New Age Islam
Sun Sep 08 2024, 01:41 AM

Urdu Section ( 8 Jun 2022, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Wisdom Is One of the Greatest Rewards of Allah Almighty حکمت اللہ تعالیٰ کے سب سے بڑے انعاموں میں سے ایک ہے

حمید الدین فراہی

3 جون،2022

اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں ہمیں حکمت سے روشناس فرمایا ہے، اس کی عظیم قدر و منزلت بتائی ہے اور اس حقیقت کے بیان میں متعدد پہلوؤں سے رہنمائی کی ہے کہ حکمت اللہ تعالیٰ کے سب سے بڑے انعاموں میں سے ایک ہے۔ اس ضمن میں ایک اہم پہلو یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو قرآن مجید کے چار مقامات پر جن چار صفات سے متصف کیا ہے ان میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کی انتہا تعلیم حکمت کو قرار دیا ہے۔ پہلا مقام وہ ہے جس میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعایوں بیان فرمائی ہے:

”اے ہمارے رب تو ان میں انہی میں سے ایک رسول مبعوث فرما جو ان کو تیری آیتیں سنائے او ران کو کتاب او رحکمت کی تعلیم دے او ران کا تزکیہ کرے۔ بے شک تو غالب او رحکمت والاہے۔“ (البقرہ:129)

دوسرے مقام پر اس دعا کی مقبولیت کو بیان کرتے ہوئے فرمایا:

”اسی طرح ہم نے تمہارے اندر تمہیں میں سے (اپنا) رسول بھیجا جو تم پر ہماری آیتیں تلاوت فرماتا ہے اور تمہیں پاک صاف کرتا ہے او رتمہیں کتاب کی تعلیم دیتاہے اور حکمت و دانائی سکھاتاہے اور تمہیں وہ (اسرارِ معرفت و حقیقت) سکھاتاہے جو تم نہ جانتے تھے۔“(البقرہ:151)

تیسرے مقام پر مومنین پر اپنا احسان بیان کرتے ہوئے فرمایا:

”بیشک اللہ نے مسلمانوں پربڑااحسان فرمایا کہ ان میں انہی میں سے (عظمت والا) رسول صلی اللہ علیہ وسلم بھیجا جو ان پر اس کی آیتیں پرھتا او رانہیں پاک کرتاہے اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے، بے شک وہ لوگ اس سے پہلے کھلی گمراہی میں تھے۔“ (آل عمران:164)

چوتھے مقام پر لوگوں کو اس بات پر کہ انہوں نے اپنے رب کے عظیم فضل کی قدر نہیں پہچانی، متنبہ کرتے ہوئے فرمایا:

”وہی ہے جس نے اَن پڑھ لوگوں میں انہی میں سے ایک (باعظمت) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھیجا وہ ان پر اس کی آیتیں پڑھ کر سناتے ہیں اور ان کو پاک کرتے ہیں او رانہیں کتاب وحکمت کی تعلیم دیتے ہیں، بیشک وہ لوگ ان (کے تشریف لانے) سے پہلے کھلی گمراہی میں تھے، او ران میں سے دوسرے لوگوں میں بھی جو ابھی ان لوگوں سے نہیں ملے، اور وہ بڑا غالب بڑی حکمت والا ہے، یہ اللہ فضل ہے جو جسے چاہتا ہے اس سے نوازتا ہے، او راللہ بڑے فضل والا ہے۔“(جمعہ: 2/تا4)

یہ چار مقامات اگرچہ تین مختلف سورتوں میں آئے ہیں لیکن ان کی تعلیم ایک جیسی ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ تزکیہ کاذکر حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا کے آخر میں ہوا ہے جب کہ باقی مواقع پر وہ پہلے ہے۔ اس تقدیم و تاخیر کا راز کیا ہے اس کو توہم کسی مستقل فصل میں بیان کریں گے لیکن ان چار صفات کا تکرار ان کی زبردست اہمیت کی دلیل اور غور وفکر کامتقاضی ہے۔

جہاں تک تلاوت آیات کا تعلق ہے، اس میں شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جو آیات نازل فرمائیں، جن کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا اور جن پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کو ابھارا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کو آگے پہنچاتے۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کی مانند کلام اللہ کی تلاوت سے شغف رکھنے والی کوئی امت پہلے نہیں گزری۔ رہا تزکیہ تو یہ دین کا مقصود ہے۔ اس کی بنیاد توحید ہے اور توحید کاکمال اطاعت میں اخلاص اور خداوند تعالیٰ کی رضا کے لئے مال وجان کی قربانی ہے۔ یہ حقیقت ڈھکی چھپی نہیں کہ نفوس کے تزکیہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم جہاں تک پہنچے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے کوئی دوسرا نبی وہاں تک نہیں پہنچا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تیسری صفت تعلیم کتاب ہے۔ ان احکام شریعت کی تعلیم مراد ہے جو اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں پر واجب کئے او رآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو پوری تفصیل سے اپنے اصحاب پر واضح فرمایا، ان کے اصول و فروغ کی طرف خود بھی رہنمائی دی او راپنے فقہاء صحابہ کو بھی اس پر مامور فرمایا۔ چنانچہ وہ امت کے لئے نمونہ بن گئے۔ رہی حکمت تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عقلوں کی تہذیب اور نفوس کے تزکیہ کے ذریعے اس کی راہ بتلائی۔ لیکن کسی کو حکمت منتقل کرنے کے لئے یہ ضروری ہوتاہے کہ اس کی بکثرت مشق کرائی جائے، فہم کے لئے روشنی مہیا کی جائے اور کتاب الہٰی میں غور و فکر پر برابر ابھارا جائے کیونکہ وہی حکمت کا سرچشمہ ہے۔ اس لئے اگرچہ بکثرت لوگ حکمت سے فیضیاب ہوئے لیکن اس کو آگے منتقل کرنے میں انہوں نے مشکل محسوس کی، چنانچہ وہ اسے اس طرح منتقل نہ کرسکے جس طرح انہوں نے احکام شریعت کو منتقل کیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ امت میں حکمت جاننے والے کم ہوگئے اور اس کے حصول کا ذریعہ بھی مخفی رہ گیا۔

اہل حکمت کی قسمیں:

جس طرح بعض حکیم ایسے ہوتے ہیں جن کو نہ صرف فہم حاصل ہوتاہے بلکہ ان کی رائے بھی درست ہوتی ہے، اسی طرح بعض کلام نصیحت کے کلمات او راعلیٰ اخلاق دونوں کو سمیٹے ہوئے ہوتے ہیں۔ بعض حکیم اس خصوصیت کے حامل ہوتے ہیں کہ وہ دوسروں کو حکمت کی تعلیم او رصحیح سوچ اور سچی بات کی طرف رہنمائی کرتے ہیں۔ اسی طرح بعض علوم کی نوعیت بھی ہے کہ وہ فہم او راستدلال کے اصول سے آگاہ کرتے، حقیقی معارف کی راہ دکھاتے او روہ طریقہ بتاتے ہیں جس سے بندہ طبیعت کی آلودگیوں سے پاکی حاصل کرسکتا ہے۔

جس طرح ہر تندرست آدمی طب کا جاننے والا نہیں ہوتا اسی طرح یہ ضروری نہیں کہ ہر صاحب حکمت آدمی حکمت کا واقعی علم بھی رکھتا ہو۔ پھر یہ بھی ضروری نہیں کہ ہر صاحب علم اپنے علم سے دوسرے شخص کو واقف کرسکے کیونکہ ایک مشکل کام ہے اور طویل مشغولیت چاہتا ہے، لہٰذا حکیم کبھی تو اپنی ذاتی مصروفیت کے باعث حکمت کی تعلیم پر قادر نہیں ہوسکتا او رکبھی یہ مشکل پیش آتی ہے کہ مطالب کو طالب علم کے لئے وہ پوری وضاحت اور خوبی بیان کے ساتھ ادا نہیں کر پاتا۔

اس فرق کے علاوہ کہ، جو حکمت کی تعلیم دینے والے حکیم اور تعلیم نہ دینے والے حکیم کے درمیان ہے، یہ بات بھی نہایت تعجب خیز ہے کہ بہت سارے لوگ جو حکمت کی تعلیم دیتے ہیں، خود حکیم نہیں ہوتے۔ یہ بالکل اسی طرح ہے جیسے شہد کی بوتل میں شہد کی مٹھاس نہیں ہوتی یا کتاب کا ورق اس چیز کا خود عالم نہیں ہوتا جو اس میں لکھی ہوتی ہے لہٰذا اس طرح کا استاد حکیم کے اقوال کا ناقل یا کتابوں کا بوجھ اٹھانے والا ہوتا ہے۔ قرآن مجید میں یہود کے علماء کی یہ صفت بیان ہوئی ہے کہ انہیں تو رات اٹھوائی گئی لیکن انہوں نے اس کو اٹھا کر نہیں دیا۔بالکل اسی طرح حکمت کی تعلیم دینے والے یہ لوگ صرف کلمات حکمت سنانے والے ہوتے ہیں اور اس کام کو سیکھنا مشکل امر نہیں۔

حکمت کے حصول کے ذرائع

جہاں تک اس حکمت کا تعلق ہے جو بصیرت اور فہم پیدا کرتی ہے، تو حقیقی حکمت وہی ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطائے خاص ہوتی ہے جس کے سیکھنے کا کوئی دوسرا طریقہ نہیں۔ البتہ جس طرح اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کی ایک حد او راس کے لئے رکاوٹ بنائی ہے اسی طرح اس نے ہر چیز کیلئے ایک ذریعہ اور راستہ بھی پیداکیا ہے۔ پس جو شخص حکمت کا طالب ہو، اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ اس کے ذرائع کو اختیار کرے، اس کے دروازوں میں گھس جائے، اس کے حصول کے لئے کوئی دقیقہ فرد گزاشت نہ کرے اور اللہ تعالیٰ سے اسے مانگے۔ اس کے لئے وہ اس کے حضور سائل بن کر کھڑا رہے او راس کی تسبیح کرتا ہو، اس کے جانب سے ایک نور ہے اس لئے خدا کے سوا کوئی اسے عطا نہیں کر سکتا۔

اللہ تعالیٰ نے قرآن نازل فرمایا جس میں وہ تمام صفات اور اعمال بتائے ہیں جن کے ذریعے سے حکمت حاصل ہوتی ہے۔ ہم ان میں سے بنیاد یں چیزیں یہاں بیان کرتے ہیں:

پہلی چیز اللہ تعالیٰ کی طرف ایک ایسی توجہ ہے جو خشیت، محبت اور عاجزی کے ساتھ ہو۔ یہ ایک تو نصف شب کی نماز سے حاصل ہوتی ہے جب تمام انسان سورہے ہوتے ہیں۔ دوسرے یہ ٹھہر ٹھہر کر اور غور وفکر کے ساتھ قرآن مجید کی تلاوت سے ہوتی ہے۔ دوسری چیز لوگوں کے ساتھ رحمت و شفقت کاسلوک او ران کی خیر خواہی ہے۔ یہ وہ چیز یں بہت سی اچھی صفات پیداکرنے کاموجب بنتی ہیں۔ لہٰذا ان کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے حکم سے حکمت بھی نازل ہوتی ہے مگر اسی قدر جتنی وہ دینا چاہے اور جیسی وہ دینا چاہئے لیکن یہ ہوتی حقیقی حکمت ہے نہ کہ اس کی نقل یا اس کا یاد کیا ہوا کوئی حصہ۔ اللہ تعالیٰ نے ان دونوں بنیادوں کی طرف رہنمائی دی ہے۔ سورہ بقرہ میں انفاق کی ترغیب، اس کی کچھ تمثیلات کے بیان او رانفاق کو خدا کے فضل اورنور کا ذریعہ بتانے کے بعد فرمایا:

”جسے چاہتا ہے دانائی عطا فرما دیتاہے، او رجسے (حکمت و) دانائی عطا کی گئی اسے بہت بڑی بھلائی نصیب ہوگئی، اور صرف وہی لوگ نصیحت حاصل کرتے ہیں جو صاحب عقل و دانش ہیں“۔ (البقرہ:269)

اس آیت کے بعد ان لوگوں کا ذکر کیا ہے جو حکمت پانے والوں کی ضد ہیں اور بتایا ہے کہ وہ کیسے اس آدمی کی مانند ہوتے ہیں جس کو شیطان کی چھوت نے پاگل بنا دیا ہو۔ یہ ایک نہایت واضح بات ہے کہ کیونکہ رب کی طرف توجہ ہی سے نور کے دروازے کھلتے ہیں او ربندوں کے ساتھ ہمدردی اور شفقت وہ چیز ہے جو دل کے پردے چاک کرتی ہے او راس کو کشادگی عطا کرتی ہے۔ (جاری)

3 جون، 2022، بشکریہ: انقلاب، نئی دہلی

URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/wisdom-greatest-rewards-allah-almighty/d/127194

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..