الحاج حافظ محمد ہاشم قادری صدیقی
10 جولائی ، 2014
اللہ نے اپنے تمام بندوں کو بے شمار نعمتوں سے نوازاہے جس کا ذکر قرآن کریم میں باربار ملتاہے۔ بنی نوع انسان کو رب نے اپنی نعمتوں سے نوازا لیکن ایمان والوں کو رب تعالیٰ نے اوروں سے زیادہ نوازا۔علما و صوفیا فرماتے ہیں ’’تمام نعمتوں میں اعلیٰ نعمت اللہ نے مومنوں کو ایمان کی دولت سے سرفراز فرمایا۔ اور قابلِ قدر،قابلِ ذکر نعمتوں کا شمار بھی مشکل بلکہ ناممکن ہے۔ لیکن ایمان، رشد وہدایت کا سرچشمہ کلامِ الہٰی قرآن مجید ، رمضان المبارک، لیلۃ القدر، رحمت و مغفرت ، جہنم سے آزادی یقیناًاللہ کا انعام ہے۔ جس کا ہم اور آپ جتنا بھی شکر ادا کریں کم ہے۔ حکمِ خدا وندی ہے : لَِنْ شَکَرْ تُمْ لَاَزِیْدَ نَّکُمْ(ترجمہ:تم میری پہلی نعمت کا شکر اداکرو میں تمھیں اور دوں گا۔القرآن سورہ ابراہیم، آیت6)
رمضان المبارک ، قرآن مجید نعمت الہٰی:
صرف ان ہی دونوں نعمتوں کا ہی شکر ادا کریں تو انسانی طاقت و قوت سے بعید ہے۔ ارشاد خداوندی ہے: شَہْرُ رَمْضَانَ الَّذِیْ اُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرْآنُ ھُدَ لِّلنَّاسِ وَ بَیِّنٰتٍ مِّنَ الْھُدٰی وَالْفُرْقَانِ(ترجمہ: رمضان کا مہینہ وہ ہے جس میں قرآن نازل ہوا ، لوگو (انسانوں) کی ہدایت کے لئے اور اس میں فیصلہ کی روشن باتیں ہیں تو تم میں جو کوئی یہ مہینہ پائے ضرور اس کے روزے رکھے اور جو بیمار یا سفر میں ہوتو اتنے روزے اور دنوں میں رکھے۔ اللہ تم پر آسانی چاہتا ہے اور تم پر دشواری نہیں چاہتا اس لئے کہ تم گنتی پوری کرو اور اللہ کی بڑائی بولو اس پر کہ اس نے تمھیں ہدایت دی تاکہ تم حق گزار ہو۔(القرآن، سورہ بقرہ، آیت 185)
اللہ کالاکھ لاکھ شکر و احسان ہے کہ ہم اور آپ اس مبارک مہینہ میں زندہ ہیں ، ایمان کی دولت سے مالا مال ہیں، قرآن کی تلاوت سے ،روزوں کی برکتوں سے مالا مال ہورہے ہیں۔ حضرت سلمان ص کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے شعبان کی آخری تاریخ میں ہم لوگوں کو وعظ فرمایا کہ تمھارے اوپر ایک مہینہ آرہا ہے جو بہت بڑا مہینہ ہے، بہت مبارک مہینہ ہے، اس میں ایک رات ہے (شب قدر) جو ہزار مہینوں سے بڑھ کر ہے۔یہ ایک ایسا مہینہ ہے کہ اس کا اول حصہ اللہ کی رحمت ہے اور درمیانی حصہ مغفرت ہے اور آخری حصہ آگ(جہنم ) سے آزادی ہے۔(حدیث)
صرف ایک ماہ میں پہلا عشرہ(دس دن) رحمت کا پھر دوسرا عشرہ(دس دن) مغفرت کا پھر آخری حصہ جہنم سے نجات کا ۔سبحان اللہ ،سبحان اللہ! کتنی ساری نعمتیں ۔قربان جائیے ، اسی لئے تو قرآن کریم اعلان فرما رہا ہے وَاِنْ تَعُدُّ وْ نِعْمَتَ اللّٰہِ لَا تُحْصُوْ ھَا ترجمہ: تم اللہ کی نعمتوں کو شمار نہیں کر سکتے۔(القرآن سورہ ۱۴،آیت ۳۳) اتنے انعام پر معاملہ ختم نہیں ۔ پھر ایک ایسی شب عنایت فرمائی جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے ۔ سبحان اللہ ، سبحان اللہ! اس سے مراد لیلۃ القدر ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید نازل فرمایا۔ اس سے ہزار مہینوں سے زیادہ بہتر ہونے کا مفہوم یہ ہے کہ کبھی ہزار مہینوں میں نوع انسانی کی فلاح کا وہ کام نہ ہوا ہوگا جتنا اس ایک رات میں ہوگا۔
اللہ تعالیٰ نے رمضان کے (دنوں) کے روزے فرض کئے اور اس کی راتوں کو تطوع قرار دیا۔ تطوع سے مراد وہ کام ہے جو آدمی اپنے دل کی خواہش سے (Voluntarily) انجام دے، بغیر اس کے کہ وہ اس پر فرض کیا گیا ہو۔ (یعنی فرض سے زیادہ کام کرنا) ماہِ رمضان المبارک میں اللہ تعالیٰ ایسے مواقع پیدا فرما دیتا ہے جن کی بدولت تم اس کی بے حد و حساب(Unlimited) نعمتیں ، مغفرت ، رحمت ،جہنم سے آزادی وغیرہ وغیرہ کا فائدہ اٹھا سکتے ہو اٹھا لو۔ اس مہینے میں ایک مومن اللہ کی جتنی عبادت کرے گااور نیکیوں کے جتنے زیادہ کام کرے گا وہ سب اس کے لئے زیادہ سے زیادہ روحانی ترقی کا وسیلہ بنیں گے ۔ اس کی برکتیں سمیٹنے کے بے شمار مواقع فراہم کر دیئے گئے ہیں۔ رمضان کی ہر ساعت کو اپنے حق میں نعمت خدا وندی سمجھ کر اس سے اکتسابِ فیض کیجئے۔
حضور مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ اپنے ایک مکتوب میں تحریر فرماتے ہیں: اگر اس مہینے میں کسی آدمی کو اعمال صالحہ کی توفیق مل جائے تو پورے سال یہ توفیق شا ملِ حال رہے گی اور اگر یہ مہینہ بے دلی، تردد اور پریشان خیالی میں گزرے تو پورا سال اسی حال میں گزرنے کا اندیشہ ہے۔ (مکتوبات امام ربانی) رمضان المبارک کے روزوں کو آداب کی پابندی سے رکھیں تاکہ کل جب آپ خدا کے حضور حاضر ہوں تو روزہ آپ کی سفارش کر سکے اور آپ جنت کے مستحق قرار پاسکیں۔ حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: قیامت کے دن روزہ سفارش کرے گا اور کہے گا کہ اے پروردگار ! میں نے اس شخص کو دن میں کھانے پینے اور دوسری لذتوں سے روکے رکھا۔خدایا!تو اس شخص کے حق میں میری سفارش قبول فرما ۔اور خدا اس کی سفارش قبول فرمالے گا۔(مشکوٰۃ)
رحمت، مغفرت اور نجات کا مہینہ رمضان المبارک:
اس مبارک مہینے کی آمد پر آپ روزہ رکھنا شروع کرتے ہیں ادھر اللہ کی رحمت آپ پر سایہ فگن ہو جاتی ہے ۔پھر رمضان کا وسط آتا ہے اور اللہ آپ کے گناہوں ،قصوروں سے درگزر فرمالیتا ہے اور آپ کی مغفرت ہو جاتی ہے۔ اسی طرح اب آپ آخری عشرہ میں پہنچ گئے اور آخری روزہ رکھتے ہی آپ کو دوزخ کے خطرے سے آزادی حاصل ہو جاتی ہے۔ پیارے مسلمانو! اس آزادی کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اب دوزخ سے آزاد ہوگئے ہیں تو جو جی چاہے کرتے پھریں۔ اب آپ کی کوئی پکڑ نہ ہوگی۔ قرآن کریم کا اعلان ہے ۔ترجمہ: اللہ ہی کا ہے جو آسمان میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے ، اگر تم ظاہر کرو جو کچھ تمھارے جی میں ہے یا چھپاؤ، اللہ تم سے اس کا حساب لے گا۔ تو جسے چاہے گا بخشے گا اور جسے چاہے گا سزاد ے گا اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔(القرآن ، البقرہ آیت ۲۸۴)
قرآن کریم میں اور احادیث کریمہ میں روزہ کی بے شمار فضیلتیں موجود ہیں۔ حدیث پاک میں کتنی پیاری بشارت ہے اس روزہ دار کے لئے جس نے اس طرح روزہ رکھا جس طرح روزہ رکھنے کا حق ہے یعنی روزہ کے تمام آداب کو ملحوظ رکھتے ہوئے روزہ رکھا اور تمام اعضا کو بھی گناہوں سے باز رکھا تو وہ روزہ اللہ کے فضل و کرم سے اس کے تمام پچھلے گناہوں کا کفارہ ہو گیا۔ اللہ کے رسول ﷺ اپنے پروردگار کا فرمان سناتے ہیں۔ اَلصَّوْمُ لِیْ وَاَنَا اَجْزِیْ بِہٖ(روزہ میرے لئے ہے اور میں ہی اس کی جزا دوں گا)۔حدیث قدسی کے ارشاد پاک کو محدثین کرام اَنَا اُجْزیٰ بِہٖ بھی پڑھا ہے(روزہ کی جزا میں خود ہی ہوں)۔ سبحان اللہ !یعنی اللہ فرما رہا ہے کہ روزہ رکھ کر روزہ دار بذات خود مجھے ہی پا لیتا ہے۔
تربیت اور شخصیت کی تعمیر میں روزہ کا کردار:روزہ اسلام کا ایک اہم رکن و عبادت ہے جس کے ذریعہ انسان اطاعت و فرمابرداری کی زبردست تربیت(Training) حاصل کرتا ہے۔ روزہ شخصیت کی تعمیر اور اخلاقی تربیت کا بے مثال پروگرام ہے اور نفس امارہ کو شکست دینے اور نفس مطمئنہ تک پہنچنے کا بے نظیر لائحہ عمل ہے۔ یہ نفس کو شرعی ضوابط کی پابندی کا خوگر بناتا ہے۔ غرض کہ تہذیب و اخلاق میں روزہ کا کردار نہایت ہی اہم ہے۔ اگر انسان روزہ رکھ کر بھی گناہوں کا ارتکاب کرتاہے تو دراصل وہ روزہ کی روح کو مجروح کرتا ہے۔ روزہ انسان کے لئے بہترین تربیت گاہ ہے لیکن یہ سب چیز تب حاصل ہوگی جب انسان روزہ کی حالت میں سختی کے ساتھ تمام گناہوں سے بچے جس سے بچنے کا حکم اسے دیا گیاہے۔ لیکن روزہ رکھ کر بھی انسان غیبت میں مبتلا اور نامحرم چہروں کو دیکھتا رہے، فضول باتوں میں وقت برباد کرے تو ایسے روزہ سے نہ خود اس کی ذات کی تربیت ہوتی ہے اور نہ ہی ایک صالح معاشرہ وجود میں آتا ہے اور ایسے روزہ دار کو بھوک اور پیاس کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس شخص نے روزہ رکھ کر جھوٹ بولنا اور جھوٹ پر عمل کرنا نہ چھوڑا تو اللہ تعالیٰ کو اس کی کوئی حاجت نہیں کہ وہ کھانا پینا چھوڑدے۔
منھ اور زبان کا روزہ:جھوٹ بولنا، جھوٹی قسم کھانا، جھوٹی گواہی دینا، غیبت کرنا، گالی گلوج کرنایہ سب روزہ کے فوائد کو کم کردیتے ہیں۔ روزہ کی حالت میں زبان کی حفاظت انتہائی ضروری ہے ۔ حضرت ابو سعید خدری ص فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:جب صبح ہوتی ہے تو سب اعضا عاجزی کے ساتھ زبان سے کہتے ہیں کہ تو ہمارے بارے میں اللہ سے ڈر کیوں کہ ہم تجھ سے متعلق ہیں(یعنی ہماری خیر و عافیت اور دکھ تکلیف تجھ سے ہے) پس اگر تو ٹھیک رہی تو ہم بھی ٹھیک رہیں گے اگر تجھ میں کجی (ٹیڑھا پن) آگئی تو ہم میں بھی کجی آجائے گی۔(ترمذی :2407)ایک اور حدیث پاک میں حضرت
ابو ہریرہ ص سے مروی ہے کہ آپ ﷺ کا ارشاد ہے: بلا شبہ بندہ کبھی اللہ کی رضامندی کا کوئی کلمہ ایساکہہ دیتا ہے کہ جس کی طرف اس کا دھیان بھی نہیں جاتا اور اس کی وجہ سے اللہ اس کے درجات بلند فرما دیتا ہے اور بلا شبہ بندہ کبھی اللہ کی ناراضگی کا کوئی ایسا کلمہ کہہ گزرتا ہے کہ اس کی طرف اس کا دھیان بھی نہیں ہوتا اور اس کی وجہ سے دوزخ میں گرتا چلا جا تاہے۔ (بخاری،۶۴۷۸) کم بولنے و زبان کی حفاظت سے صرف دنیاوی فائدہ اور راحت ہی حاصل نہیں ہوتی بلکہ آخرت کی نجات اور کامیابی کی ضمانت بھی دی گئی ہے۔ چنانچہ حضرت عقبہ بن عامر صنے بیان فرمایا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا :یا رسول اللہ نجات کی کیا صورت ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: زبان کو قابو میں رکھو اور اپنے گھر میں اپنی جگہ رہو(یعنی زیادہ تر اپنے گھر میں رہو ، باہر کم نکلوکیونکہ گھر کے باہر بہت فتنے ہیں) اور اپنے گناہوں پر رویا کرو۔ (ترمذی:2406)
لیلۃ القدر بخشش و مغفرت کی رات:حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا بیان فرماتی ہیں کہ جب رمضان کی آخری دس تاریخیں آتی تھیں تو رسول اللہ ﷺ کمر بستہ ہوجاتے تھے۔رات رات بھر جاگتے تھے اور اپنے گھر والوں کو بھی جگاتے تھے۔(متفق علیہ)اس حدیث پاک سے آخری عشرہ او رلیلۃ القدر کی اہمیت معلوم ہوتی ہے۔آپ ﷺاللہ کی بندگی بجا لانے میں ہمیشہ انتہائی محنت کرتے تھے۔ لیکن حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا کے بیان کے مطابق رمضان کے آخری دس دنوں میں آپ کی محنت بہت زیادہ بڑھ جاتی تھی۔
لیلۃ القدر کی دعا: حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا:یا رسول اللہ ! آپ کا کیا خیال ہے اگر مجھے معلوم ہوجائے کہ کون سی رات لیلۃ القدر ہے تو مجھے اس میں کیا کہنا چاہئے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: یوں کہو اَللّٰھُمَّ اِنَّکَ عَفُوُّٗتُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّی ترجمہ: اے میرے اللہ ، تو بڑا معاف کرنے والاہے ، تو معاف کرنے کو پسند کرتاہے ، لہٰذا مجھے معاف فرمادے۔(مسنداحمد، ابن ماجہ، ترمذی)یہ ماہ اور یہ رات خطا کاروں کے لئے رحمت و عطا اور بخشش و مغفرت کی رات ہے۔ اس رات اپنے گناہوں پر ندامت کے آنسو بہائیں ،رب کریم سے التجائیں کریں، بھلائی کی التجا کریں۔ اس ماہ رحمتِ خدا وندی ہر پیاسے کو سیراب کرتی ہے اور ہر منگتے کی جھولی گوہرِ مراد سے بھر دینے پر مائل ہوتی ہے۔ تمام مسلمانوں کے لئے یہ سنہرا موقع ہے رحمتیں سمیٹنے کا، خیر جمع کرنے کا، گناہ معاف کروانے اور جنت میں جانے کا۔موقع ہاتھ سے نہ جانے دیں۔ اللہ ہم سب کو رمضان المبارک کی برکتوں سے مالامال فرمائے۔ آمین ثم آمین!
URL:
https://newageislam.com/urdu-section/the-holy-quran,-night-power/d/98016