New Age Islam
Sat Jul 19 2025, 08:07 PM

Urdu Section ( 3 Apr 2025, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Why Hamas resists all foreign demands for surrender حماس ہتھیار ڈالنے کے تمام غیر ملکی مطالبات کی مزاحمت کیوں کر رہا ہے؟

کریڈل کا فلسطین نامہ نگار

 1 اپریل 2025

 جیسا کہ امریکہ کی جانب سے ہتھیار ڈالنے کے مطالبات بڑھتے جا رہے ہیں، اور جنگ بندی کے مذاکرات تخریب کاری اور علاقائی غداری کے سبب ناکام ہو رہے ہیں، حماس اپنی بنیاد کھڑی کر رہا ہے - جلاوطنی پر مزاحمت کو ترجیح دے رہا ہے، یہاں تک کہ غزہ جل رہا ہے اور عرب ممالک اس کی قسمت کا فیصلہ کرنے کے لیے صف آراء ہیں۔

Photo Credit: The Cradle

---------

 کریڈل کو حماس کے قریبی ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ ایک حالیہ امریکی تجویز، جو حماس کے سینئر سیاسی رہنما خلیل الحیا کو دی گئی تھی، جو اس وقت دوحہ میں مقیم ہیں، صاف طور پر مسترد کر دی گئی۔ اس پیشکش کو، جس میں فلسطین کی مزاحمتی تحریک کے ہتھیار ڈالنے، اور غزہ کی پٹی سے اس کی قیادت کو منتقل کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا، اس دو ٹوک جواب کے ساتھ مسترد کر دیا گیا، "وہ جو چاہتے ہیں انہیں کرنے دیا جائے۔"

 ایک دن بعد، 30 مارچ کو، اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو نے عوامی طور پر غزہ پر جنگی کاروائی کو تیز کرنے کا عہد لیا، جس کے نتیجے میں غزہ پٹی کے محاصرہ اور اس پر بمباری دونوں میں اضافہ ہوا ہے۔ فجر کے وقت، جب فلسطین کے لوگ عید الفطر کی تیاری میں مصروف تھے، جو کہ رمضان کے اختتام پر بشکل تہوار منائی جاتی ہے، غزہ پر ایک انتہائی شدید حملہ کیا گیا۔ دھماکوں کی گونج پوری پٹی میں سنائی دیتی رہی، بے شمار گھر تباہ ہو گئے اور مقبوضہ بیر شیبہ اور نیگیو تک صف ماتم بچھ گیا۔

 امریکی تجویز میں مبینہ طور پر حماس کے جنگجوؤں اور ان کے اہل خانہ کے لیے محفوظ راستہ، مالی ضمانتیں اور قتل سے تحفظ کے وعدے شامل تھے۔ جب حماس نے اس پیشکش کو مسترد کر دیا، واشنگٹن نے تل ابیب کو مطلع کیا، جس سے نیتن یاہو کو اپنے جنگی مقاصد کی رفتار دوگنی کرنے کا موقع ہاتھ لگ گیا: امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے نقل مکانی کے نظریے کے مطابق، حماس کو یا تو غیر مسلح کر دیا جانا چاہیے یا اسے مستقل طور پر جلاوطن کر دیا جانا چاہیے۔ مثالی طور پر، نیتن یاہو دونوں نتائج کو حاصل کرنے کے لیے پرعزم دکھائی دیتے ہیں۔

جھوٹی امیدیں اور جھوٹے وعدے

 27 مارچ سے جنگ بندی کے مذاکرات میں پیش رفت کے اسرائیلی میڈیا کے دعووں، اور عید کے ساتھ ہی جنگ بندی کی قیاس آرائیوں کے باوجود، آکیوپائڈ آرمی کے تازہ حملوں سے حقیقت خوب واضح ہوگئی۔ کوئی قلیل مدتی یا طویل مدتی جنگ بندی عمل میں نہیں لائی جا سکی۔

 بہر حال، مصر کے مسلسل دباؤ کی وجہ سے، ایک معاہدہ اب بھی ممکن ہے، خواہ وہ کمزور ہی کیوں نہ ہو۔ غزہ کے خاتمے کے لیے عربوں کا دباؤ – جو متحدہ عرب امارات نے بنا رکھا ہے، اور جسے سعودی عرب اور اردن کی حمایت حاصل ہے، حالانکہ اس کی مصر نے کچھ مخالفت کی ہے – اس کی بنیاد تل ابیب کے ساتھ خطے میں نارملائزیشن کی خاطر راستہ صاف کرنے کی خواہش پر ہے۔

 تاہم نیتن یاہو ہر اقدام کو سبوتاژ کرتے رہتے ہیں۔ وہ صرف وہی قبول کرتے ہیں جس سے ان کا ایک واحد مقصد پورا ہوتا ہو: اپنی طاقت کو برقرار رکھنا۔ جنگ جاری رہے گی، قطع نظر اس کے کہ ایک اسرائیلی چینل 12 کے سروے سے پتہ چلتا ہے، کہ 69 فیصد اسرائیلی تمام قیدیوں کو واپس لائے جانے، اور جنگ کے خاتمے کے لیے ایک جامع معاہدے کی حمایت کرتے ہیں، اور 70 فیصد کا کہنا ہے کہ اب انہیں نیتن یاہو کی حکومت پر اعتماد نہیں رہا۔

 مصر کی تازہ ترین تجویز میں، فلسطینی قیدیوں کے بدلے پانچ زندہ اسرائیلی اسیران کی رہائی اور 40 دن کے لیے جنگ بندی شامل ہے۔ جنگ بندی کی تجویز میں، زخمی شہریوں کو رفح کے راستے نکالنے، اور انسانی امداد کو غزہ میں دوبارہ داخل ہونے کی اجازت شامل ہے۔ حماس نے رضامندی ظاہر کی لیکن اس کے لیے 50 دن کا وقت مانگا، اور یہ کہا کہ ہر 10 دن بعد ایک فلسطینی قیدی کو رہا کیا جائے۔ قابض ریاست نے انکار کر دیا۔

 ذرائع نے دی کریڈل کو بتایا کہ اسرائیلی مطالبات متضاد اور خلل ڈالنے والے تھے۔ مختلف مراحل میں، 40 دن کی جنگ بندی کی تجویز دینے سے پہلے، تل ابیب نے 10 زندہ قیدیوں کی واپسی پر اصرار کیا، پھر 11 پر – کچھ زندہ، باقی مردہ – جس سے ثالثوں کو مایوس ہوئی اور مذاکرات تعطل کا شکار ہو گئے۔

 مسترد شدہ ہتھیار ڈالنے کے معاہدے سے پہلے کے ایک اقدام میں، حماس نے امریکی-اسرائیلی کیپٹیو الیگزینڈر ایڈان کے حوالے سے - قطری اور مصری ثالثوں کے ذریعے معلومات شیئر کیں۔ اس کے باوجود خطے کے لیے واشنگٹن کے سفیر اسٹیو وٹ کوف نے اس بات کا کوئی اشارہ نہیں دیا، کہ امریکا اسرائیل پر حماس سے مطابقت رکھنے والی کسی بھی تجویز کے لیے دباؤ ڈالے گا۔ اس کے بجائے، دوحہ، قاہرہ اور غزہ میں یکساں طور پر امریکی بے حسی محسوس کی گئی۔ ایسا لگتا ہے کہ واشنگٹن کی توجہ اس کے بجائے یوکرین اور یمن کے میدان جنگ پر مرکوز ہے۔

 عربوں کی ملی بھگت نئی بلندیوں کو چھو رہی ہے

 مڈل ایسٹ آئی نے حال ہی میں اردن کی جانب سے حماس کے 3,000 ارکان کو غزہ سے نکالنے، دیگر مزاحمتی دھڑوں کو غیر مسلح کرنے، اور حکومت رم اللہ میں قائم فلسطینی اتھارٹی (PA) کے حوالے کرنے کی پیشکش کی اطلاع دی۔ کریڈل نے آزادانہ طور پر اس بات کی تصدیق کی ہے کہ، اردن کے شاہ عبداللہ دوم نے ریاض منی سمٹ کے دوران، خاص طور پر جارحانہ موقف اپنایا، جس میں متحدہ عرب امارات کی حمایت کرتے ہوئے حماس کے خاتمے پر زور دیا اور کہا، "انہیں لگتا ہے کہ وہ ختم نہیں ہوں گے۔"

 تاہم، امریکی موقف میں تبدیلی کے پیچھے اصل محرک کے طور پر ابو ظہبی ہی ابھرا ہے، غزہ پر اس کے سخت ہتھکنڈوں نے اتحادیوں میں بھی تشویش پیدا کر دی ہے۔ قاہرہ نے، ایک تو، مبینہ طور پر اماراتیوں پر قابو پانے کے لیے سعودی کی مدد طلب کی، جبکہ امریکی حمایت یافتہ، ویسٹ بینک میں قائم فلسطینی اتھارٹی (PA) - اگرچہ حماس کے خاتمے کے لیے بے چین ہے - اسے اس بات کا خدشہ ہے کہ اس عمل میں اسے برطرف کر دیا جائے گا۔

 مصری ذرائع سے غزہ کے باشندوں کی فوری نقل مکانی کے لیے متحدہ عرب امارات کی جارحانہ لابنگ کا پتہ چلتا ہے، جب کہ ابوظہبی کے پاس اس طرح کی منتقلی کی مراعات ہونے کے باوجود، اسرائیلی کراسنگ سے امداد کی ترسیل میں کمی دیکھی گئی ہے - مراعات اب اردن سے بھی روک دی گئی ہیں۔ دریں اثنا، اعلیٰ سطحی یو اے ای-اسرائیلی کوآرڈینیشن جاری ہے، اور ایسے "مواقع" کی تلاش جاری ہے کہ مصر کی بار بار کی درخواستوں کے باوجود، جان بوجھ کر امداد کی ترسیل کو روکا جا سکے۔

 ذرائع کے مطابق:

 "متحدہ عرب امارات کی جانب سے ایسے نامناسب اقدامات دیکھے جا رہے ہیں جو مصر کے مفادات، قومی سلامتی اور یہاں تک کہ فلسطینی کاز کو براہ راست خطرے میں ڈال رہے ہیں، لیکن ہم بہت سے تحفظات کی وجہ سے ابوظہبی سے براہ راست بات نہیں کر سکتے، اور نہ ہی ان سے ٹکرا سکتے ہیں۔ مصریوں کو اب خدشہ ہے کہ متحدہ عرب امارات، حماس کے خلاف مظاہروں کو ہوا دے کر، اور عوام اور مزاحمت کاروں کے درمیان محاذ آرائی پیدا کرکے، غزہ کی پٹی کو اندر سے ختم کرنے کے لیے بڑے پیمانے پر منصوبہ بندی کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ یہاں تک کہ یہ اسرائیل کے ذریعے غزہ کے ایسے کسی بھی باشندے کے لیے اماراتی فنڈنگ ​​کے برابر تھا، جو حماس کے خلاف مظاہرہ کرنا چاہتا ہے"۔

دی کریڈل کے ذرائع کا کہنا ہے، کہ قاہرہ کا خیال ہے کہ ابوظہبی ٹرمپ کی نقل مکانی کی اسکیم کو عملی شکل دینے کے لیے، تل ابیب سے بھی زیادہ بے تاب ہے اور اسے مالی امداد فراہم کرنے کے لیے تیار ہے۔ مصر کی جانب سے، بڑے پیمانے پر نقل مکانی کے لیے اپنی سرحدیں کھولنے سے انکار کے ساتھ، متبادل امریکی-اسرائیلی منصوبوں میں غزہ کے باشندوں کو سمندر کے راستے قبرص، پھر تیسرے ممالک میں منتقل کرنا شامل ہے۔ تبصرہ نگاروں کا کہنا ہے کہ قابض فوج کے انخلاء کے نقشے میں رفح کا نہیں، بلکہ بحیرہ روم کا راستہ شامل ہے۔

 ابوظہبی نے، یہاں تک کہ اسرائیل کی جانب سے غزہ کے بے گھر ہونے والوں کو قبول کرنے کے لیے - اپنے چینلوں کے ذریعے - ایک افریقی ریاست سے بات چیت کی ہے۔

 یہاں تک کہ مصر نے بھی، جو کہ روایتی طور پر حماس کا ایک سہارا رہا ہے، مزاحمتی تحریک کی جانب سے بڑے پیمانے پر کارروائیوں کے روکے جانے کے بعد سے، خود کو دور کرنے کے آثار ظاہر کیے ہیں۔ مصری وزیر خارجہ بدر عبدالعطی نے حال ہی میں اعلان کیا کہ "دھڑے اب مزید غزہ پر حکومت نہیں کریں گے" - یہ جنگ کے بعد کی حکومت کے بارے میں مصر کا پہلا سرکاری بیان ہے، جو اس سے قبل بالواسطہ طور پر حماس سمیت "انتظامی کمیٹی" پر مرکوز تھا۔

 تقسیم ہونے کا اگلا نمبر مقبوضہ ویسٹ بینک کا

 دریں اثنا، عبرانی روزنامہ Yedioth Ahronoth نے مقبوضہ ویسٹ بینک کو خود مختار شہری ریاستوں میں تقسیم کرنے، پی اے کو ختم کرنے اور اس کی جگہ مقامی کونسلوں کے قیام کے اسرائیلی منصوبوں کا انکشاف کیا ہے۔ بلیو پرنٹ ہیبرون (الخلیل) سے شروع ہوتا ہے، جہاں اسرائیل آبادکاروں کے ساتھ براہ راست کام کرنے والی مقامی حکومت قائم کرنے کا منصوبہ ہے۔

 مبینہ طور پر اس منصوبے پر متحدہ عرب امارات کی ایک خفیہ میٹنگ کے دوران تبادلہ خیال کیا گیا، جس میں ویسٹ بینک کے یہودی آباد کار اور متحدہ عرب امارات کے حکام رمضان کی افطار میں مدعو تھے۔

 یہ فار-رائٹ اسرائیلی وزیر خزانہ بیزلیل سموٹریچ کی الحاق کی پالیسیوں کے مطابق ہے۔ متحدہ عرب امارات کا کردار بڑی تیزی سے فعال نظر آتا ہے - اسرائیل کی اپنی حکومت کو نظرانداز کرتے ہوئے، یہودی آباد کار تحریک کے ساتھ براہ راست تعلقات استوار کر کے، پی اے کی بدعنوانی کے الزامات کو تقویت دے رہا ہے۔ یہ سوچا سمجھا اقدام ایسے کسی بھی دعوے کو کمزور کرتا ہے، کہ عرب دنیا کے ساتھ نارملائزیشن کا عمل، ریاستِ فلسطین کے قیام کا سبب بن سکتا ہے۔

سموٹریچ نے کہا کہ، "ہم خدا کی مدد سے، نارملائزیشن اور ریگولیشن جیسے انقلاب کی طرف مسلسل بڑھ رہے ہیں"۔ "چُھپنے اور معافی مانگنے کے بجائے، ہم جھنڈا اٹھاتے ہیں، تعمیر کرتے ہیں اور آباد ہوتے ہیں۔ یہ یہودیہ اور سامریہ میں حقیقی خودمختاری کے راستے پر ایک اور اہم قدم ہے۔"

 رمضان میں، ویسٹ بینک کے آبادکاروں کے وفد نے ابوظہبی کا دورہ کیا، اور متحدہ عرب امارات کی قومی کونسل کے رکن، ڈاکٹر علی راشد النعیمی، اور اسرائیلی سفیر یوسی شیلی، متحدہ عرب امارات کے تاجروں اور سوشل میڈیا انفلوئینسروں سے ملاقات کی۔

 اسرائیلی اخبار نے سیٹلمنٹ کونسل کے سربراہ یسرائیل گانٹز کا بھی بیان نقل کیا ہے کہ، ’’اب ایک نیو ورلڈ آرڈر قائم ہو چکا ہے، جس کے لیے نئے اتحادیوں اور کچھ الگ ہٹ کر سوچنے کی ضرورت ہے۔‘‘

 وفد نے بہت کم انکشاف کیا، لیکن یدیعوت احرونوت کے مطابق، انہوں نے متحدہ عرب امارات کے حکام کو یقین دلانے کی کوشش کی، کہ نارملائزیشن کے لیے یہودی بستیوں کو خالی کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ نابلس کونسل کے سربراہ یوسی داگن جیسے سیٹلمنٹ لیڈروں کے ساتھ متحدہ عرب امارات کے تعلقات برسوں پرانے ہیں، جن کے تجارتی روابط ٹرمپ انتظامیہ کے تحت قائم ہیں۔ آبادکار اب کھلے عام تل ابیب کو نظرانداز کرتے ہوئے، خلیج فارس کی دارالحکومتوں سے براہ راست رابطہ کرتے ہیں۔

حماس ایک حتمی موقف کے لیے تیار ہے

 تباہ کن سطح پر قحط، علاقائی حمایت کے فقدان، اور مزاحمتی محاذوں کے ساتھ - یمن کو چھوڑ کر - بڑی حد تک دبے کچلے، حماس کو اب ایک سخت مخمصے کا سامنا ہے۔ یہ تحریک، جسے ہتھیار ڈالنے کے لیے داخلی اور خارجی دباؤ کا سامنا ہے، اب بھی اسی بات پر اڑا ہوا ہے کہ ہتھیار ڈالنے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔

 گروپ کے داخلی ذرائع کا کہنا ہے، کہ اخوان المسلمین سے منسلک کچھ اداروں نے بھی، تباہی و بربادی کے پیمانے کا حوالہ دیتے ہوئے ان پر ہتھیار ڈال دینے کا زور دیا ہے۔ لیکن حماس کا اسے مسترد کرنا، اپنی بقا یا سیاسی تسلسل کے لیے نہیں ہے – بلکہ یہ مزاحمت کے تصور اور عمل کو محفوظ رکھنے کے لیے ہے۔ جلاوطنی قبول کرنے سے نہ صرف حماس کا خاتمہ ہوگا، بلکہ تمام دھڑوں میں فلسطینی مسلح جدوجہد کا خاتمہ ہو جائے گا۔

 اس سے بھی بدتر بات یہ ہے کہ ہتھیار ڈالنے سے بڑے پیمانے پر نقل مکانی کو نہیں روکا جائے گا، بلکہ اس میں تیزی ہی آئے گی۔ غزہ کے خاتمے سے مقبوضہ ویسٹ بینک، مشرقی یروشلم اور 1948 کے علاقوں میں صدمے کی لہریں دوڑ جائیں گی، جس سے فلسطینی کاز کے انجام کی نشاندہی بھی ہو جائے گی۔

 اگرچہ تازہ ترین جنگ بندی کی تجویز سے، مزاحمت کاروں کے ہاتھوں قید اسرائیلی جنگی قیدیوں کی تعداد میں کمی آئے گی – جس کا تخمینہ اب 59 میں سے 20 ہے – حماس نے اسے فلسطینیوں کے مصائب کو کم کرنے، اور مہلت حاصل کرنے کے لیے قبول کیا ہے۔ لیکن یہ تحریک کسی وہم میں نہیں ہے: اسرائیل جنگ کو روکنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا، خاص طور پر ٹرمپ انتظامیہ کی مکمل سیاسی اور فوجی حمایت کے ساتھ۔

 حماس نے قیمت کی پرواہ کیے بغیر لڑائی جاری رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ایک سورس نے کریڈل کو حماس کا یہ بیان دیا کہ، "اگر ہمیں ختم ہی ہونا ہے تو ہم اپنا خاتمہ ایک باعزت جنگ میں پسند کریں گے، جلاوطنی میں نہیں۔" وہ صبرا اور شاتیلا پناہ گزین کیمپ کے قتل عام کو ایک عبرتناک سبق کے طور پر پیش کرتے ہیں: ایک بار جب فلسطین لبریشن آرگنائزیشن (PLO) نے لبنان چھوڑ دیا، وہاں کے نہتھے لوگوں کو قتل کر دیا گیا۔ اب فرق یہ ہے کہ حماس اپنی ہی سرزمین پر اپنے ہی لوگوں سے گھرا ہوا ہے۔

 حکمت عملی کی رو سے، مزاحمت بدل گئی ہے۔ غزہ میں اسرائیل کی موجودگی نے میدان جنگ کو تباہ کر دیا ہے، جس سے اب ہتھکنڈوں کی بہت کم گنجائش رہ گئی ہے۔ قسام بریگیڈ اب گھات لگانے پر انحصار کرتی ہے، گھنے شہری علاقوں میں فوج کے داخل ہونے کا انتظار کرتی ہے، اور نفسیاتی دباؤ کو برقرار رکھنے کے لیے چھوٹے موٹے راکٹ فائرنگ کرتی ہے، خاص طور پر اسرائیلی اسیران کی ویڈیوز کے ذریعے، جو کہ قابض حکومت کو اذیت دینے کے لیے بنائی جاتی ہیں۔

 جنگ جاری ہے – اور حماس اس کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہے، اس سے بھاگنے کے لیے نہیں۔

---------------

English Article: Why Hamas Resists All Foreign Demands For Surrender

URL: https://newageislam.com/urdu-section/hamas-resists-all-foreign-demands/d/135047

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism

Loading..

Loading..