ہارون یحیی
29 مارچ2013
(انگریزی سے ترجمہ۔ نیو ایج اسلام)
تمام مسلمانوں کو معتدل، نرم، مشفق، پرسکون اور مہربان انداز اپنانا ہو گا، جیسا کہ اللہ نے قرآن میں بیان فرمایا ہے ۔
بنیاد پرستی کا مطلب کسی بھی شعبے میں اچانک تباہ کن تبدیلیوں کی حمایت کرنا،اور اسےحاصل کرنے کے لئے، ایک غیر مصالحت پسندانہ پالیسی کا اطلاق کرنا ہے۔ بنیاد پرست اپنی انقلابی اور بے رحم تبدیلی کی خواہش کے عادی ہوتے ہیں، کبھی کبھی وہ جارحانہ رویہ اپنا لیتے ہیں۔
اس معاملے میں، زندگی کے ہر شعبے میں، مسلمانوں کے لئے قرآن مجید ہدایت نامہ ہے۔ جب ہم قرآن کی روشنی میں بنیاد پرستی کا مطالعہ کرتے ہیں، تو ہم یہ پاتے ہیں کہ اس کا، اس طریقے سے کوئی تعلق نہیں ہے، جیسا کہ اللہ نے مومنوں کو برتاؤ کا حکم دیا ہے ۔ جب اللہ قرآن میں مومنوں کی صفات کی وضاحت کرتا ہے، تو وہ اس کی توضیح محبت کرنے والے، نرم گفتار انسان، تنازعات اور بحث و مباحثہ سے گریز کرنے والے، سب سے زیادہ بد اندیش انسان سے بھی گرم جوشی اور دوستی کے ساتھ ملنے والے ، کے طور پر کرتا ہے۔
اس معاملے میں ہماری رہنمائی کے لئے، ایک مثال اللہ کا موسی اور ہارون کو، فرعون کے پاس جانے اور اس کے ساتھ برد باری سے ہم کلام ہونے کا حکم دیناہے: "دونوں فرعون کے پاس جاؤ وہ سرکش ہو رہا ہے، اور اس سے نرمی سے بات کرنا شاید وہ غور کرے یا ڈر جائے "(قرآن، 44-20:43)۔
فرعون اس وقت کے سب سے زیادہ ظالم اور سرکش کافروں میں سے ایک تھا۔ وہ ایک تاناشاہ تھا، جس نےاللہ کا انکار کیا اور بتوں کی پوجا کی، اس کے علاوہ، اس نے مومنوں ( اس وقت کے اسرئیلیوں کو) کوخوفناک ظلم و ستم اور قتل کا نشانہ بنا یا ۔ لیکن اللہ نے اپنے نبی (علیہ السلام ) کو ایک ایسے دشمن کے پاس جانے ،اور اس کے ساتھ نرمی سے بات کرنے کاحکم دیا۔
آپ کو کو اس بات کا اندازہ ہوگا کہ اللہ کے ذریعہ دکھایا گیا راستہ دوستانہ بات چیت کا راستہ تھا، تیز الفاظ کے ساتھ تنازعہ، غصے سے بھرے ہوئے نعروں اور مضطرب احتجاج کا راستہ نہیں تھا۔
آپ قرآن کی تحقیق کریں گے، تو تمام انبیاء کی فطرت گرم جوش، نرم اور حلیم پائیں گے ۔ اللہ ابراہیم (علیہ اسلام) کو اس طرح پیش کرتا ہے‘‘بڑے نرم دل اور متحمل’’ (قرآن، 9:114)، اور اللہ نے دوسری آیت میں حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کے اخلاقی اصولوں کو اس طرح بیان کیا ہے: "(اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم) خدا کی مہربانی سے تمہاری افتاد مزاج ان لوگوں کے لئے نرم واقع ہوئی ہے۔ اور اگر تم بدخو اور سخت دل ہوتے تو یہ تمہارے پاس سے بھاگ کھڑے ہوتے۔ تو ان کو معاف کردو اور ان کے لئے (خدا سے) مغفرت مانگو۔ اور اپنے کاموں میں ان سے مشورت لیا کرو۔ اور جب (کسی کام کا) عزم مصمم کرلو تو خدا پر بھروسا رکھو۔ بےشک خدا بھروسا رکھنے والوں کو دوست رکھتا ہے "(قرآن، 3:159)۔
بنیاد پرستوں کی ایک واضح خصوصیت ان کا غصہ ہے۔ اس فطرت کو واضح طور پر بنیاد پرستوں کی تقریروں، تحریروں اور مظاہروں میں دیکھا سکتا ہے۔ تاہم، غصہ مسلمانوں کی خصوصیت نہیں ہے۔ اللہ قرآن میں مومنوں کو اس طرح پیش کرتا ہے، "جو آسودگی اور تنگی میں (اپنا مال خدا کی راہ میں) خرچ کرتےہیں اور غصے کو روکتے اور لوگوں کے قصور معاف کرتے ہیں اور خدا نیکو کاروں کو دوست رکھتا ہے ۔" (قرآن، 3:134)
اسی لئے، ایک مسلم کی ذمہ داری، صرف حقائق کی وضاحت کرنا اور لوگ انہیں قبول کرنے کے لئے مدعو کرنا ہے۔ لوگ اس دعوت کو قبول کریں یا نہیں، یہ مکمل طور پر ان کی اپنی مرضی پر ہے۔ اللہ نے قرآن میں اس حقیقت کو اس جگہ واضح کیا ہے ، جہاں یہ فرمایا ہے کہ دین میں کوئی جبر نہیں ہے۔
دین (اسلام) میں زبردستی نہیں ہے ہدایت (صاف طور پر ظاہر اور) گمراہی سے الگ ہو چکی ہے ۔ (قرآن، 2:256)
لہذا، لوگوں کو ایمان لانے اور مسلمان بنانے، یا مسلمان کو نماز داد کروانے اور گناہ سے بچانے پر کوئی جبر نہیں ہے ۔ صرف مشورہ ہے۔ اللہ نے چند آیات میں رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) سے خطاب کر تے ہوئے یہ فرمایا ہے کہ مسلمان ظالم نہیں ہیں: "یہ لوگ جو کچھ کہتے ہیں ہمیں خوب معلوم ہے اور تم ان پر زبردستی کرنے والے نہیں ہو۔ پس جو ہمارے (عذاب کی) وعید سے ڈرے اس کو قرآن سے نصیحت کرتے رہو"(قرآن، 50:45)۔
مسلمان صرف اپنے مذہب کی وضاحت کے لئے ذمہ دار ہیں، وہ کسی پر کوئی دباؤ یا جبر نہیں کرتے ہیں، اور انتہائی سفاک منکرین کے ساتھ بھی نرمی سے بات کرنے کا حکم ہے۔ ایسے لوگ انتہا پسند نہیں ہو سکتے۔
اسلام میں، بنیاد پرستی کی کوئی جگہ نہیں ہے ، جو کہ اعتدال پسند، معتدل اور رحم دل ہونے کا حکم دیتا ہے، اور انتہا پسندی سے منع کرتا ہے۔ ایک آیت میں اللہ اس طرح بیان فرماتا ہے: "کہو کہ اے اہل کتاب! اپنے دین (کی بات) میں ناحق مبالغہ نہ کرو اور ایسے لوگوں کی خواہشوں کے پیچھے نہ چلو جو (خود بھی) پہلے گمراہ ہوئے اور اَور بھی اکثروں کو گمراہ کر گئے اور سیدھے رستے سے بھٹک گئے "(قرآن، 5:77)
جب سماجی مظاہر کے "بنیاد پرستی" کی تحقیق ہو گئی، تو یہ دیکھا جائے گا کہ دراصل وہ اسلوب اور بیانات کی ایک تالیف ہے، جسے پہلے کمیونسٹوں نے اختیار کیا تھا ۔
مسلمانوں کو سختی، غصہ، اور چیلنجنگ نقطہ نظر سے گریز کرنا چاہئے، اس لئے کہ یہ قرآن کے طریقہ کار اور اس کے جوہر کے برعکس ہے ۔ اس کے بجائے مسلمانوں کو قابل قبول، معتدل، پرسکون اور منطقی نقطہ نظر اپنانے کی ضرورت ہے، جیسا کہ قرآن نے بیان کیا ہے۔ دوسرے الفاظ میں، انہیں انسانیت کے لیے رول ماڈل ہونا ،اور اسلام اور خود کے اخلاقیات کے لئے لوگوں کی تعریف حاصل کرنا لازمی ہے۔ مسلمانوں کو سائنس، ثقافت، آرٹ اور جمالیات میں عظیم ترقی اور بہترین کارنامہ انجام دینا چاہئے،اور ساتھ ہی ساتھ اسلام کو شاندار طریقے سے زندہ بھی رکھنا چاہئے، اور اس طرح اسے دنیا میں ہیش کرنا چاہئے۔
ہارون یحیی کی کتابJustice and Compassion in the Qur’an’ ‘سے اقتباسات۔
ماخذ: http://www.arabnews.com/news/446398
URL
https://newageislam.com/islam-spiritualism/qur’an-wants-faithful-be-caring/d/10991
URL for this article:
https://newageislam.com/urdu-section/qur’an-wants-faithful-be-caring/d/11667