ڈاکٹر ظفر دارک قاسمی ، نیو ایج اسلام
11 مارچ 2025
تاریخ شاہد ہے کہ نوجوان کسی بھی معاشرے کی تعمیر و ترقی اور فلاح و بہبود میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں ۔ لیکن یہ اس وقت ہوتا ہے جب کہ نوجوان اپنی صلاحیتوں اور خوبیوں کو تعمیری اور مثبت طور پر استعمال کریں ، مزاج میں اعتدال اور توازن ہو ، فکر میں بالیدگی اور شعور و آگہی پائی جائے ۔ اچھے اور برے میں امتیاز کرنے کی صلاحیت بھی پائی جاتی ہو، بالفاظ دیگر اگر یہ کہا جاسکتا ہے کہ نوجوان اگر صحیح معنوں میں سیاسی ، سماجی اور مذہبی طور پر بیدار رہیں اور وہ اپنی فکری و نظریاتی قوتوں کا درست استعمال کرنے پر آمادہ ہو جائیں تو یقینا معاشرے میں امن و سکون اور ہم آہنگی کی خوشگوار فضا ہموار ہو جائے گی، ایسے ہی نوجوان کے اندر ملک و قوم کی خدمت کا جذبہ موجزن ہوتا ہے اور یہ سماج کے دیگر بچوں اور نوجوانوں کے لیے آئیڈیل ہو جاتے ہیں۔
برعکس اس کے اگر نوجوانوں کی تربیت و اصلاح، صالح اور متوازن نظریاتی و فکری خطوط پر نہ کی جائے تو ان کے جملہ اوصاف منفی اور تخریب کاری میں تبدیل ہو جاتے ہیں ،جن کو اپنی خوبیوں اور اچھائیوں سے قوم و ملک کی تعمیر و ترقی اور خوشحالی میں مثبت رول ادا کرنا تھا وہ پھر اسی سماج کے لیے خطرہ بن جاتے ہیں ۔ نظریاتی اور فکری طور پر بھی ایسے نوجوان اپنے اندر توازن برقرار نہیں رکھ پاتے ہیں ،اپنے رویوں اور کردار و کارناموں میں تعصب و تنگ نظری اور جانبداری کا مظاہرہ کرنے لگتے ہیں یا یہ کہیں کہ ان کے اندر شدت و سختی کا رجحان غالب ہونے لگتا ہے ۔
عہد حاضر میں ہم دیکھ رہے ہیں کہ ہمارے نوجوانوں میں شدت کا رجحان تیزی سے بڑھ رہا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ چند نوجوانوں اکٹھے ہوکر آئے دن مسلم کمیونٹی کے افراد کو تشدد کا نشانہ بنا ڈالتے ہیں ، اس طرح سے ہمارے معاشرے کے نوجوانوں میں خواہ ان کا کوئی بھی مذہب و دھرم ہو، مذہب و ملت اور رنگ و نسل کے نام پر تشدد و بربریت کا فروغ پانا نہ ان کے لیے اور نہ اس سماج کے لیے ٹھیک ہے جہاں وہ رہ رہے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مذہب کوئی بھی ہو اس کی اپنی تعلیمات یہی ہوتی ہیں کہ معاشرہ پر امن رہے ، نفرت و عداوت معاشرے میں رائج نہ ہو، تمام اقوام و ملل کے لوگ مل جل کر امن و آشتی سے رہیں ۔اس لیے جن نوجوانوں کے اندر تشدد و تنگ نظری کا رجحان بڑھ رہا ہے ان کو مذہب سے جوڑ کر قطعی نہیں دیکھنا چاہیے ۔
موجودہ وقت میں نوجوانوں میں جس طرح سے تشدد کے رجحان میں اضافہ ہوا ہے اس کا سبب یہ بھی نہیں معلوم ہوتا ہے کہ ماضی میں ان نوجوانوں پر کوئی ظلم ہوا ہے، یا ان کی تاریخ و تہذیب اور ثقافت و تمدن سے چھیڑ چھاڑ کی گئی ہے ۔ تاریخ اور حق کا ہر متلاشی بخوبی جانتا ہے کہ بھارت میں تکثیری سماج اور اس کے معاشرتی خدو خال ہر دور اور ہر زمانے میں پوری طرح سے محفوظ و مامون رہے ہیں ۔ ملک میں اقتدار و تسلط خواہ کسی بھی کمیونٹی یا دھرم کے ماننے والوں کا رہا ہو، اگر آج کوئی طبقہ یا جماعت سیاسی مفادات کی خاطر تاریخ کو توڑ مروڑ کر پیش کرے اور اس میں معاشرے کے نوجوانوں کو خاص کمیونٹی کے خلاف ملوث کرنے کی سعی کرے تو یہ الگ مسئلہ ہے۔ اس کے پس پردہ جو عزائم اور منصوبہ بندی ہے اسے بہت جلد ہمارے معاشرے کے تمام افراد کے ساتھ ساتھ خصوصی طور پران نوجوانوں کو بھی سمجھنا ہوگا جو اپنی شاندار صلاحیتوں کو تخریب کاری اور ملک کے امن و امان کو تباہ کرنے میں لگا رہے ہیں اور دانستہ یا غیر دانستہ طور پر وہ موقع پرست سیاست دانوں کا آلہ کار بنے ہوئے ہیں ۔
ساتھ ہی ان نوجوانوں کو یہ بھی سمجھنا ہوگا کہ تشدد سے کسی مسئلہ کا حل نہیں نکلتا ہے بلکہ اس سے حالات مزید بگڑتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ آج کل تشدد کی جو لہر ہمارے معاشرے کے نوجوانوں میں دکھائی دے رہی ہے، اسے وہ مذہب کے نام پر انجام دے رہے ہیں جب کہ تشدد کی کوئی بھی پہلو ہو،اسے نہ مذہب کی خدمت گردانا جاسکتا ہے اور نہ اس مکروہ رویے کی اجازت کسی مذہب میں ملتی ہے ۔ یاد رکھیے!نفرت و تعصب یا تشدد کسی بھی کمیونٹی میں پایا جائے اس کے نتائج معاشرے پر ہمیشہ متنفرانہ اور مایوس کن ہی مرتب ہوتے ہیں ۔
تصور کیجیے! جن نوجوانوں کو اپنے مثبت اور تعمیری کارناموں کے توسل سے نہ صرف اپنے والدین ، گھر، خاندان اور ملک و قوم کا نام روشن کرنا تھا آخر ان کی ایسی کیا مجبوری آن پڑی کہ وہ ان لوگوں کا کھلونا بنے ہوئے ہیں جن کا اپنا سیاسی مقصد ہے ۔ وہ چاہتے ہیں کہ سماج میں ایسے نوجوان موجود رہیں جو ہمارے اشاروں پر رقص کریں ۔ سماج میں مذہب و ملت ، رنگ و نسل اور دین و دھرم کے نام پر اسی طرح سے کشیدگی برقرار رہے ۔ سیاسی جماعتوں اور ایسی تنظیموں کے مقاصد کو نہایت سنجیدگی اور پوری حساسیت کے ساتھ ہمارے نوجوانوں کو سمجھنا ہوگا تبھی جاکر وہ اپنے مستقبل کو تابناک بنانے کی سعی کریں گے ۔ یہ نہیں چاہتے کہ نوجوانوں کے ہاتھ میں قلم اور کتاب دی جائے، کیوں کہ وہ جانتے ہیں اگر ہمارے نوجوان تعلیم و تربیت سے آراستہ ہوگئے تو ہمارے لیے مشکل پیدا ہو جائے گی جن کا پورا سیاسی اقتدار نفرت و وتشدد پر قائم ہے ۔
اسلام کی تعلیمات اور اس کا آئینی و دستوری نظام ایک ایسے سماج کی تشکیل کرتاہے جس میں تمام کمیونٹی اور رنگ و نسل کے لوگ اعتقاد و ضمیر کی آزادی ، فکر و عقیدہ کی حریت کے ساتھ رہیں۔
اسلام تشدد کی اجازت کسی بھی کمیونٹی کے افراد کے ساتھ نہیں دیتا ہے ۔ امن و سکون اور اطمینان و اخوت اسلام کی تعلیمات کا بنیادی حصہ ہیں ۔ اسلام دیگر ادیان و مذاہب اور ان کی مقدس کتب و شخصیات کے احترام کا بھی قائل ہے ۔
اسلام کی تعلیمات اعتدال و توازن کی شانداعلامت ہیں۔ اسلام ہر اس نظریہ ، فکر اور رویوں کی سختی سے مخالفت و ممانعت کرتاہے جو معاشرے میں بد امنی ، عدم توازن اور تشدد کے حامی ہیں ، یا ایسے کرداروں کی جو ان کی پشت پناہی کررہے ہیں۔ اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ آج کا سماج ان تعلیمات اور روایتوں کو اپنے لیے نمونہ عمل بنائے جن سے معاشرے میں امن و خوشحالی آئے ۔
آج! نوجوان جس تیزی سے فکری ،عملی اور نظریاتی طورپر تشدد میں مبتلا نظر آرہے ہیں ان کا یہ کردار ہندوستان جیسے تکثیری سماج کے اعتبار سے بھی درست نہیں ہے ۔ اس لیے نوجوانوں کو تشدد کا شکار ہونے سے بچانا ہوگا ۔ نوجوانوں کو تشدد سے بچانے کے لیے ضروری ہے کہ جو نوجوان بے روزگار ہیں انہیں روزگار فراہم کیا جائے۔ بے روزگاری بھی ایک بڑی وجہ بن کر سامنے آرہی ہے جس کی وجہ سے بہت سارے نوجوان مایوسی کا شکار ہوکر غلط راستہ اختیار کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ اسی طرح ہمارے نوجوانوں کے سامنے پیہم مذہب کی غلط تعبیر و تشریح پیش کی جا رہی اور انہیں مذہب کا وہ تصور بتایا جارہا ہے جو مخصوص فکر سے وابستہ افراد کا وضع کردہ ہے ۔ اس وجہ سے بھی نوجوان تیزی سے تشدد جیسے گھناؤنے دلدل میں گررہے ہیں ۔ ضرورت ہے کہ نوجوانوں کو تشدد کا شکار ہونے سے بچایا جائے اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب کہ نوجوانوں کو تعلیم و تربیت سے وابستہ کیا جائے ان کے سامنے مذہب کی غلط تعبیر و تشریح نہ کی جائے ۔ انہیں ایسے لٹریچر و ادب کا شائق بنایا جائے جو صداقت و معقولیت اور امانت و دیانت کا سچا علمبردار ہو ۔ اس کے مرتبین کی فکر میں تعصب و تنگ نظری نہ پائی جاتی ہو، یا اس لٹریچر کو مخصوص ذہنیت سے وابستہ افراد نے ترتیب و تدوین نہ کیا ہو ۔ جب مکمل طور پر شفاف اور متوازن ماحول ہمارے نوجوانوں کو ملے گا اور پھر ان اس طرح کے پاکیزہ ماحول میں فکری و نظریاتی پرورش ہوگی تو یقیناً نوجوانوں کی زندگی میں تشدد و بربریت کا شائبہ تک نہیں پایا جائے گا ۔ ان کے نظام الاوقات مربوط ہو جائیں گے ۔ ان سے پھر وہی امور سرزد ہوں گے جن کی توقع ہر معاشرے کو کرنی چاہیے ۔ بر وقت ہمیں اپنے نوجوانوں کو خواہ ان کا تعلق کسی بھی نظریہ اور مذہب و دین سے ہو ہمیں انہیں پاکیزہ ماحول فراہم کرنے کی سعی کرنی ہوگی ۔ تبھی جاکر ہمارے معاشرے میں امن و امان کی فضا ہموار ہوگی ۔
----------------
URL: https://newageislam.com/urdu-section/growing-extremism-among-youth/d/134842
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism