کہا جانے لگا کہ شیعہ۔ سنی دشمنی اتنی گہری اور شدید ہے کہ ایک فیصلہ کن معرکہ کے بغیر اس کا ختم ہونا ممکن ہی نہیں ہے ۔ اس طرف کئی انگریزی کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں ، جن میں شیعہ ۔سنی اختلافات کی شدت سے دنیا کو روشناس کرانے کی کوشش کی گئی ہے۔ اتفاق سے ہندوستان میں سبرامنیم سوامی بھی ہندو تو وادی قوتوں کو یہ سمجھا رہے ہیں کہ ہندوتو کے فروغ کا آسان ترین راستہ یہ ہے کہ شیعوں اور سنیوں کو آپس میں بھڑا دیاجائے ۔ یہ دونوں لڑ کر اتنے تباہ و برباد ہوجائیں گے کہ کسی کو کچھ کرنے کی ضرورت ہی نہیں رہے گی ۔ اب یہ دیکھنا ہے کہ شیعہ اور سنی دانشور ان مسلمانوں کو اس سازش کا شکار ہونے دیتےہیں یا نہیں ۔ دشمنوں کو پوری امید ہے کہ مسلمان ا س جال میں پھنس جائیں گے۔ ‘ داعش ’ جیسے عناصر اسلام اور جہاد کا تقدس بر قرار رکھ پاتےہیں یا نہیں یہ تو وقت ہی بتائے گا ، فی الحال تو یہی کہا جاسکتا ہے کہ ان کی کارروائیوں سے صرف انہیں فائدہ پہنچ رہا ہے جو مسلمانوں اور اسلام کے سب سے بڑے دشمن سمجھے جاتےہیں ۔ نوجوانوں کو یہ سمجھا نا بھی مسلم دانشوروں کی ذمہ داری ہے کہ ‘ داعش’ بھی فلسطینیوں کے مسائل کی طرف سے دنیا کی توجہ ہٹانے میں صہیونیوں کی مدد کررہا ہے۔
2 جولائی، 2014 بشکریہ : روز نامہ راسٹریہ سہارا ، نئی دہلی
URL:
https://newageislam.com/urdu-section/is-jihad-isis-really-jihad/d/98401