New Age Islam
Fri May 16 2025, 08:09 PM

Urdu Section ( 7 Sept 2024, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Some Guiding Principles of Study and Research on the Biography and Greatness of the Sahaba سیرت صحابہ اور عظمت صحابہ پر چند رہنما اصول مطالعہ و تحقیق

غلام غوث صدیقی

7 ستمبر 2024

صحابہ کرام پر طعن و تشنیع کرنا یا ان کے متعلق اہل سنت کے مسلمہ عقائد میں وہم پیدا کرنا آج کا ایک اہم فتنہ ہے جس کی زد میں اچھے خاصے پڑھے لکھے لوگ آ رہے ہیں ۔ اس میں رافضی ذہن کے مالکوں نے خوب بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ، خوب روایتیں پیش کیں ، من مانی تشریحات کیں اور امت مسلمہ کو غیر مستند روایتوں اور ناقابل قبول تشریحات کی بنیاد پر الجھائے رکھنے کی خوب کوششیں کیں ، ان کا مقصد صرف طعن و تشنیع کے مائنڈ سیٹ کو فروغ دینا تھا ۔ لیکن الحمد للہ ، جن کے دلوں میں قرآن کی روشن آیتیں رہنمائی کرتی ہیں وہ صحابہ کرام کی شان میں مشاجرات یا کسی تاریخی واقعات یا متروکہ اعمال کی بنیاد پر طعن و تشنیع نہیں کرتے بلکہ وہ صحابہ کرام کے حسن اخلاق ، مثالی کردار ، قدر و منزلت ، صداقت ، عدل و انصاف ، سخاوت و شجاعت ، تقوی و پرہیزگاری کے واقعات پڑھتے سناتے اور لوگوں کو ان پر عمل کرنے کی ترغیب دلاتے ہیں ۔

۔۔۔۔

صحابہ کرام کی سیرت اور عظمت کو کما حقہ سمجھنے کے لیے نہ صرف قرآن و سنت اور کتب حدیث و روایت اور تاریخ پر کامل دسترس رکھنا ضروری ہے بلکہ چند رہنما اصول مطالعہ کو ذہن نشین رکھنا بھی لازمی ہے ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ قرآن کریم اور احادیث متواترہ سے صحابہ کرام کی عظمت کا قطعی ثبوت ملتا ہے تو دوسری طرف بعض روایتیں کتب تاریخ وحدیث میں ایسی ملتی ہیں جن کے ظاہری معنی یا تو شان صحابہ کے شایان نہیں یا پھر ان کے مختلف تربیتی مراحل مثلا کفر سے ایمان کی طرف کا تربیتی مرحلہ ، پھر جاہلی اعمال سے اسلامی اعمال کی طرف کا تربیتی مرحلہ وغیرہ کا حصہ ہیں ۔ اللہ تعالی نے قرآن کے واسطے سے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف مراحل میں مختلف گوشوں پر صحابہ کرام کی دینی ، اخلاقی ، سماجی ، معاشرتی اور معاملاتی تربیت کی ، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان کی ایمانداری ، تقوی و پرہیزگاری ، اطاعت گزاری اور دیانتداری اور کامل بندگی کا جذبہ تمام امت مسلمہ کے لیے مثالی نمونہ بن گیا ۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ دور خوارج سے لیکر آج تک متروکہ اعمال ، یا چند واقعات یا پھر غیر مستند روایتوں کی بنیاد پر صحابہ کرام پر طعن و تشنیع کیا جاتا ہے اور صحابہ کرام کی عظمت و رفعت کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے جس پر صریح نص قطعی وارد ہو چکی ہے ۔ اس کی ایک وجہ قرآن و سنت اور احادیث و روایات کی افہام و تفہیم میں ممد و معاون امت مسلمہ کے اکابر علما و ائمہ کے نزدیک مسلمہ اصول سے غفلت کا نتیجہ ہے ۔ کا ش عام لوگ جو چند روایتوں اور واقعات کی بنا پر صحابہ کرام پر طعن و تشنیع کرنے کا ظن یا وہم رکھتے ہیں انہیں یہ سمجھ میں آ جائے کہ سیرت صحابہ اور عظمت صحابہ کی صحیح تفہیم کے لیے اصول مطالعہ وتحقیق سے واقف ہونا بہت ضروری ہے ۔ سب سے اہم اصول یہ ہے کہ قرآن مجید اور احادیث متواترہ سے تمام صحابہ کرام کی قدر و منزلت اور عظمت کا قطعی ثبوت ملتا ہے لہذا کوئی بھی روایت ، حدیث ، خبر یا تاریخی واقعہ جس سے طعن و تشنیع کا ظن یا وہم پیدا ہو وہ ہرگز قابل قبول نہیں بلکہ قرآن مجید اور احادیث متواترہ کے خلاف جو بھی ہوگا اسے ترک کر دیا جائے گا اور کسی طرح بھی ایمان و عقیدے کا حصہ نہیں بنایا جا سکتا ۔

قرآن و سنت قطعی طور پر ثابت کرتے ہیں کہ تمام صحابہ کرام جنتی ہیں اور اللہ تعالی تمام صحابہ سے راضی ہے ۔اس کے علاوہ ، کتب احادیث نہ صرف صحابہ کرام کی فضیلت و عظمت پر گواہ ہیں بلکہ ان کے حسن اخلاق ، عدل و انصاف ، امانتداری ، ایمانداری ، ایثار و قربانی ، دیانتداری، رحمدلی ، سخاوت و شجاعت ، اور مثالی کردار کی تعریفیں بھی بیان کرتی ہیں ۔

صحابہ کرام کی سیرت کا مطالعہ کرنے والوں کو چند باتوں کا لحاظ رکھنا بلکہ اسلامی تعلیمات کے مسلمہ اصول تحقیق و تفہیم کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے ۔ اس فانی دنیا میں بہت سے قارئین ایسے ہیں جو تحقیقی نظر و فکر کا شوق رکھتے ہیں اور اسلامی کتب میں مواد تلاشتے ہیں کہ انہیں حقیقت حال کی خبر مل جائے ۔

اسلام کی عظیم علمی ہستیوں کا یہ مسلمہ اصول رہا ہے کہ ایمان و عقائد کے باب میں ہمیشہ وہ قطعیت کو اپنا شعار بناتے یعنی قرآن کریم اور متواتر احادیث کو کسی بھی مسئلے کے لیے قطعی الثبوت مانتے اور اس کے بعد اس مسئلے سے متعلق جو بھی روایتیں ، داستانیں اور واقعات ملتے ان کی صحت قبولیت کا دار و مدار بھی قرآن اور متواتر حدیث سے ماخوذ قطعی الثبوت دلائل کی موافقت کو بناتے ۔

اسے یوں سمجھیے کہ قرآن مجید کی آیات اور متواتر احادیث کو کسی بھی امر کے لیے ایسے دلائل کے طور پر قبول کیے جاتے ہیں جو قطعی کہلاتے ہیں اور ان میں کسی طرح کا شک و ظن اور وہم و گمان نہیں بلکہ وہ یقین کا درجہ رکھتے ہیں ۔قطعی الثبوت دلائل کے مقابلے ظنی الثبوت دلائل ہیں ۔قرآن اور متواتر حدیث کے بعد جو اسلامی تعلیمات کے مصادر ہیں وہ ظنی الثبوت دلیل کا درجہ رکھتے ہیں ۔ تمام صحابہ کے جنتی ہونے ، حق پر ہونے ، رب کریم سے باہمی رشتہ رضامندی رکھنے اور رسول عظیم سے شرف صحابیت و محبوبیت کا درجہ پانے پر جو دلائل ہمیں ملتے ہیں وہ قطعی الثبوت ہیں ۔یعنی ایمان و عقیدے کے باب میں قطعی الثبوت دلیل کا اعتبار ہوگا ظنی الثبوت دلیل کا کوئی اعتبار نہیں ۔

مثلا قرآن مجید میں اللہ تعالی نے تاکید کے ساتھ تمام صحابہ کے مقام حسنی پر فائز ہونے کا وعدہ کر دیا ہے ۔ارشاد باری کا اسلوب بڑا وسیع اور قابل غور معنی رکھتا ہے ، غور کیجیے : وکلا وعد اللہ الحسنی (سورہ حدید آیت نمبر ۱۰) ۔ عربی زبان کے جملوں کی ساخت کا عام قاعدہ یہ ہے کہ مفعول جملہ میں موخر ہوگا اور صرف اسی صورت میں مقدم کیا جائے گا جب مفعول پر زور ڈالنا مقصود ہو ۔مذکورہ آیت میں لفظ کلا مفعول ہے اور مقدم ہے ، جس کے معنی ’’ہر ایک یا تمام‘‘ کے ہیں۔مذکورہ آیت کا موضوع ’’تمام صحابہ کرام‘‘ ہے اور اس کا ترجمہ عام فہم میں یوں ہوتا ہے کہ تمام صحابہ کے حق میں اللہ تعالی نے حسنی کا وعدہ کر دیا ہے۔حسنی کی تفسیر جمہور مفسرین جنت سے کرتے ہیں یعنی تمام صحابہ کرام کے حق میں اللہ تعالی نے جنتی ہونے کا وعدہ کر دیا ہے ۔اب عربی زبان کے اسلوب کا خیال رکھتے ہوئے ، لفظ تمام پر زور دیتے ہوئے پھر سے بولیے کہ تمام (زور دیتے ہوئے بولنا ہے) صحابہ کرام کے حق میں اللہ تعالی نے جنتی ہونے کا وعدہ کر دیا ہے ۔صحابہ کرام کے حق میں یہ جو وعدہ کیا گیا ہے وہ قرآن کریم سے ثابت ہے ، جو ثبوت کے اعتبار سے قطعی یقینی ہے ۔

قرآن کریم دوسرے مقام پر صحابہ کرام کے حق میں رضائے الہی کی بشارت دیتا ہے ۔ارشاد باری تعالی ہے : رضی اللہ عنہم ور ضوا عنہ یعنی اللہ تعالی ان سے (یعنی ان تمام صحابہ سے ) راضی ہے اور وہ (یعنی تمام صحابہ ) اس سے (یعنی اللہ تعالی سے) راضی ہیں ۔ سورہ توبہ آیت ۱۰۰ملاحظہ فرمائیں ۔اللہ تعالی نے اپنے مبارک کلام کے اندر اس بات کو ثبوت کے اعتبار سے قطعی بنا دیا کہ جس کے اندر ایمان کا اخلاص ہوگا وہ یقینا اس بات کو تسلیم کرے گا کہ اللہ تعالی نے اپنے مومن بندوں کے حق میں اس بات کو ایمان کے باب میں لازمی اور یقینی بنا دیا کہ تمام صحابہ اللہ سے راضی ہیں اور اللہ تعالی تمام صحابہ سے راضی ہے ۔جب یہ اعلان رب کریم کی طرف سے ہے تو ہم حقیر اور فانی بندوں کی کیا مجال کہ رب کریم نے صحابہ کرام کے حق میں جو اعلان کر دیا ہے اس کے بر خلاف کسی عقیدے اور مذہب کو تسلیم کریں!!!

صحابہ کرام کے حق میں جنتی ہونے کی بشارت اور رب کریم کے صحابہ کرام سے راضی ہونے کی وضاحت خود قرآن کریم میں رب کریم دیتا ہے اور یہ ہم نے یہ جان لیا کہ قرآن کریم دلیل کے اعتبار سے قطعی الثبوت ہے ، لہذا ، یقینی اور مبنی بر حق عقیدے کے خلاف اگر کوئی بات خواہ وہ کسی بھی ظنی دلیل سے ملے یا کتب روایت و تاریخ سے معلوم ہو وہ اسلامی عقیدے کے باب میں کسی بھی مومن کے لیے قابل قبول نہیں ، کیونکہ عقیدے کے باب میں یقین کا اعتبار ہوتا ہے جو کہ قرآن کریم سے ہمیں ہو چکا اور یقین کی اس منزل کے بعد اب کسی بھی صحابی پر جن کا خاتمہ ایمان پر ہوا ان کے تعلق سے ایسا عقیدہ رکھنا جو قرآن کی کریم میں صحابہ کرام کے تعلق سے مذکور شان و عظمت اور بشارت ربانی کے خلاف ہو وہ قابل قبول نہیں ۔ کسی بھی ایمان کی روشنی پانے والے مسلمان کو یہ ہرگز قبول نہ ہوگا کہ وہ قرآن کریم سے ثابت صحابہ کرام کی اس شان و عظمت اور بشارت عظمی کی صریح مخالفت میں کسی عقیدے کو محض کسی روایت اور تاریخ کی بنیاد پر قبول کرے ۔

 یہ وہ نعمت عظمی ہے جو صحابہ کرام کو ملی اور ان کی اس شان و عظمت کی وجہ اس رب کریم کا کلام ہے جو بندوں کے احوال اور ان کے اچھے برے اعمال کی پوری حقیقت کو جانتا ہے، جو نہ صرف صحابہ کرام کے ظاہری و باطنی ایمان و تقوی کو بخوبی جانتا ہے بلکہ ہم حقیر اور کوتاہ اور غفلت میں پڑے رہنے والے بندوں کے اعمال سے بھی بخوبی واقف ہے ۔ قرآن کریم کی روشنی پانے کے بعد ہمارے اس ایمان و عقیدے میں کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالی بلا تفریق تمام صحابہ کرام سے راضی ہے اور بلا تفریق تمام صحابہ جنتی ہیں ۔

 سیرت صحابہ کا مطالعہ کرنے کے لیے یہ بات ذہن نشین رکھنا بہت ضروری ہے کہ سینکڑوں کتابوں میں صحابہ کرام کے اعمال و افعال اور واقعات کے بارے میں بہت کچھ لکھا گیا ہے ، جن کا احاطہ کرنا آج کی اس مادیت زدہ مصروف دنیا میں کسی عام انسان کے لیے آسان نہیں ۔اس باب میں بہت سی باتوں کا دھیان رکھنا ضروری ہے تاکہ ہمیں معلوم ہو جائے کہ ہماری معلومات کے ذرائع کیا ہیں ؟ کیا ہماری معلومات کے ذرائع تاریخ یا روایت کی کتابیں ہیں ؟ کیا ہم ان کتب کے اصل متن کا مطالعہ کر رہے ہیں یا کسی کا بیان کردہ ترجمہ پڑھ رہے ہیں ، یا کسی کا بیان کردہ تشریح پڑھ رہے ہیں ؟ ترجمہ و تشریح کرنے والا کون ہے ؟کیا وہ اسلامی عقائد کے اصول سے واقف ہے ؟ ان کے تراجم و تشریحات یا روایات پیش کرنے کا مقصد کیا ہے؟ کیا ہم روایت اور درایت کے ضابطوں سے واقف ہیں ؟ کیا صرف ہمارے لیے یہ کافی ہے کہ ہمیں کوئی روایت پڑھنے اور سننے کو مل جائے اور ہمیں اس روایت کے فہم یعنی روایت کی درایت کا کوئی شعور نہ ہو ؟ کیا یہ ہمارا اصول نہیں کہ قرآن اور متواتر حدیث سے ثابت صحابہ کرام کے متعلق عقیدے کی مخالفت کسی بھی مصادر سے آئے اسے ہم ہرگز قبول نہیں کریں گے ؟

کلمہ پڑھنے والا مسلمان آج بہت سارے فرقوں میں بٹا ہوا ہے اور ہر ایک فرقے نے اپنے مختلف انداز میں صحابہ کرام کے تعلق سے باتیں لکھی ہیں ۔ اہل سنت کے اکابر علما نے تمام رائج فرقوں کے عقائد کی نشاندہی کر دی ہے اور انہیں قرآن و حدیث اور کتب تاریخ و روایت کے علوم پر گہری بصیرت بھی تھی، لہذا ان کا ہمیشہ سے یہ عقیدہ رہا ہے کہ تمام صحابہ جنتی ہیں اور اللہ تعالی تمام صحابہ سے راضی ہے ۔ عقیدے کے باب میں تمام اہل سنت کے اکابر کا فیصلہ ہے کہ تمام صحابہ کرام کے جنتی ہونے اور اللہ تعالی کے تمام صحابہ سے راضی ہونے پر دلیل قطعی وارد ہو چکی ہے ، لہذا اس کے خلاف کوئی عقیدہ کسی بھی مصادر سے ملے وہ قابل قبول نہیں ۔ اہل سنت کے اکابر نے ہمیشہ اسے اجاگر کیا ہے کہ صحابہ کرام کے متعلق طعن و تشنیع پر مبنی عقیدہ ہرگز قابل قبول نہیں خواہ وہ کسی بھی ذرائع سے آئے ۔

اس حقیر بندے کا اعتراف ہے کہ صحابہ کرام کے متعلق کتب روایت و حدیث اور تاریخ میں بیان کردہ تمام واقعات ، مختلف تراجم و تشریحات وغیرہ کا کلی طور پر احاطہ کرنا کسی کے لیے آسان نہیں ، اس لیے آج کی اس دنیا میں اہل علم کا خطاب پسند کرنے والوں اور عام ذہنوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ صحابہ کرام کے متعلق طعن و تشنیع پر مبنی کسی بھی روایت کو عقیدے کا حصہ نہ بنائیں کیونکہ ان کے اس عمل سے قرآن کریم سے ثابت حقیقت کی مخالفت ہوگی ۔

کتب تاریخ و روایت میں بہت سے باتیں ایسی ملتی ہیں جو روایت کے ظاہری نظر سے شان صحابہ کے لائق نہیں ۔ بعض تو من گھڑت اقوال ہیں جنہیں صحابہ کرام پر طعن و تشنیع کرنے کے لیے گڑھا گیا ۔ بعض روایتیں اگرچہ اصول روایت کے اعتبار سے مستند مانی جاتی ہیں لیکن پھر بھی عقیدے کے باب میں قبولیت کا درجہ نہیں رکھتے ۔ انہیں صرف سیاق و سباق اور واقعات کے تناظرکا حصہ مانا جا سکتا ہے لیکن پھر بھی صحابہ کرام پر طعن و تشنیع کی کوئی راہ نہیں نکالی جا سکتی کیونکہ اللہ تعالی نے قرآن مجید میں تمام صحابہ کے حق میں اپنی رضامندی کا اعلان صاف طور پر کر دیا ہے ۔

سیرت صحابہ کا مطالعہ کرتے وقت علم و تحقیق کا مبنی بر انصاف اصول یاد رکھنا بھی بہت ضروری ہے کہ صحابہ کرام نے نزول قرآن اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا زمانہ پایا ہے ۔صحابہ کرام کی تربیت اللہ تعالی نے قرآن مجید کے واسطے سے مختلف مراحل میں کی اور اللہ کے پیارے رسول نے بھی اپنے قول و فعل اور تقریر کے واسطے سے صحابہ کرام کی مختلف مراحل میں تربیت کی ۔ پہلا مرحلہ کفر سے ایمان کی طرف ، یا یوں کہیے کہ دور جاہلیت سے ایمان و اسلام کی طرف کا مرحلہ پہلا ہے ۔ پھر صحابہ کرام کے اعمال و اخلاق کی تربیت بھی قرآن و حدیث نے مختلف مراحل اور مختلف سیاق و سباق میں کی۔ کتب روایت و حدیث سے مختلف مراحل میں صحابہ کرام کے مختلف اعمال و اقعات کا علم ہوتا ہے ۔مختلف مراحل میں دینی ، اخلاقی ، روحانی اور ربانی تربیت حاصل کرنے کے بعد صحابہ کرام کی شخصیت اتنی اعلی ہوئی کہ تمام بھٹکے لوگوں کے لیے ہدایت کا مثالی درس بن گئی ۔

لیکن یہاں یہ اہم بات رکھنا ضروری ہے کہ سیرت کا مطالعہ کرنے کے بعد کوئی یہ نتیجہ ہرگز نہ نکالے کہ چونکہ صحابہ کرام ایمان و اسلام قبول کرنے سے قبل کفر کی حالت میں تھے تو وہ بھی کفر کو اپنائے ۔اس کے لیے یہ جائز نہیں کہ حالت کفر کے واقعات کو پیش کرکے صحابہ کرام پر طعن و تشنیع کرے ۔اسی طرح وہ اعمال جو زمانہ جاہلیت سے رائج تھے اور کسی روایت سے یہ معلوم ہو جائے کہ فلان صحابی نے زمانہ جاہلیت سے جاری اور رائج کسی ناپسندیدہ عمل کو کیا تو ایسی صورت میں دینی و اخلاقی تربیت کے مختلف مراحل کو یاد رکھنا ضروری ہے کہ اللہ اور اس کے رسول نے صحابہ کرام کی مختلف مراحل میں تربیت کی اور پھر نتیجہ یہ ہوا کہ صحابہ کرام نے اعلی و عمدہ اسلامی تربیت کو اپنایا اور جاہلی دور کے ناپسندیدہ افعال کو ترک کر دیا ۔لیکن کتب روایت میں اگر صحابہ کرام کے متروکہ افعال کا تذکرہ ملے تو قارئین کے لیے یہ جائز نہیں کہ جاہلی دور کے متروکہ افعال کی بنیاد پر صحابہ کرام پر طعن و تشنیع کیا جائے۔

جب نزول قرآن کا زمانہ پورا ہو گیا ، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دنیا سے پردہ فرما لیا پھر بعد میں جو واقعات مشاجرات کی صورت میں ہوئے ، ان کی بنیاد پر بھی صحابہ کرام پر طعن و تشنیع نہیں کیا جا سکتا کیونکہ وہ واقعات کا حصہ ہیں جن کا تعلق مسئلہ اجتہاد سے تھا جہاں ایک فریق حق پر تھا تو دوسرا فریق اجتہادی خطا پر ۔ یہ بات تو مسلم ہے کسی بھی صحابہ کی ایمانداری ، دیانتداری ، تقوی و پرہیزگاری پر شک نہیں کیا جاسکتا کیونکہ ان کے تربیتی مراحل نزول قرآن کے زمانے میں گزرے اور بلا واسطہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود ان کی تربیت کی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ ایمانداری اور تقوی و پرہیزگاری میں نمونہ عمل بن گئے پھر جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دار فانی سے پردہ فرما چکے تو نئے مسائل میں انہیں اجتہاد کی ضرورت پیش آئی ۔اجتہاد کے لیے چند لازمی شرائط ہیں جن کے ساتھ ایک مجتہد اجتہادی صلاحیتوں کا ملکہ حاصل کرتا ہے ۔بعض صحابہ کرام اجتہادی صلاحیتوں کا ملکہ رکھتے تھے ۔ لیکن اجتہاد سے جو رائے پیش کی جاتی ہے اس کے دو پہلو ہوتے ہیں جن میں ایک پہلو صواب یعنی حق کا پہلو ہوتا ہے اور دوسرا خطا کا پہلو ہوتا ہے ۔اجہتادی خطا کو سمجھنے کے لیے یہ فرق یاد رکھنا ضروری ہے کہ گناہ وہ عمل ہے جس پر سزا ملتی ہے اور جس پر بندے کو قیامت کے دن جوابدہ ہونا ہے لیکن اجتہادی خطا ایسا عمل ہوتا ہے جس پر شریعت کے نزدیک کوئی سزا نہیں بلکہ اجتہاد میں اگر رائے درست ہو تو مجتہد دو اجر کا مستحق ہے اور اگر اس کے اجتہادی رائے میں خطا ہو جائے تب بھی اسے ایک اجر ضرور ملے گا ۔مجتہد یہ خطا جان بوجھ کر نہیں کرتا بلکہ وہ علم و معرفت کے تمام وسائل کو استعمال کرتے ہوئے پوری دیانتداری کے ساتھ ایک فیصلہ کرتا ہے ، اس کی نظر میں وہ فیصلہ بہتر ہوتا ہے مگر جب نتیجہ کے اعتبار سے اگر اس مجتہد کے فیصلہ میں خطا ہو جائے تو اس صورت میں اس مجتہد پر طعن و تشنیع ہرگز نہیں کیا جائے گا کیونکہ جب شریعت نے اجتہادی خطا پر مواخذہ نہیں فرمایا تو عام لوگوں کے لیے ہرگز یہ جائز نہیں وہ کسی بھی صحابی پر طعن و تشنیع کرے ۔شریعت نے اجتہادی خطا کی صورت میں بھی مجتہد کے لیے ایک اجر کا مزدہ سنایا ہے ۔

اجتہادی خطا پر طعن کرنا یا صحابہ کرام کے متعلق کسی طرح کا منفی یا توہین پر مبنی عقیدہ بنانا ہرگز جائز نہیں کیونکہ اللہ تعالی نے اپنے کلام میں جو کہ ازلی و ابدی ہے اس میں تمام صحابہ کے جنتی ہونے اور ان سے راضی ہونے کا صریح اعلان کر چکا ہے۔ اس کے بعد اب کوئی بھی روایت ہو یا کسی طرح کی کوئی تشریح ہو جس سے عظمت صحابہ مجروح ہوتی ہو یا کسی طرح کی کوئی تنقیص کا پہلو نکلتا ہو وہ ہرگز قابل قبول نہیں ۔

صحابہ کرام پر طعن و تشنیع کرنے کا وہم پیدا کرنا آج کا ایک اہم فتنہ ہے جس کی زد میں اچھے خاصے پڑھے لکھے لوگ آ رہے ہیں ۔ اس میں رافضی ذہن کے مالکوں نے خوب بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ، خوب روایتیں پیش کیں ، من مانی تشریحات کیں اور امت مسلمہ کو غیر مستند روایتوں اور ناقابل قبول تشریحات کی بنیاد پر الجھائے رکھنے کی خوب کوششیں کیں ، ان کا مقصد صرف طعن و تشنیع کے مائنڈ سیٹ کو فروغ دینا تھا ۔ لیکن الحمد للہ ، جن کے دلوں میں قرآن کی روشن آیتیں رہنمائی کرتی ہیں وہ صحابہ کرام کی شان میں مشاجرات یا کسی تاریخی واقعات یا متروکہ اعمال کی بنیاد پر طعن و تشنیع نہیں کرتے بلکہ وہ صحابہ کرام کے حسن اخلاق ، مثالی کردار ، قدر و منزلت ، عدل و انصاف ، تقوی و پرہیزگاری کے واقعات پڑھتے سناتے اور لوگوں کو ان پر عمل کرنے کی ترغیب دلاتے ہیں ۔ اللہ تعالی ہمیں دین اسلام کی صحیح سمجھ عطا فرمائے اور شیطان کے شروں سے محفوظ رکھے آمین بجاہ سید المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم۔

------------

غلام غوث صدیقی دہلوی اسلامک ریسرچ اسکالر اور نیو ایج اسلام کے مستقل انگریزی کالم نگار ، عربی ، اردو اور انگریزی کے سرٹیفائڈ مترجم ہیں ۔

-----------

URL: https://newageislam.com/urdu-section/guiding-principles-study-research-biography-sahaba/d/133144

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism

 

Loading..

Loading..