New Age Islam
Fri Sep 20 2024, 11:56 AM

Urdu Section ( 28 Feb 2022, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

When The Quran Was Revealed, People Were Also Encouraged To Meditate, but We Have Become Oblivious To This نزول قرآن کا ایک بے حد اہم مقصد لوگوں کو دعوت غور و فکر دینا ہے، مگر ہم غافل ہیں

ہارون یحییٰ

25 فروری 2022

’’اور آپ فرمادیجئے کہ تمام تعریفیں اللہ ہی کے لئے ہیں وہ عنقریب تمہیں اپنی نشانیاں دکھا دے گا سو تم انہیں پہچان لو گے، اور آپ کا رب ان کاموں سے بے خبر نہیں جو تم انجام دیتے ہو۔‘‘ (النمل:۹۳)

 آج کے معاشرے میں لوگ قرآن مجید کو اس کے نزول کے اصل مقصد کے بالکل برعکس سمجھتے ہیں۔ عالم اسلام میں عموماً بہت کم لوگ قرآن کا متن جانتے ہیں۔ کچھ مسلمان قرآن مجید کو خوبصورت غلافوں میں بند کرکے گھروں کی دیواروں کے ساتھ آویزاں کردیتے ہیں، البتہ معمر لوگ وقتاً فوقتاً اس کی تلاوت کرتے رہتے ہیں۔ کچھ کے عقیدے کے مطابق قرآن ان کو ’’مصیبتوں اور پریشانیوں‘‘ سے محفوظ رکھتا ہے جو اس کی تلاوت کرتے ہیں۔ اس عقیدے کے مطابق وہ قرآن مجید کو ایک ایسا تعویذ تصور کرتے ہیں جو انہیں مصائب سے بچاتا ہے۔

 مگر قرآنی سورتیں ہمیں بتاتی ہیں کہ نزولِ قرآن کا مقصد بالکل اس سے مختلف ہے جو اوپر بتایا گیا ہے۔ مثال کے طو ر پر سورہ ابراہیم کی آیت نمبر ۵۲؍ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

 ’’یہ (قرآن) لوگوں کے لئے کاملاً پیغام کا پہنچا دینا ہے، تاکہ انہیں اس کے ذریعہ ڈرایا جائے اور یہ کہ وہ خوب جان لیں کہ بس وہی (اللہ) معبودِ یکتا ہے اور یہ کہ دانش مند لوگ نصیحت حاصل کریں۔‘‘

 بہت سی دوسری قرآنی سورتوں میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے کہ نزول قرآن کا ایک بے حد اہم مقصد لوگوں کو دعوت غور و فکر دینا ہے۔ قرآن مجید میں اللہ لوگوں کو دعوت دیتا ہے کہ وہ معاشرے کے خودساختہ عقائد و نظریات اور اقدار کو اندھادھند قبول نہ کریں بلکہ تمام تعصبات ، ممنوعات اور پابندیوں کو ذہنوں سے  نکال کر ان پر غور و فکر کریں۔

 انسان کو اس بات پر ضرور غور کرنا چاہئے کہ وہ کیسے پیدا ہوا ، اس کی زندگی کا مقصد کیا ہے ، وہ مر کیوں جائے گا اور موت کے بعد کیا کچھ اس کا منتظر ہے ۔ اسے اپنے آپ سے یہ سوال کرنا چاہئے کہ وہ خود اور کائنات کیسے وجود میں آئی اور یہ کیسے اپنا وجود برقرار رکھتے ہیں۔ ایسا کرتے وقت اسے تمام تعصبات اور ذہنی تحفظات سے آزاد ہونا چاہئے ۔

 اپنے آپ کو تمام سماجی ،نظریاتی اور نفسیاتی پابندیوں سے الگ کرتے ہوئے وہ انسان بالآخر یہ  سوچے گا کہ یہ پوری کائنات، جس میں وہ خود بھی شامل ہے، اسے کسی عظیم و برتر قوت نے تخلیق کیا ہے۔ یہاں تک کہ جب وہ خود اپنے جسم یا مظاہر فطرت میں سے کسی شے کے بارے میں جائزہ لیتا ہے تو اسے ایک متاثر کن ہم آہنگی ، منصوبہ بندی اور دانائی نظر آئے گی جو اس کی بناوٹ اور ساخت میں کارفرما ہے۔

اس مقام پر قرآن ایک بار اور انسان کی رہنمائی کرتا ہے۔ قرآن میں اللہ ہماری رہنمائی کرتا ہے کہ ہمیں کن باتوں پر غور وفکر اور تحقیق کرنا ہے۔ قرآن  میں وہ طریقے بھی بتا دیئے گئے ہیں جن کے مطابق غور و تدبر کرنا چاہئے اور وہ جو بہتر طور پر اللہ کے اکمل و جامع ہونے، اس کی دائمی دانائی اور علم و قوت کا ادراک کرلیتا ہے جو اس کی تخلیق سے جھلکتی ہے۔ جب کوئی ایسا انسان جو اللہ پر ایمان رکھتا ہے، اس طرح غور و فکر شروع کردیتا ہے جس طرح قرآن مجید میں بتایا گیا ہے تو وہ جلد اس بات کا احساس کرلیتا ہے کہ یہ پوری کائنات اللہ کی طاقت اور صناعی کی نشانی ہے اور صناعی و کاریگری کا ہر نمونہ کسی خالق کی غیرمعمولی صناعی کو پیش کرتا ہے جس کے کئی پیغامات ان کے ذریعے دیئے گئے ہوں۔

 قرآن مجید میں لوگوں کو بے شمار واقعات اور چیزوں پر غور و فکر کرنے کی دعوت دی گئی ہے جن سے اللہ کے وجود، اس کی بے مثال ذات اور اس کی صفات کی جلوہ گری منعکس ہوتی ہے۔ قرآن مجید میں یہ تمام چیزیں جو اس کی گواہی دیتی ہیں، انہیں ’’نشانیاں‘‘ کہا گیا ہے جس سے مراد ہے ’’آزمائش شدہ ثبوت ، مطلق علم اور سچائی کا اظہار۔‘‘ اس لئے اللہ کی نشانیاں کائنات کی ان تمام چیزوں پر مشتمل ہیں جو ان میں سے ہر شے اور اللہ کی صفات کو ظاہر کرتی اور انہیں دوسروں تک پہنچاتی ہیں۔ وہ لوگ جنہیں قوت مشاہدہ اور قوت حافظہ عطا ہوئی ہے وہ دیکھیں گے کہ پوری کائنات صرف اللہ کی نشانیوں پر مشتمل ہے۔

 بیشک یہ بنی نوع انسان کی ذمہ داری ہے کہ وہ اللہ کی نشانیوں کو دیکھے ، اسی طرح انسان یہ جان سکے گا کہ اس کا خالق کون ہے جس نے اسے اور کائنات کی دوسری تمام اشیاء کو تخلیق کیا ہے۔ وہ اس خالق کے قریب ہوجاتا ہے، اپنی موجودگی کے معانی تلاش کرلیتا ہے، مقصد زندگی ڈھونڈ لیتا ہے اور یوں دنیا میں خوب پھلتا پھولتا ہے۔ہر شے ، انسان کا ہر سانس جو وہ لیتا ہے، سیاسی اور سماجی ترقی ، کائناتی ہم آہنگی ، ایٹم یا جوہر جو مادے کا سب سے چھوٹا ٹکڑا ہے، ہر ایک اللہ کی نشانی ہے اور یہ سب کے سب اللہ کے اختیار اور علم کے اندر اس طرح کام کرتے ہیں کہ اس کے قوانین کی پوری پوری تعمیل کریں۔ اللہ کی نشانیوں کا اعتراف اور علم انسان سے کوشش کا مطالبہ کرتا ہےکہ  ہر انسان اپنی عقل و آگہی کے مطابق اللہ کی نشانیوں کو جانے اور پہچانے۔

 بلاشبہ کچھ رہنما اصول اس کی مدد بھی کرسکیں گے ۔ اولاً قرآن میں جن باتوں پر زور دیا گیا ہے انسان ان کی تحقیق کرسکتا ہے تاکہ اسے وہ عقل و شعور اور دانائی حاصل ہوجائے جس سے وہ اس پوری کائنات کا ادراک کرسکے جس میں وہ تمام چیزیں موجود ہیں جو اللہ نے تخلیق کی ہیں۔  قرآن مجید کی سورہ النحل میں اللہ کی ان نشانیوں کا ذکر کیا گیا ہے جو مظاہر فطرت میں پائی جاتی ہیں:

 ’’وہی ہے جس نے تمہارے لئے آسمان کی جانب سے پانی اتارا، اس میں سے (کچھ) پینے کا ہے اور اسی میں سے (کچھ) شجر کاری کا ہے (جس سے نباتات، سبزے اور چراگاہیں اُگتی ہیں) جن میں تم (اپنے مویشی) چراتے ہو، اُسی پانی سے تمہارے لئے کھیت اور زیتون اور کھجور اور انگور اور ہر قسم کے پھل (اور میوے) اگاتا ہے، بیشک اِس میں غور و فکر کرنے والے لوگوں کے لئے نشانی ہے، اور اُسی نے تمہارے لئے رات اور دن کو اور سورج اور چاند کو مسخر کر دیا، اور تمام ستارے بھی اُسی کی تدبیر (سے نظام) کے پابند ہیں، بیشک اس میں عقل رکھنے والے لوگوں کے لئے نشانیاں ہیں اور (حیوانات، نباتات اور معدنیات وغیرہ میں سے بقیہ) جو کچھ بھی اس نے تمہارے لئے زمین میں پیدا فرمایا ہے جن کے رنگ (یعنی جنسیں، نوعیں، قسمیں، خواص اور منافع) الگ الگ ہیں (سب تمہارے لئے مسخر ہیں)، بیشک اس میں نصیحت قبول کرنے والے لوگوں کے لئے نشانی ہے، اور وہی ہے جس نے (فضا و بر کے علاوہ) بحر (یعنی دریاؤں اور سمندروں) کو بھی مسخر فرما دیا تاکہ تم اس میں سے تازہ (و پسندیدہ) گوشت کھاؤ اور تم اس میں سے موتی (وغیرہ) نکالو جنہیں تم زیبائش کے لئے پہنتے ہو، اور (اے انسان!) تُو کشتیوں (اور جہازوں) کو دیکھتا ہے جو (دریاؤں اور سمندروں کا) پانی چیرتے ہوئے اس میں چلے جاتے ہیں، اور (یہ سب کچھ اس لئے کیا) تاکہ تم (دور دور تک) اس کا فضل (یعنی رزق) تلاش کرو اور یہ کہ تم شکر گزار بن جاؤ، اور اسی نے زمین میں (مختلف مادوں کو باہم ملا کر) بھاری پہاڑ بنا دیئے تاکہ ایسا نہ ہو کہ کہیں وہ (اپنے مدار میں حرکت کرتے ہوئے) تمہیں لے کر کانپنے لگے اور نہریں اور (قدرتی) راستے (بھی) بنائے تاکہ تم (منزلوں تک پہنچنے کے لئے) راہ پا سکو، اور (دن کو راہ تلاش کرنے کے لئے) علامتیں بنائیں، اور (رات کو) لوگ ستاروں کے ذریعہ (بھی) راہ پاتے ہیں، کیا وہ خالق جو (اتنا کچھ) پیدا فرمائے اس کے مثل ہو سکتا ہے جو (کچھ بھی) پیدا نہ کر سکے، کیا تم لوگ نصیحت قبول نہیں کرتے۔‘‘ (سورہ النحل: ۱۰؍تا ۱۷)

 قرآن مجید میں اللہ سوجھ بوجھ اور عقل رکھنے والوں کو دعوت فکر دیتا ہے کہ وہ ان باتوں پر غور و فکر کریں جنہیں دوسرے لوگ یا تو نظرانداز کردیتے ہیں یا اس قسم کی اصطلاحات استعمال کرتے ہوئے ان کو پس پشت ڈال دیتے ہیں جیسے ’’ارتقاء‘‘، ’’انطباق‘‘ یا ’’فطرت کا معجزہ۔‘‘

 ’’بیشک آسمانوں اور زمین کی تخلیق میں اور شب و روز کی گردش میں عقلِ سلیم والوں کے لئے (اللہ کی قدرت کی) نشانیاں ہیں، یہ وہ لوگ ہیں جو (سراپا نیاز بن کر) کھڑے اور (سراپا ادب بن کر) بیٹھے اور (ہجر میں تڑپتے ہوئے) اپنی کروٹوں پر (بھی) اللہ کو یاد کرتے رہتے ہیں اور آسمانوں اور زمین کی تخلیق (میں کارفرما اس کی عظمت اور حُسن کے جلوؤں) میں فکر کرتے رہتے ہیں، (پھر اس کی معرفت سے لذت آشنا ہو کر پکار اٹھتے ہیں:) اے ہمارے رب! تو نے یہ (سب کچھ) بے حکمت اور بے تدبیر نہیں بنایا، تو (سب کوتاہیوں اور مجبوریوں سے) پاک ہے پس ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا لے۔‘‘ (آل عمران: ۱۹۱۔۱۹۰) جیسا کہ ہم نے ان قرآنی سورتوں میں دیکھا کہ اہل عقل و خرد اللہ کی نشانیوں کو دیکھتے ہیں اور اس ذاتِ بے ہمتا کے ابدی علم ، قوت اور صناعی کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں ، پھر انہیں یاد رکھتے اور ان پر غور و فکر کرتے ہیں،  اس لئے کہ اللہ کا علم لامحدود ہے اور اس کی تخلیق ہر نقص سے پاک ۔ عقل و فہم رکھنے والوں کے لئے ہر وہ شے جو ان کے اردگرد موجود ہے، وہ اس کی تخلیق کی نشانی ہے۔

25 فروری 2022، بشکریہ: انقلاب، نئی دہلی

URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/quran-revealed-encouraged-meditate-oblivious/d/126470

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism

Loading..

Loading..