ہارون یحیی
17 جنوری 2015
آج کی دنیا میں امن اور آزادی کے ساتھ زندگی بسر کرنے کے لیے جمہوریت انتہائی ضروری ہے۔ لوگ تبھی آزاد رہ سکتے ہیں اور ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکتے ہیں جب انہیں اپنی مرضی کے مطابق آواز بلندکرنے اور زندگی گزارنے کی آزادی حاصل ہو۔
اس پیش رفت کو آگے بڑھانے کے لئے جمہوریت کو محفوظ کرنا ضروری ہے۔ اور دو چیزیں اسے یقینی بناتی ہیں اور وہ اخلاق اور قوانین ہیں۔ اگر آپ کے پاس اخلاقی خوبیاں ہیں تو لوگ آپ کا احترام کریں گے۔ اور جب لوگ آپ کا احترام کریں گے تو آپ اپنے خیالات کو لوگوں کے سامنے رکھ سکیں گے اور آپ کی بات سنی جائے گی۔ اور جب ایسا ماحول پیدا ہو جائے گا تو کوئی بھی حد سے تجاوز نہیں کرے گا اور اگر چہ اس کے پاس کوئی دوسرا تصور یا منصوبہ ہو وہ غصے کا اظہار نہیں کرے گا۔
جمہوریت میں آزادی کی حد کا تعین قانون کرتا ہے۔ آپ کسی کے ساتھ بحث و مباحثہ کر سکتے ہیں لیکن آپ اسے نقصان نہیں پہنچا سکتے۔ آپ اپنے ملک پر تنقید کر سکتے ہیں لیکن آپ علیحدگی پسند سرگرمی میں مشغول نہیں ہو سکتے۔ آپ لوگوں پر تنقید کرسکتے ہیں، لیکن آپ ان کی توہین یا ان کو بھڑکا نہیں سکتے۔ حقوق انسانی کنونشن کے آرٹیکل 10 کے پیراگراف 2 میں واضح طور پر اظہار رائے کی آزادی کے حدود کا تعین کیا گیا ہے۔
تنقید ایک ایسا جمہوری حق ہے جو معاشروں کو شفاف اور مضبوط رکھتا ہے؛ لیکن اگر اس کا مقصد توہین کرنا اور فریق مخالف کو محض خاموش کرنا ہو تو یہ جمہوریت کی ایک شکست، کمزوری اور بد بختی ہے جو معاشروں کو نقصان پہنچاتی ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ گزشتہ ہفتے چارلی ہیبڈو اور کوشر مارکیٹ پر حملے دہشت گردانہ حملے تھے۔ اللہ ان خوفناک حملوں میں ہلاک ہونے والوں کے اہل خانہ کو صبر عطا فرمائے۔ اسلام سخت الفاظ میں اس طرح کی بربریت کی مذمت کرتا ہے۔ ان حملوں نے ہمیں ایک بار پھر یہ اہم حقیقت باور کروایا کہ اسلام کے اخلاقی اقدار امن کا ایک ذریعہ ہیں۔
ہمیں واقعات کے تناظر میں منظر عام پر آنے والے "آزادی اظہار رائے" کے تصور کا گہرائی کے ساتھ مطالعہ کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر آپ ایسی چیزوں یا ایسے اقدار کی توہین کرتے ہیں جنہیں لوگ مقدس مانتے ہیں تو پھر اظہار رائے کی آزادی ختم ہو جاتی ہے۔ جب جمہوریتوں میں ہتک عزت کو اظہار رائے کی آزادی سمجھا جانے لگے تو جمہوریت وہیں ختم ہو جائے گی۔ اور جب جمہوریت دم توڑ دیتی ہے تو کچھ لوگ انارکی اور دہشت گردی کا سہارا لیتے ہیں۔ توہین غصہ بھڑکاتی ہے آزادی نہیں۔ اس سے نفرت اور ظلم و بربریت کو تقویت ملتی ہے جمہوریت کو نہیں۔ اس سے عمل میں جہالت کا عنصر شامل ہوتا ہے اور غیض و غضب کو فروغ ملتا ہے۔
توہین و تذلیل کو طنز و مزاح کے برابر ٹھہرانے کی کوشش کرنا ایک بیوقوفی ہے۔ ایک توہین آمیز پینٹنگ یا خاکے سے معاشرے کے کسی بھی حصے کو ہنسی نہیں آئے گی۔ یہ کوئی سماجی پیغام نہیں ہے جس سے لوگ کچھ سیکھیں گے یا اپنی اصلاح کریں گے۔ اس سے صرف منافرت پھیلے گی اور تفرقہ پیدا ہوگا۔
اس سے لوگوں کو جو تکلیف اور درد محسوس ہوتا ہے وہ اسی کا نتیجہ ہے۔ معاشرے کے ایک طبقہ کو اس وقت بڑی تکلیف ہوتی ہے جب ان چیزوں پر حملہ کیا جاتا ہے جنہیں وہ مقدس سمجھتے ہیں اور ان کا احترام کرتے ہیں، اور اس کا تصفیہ کرنا ایک مشکل ترین امرہے۔ یہ طنز و مزاح کا کام نہیں ہے۔ یہ بالکل ہی اظہار رائے کی آزادی نہیں ہے۔ یہ جمہوریت کی بنیاد کو ایک دھچکا ہے۔ اس کی وجہ سے یورپی معاشروں کو عظیم مشکلات کا سامنا ہے۔ یہ ایک جمہوری معاشرے میں اپنی شناخت کے ساتھ آزادی سے رہنے کے حق سے کسی کو محروم کرنے کی غرض سے ایک اقدام ہے۔ گوکہ ایک مختلف طریقے سے یہ پیغام دیا جا رہا ہے کہ "میں آپ کے مذہب سے لڑنے کے لئے توہین کا سہارا لے رہا ہوں۔"
یہ کہاوت کہ "قلم بربریت سے زیادہ طاقتور ہے" یقینی طور پر سچ ہے۔ تاہم، مسلمانوں کے مقدس اقدار کی لگاتار توہین کرنا قلم کی بربریت کی ایک مختلف شکل ہے۔ اگر کوئی میگزین بنیاد پرستی کی لعنت کو ختم کرنا چاہتی ہے تو وہ اسلام یا اس کے مقدس اقدار پر حملہ کر کے ایسا نہیں کر سکتی ہے۔
پوری دنیا نے فرانس میں حملوں کے بعد دہشت گردی کے خلاف جس طرح بیداری کا ثبوت دیا ہے وہ قابل ذکر اور خوش آئند ہے۔ اس سے یہ ثابت ہو چکا ہے کہ بربریت کسی بھی ملک یا ریاست کے سربراہ کے لیے ناقابل قبول ہے۔ یہ کوئی حل نہیں ہے، لیکن اب بھی قابل ستائش ہے۔
تاہم، دہشت گردی کی مختلف کارروائیوں کی درجہ بندی کرنا اور صرف انہیں ہی مسترد کرنا بھی ناقابل قبول ہے جس سے کسی کا اپنا ملک یا معاشرہ متاثر ہوا ہو۔
جس ہفتے چارلی ہیبڈو پر حملہ ہوا اسی ہفتے نائیجیریا کے 16 شہروں اور دیہاتوں میں خوفناک حملے ہوئے۔ اس میں خواتین، بچوں اور بوڑھوں سمیت تقریبا دو ہزار لوگ مارے گئے، بہت سارے گھروں کو جلا دیا گیا اور بیس ہزار لوگ بھاگنے پر مجبور ہو گئے۔ کچھ لوگوں نے بچنے کے لیے چاڈ جھیل میں چھلانگ لگائی جو کہ مبینہ طور پر ہلاک ہو گئے، جبکہ کچھ لوگ اس علاقے کے چھوٹھے سے جزائر پر بھوک اور بیماری کا سامنا کر رہے ہیں۔ شام میں حملے اب بھی جاری ہیں۔ کچھ علاقوں میں ناکہ بندی کی وجہ سے چھتیس لوگ موت کا شکار ہو گئے ہیں۔ اور ایک بار پھر، عراق میں حملے مکمل رفتار سے جاری ہو چکے ہیں۔
یہ تمام باتیں دہشت گردی ہیں۔ اور اس دہشت گردی کا سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ لہٰذا اگر دہشت گردی کے خلاف ایک بھی محاذ ہے تو اس سے یہ توقع کیا جانا ضروری ہے کہ وہ ایک ہی وجہ سے رونماں ہونے والے دہشت گردی کی دیگر کارروائیوں کا مقابلہ کرے۔ اس لیے کہ ایک کے خلاف احتجاج کرنا اور کسی دوسرے کے سامنے مکمل خاموش رہنا ایک بہت بڑی اخلاقی پسماندگی کا ثبوت ہے۔
یقیناً مسلم ممالک کو فرانس میں اور دنیا بھر میں دہشت گردی کے واقعات سے سبق حاصل کرنے کی ضرورت ہے اور اس کے ایسے کچھ حل بھی ہیں کہ جن پر توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے۔ جیسا کہ میں ہمیشہ کہتا ہوں ، بنیاد پرستی کی لعنت کا جواب قرآن سے دینے کے لیے ایک عالمی پالیسی کی ضرورت ہے۔ تاہم، اس عمل میں پریس یا تقریر کی آزادی کی آڑ میں مقدس شخصیات کی توہین کرنے اور اسے ایک قسم کی جیت سمجھنے سے محض مزید مشکلات اور پریشانیوں کا دروازہ کھلے گا۔ جو لوگ کسی کی توہین کر کے اپنے خیالات کا اظہار کرنا چاہتے ہیں اور دوسروں کو اس کا کواب دینے کے بھی حق سے محروم رکھنا چاہتے ہیں وہ محض اس معاشرے میں علیحدگی پسندی اور غم و غصہ کو ہوا دیتے ہیں جن میں وہ اپنی زندگی گزارنا چاہتے ہیں۔ اگر وہ ایک مضبوط جمہوریت کو برقرار رکھنا اور دہشت گردی پر قابو پانا چاہتے ہیں تو انہیں اظہار رائے کی آزادی کے تصور کی تعریف نو کرنے کی ضرورت ہے۔
ہارون یحیی نے سیاست، مذہب اور سائنس پر 300 سے زائد کتابیں تصنیف کی ہیں، جن کا 73 زبانوں میں ترجمہ کیا جا چکا ہے۔
ماخذ:
http://www.arabnews.com/columns/news/690781
URL for English article: https://newageislam.com/islam-politics/when-freedom-expression-hurts/d/101074
URL for this article: https://newageislam.com/urdu-section/when-freedom-expression-hurts-/d/101212