حافظ محمد ہا شم قادری مصباحی جمشید پور
26 فروری ، 2021
حضرت علی کرم اللہ وجہہ
کے یومِ ولادت (۱۳؍رجب
المرجب ) پر نذرانۂ عقیدت
حضرت علی کرم اللہ وجہہ
پیغمبر اسلام ﷺ کے چچا زاد بھائی اور آپ
کے داماد تھے،آپ کی ولادت ۱۳؍رجب
المرجب۱۰؍
سال قبل از بعثت پیغمبر اسلام ﷺ بمطابق ۱۷؍
مارچ ۵۹۹ء
میں ہوئی ۔آپ چوتھے خلیفہ راشد تھے آپ نے ۶۵۶ سے ۶۶۱ تک دنیا ئے اسلام
پربحیثیت خلیفہ حکمرانی کی۔ آپ بچپن میں ہی رسول کریم کے گھر آگئے تھے،حضور کی
زیر نگرانی آپ کی تر بیت ہوئی۔حضرت علی کرم اللہ وجہہ پہلے بچے تھے جنھوں نے
اسلام قبول کیا،آپ کی عمر اس وقت تقریباً ۱۰ یا۱۱؍
سال تھی حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد تین دن تک مسند خلافت خالی
رہی، اسی عرصہ میں لو گوں نے حضرت علی کر م اللہ وجہہ سے اس منصب کے قبول کے لیے
سخت اصرار کیا ،آپ نے پہلے اس بار گراں کے اٹھانے سے انکار کردیا،لیکن آخر میں
مہاجرین و انصار کے اصرارپر خلافت قبول فر مائی، (طبرانی:۳۰۱۰؍۔
آپ کا علم آپ کے
فیصلے:حضرت علی کر م اللہ وجہہ علم کے اعتبار سے بھی علمائے صحابہ میں بہت اونچا
مقام رکھتے ہیں آپ کے فتوے اور فیصلے اسلامی علوم کے جواہر پارے ہیں۔ حضرت ابن
عباس رضی اللہ عنہما فر ماتے ہیں کہ ہم نے جب بھی آپ سے کسی مسئلہ کودریافت کیا
تو ہمیشہ درست ہی جواب پایا۔حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے سامنے جب حضرت علی
رضی اللہ عنہ کا ذکر ہوا تو آپ نے فر مایا کہ علی سے زیادہ مسائل شریعہ کا جاننے
والا کوئی نہیںہے،حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں کوئی مشکل مقد مہ پیش ہوتا
اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ موجود نہ ہوتے تو وہ اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگا کر تے
تھے کہ مقد مہ کا فیصلہ کہیں غلط نہ ہو جائے۔(تا ریخ الخلفاء،خطبات محرم:ص ۲۰۴) ۔ حضرت علی کر م اللہ
وجہہ ا لکریم کا علمی مقام و مرتبہ، ان کی قرآن فہمی، حقیقت شناسی اور فقہی
صلاحیت تمام اولین وآخرین میں ممتاز ومنفرد تھی۔ اللہ رب العزت نے انھیں عقل وخرد
کی بے شمار صلاحیتوں سے نوازا تھا کہ جو مسائل دوسرے حضرات کے نزدیک پیچیدہ اور لا
ینحل سمجھے جاتے تھے، انہیں مسائل کو وہ آسانی سے حل کر دیتے تھے۔ اکا بر صحابئہ
کرام رضوان اللہ تعا لیٰ علیہم اجمعین
ایسے اوقات سے پناہ مانگتے تھے کہ جب کوئی مشکل مسئلہ پیش آجائے اور اس کے حل کے
لیے حضرت علی کر م اللہ وجہہ مو جود نہ ہوں۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ کی
خلا فت اور آپ کے اہم کار نامے:۳۵ھ
میں مسلمانوں نے خلافت اسلامی کا منصب علی ابن طالب کے سامنے پیش کیا۔ آپ نے پہلے
انکار کیا، لیکن جب مسلمانوں کا اصرار بہت بڑھ گیا تو آپ ﷺ نے اس شرط کے ساتھ منظور کیا کہ میں بالکل
قرآن اور سنت کے مطابق حکومت کروں گا اور کسی رو رعا یت سے کام نہ لوں گاَ اس شرط
کو مسلمانوں نے منظور کر لیا اورآپ نے خلافت قبول فر مالی۔ لیکن زمانہ آپ کی خا
لص مذ ہبی سلطنت کو برداشت نہ کرسکا، آپ کے خلاف بنی امیہ اور بہت سے وہ لوگ
بغاوت کر نے لگے جنھیں آپ کی مذہبی حکومت میں اقتدار کے ختم ہونے کا خطرہ تھا،
آپ نے سب کا مقا بلہ کیا،آپ کے خلافت میں بہت اہم اور بڑے ،بڑے کام ہوئے۔( اسلا می تاریخ کامطالعہ فر مائیں) آپ کی خلافت
کا ایک بہت بڑا دینی،علمی اہم کام ہوا،کتاب جامعہ کہ بنا بر روایت ابو لبصیر،علی
ابن طالب نے اس میں اسلامی احکام رسول کریم
ﷺ کی زبان مبارک کہے ہوئے لکھے اور اس میں متعددمو ضو عات کے حلال و حرام
کے مسا ئل جمع فر مائے یہ ایک ضخیم کتاب ہے اسے کتاب علی بھی کہا جاتا ہے ۔احادیث
پاک جمع فر مائیں بے شمار احادیث نبوی آپ نے نقل فر مائی ہیں چونکہ آپ سب سے
زیادہ رسول کریم ﷺ کے قریب اور ساتھ رہے
تو سب سے زیادہ فرامین سنتے تھے۔
حضرت مولیٰ علی کی خلافت
میں عر بی گرامر کی ابتدا: حضرت علی کر م اللہ وجہہ کا علمی مقام بہت بلند تھا اور
کیوں نہ ہو کہ ان کی شان میں نبی کریم ﷺ
کا فر مان عالیشان ہے کہ’’میں علم کاشہر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہیں۔‘‘ پوری حدیث پاک۔: میں شہر علم ہوں ،ابوبکر اس کی
بنیاد ہیں ،عمر اس کی دیواریں ہیں ،عثمان اس کی چھت ہیں اور علی اس کا دروازہ
ہیں(رواہ الحاکم،الطبرانی،۱۰۹۰۔۱۰۸۹، الشوقانی، ۳۰۸۔۳۰۷،القول المجموعۃ ) ۔ حضرت
علی کرم اللہ وجہہ الکریم عربی گرامر کے موجد ہیں (ایجاد کرنے والے ہیں) آپ ایسے
علم کے موجد ہیں جس کے بغیر کوئی شخص عالم نہیں بن سکتا ۔آج اگر کوئی انسان عالم
ہے اور قرآن و حدیث کو سمجھنے کی صلاحیت رکھتا ہے تو یہ صلاحیت صرف اسی علم کے
بدولت ہے جس کے موجد باب العلم حضرت علی کرم اللہ وجہہ ہیں اور وہ علم عربی گرامر(Grammer)یعنی علم نحو ہے ۔ہر
اہل علم اس بات کو جانتا ہے کہ کسی زبان کو سمجھنے کے لیے اس کی لغت کی معرفت کتنی
ضروری ہے پھر عربی لغت کی اہمیت تو اور بڑھ جاتی ہے قرآن وحدیث کو پڑھنا
،سمجھنا،علم نحو اور صرف یعنی عربی گرامر کے بغیر ممکن نہیں ،اسی لیے عربی گرامر
کے متعلق کہا گیاہے علم صرف تمام علوم کی ماں ہے اور علم نحو ان سب کا باپ ہے‘‘
اور ان دونوں علوم کے موجد و مؤسس (بانی)(Founder) حضرت علی کرم اللہ
وجہہ الکریم ہیں سب سے پہلے آپ ہی نے ان دونوں علوم کے بنیادی قوانین املا کرائے
اور اسم ،فعل اور حرف کی پہچان بتائی ۔ پھر ان کے بتائے ہوئے علم کو بغرض سہولت
دوحصوں میں تقسیم کرکے ایک کو ’’صرف‘‘ کا
نام دیا گیا اور دوسرے کو’’نحو‘‘ کا ۔ حقیقت میں ’’صرف‘‘ نحو ہی کا ایک حصہ ہے اور
اس کے موجد حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم ہیں ۔حضرت امیر المومنین نے بہت سے ایسے
کاموں کی ابتدا فرمائی جس کے آثار نہ صرف یہ کہ باقی و پائندہ ہیں بلکہ جب تک
عربی زبان اور اس کے قواعد نحو و صرف باقی ہیں حضرت علی کا کارنامہ زندہ و جاوید
رہے گا ۔
ابولقاسم الزجاجی کی کتاب
’’مالی‘‘ میں لکھا ہے کہ (ابوالاسود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ )میں حضرت علی
کرم اللہ وجہہ کی خدمت میں حاضر ہوا، آپ کو دیکھا کہ سر جھکائے متفکربیٹھے ہیں
میں نے عرض کیا : امیر المومنین ! کس معاملے میں فکر مند ہیں؟ فرمایا :تمہارے شہر
میں عربی غلط طریقے پر بولتے ہوئے سنتا ہوں، اس لیے میں چاہتا ہوں کہ زبان کے اصول
وقواعد میں ایک یاد داشت تیار کردوں۔ میں نے عرض کیا: اگر آپ ایسا کردیں تو ہمیں
آپ کے ذریعہ زندگی مل جائے گی اور ہمارے یہاں عربی باقی رہ جائے گی ۔ اس گفتگو کے
تین روز بعد میں پھر آپ کی خدمت میں حاضر ہوا توآپ نے ایک کاغذ مرحمت فرمایا اس
میں علم نحو کے ابتدائی مسائل درج تھے‘‘(تاریخ الاسلام لذہبی ملخصاً، ج:۲،، ص:۴۷۹)۔
حضرت علی کے دور خلافت
میں بہت سے کام ہوئے جن کے لکھنے کے لیے کتاب کی ضرورت ہوگی چھوٹے سے مضمون میں
ممکن نہیں، آپ کی شان علمی بہت اعلیٰ ہے ،بدنصیب لوگ ہیں جو آپ کی شان و عظمت سے
انکار کرتے ہیں ۔آپ کے بے شمار خصائص و صفات ہیں چند ملاحظہ فرمائیں ۔ایک مرتبہ
حضور ﷺ نے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کو
سورہ التوبہ کے ساتھ بھیجا اور حضرت علی کو بھی ساتھ میں بھیجا توفرمایا:اس اعلان
برات کے ساتھ فقط وہ شخص جائے گا جو مجھ سے ہے اور میں اس سے ہوں۔‘‘۲۔
رسول کریم ﷺ سیدنا حسنین،فاطمہ اور علی رضی اللہ عنہ کو
بلا کر ان پر چادر پھیلائی پھر دعا فرمائی :اے اللہ ! یہ ہیں میرے اہل بیت، ان سے
ہر طرح کی پلیدی دور فرمادے اور انہیں خوب پاک فرمادے۔۳ ۔ آپ بچوں میں سب سے
اول شخص ہیں جو حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے بعد اسلام لائے آپ کے بے شمار فضائل
و کمالات بے پناہ شجاعت سے دین اسلام کی تاریخ بھری پڑی ہے آپ انتہائی بہادر اور
شجاع تھے آپ نے اسلام کی سب سے پہلی جنگ غزوہ بدر میں ۷۱؍مشرکین
میں سے ۳۶؍کو
آپ ہی نے واصل جہنم کیا تھا ،حضور کے زمانے کے بعد بھی اسلامی جنگوں میں آپ بنفس
نفیس شریک رہے ۔اللہ سے دعا ہے کہ اللہ ہم سب کو آپ کا اور تمام اہل بیت کا و
تمام صحابہ کرام کا سچا عاشق بنائے اور سب کا احترام کرنے کے توفیق رفیق عطا
فرمائے آمین ثم آمین۔
26 فروری ، 2021،بشکریہ:انقلاب، نئی دہلی
URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/the-caliphate-important-achievements-hazrat/d/124418
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African
Muslim News, Arab
World News, South
Asia News, Indian
Muslim News, World
Muslim News, Women
in Islam, Islamic
Feminism, Arab
Women, Women
In Arab, Islamophobia
in America, Muslim
Women in West, Islam
Women and Feminism