New Age Islam
Sat Jan 25 2025, 05:51 AM

Urdu Section ( 31 May 2013, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

The Role Of Madrasas دینی مدارس کا کردار

 

غلام نبی مدنی

21 مئی ، 2013

یہ بات کسی وضاحت کی محتاج نہیں کہ اسلام کی آمد کے ساتھ ہی مدارس  ومکاتب کی صورت گری ہوگئی تھی ۔ وقت کے ساتھ ساتھ ان کی رفتار تیز ہوتی رہی۔ مختلف زمانوں میں کوئی نہ کوئی شہر  علم کا مرکز قرار پایا ۔ مسلمان کبھی بصرہ تو کبھی کوفہ، کبھی بخارا توکبھی سمر قند  ، کبھی مدینہ  ، مصر و عراق  تو کبھی ہسپانیہ کو اپنے علوم سے درخشاں  کرتے رہے۔ بارہویں  صدی ہجری میں مدارس  کا یہ سلسلہ عرب و عجم سے ہوتا ہوا برصغیر تک آپہنچا ۔ یہاں سلطنت مغلیہ  قائم تھی اور اسلام پسند  حکمرانوں  کے وجود سے فضا معطر  تھی، چنانچہ مختصر عرصہ  میں مدارس  کا جال پھیلا دیا گیا ۔ عالمگیر کا دور اس حوالے سے ایک تاریخی  دورہے۔ سقوطِ سلطنت مغلیہ  کے بعد فرنگیوں  نے جہاں اسلام اور اہل اسلام کے وجود پر وار کیے ،وہیں ان مدارس کو بھی استبداد کا نشانہ بناتے ہوئے ان کی اساس اور نظریات کو تبدیل کرنے کے لیے مختلف حربے آزمائے۔

1857 کی جنگ آزادی میں نا کامی کے بعد مسلمانوں کو اخلاقی سہارا دینے کی خاطر خلقِ خدا کا درد رکھنے والے صاحب علم  و عمل لوگ کمر بستہ  ہوگئے ۔ 1866 میں مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ  نے علوم اسلامیہ  کے خزانوں کو محفوظ  بنانے کے لیے دیوبند کےمقام پر ایک دینی مدرسہ کی بنیاد رکھ دی، جو بعد ازاں پورے بر صغیر میں مدارس اور اسلامی تعلیمات  وعلوم کے پھیلاؤ کا ذریعہ بنا۔ دیوبند کے اس مدرسے نے انتہائی نامساعد حالات میں اپنی طاقت سے بڑھ کر ہندوستان کے محکوم مسلمانوں کے عقائد و نظریات ،عبادات و معاملات ، سیاست ومعیشت  کی نگہبانی کا فریضہ  انجام دیا ۔ اس کے فیض  یافتہ علماء نے آزادی ہند کی تحریکات  میں بنیادی  کردار ادا کیا جن کے احسانات سے آج بھی پاک و ہند کے عوام  کے سر جھکے ہوئےہیں۔ چودہ صدیاں  گزرنے کے باوجود آج بھی صفہ کےچبوترے سےاپنے سفر کا آغاز کرنے والے یہ مدارس ہزار مخالفتوں  او ررکاوٹوں کے باوجود پوری آب و تاب کے ساتھ  آج بھی موجود ہیں۔

رجب او رشعبان مدارس کے بہار کے مہینے کہلاتے ہیں ۔ ان میں مدار س کی فصلیں  پک کر تیار ہوجاتی ہیں اور امت کو ان کا پھل میسر آتا ہے۔ فضلاء اپنی تربیت مکمل کرنے کےبعد سند فراغت  حاصل کرکے اپنے مربیوں  سے نم دیدہ آنکھوں کےساتھ آخری درس لے کر اپنی خدمات او رصلاحیتوں  کے جوہر دکھانے کےلیے دستار فضیلت سر پرسجائے اپنے اپنے علاقوں  کو رخصت ہوجاتے ہیں۔یہ ان کی زندگی کے یاد گار لمحات ہوتے ہیں۔ اس موقع پر ان کو غم  او رمسرت کی دوہری کیفیتوں  سے پالا پڑتا ہے۔

 امسال مدارس  دینیہ  نے تقریباً 58 ہزار حفاظ کرام ، 8 ہزار علمائے کرام ، 16 ہزار طالبات کی ایک بہت بڑی فوج تیار کی ہے اور ان کے اعزاز میں پاکستان کے مختلف  پر ، پرکیف  بھی منعقد ہو رہی ہیں۔ اس کے علاوہ آئندہ سال مارچ  میں وفاق  المدارس  العربیہ  اپنے قیام کے 50 سال سے زائد مکمل کرنے پر ایک گولڈن جوبلی تقریب منعقد کررہا ہے، جس میں گزشتہ 56 سالوں میں مدارس  سے فراغت حاصل کرنے والے 9 لاکھ کےقریب علماء کو دستار فضیلت  پہنائی جائے گی،

ان حقائق کی روشنی میں مدارس  کی کردار کشی، مدارس کو دہشت گردی کےاڈے  کہنے والوں اور ان پر انگلیاں  اٹھانے والوں کو انصاف پسندی سےکام لینا چاہیے اور بلا وجہ اور بن دیکھے  صرف سنی  سنائی باتوں پر اکتفا کرکے مدارس  کے بارے میں حتمی رائے قائم کرنے سے گریز کرنا چاہیے  او رمدارس کی ان تقریبات  میں شرکت کر کے اپنی علمی و عملی تشنگی دورکرنی چاہیے ۔

بلاشبہ مدارس اسلام کے قلعے  اور مراکز ہیں ۔ یہاں خالص اسلامی قیادت تیار ہوتی ہے جو امت مسلمہ کے عقائد ونظریات ،عبادات او رمعاملات کی پاسبانی کرنے کے عہد کے ساتھ میدان عمل میں آتی ہے۔ یہ اسلام اور اسلامی تعلیمات  کےوارث اورمحافظ  ہیں لہٰذا  ضرورت اس بات کی ہے مدارس  کے ساتھ محبت  و ہمدردی  کا تعلق  قائم کیا جائے ۔ ان کی حفاظت و ترقی او رمضبوطی کے لیے کوششیں  کی جائیں کہ دین اسلام کو اصل شکل  میں ہم تک پہنچانے اور فی زمانہ  مسلمانوں  کے عقائد اور اسلام کی تعلیمات  کے تحفظ  میں ان کا کردار نا قابل فراموش ہے ۔ مدارس کے ساتھ تعاون کی ایک صورت یہ ہے کہ اپنی اولاد کو ان مدارس میں داخل کروایا جائے اور ان مدارس  سے فراغت پانے والے  علمائے کرام کی قدر او ران  کا احترام کیا جائے ۔

21 مئی ، 2013  بشکریہ : روز نامہ اسلام  ، پاکستان

URL:

https://newageislam.com/urdu-section/the-role-madrasas-/d/11820

 

Loading..

Loading..