گوہرملسیانی
12 نومبر 2021
اللہ تعالیٰ نے، خلیفۃ اللہ
ہونے کے ناطے بنی نوع انسان کی عظمت و عزت دیگر مخلوقات سے برتر ثابت کرنے کے لئے تزکیہ
کو اختیار کرنے پر زور دیا ہے۔
قرآنِ حکیم علم و حکمت کا
بحرِ بے کنار ہے۔ یہ وہ کتابِ مبین ہے جو ہدایت کا منبع اور معارف کا خزانہ ہے۔ اس
کا موضوع انسان ہے، اس کے مضامین و موضوعات انسانی زندگی کی کامیابی اور فلاح کی ترجمانی
کرتے ہیں۔ پھر اس کا دائرۂ کار وسیع سے وسیع تر ہوتا جاتا ہے۔ انفرادیت، اجتماعیت،
تصورات اور اعتقادات کی وضاحت کرتا ہے۔ وحدت اور مساوات کی صراحت کرتا ہے۔ اخلاقی اقدار
اور اعمال و افعال کی تطہیر کرتا ہے۔
تزکیۂ نفس کے حوالے سے یہ
امر ذہن نشین رہے کہ تزکیہ کے لغوی معنی پاکی، صفائی اور نشوونما کے ہیں۔ یعنی اپنے
آپ کو آلائشوں سے پاک صاف کرنا، نیکی کی نشوونما کرنا اور اس کو ترقی دینا ہے۔ مگر
قرآ نی مفہوم کے مطابق تزکیہ کے معنی نفس کو تمام ناپسندیدہ، مکروہ اور قبیح عناصر
سے پاک کرکے خداخوفی، نیکی اور تقویٰ جیسی خوبیوں سے آراستہ کرنا ہے۔ رذائلِ اَخلاق
سے بچنا اور فضائلِ اخلاق سے منور ہوکر بندگی ٔ خالقِ کائنات کو درجۂ کمال تک پہنچانا
ہے۔ اس کے احاطے میں کردار و اَطوار، اعمال و افعال اور مشاہدات و تجربات کے ساتھ ساتھ
احکامات کی تعمیل بھی آتے ہیں۔یہ تمام اُمور انسانی طاقت سے باہر نہیں۔ انسان انھیں
بہ رضا و رغبت اور بلاتردّد و کراہت انجام دے سکتا ہے۔ اس میں اشکال اور دقّتیں نہیں،
صرف تعلیماتِ قرآن سے محبت درکار ہے۔
اللہ تعالیٰ نے بنی نوع انسان
کی عظمت و عزت خلیفۃ اللہ ہونے کے ناطے دیگر مخلوقات سے برتر ثابت کرنے کے لیے تزکیہ
کو اختیار کرنے پر زور دیا ہے:’’یقیناًفلاح پا گیا وہ جس نے نفس کا تزکیہ کیا۔‘‘(الشمس
:۹)
قرآنِ حکیم کی تعلیمات میں
اس پر بار بار زور دیا گیا ہے۔ رب السمٰوات
والارض نے انبیائے کرام ؑ کو بھی تزکیہ کی تلقین کو اپنی تبلیغ کی اساس بنانے کا حکم
دیا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے سورۂ بقرہ
میں اس دعا کو بیان فرمایا، جو حضرت ابراہیم ؑ خلیل اللہ مانگ رہے تھے جس میں تزکیے
کا تذکرہ کیا ہے۔ یہ دراصل دعائے ابراہیمی ؑ ہے جس میں رسولِ اکرمؐ کی بعثت کی استدعا
ہے۔ حضرت ابراہیم ؑ اور ان کے فرزند ِ ارجمند حضرت اسماعیل ؑ مکہ مکرمہ میں اللہ کے
گھر کی دیوار اُٹھا رہے تھے اور دعا کرتے جاتے تھے: ’’اے ہمارے رب! ہم سے یہ خدمت قبول
فرما لے۔ تو سب کی سننے اور سب کچھ جاننے والا ہے۔ اے رب! ہم دونوں کو اپنا مسلم اور
مطیع فرمان بنا، ہماری نسل سے ایک ایسی قوم پیدا فرما جو تیری مسلم ہو، ہمیں اپنی عبادت
کے طریقے بتا، اور ہماری کوتاہیوں سے درگزر فرما، تو بڑا معاف کرنے والا اور رحم فرمانے
والا ہے۔‘‘ (البقرہ:۱۲۷۔۱۲۸)
یاد رکھئے یہ ایک برگزیدہ
رسول ؑ کی دلی کیفیات کی ربِ کائنات کے حضور التجائیں ہیں۔
یہ تمنائیں، آرزوئیں اور
ندائیں یہیں ختم نہیں ہوجاتیں بلکہ روح کی صدائیں بصد احترام ہوا کے دوش پر تڑپ اُٹھتی
ہیں۔ یہی حالت حضرت ابراہیم ؑ کی ہے۔ وہ استدعا کرتے ہیں:
’’اے ہمارے رب! ان لوگوں میں خود انہی کی قوم سے ایک ایسا رسول پیدا
فرما ، جو انہیں تیری آیات سنائے، ان کو کتاب اور حکمت کی تعلیم دے اور ان کی زندگیاں
سنوارے۔ تو بڑا مقتدر اور حکیم ہے۔‘‘ (البقرہ :۱۲۹)
یہ ہے سیدنا ابراہیم ؑ کی
خاتم النبیین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے پہلی دعا، جس میں تزکیے کے فرض کوا
دا کرنے کا بھی خصوصی ذکر ہے۔ گویا تعلیم ِ قرآن وہ حاصلِ تزکیۂ نفس ہے جس میں زندگی
سنوارنے، اخلاق، سخاوت، معاشرت، تمدن، سیاست غرضیکہ ہرچیز کو سنوارنا شامل ہے۔
محسنِ انسانیتؐ کی پوری حیات
ِ مبارکہ اس بات کا عملی نمونہ ہے کہ کس طرح
آپؐ نے اپنے صحابہ کرامؓ کی زندگیوں کا تزکیہ کیا، جہالت کی تاریکیوں سے نکال کر سپیدۂ
سحر کی طرح منور کیا، دلوں کو آلودگی سے پاک کیا اور رحم و کرم کی صفات سے متصف کیا۔
یہی تزکیہ کا عمل ہے جس نے صحابہ کرامؓ کو تقویٰ کے اعلیٰ معیار پر پہنچا دیا۔ اسی
پر تو خالقِ کائنات نے فرما دیا:
’’اسی طرح ہم نے تمہارے اندر تمہیں میں سے (اپنا) رسول بھیجا جو تم
پر ہماری آیتیں تلاوت فرماتا ہے اور تمہیں (نفسًا و قلبًا) پاک صاف کرتا ہے اور تمہیں
کتاب کی تعلیم دیتا ہے اور حکمت و دانائی سکھاتا ہے اور تمہیں وہ (اَسرارِ معرفت و
حقیقت) سکھاتا ہے جو تم نہ جانتے تھے۔‘‘ (البقرہ:۱۵۱)
یہ ایک فریضہ بھی ہے جو دیگر
فرائض کے ساتھ سونپا گیا۔ یہ سلسلہ خاتم النبیین حضرت محمدؐ سے شروع نہیں ہوا بلکہ
قبل ازیں بھی اللہ تعالیٰ نے انبیائے کرام ؑ کو تزکیۂ نفسِ انسانی کی ہدایت کی ہے۔
ذرا حضرت موسٰی کے تذکرے میں اس کام کو انجام دینے کے حکم پر غور کیجئے:
’’کیا آپ کے پاس موسٰی (علیہ السلام) کی خبر پہنچی ہے، جب ان کے رب نے طوٰی کی مقدّس وادی میں انہیں پکارا
تھا، (اور حکم دیا تھا کہ) فرعون کے پاس جاؤ وہ سرکش ہو گیا ہے، پھر (اس سے) کہو:
کیا تیری خواہش ہے کہ تو پاک ہو جائے، اور (کیا تو چاہتا ہے کہ) میں تیرے رب کی طرف
تیری رہنمائی کروں تاکہ تو (اس سے) ڈرنے لگے۔‘‘ (النازعات :۱۵۔۱۹)
ابن زید کہتے ہیں کہ قرآن
میں جہاں بھی تزکٰی کا لفظ استعمال ہوا ہے وہاں اس سے مراد اسلام قبول کرنا ہی ہے۔
چنانچہ وہ مثال میں قرآنِ مجید کی حسب ذیل تین آیات کو پیش کرتے ہیں:
’’اور یہ جزا ہے اس کی جو پاکیزگی
اختیار کرے‘‘(طٰہٰ :۷۶) یعنی
اسلام لے آئے۔ ’’اور تمہیں کیا خبر شاید کہ وہ پاکیزگی اختیار کرے‘‘ (عبس :۳) یعنی مسلمان ہوجائے، اور
’’حالانکہ آپ پر کوئی ذمہ داری (کا بوجھ) نہیں اگرچہ وہ پاکیزگی (ایمان) اختیار نہ
بھی کرے۔‘‘ (عبس : ۷) یعنی مسلمان نہ ہو۔
(تفہیم القرآن، جلدششم، ص ۲۴۲،
بحوالہ ابن جریر)
یہی وہ حکمِ ربانی ہے جو حضرت موسیٰؑ کو دیا گیا کہ تزکیے کی دعوت دو۔ اللہ تعالیٰ
کا ابر ِ لطف و کرم اہلِ ایمان پر ہمیشہ برستا رہا۔ یہ رحمت کی انتہا ہے کہ اللہ کے
بندے پاکیزہ و مصفا ہوجائیں۔ گناہوںکے دلدل سے بچ جائیں اور دنیا میں پھیلے کانٹوں
سے دامن بچاکر خوفِ خدا کو حرزِ جاں بنائیں اور اللہ تعالیٰ کے حضور سرخرو ہوں۔
اللہ تعالیٰ نے رسول کریم
صلی اللہ علیہ وسلم کو اس موقع پر مسلمانوں کے تزکیے کا حکم دیا جب مدینہ کے کچھ منافقین
سچے دل سے ایمان لے آئے۔ فرمایا:
’آپؐ ان کے اموال میں سے صدقہ (زکوٰۃ) وصول کیجئے کہ آپ اس (صدقہ)
کے باعث انہیں (گناہوں سے) پاک فرما دیں اور انہیں (ایمان و مال کی پاکیزگی سے) برکت
بخش دیں اور ان کے حق میں دعا فرمائیں، بیشک آپؐ کی دعا ان کے لئے (باعث ِ) تسکین ہے، اور اﷲ خوب سننے والا خوب جاننے والا
ہے۔‘‘ (التوبہ :۱۰۳)
کتنی رحمت و شفقت ہے کہ خالق
بنی نوع انسان اپنے بندوں کی تطہیر اور تزکیہ کا فریضہ اپنے رسولِؐ مقبول کو اس وقت بھی سونپتا ہے جب انسان ضلالت کی
راہ سے نکل کر منزلِ ہدایت کو پانے کے تمنائی ہوتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم
کو علم و حکمت کا خزانہ بنایا ہے۔ اس کی ہر آیت اہلِ ایمان کو ایسے ایسے جواہر عطا
کرتی ہے، جن میں ایسے ایسے انوار ہدایت چمکتے دمکتے ہیں، جن کی قدرومنزلت کا اندازہ
کرنا مشکل ہے۔ پھر ان کو عطا کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ اپنی محبت کا بھی اظہار کرتا ہے:
’’بیشک اللہ نے مسلمانوں پر بڑا احسان فرمایا کہ ان میں انہی میں سے
(عظمت والا) رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھیجا جو اس کی آیات انہیں سناتا ہے، ان کی زندگیوں کو
پاکیزہ بناتا ہے(تزکیہ کرتا ہے) اور ان کو کتاب (قرآن) اور دانائی (حکمت) کی تعلیم
دیتا ہے، حالاں کہ اس سے پہلے یہی لوگ صریح گمراہیوں میں پڑے ہوئے تھے۔۔‘‘ (آل عمران:۱۶۴)
یہ آیات قرآنِ حکیم میں
تین بار دہرائی گئی ہیں جن سے رسولِ اکرمؐ کے فریضۂ نبوت کی نشان دہی کی گئی ہے۔ سورۂ
جمعہ میں کچھ تبدیلی کے ساتھ تقریباً یہی الفاظ ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان آیات کی تکرار
سے بعثت ِ رسول مکرمؐ کی ضرورت اور اہمیت کو اُجاگر کیا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ منصبِ نبوت،
کارِ نبوت اور مقامِ نبوت کی بھی وضاحت کردی ہے کہ یہ کتابِ مبین، یہ صحیفۂ ہدایت
اور یہ متاعِ حکمت آپ کی پونجی ہے جسے آپ
کو بانٹنا ہے۔ علاوہ ازیں خالقِ ارض و سماوات
بندے کو خود بھی اپنا تزکیہ کرتے رہنے کی تلقین فرماتا ہے۔ مختلف اسلوب ہیں جن کے ذریعے ایک انسان تزکیہ کر
کے فلاح دارین حاصل کرسکتا ہے، بُرائیوں سے بچ سکتا ہے۔ مقصدِ تخلیق کو سمجھ کر اس
کو پورا کرنے کی سعی کرتا ہے۔ کائنات کا ہر انسان اپنا بوجھ خود اُٹھائے گا۔ کوئی بھی
اس کا بوجھ اُٹھانے والا نہ ہوگا۔ اللہ تعالیٰ ان باتوں کی وضاحت قرآنِ مجید میں مختلف
طریقوں سے بیان کرتا ہے اور انسان کو سمجھاتا ہے بلکہ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم
کو فرماتا ہے کہ ان کا تذکرہ کرو یہ ان کے لئے بہتر ہے۔
’’ اور کوئی اُٹھانے والا دوسرے
کا بوجھ نہ اُٹھائے گا اور کوئی بوجھ میں دبا ہوا اپنا بوجھ بٹانے کو کسی کو بلائے
تو کوئی اس میں سے کچھ نہ اُٹھائے گا اگرچہ قرابت دار ہی ہو۔ (اے پیغمبرؐ!) تم ان لوگوں
کو نصیحت کرسکتے ہو جو بن دیکھے اپنے پروردگار سے ڈرتے اور نماز قائم کرتے ہیں اور
جو شخص پاک ہوتا ہے اپنے ہی لئے پاک ہوتا ہے اور (سب کو) اللہ ہی کی طرف لوٹ کر جانا
ہے۔‘‘ (فاطر :۱۸)
12 نومبر 2021، بشکریہ: روز نامہ چٹان،
سری نگر
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic
Website, African
Muslim News, Arab
World News, South
Asia News, Indian
Muslim News, World
Muslim News, Women
in Islam, Islamic
Feminism, Arab
Women, Women
In Arab, Islamophobia
in America, Muslim
Women in West, Islam
Women and Feminism