حفیظ نعمانی
1 نومبر، 2014
یہ سال جس کے اب صرف دو مہینے رہ گئے ہیں جانشینی کے سال کے طور پر یاد کیا جائے گا۔ ڈاکٹر منموہن سنگھ کے جانشین نریندر مودی جی بنے ہریانہ کے شری ہڈا کے جانشین منوہر لال بنے مہاراشٹر کے پرتھوی راج چوہان کے جانشین دیو یندر فڑنویس بنے اور خبر ہے کہ 22 نومبر کو دہلی کے جامع مسجد کے امام مولوی احمد بخاری اپنے بیٹے کو اپنا جانشین بنائیں گے جس میں شرکت کے لئے عالم اسلام کے سربراہوں اور علماء کو دعوت دی گئی ہے۔ ہندوستان میں اپنے وزیر اعظم کو چھوڑ کر چند مرکزی وزیروں کو اور صوبائی لیڈر وں کو بھی مدعو کیا گیا ہے اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ نواز شریف کو بھی دعوت دی گئی ہے۔
ٹی وی اور اخبارات نے اس معمولی سی خبر کو اس طرح چھاپا ہے جیسے وہ امام کے جانشین نہ ہوں وزیر اعظم کے جانشین بننے جارہے ہیں اور یہ صرف اس لئے ہورہا ہے کہ 1977 میں مولوی احمد بخاری کے والد مولانا عبداللہ بخاری کو کانگریس کے خلاف مسلمانوں کے ووٹ لینے کے لئے جنتا پارٹی کے لیڈروں نے شاہی امام کا خطاب دے دیا تھا اس دن سے ہر ایک نے بغیر سوچے ہوئے کہ 1857ء کے بعد ہندوستان میں شاہ ہی کہاں رہے اور جو شاہی امام کسی کو کہا جائے؟ دہلی کے جامع مسجد شاہ جہاں نے بنوائی تھی ہندوستان میں چپہ چپہ پر سیکڑوں مسجدیں ہیں جو شاہوں نے بنوائیں یا ان کے حکم سے یا ان کی مدد سے بنیں ان مسجدوں میں جو باقی ہیں ان میں نماز بھی ہوتی ہے اور امام پڑھاتے بھی ہیں اگر دہلی کے جامع مسجد کے امام کو شاہی امام کہا جارہا ہے تو پھر ان تمام مساجد کے اماموں کو شاہی امام کیوں نہیں کہا جاتا؟ ہمارے پڑھے لکھے دوستوں کو نہ جانے کیسے یہ غلط فہمی ہوگئی ہے کہ وہ یعنی شاہی امام کہے جانے والے جامع مسجد کے امام کو ملک اور بیرون ملک بہت احترام سے دیکھا جاتا ہے اور ان کی حیثیت کچھ ایسی ہی ہے جیسی روحانی عیسائی رہنما پوپ کی دنیا میں ہے۔ حیرت ہے کہ اہل قلم نے گنگو تیلی کو راجہ بھوج کے مقابلہ پر کھڑا کردیا ۔ دہلی کے جامع مسجد کے امام مولوی عبداللہ بخاری اور ان کے بیٹے احمد بخاری نے مسجد کو قال اللہ اور قال الرسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بجائے قال المودی قال الملائم اور قال نواز شریف بنا کر رکھ دیا اب وہ مسجد سے زیادہ میونسپلٹی کا ہال بن گئی ہے۔ مسجد کی جتنی بے حرمتی ا ن باپ بیٹوں نے کی ہے ہم نہیں جانتے کہ کسی بڑی مسجد کی ایسی بے حرمتی کی گئی ہوگی پروردگار انہیں معاف کرے انہوں نے اسے آخرت کانہیں دنیا کمانے کا ذریعہ بنالیا ہے۔
ہوسکتا ہے ہمارے دوستوں کو غلط یاد رہا ہو احمد بخاری تو اٹل بہاری باجپئی سے بہت موٹی رقم لے کر 2004 میں بی جے پی کی امیداوار اسمرتی ایرانی کا الیکشن لڑا چکے ہیں اور یہ اس وقت کی بات ہے جب وہ ٹی وی کی ہیروئن تھیں اور شاہی امام اپنی دستار اور خضاب زدہ داڑھی کے ساتھ اُن کے قدم بہ قدم ووٹ مانگ رہے تھے اس کے علاوہ بھی انہوں نے اپنی امامت کی شاہانہ فرضی حیثیت کو ہمیشہ بہت اچھی قیمت میں فروخت کیا ہے۔ اور ان کی مقبولیت کا یہ حال ہے کہ کبھی اسمبلی پارلیمنٹ حد یہ کہ کارپوریشن کا الیکشن بھی نہیں کسی کو جتا سکے۔ یہی مسجد اگر کسی مسلم ملک میں ہوتی تو کسی ایک نماز کی امامت بھی ان سے نہ کرائی جاتی لیکن ہندو ملک میں ہندوؤں نےانہیں شنکر آچاریہ او رپوپ کا درجہ دے دیا ہے جس کی وجہ سے مسجد ٹاؤن ہال بن گئی ۔
ہمارے ملک میں خدا کا شکر ہے بڑے بڑے عالم او رمفتی موجود ہیں ۔ جانشینی کی اس بدعت میں نہ دیوبند کے شیخ الحدیث بلائے گئے ہیں نہ ندوہ کے ناظم نہ جامعہ سلفیہ بنار س کے مہتمم نہ دوسرے مدارس کے شیوخ حدیث جب کہ یہ امامت کی جانشینی ہے جس کی کوئی شرعی حیثیت نہیں مولوی احمد بخاری کسی بھی فقہ کی کتاب میں نہیں دکھا سکتے کہ ایک امام ہوتاہے ایک نائب امام یہ جانشین ۔ دنیا کی وہ مسجد جس کی طرف رُخ کر کے دنیابھر میں نماز پڑھی جاتی ہے اس کے امام کے جانشین کی تاجپوشی کی کبھی کسی نے خبر نہ پڑھی ہوگی۔ اس لئے امام کےمتعلق مولوی احمد بخاری نے پڑھا ہوگا کہ جو سب سے زیادہ علم قرآن علم حدیث او رعلم فقہ سے واقف دیندار ہو تہجد گذار ہو وہی امام بنایا جائے ۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت موجود ہے کہ آخری علالت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عشاء کی نماز کے لئے اٹھنا چاہا لیکن نقاہت کی وجہ سے اُٹھ نہ سکے تیسری کوشش کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو کہلا کر بھیجا کہ وہ لوگوں کو نماز پرھا ئیں ۔ معتبر تاریخ میں جانشینی کی یہ سنت ملتی ہے اس میں نہ تمام مہاجرین کو بلایا نہ انصار کو نہ بڑے کو نہ چھوٹے کو بس حکم ہوگیا اور وہ جانشین ہوگئے انہوں نے 17 نمازوں کی حیات مبارکہ صلی اللہ علیہ وسلم میں امامت کی ۔
مولوی احمد بخاری نے وزیر اعظم کو دعوت نامہ نہ دے کر ایک مسئلہ چھیڑ دیا جسے وزیر اعظم کی توہین مانا جارہا ہے اس لئے کہ نہ امامت کوئی تقریب ہے نہ جانشینی نہ نائب امام کوئی عہدہ ہے۔ اللہ اس مولوی کو ہدایت دے کہ اس کے باپ نے اور اس نے جتنا مسجد کو سیاست کی گندگی سے ناپاک کیا ہے اس کا جانشین اسے سیاست کا اکھاڑہ بنائے ۔ ایک لفظ اخباری مشیر بھی پہلی بار سنا کہ امام صاحب کا کوئی اخباری مشیر بھی ہوتا ہے اور وہی احمقانہ سوالوں کا احمقانہ جواب دیتا ہے اسی نےجواب دیا کہ مودی جی کو اس لئے نہیں بلایا کہ مسلمانوں نے انہیں کلین چیٹ نہیں دی۔ اللہ گواہ ہے کہ احمد بخاری کی جانشینی تو ہمیں یاد نہیں ؟ نہ یہ یاد ہے کہ اس میں باجپئی جی شریک ہوئے تھے اور کون کون شریک تھا؟ اور اگر کوئی ڈرامہ ہوا تھا تو ہم نے اس وقت کیوں نہیں لکھا تھا ؟ اور اب کیوں یاد نہیں لیکن اب بہر حال یہ جانشینی ایک بدعت ہے اور بدعت گمراہی ہے اور گمراہی کی سزا دوزخ ہے ۔ اچھا ہے کہ مولوی احمد بخاری کسی عالم دین سے یا مفتی سے مسئلہ معلوم کرلیں اور اگر وہ منع کریں تو دعوت نامے واپس لے لیں یا اعلان کردیں کہ میں پوپ یا شنکر آچاریہ جیسا مسلمانوں کا امام بن گیا ہوں اور میری شریعت اپنی ہے ۔ میں کسی کا معتقد نہیں ۔ خدا ہدایت دے او ر خدا مسلمانوں کو اس کے شر سے محفوظ رکھے ۔ آمین ۔
1 نومبر، 2014 بشکریہ : روز نامہ اودھ نامہ ، لکھنو
URL:
https://newageislam.com/urdu-section/the-drama-staged-delhi-jama/d/99811