حقانی القاسمی
18 نومبر، 2014
تقسیم ہند کے بعد تفہیم اقبال کی سمت ہی بدل گئی۔ ہندوستان میں اقبال کا نام لینا بھی جرم ٹھہرا۔اس کی پوری تفصیل پروفیسر جگن ناتھ آزاد نے اپنے مضامین میں درج کی ہے۔ تشکیل پاکستان کے محرک اور تصور پاکستان کے بنیاد گزار کی حیثیت سے علامہ اقبال کا نام پیش کیا جا نے لگا اور ’سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا‘جیسا ’ترانہ ‘بھی اس ’لن ترانی‘ کوروک نہ سکا۔ علامہ اقبال پاکستانی بنا دیے گئے جبکہ ان کی وفات( 21اپریل 1938)کے وقت پاکستان کا کوئی جغرافیائی وجود ہی نہیں تھااور اب طرفہ تماشا یہ ہے کہ علامہ اقبال کوطالبانی فکرکے پیش رو کی حیثیت سے پیش کیا جانے لگاہے اوریہ منفی اور متعصب ذہنیت رکھنے والا ایک بڑا طبقہ علامہ اقبال کے ’ شاہین‘ کوبھی دہشت گردی کی ایک مضبوط علامت کے طور پر پیش کرتا ہے اور ان کے بہت سے اشعار کا رشتہ طالبان کی دہشت گردی ،بنیاد پرستی سے جوڑ رہا ہے۔حتیٰ کہ اقبال کے وہ سارے اشعار جن میں انہوں نے استحصالی استعماری قوتوں کے خلاف احتجاج کیا ہے انہیں بھی دہشت گردی کے محرکات سے ملحق کر دیا گیا ہے۔ علامہ اقبال کے ان اشعارکو بھی تشدد کی ترغیب قراردیاجارہا ہے ۔
جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہ ہو روزی
اس کھیت کے ہر خوشۂ گندم کو جلا دد
گرماؤغلاموں کا لہوسوزیقیں سے
کنجشک فرومایہ کو شاہیں سے لڑادو
اٹھومری دنیا کے غریبوں کو جگادو
کاخ امرا کے درودیوارہلادو
اے جوئے آب بڑھ کے ہودریا ئے تندو تیز
ساحل تجھے عطا ہو توساحل نہ کر قبول
کیاپتہ آنے والے کل میں علامہ اقبال کے اشعار کا رشتہ ایسی ذہنیت کے افراد ماؤوادی اور نکسل وادی نظریات سے بھی جوڑ دیں۔المیہ یہ ہے کہ ہر وہ فکر جو منفعل سماج، مضمحل ملت اور منجمدقوم کو متحرک کرنے کی قوت رکھتی ہے، اس پرڈاکٹر اسرارعالم کی وضع کردہ اصطلاح نو ترادفی ثنویت کی شکار ملت، الحاد دہریت اورزندیقیت کی مہر لگادیتی ہے۔ ابن رشد ،ابن تیمیہ ،ابن عربی اور سرسید کی تکفیرکے سلسلے اسی روش سے جڑے ہوئے ہیں۔یا پھر فسطائی ذہنیت اس میں بنیادپرستی کے عناصر تلاش کرنے لگتی ہے۔ اقبال کے ساتھ بھی یہی ہوا کہ وہ کافر ہوتے ہوتے بچے تو فسطائی ذہنیت نے ان پر طالبانی فکرکے پیش رو ہونے کا الزام لگا دیا اور یہ بڑاالمیہ ہے کہ جو بھی فکر ملت اسلامی کی بیداری کے لیے سامنے آتی ہے یا ملت کی ترقی یا تجدد کی بات کرتی ہے تواس کا رشتہ نظریاتی شدت پسندی سے جوڑ دیا جاتاہے۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کی تجدیدی فکر کا رشتہ بھی اسلامی شدت پسندی سے جوڑ دیا گیا اوران کی تحریروں کو غیرواضح ٹیرارزم کا سرچشمہ قرار دیا گیا۔ آراپادھیائے نے اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ
Combination of Islamic extremism of Wahab and religio - Political Strategy of Waliullah has become the main source of inspiration of Islamic terrorism as we see today
(وہاب نجدی کی اسلامی شدت پسندی اور شاہ ولی اللہ کی مذہبی سیاسی حکمت عملی کا اشتراک اسلامی دہشت گردی کی تحریک کا مرکزی سرچشمہ بن چکاہے جیسا کہ ہم آج دیکھ رہے ہیں)
شاہ ولی اللہ ؒ نے اسلامی جدیدیت کے ذریعہ پوری قوم کو بیدار کرنے کی کوشش کی توان کے افکار ونظریات کا رشتہ شدت پسندی سے جوڑ دیا گیا اور اقبال بھی اسی فکری نہج پر اپنی شاعری کے ذریعہ پوری قوم کو بیدار کررہے تھے ،مضمحل ملت میں نئی روح پھونک رہے تھے،مسلم قوم کو نئے عمرانی اور سیاسی تصورات سے آگاہ کررہے تھے توان کی شخصیت کو بھی مسخ کرنے کی کوشش کی گئی ۔ جبکہ اقبال ایسے شاعر تھے جنہوں نے تمام مثبت افکار سے اپنا سروکار رکھا اور اپنے خانۂ خیال کو روشن کیا ۔گوتم بدھ ،گرونانک، سوامی تیرتھ، بھرتری ہری اور امام ہندشری رام کے خیالات کواپنے فکری منطقے میں نمایاں اہمیت دی۔
اقبال کا بنیادی فکری منشور احترام آدمیت تھا۔ ان کی فکر کا رشتہ جو ئے کم آب سے نہیں بلکہ بحر بے کراں سے تھا۔ ان کے یہاں محدود جغرافیائی تصور کے لیے کوئی جگہ نہیں تھی۔انہوں نے اپنی شاعری میں ہمیشہ آفاقیت اور انسانیت کی بات کی۔ وہ ایک محدود قومیت کے قائل کبھی نہیں رہے۔ ان کا صاف طور پر کہنا تھا
ہوس نے ٹکڑے ٹکڑے کردیا ہے نوع انساں کو
اخوت کا بیاں ہوجا محبت کی زباں ہوجا
یہ ہندی وہ خراسانی یہ ایرانی وہ تورانی
تو اے شرمندۂ ساحل اچھل کر بے کراں ہوجا
اقبال نے اپنی شاعری کے ذریعہ اس جارحانہ وطن پرستی کی مخالفت کی جو استعماری یوروپ کا دیا ہوا تصور تھا۔ ایسی وطنیت جو جنگو ازم کی حدوں میں داخل ہوجاتی ہے اقبال نے اس کی مخالفت کی تھی اور یہی وجہ ہے کہ وحدت انسانیت کے تصور کو روبہ عمل لاتے ہوئے انہوں نے کہا تھا
ان تازہ خداؤں میں بڑا سب سے وطن ہے
جو پیراہن اس کا ہے وہ مذہب کا کفن ہے
اقبال نے نقش دوئی کو مٹانے کی بات کی اور ایک نیاشوالہ بنانے کی گفتگو کی ان کا بنیادی مقصد پوری قوم میں خودی کی روح پھونکنا اوران کے ضمیر کو بیدار کرنا تھا۔ انہوں نے ملت اسلامیہ کوبھی اقوام عالم کے مثبت افکار سے اکتساب فیض کا تصور دیاتھا اور مشرق ومغرب کی حدیں مٹادی تھیں۔
مشرق سے ہو بیزار نہ مغرب سے حذر کر
فطرت کا اشارہ ہے کہ ہر شب کوسحر کر
اقبال کے یہاں مذہبی اورتہذیبی نرگسیت کا کوئی تصور نہیں تھا اور نہ ہی انہوں نے اپنی قوم کے امتیاز اور تفوق کی بات کی۔بلکہ انہوں نے ہر طرح کے امتیازات کے خلاف احتجاج کیا۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے سوامی رام تیرتھ کی تعریف کرتے ہوئے کہا تھا
آہ کھولا کس ادا سے تونے راز رنگ و بو
میں ابھی تک ہوں اسیر امتیاز رنگ بو
اقبال کی پوری شاعری آفاقی تصورات اور نظریات سے معمور ہے۔ محدود جغرافیائی تصور ان کے ذہن میں جنم لے ہی نہیں سکتاتھا اسی لیے اقبال کو نہ تصور پاکستان کا محرک قرار دیا سکتاہے اور نہ ہی طالبانی فکر کا پیش رو۔اقبال تو ہمیشہ آب روان کبیر کے کنارے کسی اور زمانے کا خواب دیکھتے رہے۔وہ خواب توشرمندۂ تعبیر نہ ہوسکا ہاں یہ ضرور ہواکہ محدود نظری نے ان کے خواب فردا کا خون کر دیا اور یہ سب اس ’ زینوئی تعبیر‘کی وجہ سے ہوا، جس کا سماج، سیاست اورادب پر تسلط بڑھتا جا رہا ہے۔ یہی وہ زینوئی تعبیر ہے جس کی وجہ سے عصر حاضر میں ہر لایعنی بات بھی با معنی ہوگئی ہے۔ زینوئی کلامیے کو مذہبی صحیفہ کی طرح ہندوستان میں بھی مستند اور معتبر سمجھا جانے لگا ہے اورہمارے پولیٹیکل ،سوشل اور انٹلیکچول سسٹم پر اب یہی فکر حاوی ہوتی جارہی ہے اور اسی کی میزان پر ہر فکر کی پیمائش ہو رہی ہے۔ علامہ اقبال کے افکا رکا رشتہ طالبانی فکر سے جوڑنا اسی زینوئیت کا ایک حصہ ہے۔
URL:
https://newageislam.com/urdu-section/allama-iqbal-cultural-narcissism/d/100055