ہارون عدیم
گزشتہ د نوں ایک نجی چینل پر ایک ٹاک شو میں گفتگو کے شرکا ایک بار پھر تقسیم کرنے کی بات کررہے تھے جبکہ فخر زمان (چئیر مین اکیڈمی اور بیات) اس بات کا دفاع کررہے تھے کہ پنجاب کو تقسیم کرنے کی سازش کو کامیاب نہیں ہونے دیا جائے گا۔ اس کا کہنا تھا کہ اگر پنجاب کو تقسیم کرنا ہے تو پھر دوسرے صوبوں کو بھی ڈویزنل لیول پر تقسیم کردیں۔ یہ پہلا موقع نہیں کہ جمہوریت دشمن پنجاب کے جمہور کی اعددی اکثریت کو ختم کرنے کی بات نہ کرتے ہوں، اور نہ ہی یہ پہلا موقع ہے کہ فخر زمان یا اس کے رفیق اس کا دفاع نہ کررہے ہوں۔ جب جب کوئی ایسی آواز اٹھی ہے فخر زمان اور اس کے ہم نواؤں نے اس سوچ کی سختی سے مذمت کی ہے ۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اب موقع آگیا ہے کہ پنجابیوں کو پہلےپنجابی بننا ہوگا ۔کیونکہ پنجاب کو اب بھی پاکستان کا ‘‘ماما’’ بننے کا بخار ہے ، اور پاکستان کو متحد اور قائم رکھنے کا جنون ۔پنجاب کے اس کردار نے دوسرے صوبوں کو پاکستان کے خلاف کردیا۔لہٰذا نوکر شاہی کی سازشوں اور طالع آزماؤں کی ریشہ دوانیوں کا سارا غصہ پنجاب پر نکلتا ہے۔ 80کی دہائی کے اوائل میں محمد حنیف رامے مرحوم نے ‘‘پنجاب کا مقدمہ’’ لکھ کر پنجابیوں کو یہ احساس دلایا کہ پاکستان کو ‘‘متحداور قائم’’ رکھنے کی ذمہ داری صرف پنجاب کا حصہ نہیں بلکہ یہ دوسرے صوبوں کی بھی ذمہ داری ہے، پنجابی جتنی جلدی ‘‘پاکستان کے مامے’’ بننے کے بخار سے چھٹکارا پالیں گے یہ ان کے اور پاکستان کے حق میں اتنا ہی بہتر ہوگا۔ لہٰذا پنجابیوں کو آہستہ آہستہ یہ بات سمجھ میں آنی شروع ہوئی کہ پنجابیوں کو خود کو ‘‘پاکستانی’’ثابت کرنے کے بجائے دوسرے صوبوں کے عوام کی طرح پہلے اپنی صوبائی شناخت کو اپنانا ہوگا اور پھر پاکستانی بننا ہوگا۔ کیونکہ کراچی میں بسنے والے ‘‘مہاجر پاکستانی’’خود کو ‘‘سندھی پاکستانی’’ کہلانے کی بجائے ‘‘مہاجر’’ کہلوانے پر بضد تھے، اور بلوچی، سندھی اور پٹھان اپنی ‘‘نسلی شناخت’’ کو سامنے رکھے ہوئے ہیں۔ نیشنل عوامی پارٹی کے رہنما ولی خان نے تو یہاں تک کہا تھا کہ وہ پہلے پختون 1400سال پرانے مسلمان اور 36سال پرانے پاکستانی ہیں۔
پاکستانی آئین سے ماورا مہاجروں کا خودکو ‘‘پانچویں قومیت’’ منوانے کا مطالبہ اور اسرار باقی تمام پاکستانیوں نے رد کردیا تھا۔ لہٰذا ‘‘مہاجر قومی مومنٹ’’ کو اس قومی مدافعت کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پڑے اور انہوں نے ‘‘مہاجر قومی موومنٹ ’’کا نام بدل کر اسے ‘‘متحدہ قومی موومنٹ’’کا نام دے دیا 1988میں یہ بحث زوروں پر تھی کہ اگر مہاجروں کو ‘‘پانچویں قومیت ’’ مانا جائے تو کس بنیاد پر۔۔۔۔؟ کیونکہ قوم کہلانے کے لئے ایک تہذیبی اور ثقافتی سرزمین کا ہونا ضروری ہے، پاکستان میں بسنے والے اردو بولنے والے اور ہجرت کر کے آنے والے پاکستانیوں کی کون سی تہذیبی اور ثقافتی سرزمین ہے ۔ جس کی بنیاد پر اسے ایک قوم مانا جائے ۔ اور اگر انہں قوم مانا جاتا ہے تو پاکستان میں انہیں کون سی سرزمین دی جائے گی۔۔۔۔؟جب کہ تقسیم ہندوستان کے قانون کے مطابق ‘‘مہاجر’’صرف مشرقی ، پنجاب ‘‘اور مغربی پنجاب’’ اور‘‘مشرقی اور مغربی بنگال ’’ سے ہجرت کرنے والوں لوگوں کو مانا گیا تھا۔ دونوں حکومتوں انڈیا اور پاکستان کے مابین ‘‘متروکہ املاک’’ کا تبادلہ بھی اسی قانون کے مطابق ہوا تھا، جبکہ مسلم اکثریتی علاقوں سے ہجرت کرنے والے مہاجر کے زمرے میں نہیں آتے تھے ۔ مگر پھر الاٹمنٹوں اور لائسنسوں اور پرمٹوں کے ساتھ ساتھ ملازمتوں کیے بندر بانٹ انہیں ‘‘مہاجروں’’ کا مقدر بنی جو مہاجر کے زمرے میں آتے ہی نہیں تھے۔ یہی وہ دور ہے جب ‘‘پنجابی نیشنل ازم’’ کی تحریک نے زور پکڑ ا اور پنجابیوں کو احساس ہوا کہ یہی وہ وقت ہے جب انہیں کھل کر پنجابی ہونے کا دعویٰ کرتا ہوگا ۔
ایک بار پھر پنجابیوں کو گالی پڑی کہ پنجابی ‘‘پنجابی ہونے کا دعویٰ’’ کرکے پاکستان توڑنے کی بات کررہے ہیں ۔لہٰذا ‘‘پنجابی نیشنل ازم’’ کی تحریک کو ‘‘پنجابی شاہ نز’’ کا نام دے دیا گیا۔ 1988میں سیاسی جماعتوں کی بنیاد پر شروع ہونے والے انتخابات کی بنیاد پر شروع ہونے والے جمہوری دور میں جو ایک بات دوسرے صوبوں نے محسوس کی وہ یہ تھی کہ جمہوریت میں پنجاب کو قومی اسمبلی میں آبادی کے لحاظ سے برتری حاصل رہے گی ، کیونکہ پنجاب آبادی کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے اور اس کی آبادی ملک کا ساٹھ فی صد ہے۔ لہٰذا اس کی سٹیں بھی قومی اسمبلی میں سب سے زیادہ ہیں۔ اب پنجاب دشمن قوتیں اس نتیجے پر پہنچی ہیں کہ پنجاب کے مزید ‘‘ٹکڑے’’ کردیئے جائیں تاکہ پنجاب کو قومی سطح پر اتنا چھوٹا کردیا جائے کہ قومی سیاست اور فیصلوں پر اثر انداز نہ ہوپائے ۔لہٰذا گاہے بگاہے اب یہ شوشہ چھوڑ دیا جاتا ہے کہ پنجاب کے مزید صوبے بنادئے جائیں۔ حد تو یہ ہوئی کہ 20فروری 2007کو پنجاب یونیورسٹی کی جانب سے منعقد کی گئی ‘‘انٹر نیشنل ہسٹری کانفرنس’’ میں پروفیسر بلالی نے ایک نہایت ہی گمراہ کن مضمون میں اعلان کیا کہ ‘‘اب پاکستان میں بسنے والی برادریاں بھی خود کو علیحدہ ‘‘قوم’’ منوانے اور اپنے لئے ایک علیحدہ صوبے کا مطالبہ کررہی ہیں۔ ان نئی ابھرنے والی قومیتوں میں ‘‘ارائیں ’’، ‘‘جٹ’’ ،‘‘گوجر’’اور ‘‘سرگودھا’’ شامل ہیں۔‘‘انہوں نے اپنے مضمون کو سمیٹتے ہوئے پنجاب کو مزید صوبوں میں تقسیم کرنے کی ضرورت پر زور دیا ۔جب سے پوچھا گیا کہ وہ کون لوگ ہیں جو یہ مطالبہ کررہے ہیں تو انہوں نے اس وقت کے دفاقی وزیر اعجاز الحق کا نام لے کر کہا کہ ان کا مطالبہ ہے کے فیصل آباد میں بسنے والوں کی اکثریت ‘‘آرائیں’’ ہےلہٰذا فیصل آباد کو ایک علیحدہ صوبہ بنادینا چاہئے ۔
جب کہ ایسا ہے نہیں ۔کوئی بھی ذی شعور ایسی بات تو نہیں سکتا۔ کہ ‘‘برادری’’ کو قومیت کا درجہ دے دیا جائے ۔ یقیناً ایسی بات کوئی ملک دشمن ہی کرسکتا ہے ۔تب ہم نے سوال کیا تھا کہ کیا پروفیسر ‘‘حلالی’’ یہ چاہتے ہیں کہ گجرات ‘‘گجروں’’ کو دے کر علیحدہ صوبہ بنادیا جائے ، اور سیالکوٹ ‘‘جٹوں’’ کو دے دیا جائے ۔ کل ان کے فارمولے کے مطابق اہل تشہیہ بھی اپنے عقیدے کی بنیاد پر علیحدہ صوبہ مانگیں گے اور اہلحدیث اور سنی اور دیگر عقائد بھی۔ اور پھر سب سے بڑھ کر پاکستان میں بسنے والے غیر مسلم پاکستانی بھی اپنے لئے علیحدہ سرزمین کا مطالبہ کیوں نہیں کریں گے۔جبکہ وہ سمجھتے ہیں کہ ان کے سیاسی اور شہری حقوق غصب کئے جارہے ہیں ،گویا وہ لوگوں کو تحریک دے رہے ہیں کہ اگر وہ ان خطوط پر نہیں سوچتے تو وہ ضرور ان خطوط پر سوچیں ۔اگر بلالی صاحب کے اس سنگین اور گمراہ کن تصور پر عمل شروع کربھی دیا جائے تو یہ تقسیم کا عمل اور ‘‘نئی ہجرتوں’’کا شروع ہونے والا سفر کہیں رکے گا بھی۔۔۔۔؟ کیونکہ بے شمار برادریاں مختلف علاقوں میں آباد ہیں جیسے ارائیں تو ضلع ساہیوال اور رحیم یار خان میں بھی آباد ہیں ۔ کیا ہم ساہیوال اور رحیم یار خان میں بسنے والے ارائیوں کو وہاں سے نقل مکانی پر مجبور کریں گے۔۔۔۔؟’’یقیناً یہ ایک زہریلی سوچ تھی جس کی بازگشت اب بھی وقفے وقفے سے سنائی دیتی رہتی ہے۔21فروری2007کو لاہور میں مادری زبانوں کے عالمی دن کے موقع پر پنجاب فورم کی جانب سے منعقد کی گئی ایک تقریب میں مقررین نے کھل کر اس سو چ کی مزمت کی تھی اور کہا تھا کہ جب تک پنجاب کے بیٹے زندہ ہیں پنجاب کو تقسیم کرنے کی سازش کامیاب نہیں ہونے دی جائے گی۔ اگر پنجاب کو اس کی آبادی کی وجہ سے تقسیم کرنے کی بات کی جارہی ہے تو بھی یہ درست نہیں۔ اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستانی عوام کو ایک قوم بنایا جائے نہ کہ اسے تقسیم کیا جائے۔ پاکستان کو اس وقت جو بیرونی اور عالمی خطرات لاحق ہیں ان کا بھی یہ تقاضا ہے کہ ایسی کسی بھی سوچ کو فی الفور کچل دیا جائے جو پاکستان کو مزید ٹکڑوں میں بانٹنے کی راہ پر ڈالے۔
URL for this article:
https://newageislam.com/urdu-section/conspiracy-divide-punjab-/d/1464