نصیر احمد، نیو ایج اسلام
4 اپریل 2024
ملحدین یہ کہیں گے، کہ
خدا اور مذہب محض دل فریب افسانے ہیں، جو انسانوں نےوہ سب کچھ حاصل کرنے کے لیے
گڑھے ہیں،جو اب تک مذہب کے ذریعے حاصل کیا
جا سکا ہے۔ تاہم، اہل ایمان جانتے ہیں، کہ
اگر ایسا ہوتا تو اخلاقی اصولوں کو معیاری بننے میں کئی ہزار سال نہ لگتے۔ اس کی
وجہ شروع میں ہی فراہم کر دی جاتی۔
------
(Representative
Photo)
------
بلاشبہ ہر بڑا مذہب اور
تمام صحیفے کا بنیادی مقصدانسانوں کو
اخلاقی زندگی گزارنے کی تعلیم دینا ہے۔ مذہب انسان کو وہ بتاتا ہے، جو انسان خود
سے نہیں جان سکتے تھے، اسی لیے قرآن کی آیت 96:5 کہتی ہے، ’’ آدمی کو سکھایا جو نہ
جانتا تھا‘‘۔
عرب، جو ایک زمانے میں
بھولا بسرا، بکھرا ہوا قبائلی معاشرہ تھا، اسلام کے ایک اتحادی قوت کے طور پر
ابھرنے کے ساتھ ہی، وہاں ایک انقلابی تبدیلی ظاہر ہوئی۔ 80 سال کے ایک مختصر سے
عرصے میں، اس نے رومی سلطنت کو پیچھے چھوڑتے ہوئے، عروج کی ایک نئی داستان رقم کی، اور روئے زمین
کی سب سے بڑی طاقت بن کر ابھری ۔ مسلمانوں نےیہ عروج، تقریباً 80 سالوں میں حاصل
کر لیا،جسے حاصل کرنے میں رومیوں کو ایک
ہزار سال لگے تھے، اور اسی سے مذہب کی انقلاب پیدا کرنے والی طاقت نمایاں ہوتی ہے۔
جیسے جیسے رومی سلطنت کی
توسیع ہوئی ، رومیوں کو، اپنے بہت سے فرقوں اور پراسرار مذاہب سمیت، ایک چیلنج کا
سامنا کرنا پڑا۔ کیونکہ، انہیں ایک ایسے متفقہ مذہبی نظام کی ضرورت پیش آئی، جس
میں پوری آبادی کو متحد کرنے کی طاقت ہو۔ اپنے مربوط عقائد کے نظام اور چرچ کے
منظم ڈھانچے کی بدولت، عیسائیت نے اس مسئلے کا ایک حل پیش کیا۔ اس کے اندر، پوری سلطنت کو مذہبی طور پر متحد کرنے، اور
بادشاہ کو اپنی رعایہ پر زیادہ کنٹرول
دلانے کی صلاحیت موجود تھی ۔ شہنشاہ قسطنطین اول (r.
306-337)
نے 312 میں، ملوین برج کی لڑائی میں اپنی فتح کے بعد، عیسائیت قبول کی، جسے اس نے
عیسائی خدا سے منسوب کیا۔ اس پھیلتے ہوئے مذہب کو قبول کرنے سے نہ صرف اس کی طاقت
مضبوط ہوئی، بلکہ پوری سلطنت ایک مذہب کے تحت متحد بھی ہو گئی، جس سے مذہب کے
سماجی اور سیاسی اثرات بھی واضح ہوتے ہیں۔
یہ بات ناقابل تردید ہے،
کہ مذہب نے لوگوں کے بڑے گروہوں کے درمیان، تعاون کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا
کیا ہے۔ یہ تعاون ان مشترکہ اخلاقی اقدار پر مبنی ہے، جن کی بنیاد، اتحاد اور مشترکہ مقصد کا احساس پیدا کرتے
ہوئے، مذہب رکھتا ہے۔
جدید انسان کی تاریخ سے،
جس کا آغاز ایک اندازے کے مطابق، ستر ہزار سال پہلے "علمی انقلاب" سے
ہوا، ہمیں یہ معلوم ہے کہ،انسان اپنی دوسری انواع سے گھرا ہوا تھا، جو عددی اور
جسمانی طور پر بہت زیادہ مضبوط تھیں۔ جدید انسان اپنی ہی انواع کے باہمی تعاون سے
زندہ بچ سکا۔ ان کا اعتماد بڑھانے کے لیے، مشترکہ اقدار پر مبنی، ایک مشترکہ مذہب
کی سخت ضرورت تھی۔ ہم یہ بھی جانتے ہیں، کہ جدید انسان، انسانوں کی ہی دوسری نسلوں
کے ساتھ، مسلسل جنگ کرتا رہا، یہاں تک کہ انہوں
نے تقریباً دس ہزار سال پہلے، ہر دوسری نسل کو مکمل طور پر ختم کر دیا۔
دشمن نے دس ہزار سال پہلے تک، انہیں ایک مشترکہ مذہب کے ذریعے متحد رکھا۔ دشمن کے
فنا ہو جانے کے بعد، جدید انسان ایک دوسرے کے حسد سے کئی فرقوں/مذاہب میں بٹ گیا،
اور آپس میں ہی لڑنا شروع کر دیا۔
ساٹھ ہزار سال تک ایک
مشترکہ مذہب کے ساتھ متحد رہنے نے، ہر ایک کو ان اخلاقی اقدار کاامین بنا دیا، جن سے انہیں تعاون کو فروغ دینے اور اپنے
قبیلے کو محفوظ رکھنے میں مدد ملی۔ یہ اخلاقی اقدار انسان کی سرشت میں داخل ہو گئی
ہیں، اور آج تک تمام لوگوں میں زندہ ہیں، خواہ وہ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتے ہوں
، خواہ وہ ملحد ہی کیوں نہ ہوں۔ لہٰذا، یہ کہا جا سکتا ہے، کہ مذہب سے نکلنے والی اخلاقی قدریں اتنی ہی پرانی
ہیں، جتنا کہ خود جدید انسان ۔
ملحد مندرجہ بالا تمام
باتوں سے اتفاق کریں گے، لیکن کہیں گے، کہ مذہب انسانوں کا بنایا ہوا ہے۔ اس سے
سوال یہ پیدا ہوتا ہے، کہ انسانی کوششوں کے تمام مضامین، جیسے فلسفہ، ادب اور
نفسیات، ایک ہی اصل اخلاقی اصول وضع کرنے میں ناکام کیوں رہے ہیں؟ اخلاقی فلسفہ کا
کام اخلاقیات کے نظریات وضع کرنا ہے، تاکہ یہ سمجھا جا سکے کہ لوگ اخلاقی اصولوں
پر کیوں عمل کرتے ہیں۔ پھر بھی، ان نظریات میں سے کسی نے بھی کوئی نیا اخلاقی
ضابطہ پیش نہیں کیا، اور نہ ہی وہ ایسا کر سکتے ہیں۔ اخلاقی فلسفہ صرف اس بات کا
مطالعہ کرتا ہے جو موجود ہے، اور یہ کہ کن خصوصیات اور تعلقات کو اس سے منسوب کیا
جا سکتا ہے۔ اس میں سے کسی کا بھی مقصد کوئی نئی چیز پیش کرنا نہیں ہے۔
دوسری طرف، مذہبی
اخلاقیات کا کام قانون بنا، اور ان اخلاقی فرائض اور ذمہ داریوں کی تعلیم دینا ہے،
جن کی پیروی انسان کو ہر حال میں کرنی ہے۔ اس کا کام اصول و قواعد وضع کرنا ہے۔
مذہب کے ابتدائی اخلاقی اصول میں صرف اوامر و نواہی ہوتے تھے، اور ان کی دلیل صرف
بعد کے مذاہب ہی فراہم کرتے ہیں۔
لہذا ثبوت یہ ہے کہ:
1. قدیم ترین مذاہب نے بغیر کسی دلیل کے، صرف اصول وضع کیے، کیونکہ اس وقت دلیل ظاہر نہیں تھی،
اور لوگوں کی عقل سے ماوراء تھی۔ یہ اصول انسانوں کی عقل و فہم سے وراء ہیں، کیونکہ انسان اپنے احساسِ تحفظ کے پیش
نظر، جبلی طور پر، لالچی، بخیل، بے صبرا،
ناشکرا، جھگڑالو، حریص، حاسد، خوفزدہ اور متشکک رہا ہے۔ اپنی جان کی قیمت پر بھی
دوسروں کے حقوق کو تسلیم کرنے کی اخلاقی خوبیاں، انہیں ابھی سیکھنی باقی تھی۔ یہاں
تک کہ دوسروں کے حقوق کی تعلیم دیئے جانے کے بعد بھی، لوگ انہیں آسانی کے ساتھ نظر
انداز کر دیتے تھے، الا یہ کہ ان اخلاقی اصول و قواعد کی خلاف ورزی کی صورت
میں،کوئی بھاری قیمت نہ چکانی پڑے۔
2. بعد کے مذاہب محدود سطح پر دلیل فراہم کرنے لگے، کیونکہ صدیوں
تک ایک مذہبی فریضہ کے طور پر، ان اخلاقی اصول و
قواعد پر عمل کرنے کے بعد،انفرادی اور اجتماعی سطح پر اس کے فوائد ظاہر
ہونے لگے تھے۔اور لوگ اب سمجھ سکتے تھے، کہ کیوں انہیں ان باتوں کا حکم دیا گیا
ہے۔
3. اخلاقی فلسفہ نے اس عمل کو ایک قدم آگے بڑھایا، مروجہ اخلاقی
اصولوں کا جائزہ لیا گیا، ان کی وضاحت کے لیے اخلاقی نظریات وضع کیے گئے، جس سے
انھیں معیاری بنانے میں مدد ملی۔ یعنی، فلسفہ اخلاقی اصولوں پر عمل کرنے کی عقلی
توجیہ فراہم کرتا ہے۔
کیونکہ ابتدا میں یہ اخلاقی
ضابطے لوگوں کی عقل اور فہم و فراست سے ماواء تھے ، اس لیے ضروری تھا، کہ ان کا
نفاذ احکم الحاکمین (خالق کائنات) کرتا،
اور ان کی پیروی ایک مذہبی فریضہ کی شکل میں کی جاتی۔ کئی ہزار سال بعد،
فلسفے نے مذہب کے اخلاقی اصولوں کو معیاری بنانے میں مدد کی، جو سیکولر قوانین کی
بنیاد بنے۔ اب چونکہ اخلاقی اصول، عقل و استدلال کے ہتھیار سے لیس ہیں، اور یہ بھی
ایک حقیقت ہے کہ ان قوانین کو بغیر کسی سوال کے اب ہر انسان قبول کرتا ہے، اگرچہ
بڑی حد تک ان کی خلاف ورزی بھی کی گئی ہے، ملحدین کا سوال یہ ہوتا ہے ، "کیا انسان
خود ہی ان اصول وقوانین کو تیار نہیں کر سکتا تھا"؟ اگر ہاں، تو مذہب اور خدا
کی ضرورت ہی کیا تھی۔ تاہم، ہم یہ بھی جانتے ہیں، کہ مذہب نے پوری انسانی تاریخ
میں، بنی نوع انسان کی تمام عظیم ترین کامیابیوں میں کتنا بڑا کردار ادا کیا ہے۔
مذہب کے بغیر، انسان تہذیبی ترقی کی طرف ایک قدم بھی نہیں اٹھا سکتی تھی۔ اس کے
برعکس، اپنے طاقتور دشمنوں کا شکار ہو کر، جدید انسان جلد ہی معدوم ہو چکا ہوتا۔
ملحدین یہ کہیں گے، کہ
خدا اور مذہب محض دل فریب افسانے ہیں، جو انسانوں نےوہ سب کچھ حاصل کرنے کے لیے
گڑھے ہیں،جو اب تک مذہب کے ذریعے حاصل کیا
جا سکا ہے۔ تاہم، اہل ایمان جانتے ہیں کہ
اگر ایسا ہوتا تو اخلاقی اصولوں کو معیاری بننے میں کئی ہزار سال نہ لگتے۔ اس کی
وجہ شروع میں ہی فراہم کر دی جاتی۔
اس موضوع پر، میں نےپچھلی
دہائی میں لکھے گئے اپنے ذیل کے مضامین میں، تفصیل کے روشنی ڈالی ہے۔
1. Religion as a
Civilizing Influence
2. Science and Religion
3. The Progression from
Religious Morality to Secular Laws and the Danger of Regression of Religious
Morality into Bestiality
4. The “Natural Law of
Morality” Has Come From Religion
The
Contribution of Atheists to Moral Philosophy and the Practice of Morality
The need
for repetition is because atheists keep repeating their old arguments.
English
Article: God And Religion Are Not A Figment Of Our Imagination
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism