پرندوں کی دنیا کا درویش ہوں میں
کہ شاہیں بناتا نہیں آشیانہ
Allama Iqbal- 9th Nov, 1877---------21st April 1938
22اپریل،2013
تقسیم ہند کے بود تفہیم اقبال کی سمت ہی بدل گئی۔ہندوستان میں اقبال کا نام لینا بھی جرم ٹھرا ۔اس کی پوری تفصیل پروفیسرجگن ناتھ آزاد نے اپنے مضامین میں درج کی ہے۔تشکیل پاکستان کے محرک اور تصور پاکستان کے بنیاد گزار کی حیثیت سے علامہ اقبال کا نا م پیش کیا جانے لگا اور 'سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا'جیسا'ترانہ 'بھی اس 'لن ترانی'کو روک نہ سکا۔علامہ اقبال پاکستانی بنادیےگئے جبکہ ان کی وفات(21اپریل1938)کے وقت پکستان کا کوئی جغرافیائی وجود ہی نہیں تھا اور اب طرفہ تماشا یہ ہے کہ علامہ اقبال کو طالبانی فکر کے پیش رو کی حیثیت سے پیش کیا جانے لگا ہے اور یہ انکشاف پروفیسر ناسر عباس نیز نے اپنے ایک مضمون میں کیا ہے۔
منفی اور متعصب ذہنیت رکھنے والا ایک بڑا طبقہ علامہ اقبال کے 'شاہین'کو بھی دہشت گردی کی ایک مضبوط علامت کے طور پر پیش کرتا ہے اور ان کے بہت سے اشعار کا رشتہ طالبان کی دہشت گردی ،بنیاد پرستی سے جوڑ رہا ہے ۔حتیٰ کہ اقبال کے وہ سارے اشعار جن میں انہوں نے استحصالی استعماری قوتوں کے خلاف احتجاج کیا ہے انہیں بھی دہشت گردی کے محرکات سے ملحق کر دیا گیا ہے۔علامہ اقبال کے ان اشعار کو بھی تشدد کی ترغیب قرار دیا جا رہا ہے۔
جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہ ہو روزی
اس کھیت کے ہر کھو شئہ گندم کو جلادو
گرماؤ غلاموں کا لہو سوز یقیں سے
کنجشک فرومایہ کو شاہیں سے لڑا دو
اٹھو میری دنیا کے غریبوں کو جگا دو
کاخ امرا کے درو دیوار ہلادو
اے جوئےاب بڑھ کے ہو دریائے تندو تیز
ساحل تجھے عطا ہو تو ساحل نہ کر قبول
کیا پتہ آنے والے کل میں علامہ اقبال کے اشعار کا رشتہ ایسی ذہنیت کے افراد ماؤ وادی اور نکسل وادی نظریات سے بھی جوڑ دیں ۔المیہ یہ ہے کہ ہر وہ فکر جو منفعل سماج ،مضمحل ملت اور منجمد قوم کو متحرک رکھنے کی قوت رکھتی ہے ،اس پر ڈاکٹر اسرار عالم کی وضع کردہ اصطلاح نو تراوفی ثنویت کی شکار ملت ،الحاد و دہریت اور زندیقیت کی مہر لگا دیتی ہے ۔ابن رشد ،ابن تیمیہ ،ابن عربی اور سر سید کی تکفیر کے سلسلے اسی روش سے جڑے ہوے ہیں ۔یا فر فسطائی ذہنیت اس میں بنیاد پرستی کے عناصر تلاش کرنے لگتی ہے۔اقبال کے ساتھ بھی یہی ہوا کہ وہ کافر ہوتے ہوتے بچےتو فسطائی ذہنیت نے ان پر طالبانی فکر کے پشرو ہونے کا الزام لگا دیا اور یہ بہتر المیہ ہے کہ جو بھی فکر ملت اسلامی کی بیداری کے لئے سامنے آتی ہےیاملت کی ترقی یا تجددکی بات کرتی ہے تو اس کا رشتہ نظریاتی شدت پسندی سے جوڑ دیا جاتا ہے ۔شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کی تجدیدی فکر کا رشتہ بھی اسلامی تشدد پسندی سے جوڑ دیا گیا اور ان کے تحریروں کو غیر واضح ٹیرارزم کا سرچشمہ قرار دیا گیا ۔ آر ا پادھیائے نے اپنے مضمون میں لکھا ہے کہ
Combination of Islamic extremism of Wahab and religio–Political Strategy of Waliullah has become the main source of inspiration of Islamic terrorism as we see today.
(وہاب نجدی کی اسلامی شدت پسندی اور شاہ ولی اللہ کی مذہبی سیاسی حکمت عملی کا اشتراک اسلامی دہشت گردی کی تحریک کا مرکز ی سر چشمہ بن چکا ہے جیسا کہ اج ہم دیکھ رہے ہیں )شاہ ولی اللہ نے اسلامی جدیدیت کے ذریعہ پوری قوم کو بیدار کر نے کی کوشش کی تو ان کے افکار و نظریات کا رشتہ شدت پسندی سے جوڑ دیا گیا اور اقبال بھی اسی فکری نہج پر اپنی شاعری کے ذریعہ پوری قوم کو بیدار کر رہے تھے مضمحل امت میں نئی روح فوں پھونک رہے تھے ، مسلم قوم کو نئے عمرانی اور سیاسی تصورات سے آگاہ کر رہے تھے تو ان کی شخصیت کو بھی مسخ کرنے کی کوشش کی گئی۔جبکہ اقبال ایسے شاعر تھے جنہوں نے تمام مثبت افکار سے اپنا سروکار رکھا اور اپنے خانہ خیال کو روشن کیا ۔ گوتم بدھ ،گرونانک ،سوامی تیرتھ ،بھتری ہری اور امام ہند شری رام کے خیالات کو اپنے فکری منطقے میں نمایا اہمیت دی۔
اقبال کا بنیادی فکری منشور احترام آدمیت تھا ۔ان کی فکر کا رشتہ جوے کم آب سے نہیں بلکہ بحربے کراں سے تھا ۔ان کے یہاں محدود جغرافیائی تصور کے لیے کوئی جگہ نہیں تھی ۔انہوں نے اپنی شاعری میں ہمیشہ آفاقیت اور انسانیت کی بات کی۔وہ ایک محدود قومیت کے قائل کبھی نہیں رہے۔ان کا صاف طور پر کہنا تھا
ہوس نے ٹکڑے ٹکڑے کر دیا ہے نوع انساں کو
اخوت کا بیاں ہو جا محبت کی زبا ں ہو جا
یہ ہندی وہ خراسانی یہ ایرانی و تورانی
تو اے شرمندہ ساحل اچھل کر بے کراں ہوجا
اقبال نے اپنی شاعری کے ذریعہ اس جارحانہ وطن پرستی کی مخالفت کی جو استعماری یوروپ کا دیا ہوا تصور تھا ۔ایسی وطنیت جو جنگوازم کی حدوں میں داخل ہو جاتی ہے اقبال نے اس کی مخالفت کی تھی اور یہی وجہ ہے کہ وحدت انسانیت کے تصو رکو رو بہ عمل لاتے ہوے انہوں نے کہا تھا
ان تازہ خداؤںمیں بڑا سب سے وطن ہے
جو پیراہن اس کا ہے وہ مذہب کا کفن ہے
اقبال نے نقش دوئی کو مٹانے کی بات کی اور ایک نیا شوالہ بنانے کی گفتگو کی ان کا بنیادی مقصد پوری قوم میں خودی کی روح پھونکنا اور ان کے ضمیر کو بیدار کرنا تھا۔انہوں نے ملت اسلامیہ کو بھی اقوام عالم کے مثبت افکار سے اکتساب فیض کا تصور دیا تھا اور مشرق ومغرب کی حدیں مٹا کی تھیں۔
مشرق سے ہو بیزار نہ مغرب سے حذر کر
فطرت کا اشارہ ہے کہ ہر شب کو سحر کر
اقبال کے یہاں مذہبی اور تہذیبی نرگسیت کا کوئی تصور نہیں تھا اور نہ ہی انہوں نے اپنے قوم کے امتاز اور تفوق کی بات کی ۔بلکہ انہوں نے ہر طرہ کے امتیاز ات کے خلاف احتجاج کیا۔یہی وجہ ہے کہ انہوں نے سوامی رام تیرتھ کی تعریف کرتے ہوے کہا تھا
آہ کھولا کس ادا سے تو نے راز رنگ وبو
میں ابھی تک ہوں اسیر امتیاز رنگ بو
اقبال کی پری شاعری آفاقی تصورات اور نطریات سے معمور ہے ۔محدود جغرافیائی تصور ان کے ذپن میں جنم لے ہی نہیں سکتا تھا اسی لئے اقبال کو نہ تصور پاکستان کا محرک قرانر دیا جا سکتا ہےاور نہ ہی طالبانی فکر کا پیش رو۔اقبال تو ہمیشہ آب رواں کبیر کے کنارے کسی اور زمانے کا خواب دیکھتے رہے۔وہ خواب تو شرمندہ تعبیر نہ ہو سکا ہا ں یہ ضرور ہوا کہ محدود نظری نے ین کے خواب فردا کا خون کردیا اور یہ سب اس 'زینوئی تعبیر 'کی وجہ سے ہوا ،جس کا سماج ،سیاست اور ادب پر تسلط بڑھتا جا رہا ہے ۔یہی وہ زینوئی تعبیر ہے جس کی وجہ سے عصر حاضر میں ہر لا یعنی بات بھی بامعنیٰ ہو گئی ہے ۔زینوئی کلامیے کو مزہبی صحیفہ کی طرح ہندستان میں بھی مستند اہر اور معتبر سمجھا جانے لگا ہےاور ہمارے پولیٹیکل،سوشل اور انٹلیکچول سسٹم پر اب یہی فکر حاوی ہوتی جا رہی ہے اور اسی کی میزانپر ہر فکر کی پیمائش ہو رہی ہے۔علامہ اقبال کے افکار کارشتہ طالبانی فکر سے جوڑنااسی زینوئنیت کا ایک حصہ ہے۔
22اپریل،2013بشکریہ : روز نامہ راشٹریہ سہارا،دہلی