غلام رسول دہلوی، نیو ایج اسلام
3 جون2014
وحدت الوجود کا نظریہ اسلام کے تئیں انتہاء پسندانہ اور رجعت پسندانہ نظریات کے حامل لوگوں کے درمیان اختلاف و انتشار کی ایک بڑی وجہ رہا ہے۔ اس نظریہ کو اسلامی اصولوں کی روحانی اور صوفیانہ تشریحات میں غیر معمولی اہمیت حاصل رہی ہے۔ یہ نظریہ تصوف کے لیے اتنا اہم ہے کہ اسے تمام صوفی معمولات و معتقدات کی بنیاد سمجھا جا سکتا ہے۔
وحدت الوجود کا ما حصل
وحدت الوجود ایک عالمگیر اسلامی نظریہ ہے جس کے مطابق پوری کائنات کا ذرہ ذرہ ایک ہی ذات واحد کی عکاسی ہے۔ اس نظریہ کے مطابق کائنات رنگ و بو میں جو کچھ بھی موجود ہے ان سب کی حقیقت ایک ہی ہے یا وہ سب ایک ہی حقیقت کے مختلف مظاہر ہیں۔ لیکن اس باطنی صوفیانہ تصور کا مطلب یہ نہیں سمجھ لیا جائے کہ ذات باری تعالی کا احاطہ اس مادی اور حسی کائنات کی کسی شئی میں کیا جا سکتا ہے۔در اصل خدا کا وجود اور اس کی قدرت کاملہ مطلقہ بعینہ اسی طرح برقرار رہتی ہے جیسا کہ اسکی شان ہے، لیکن کائنات میں جو کچھ بھی موجود ہے وہ اس کی ذات وصفات اور وحدانیت کا آئینہ ہے ۔ وحدت الوجود کا اسلامی نظریہ اس بات پر زور دیتا ہے کہ صرف خدا ہی ہر جگہ حاضر و ناظر ہے اور تمام تر جمالیات اور پوری دنیا کا وجود اس کی ابدی خوبصورتی کا ایک ہلکا سا عکس ہے۔
اسی کے پیش نظر صوفیہ کا ماننا ہے کہ خدا کو کہیں بھی دیکھا جا سکتا ہے بشرطیکہ انسان کے اندر اس کے مشاہدہ کا حقیقی روحانی جذبہ موجزن ہو اور اس کے اندر لامحدود نور الہی کا سامنا کرنے کی زبردست صلاحیت موجود ہوجیسا کہ قرآن پاک میں بیان کیا گیا ہے:
"اللہ آسمانوں اور زمین کا نور ہے، اس کے نور کی مثال (جو نورِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شکل میں دنیا میں روشن ہے) اس طاق (نما سینۂ اقدس) جیسی ہے جس میں چراغِ (نبوت روشن) ہے؛ (وہ) چراغ، فانوس (قلبِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں رکھا ہے۔ (یہ) فانوس (نورِ الٰہی کے پرتَو سے اس قدر منور ہے) گویا ایک درخشندہ ستارہ ہے (یہ چراغِ نبوت) جو زیتون کے مبارک درخت سے (یعنی عالم قدس کے بابرکت رابطہ وحی سے یا انبیاء و رسل ہی کے مبارک شجرۂ نبوت سے) روشن ہوا ہے نہ (فقط) شرقی ہے اور نہ غربی (بلکہ اپنے فیضِ نور کی وسعت میں عالم گیر ہے) ۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس کا تیل (خود ہی) چمک رہا ہے اگرچہ ابھی اسے (وحی ربّانی اور معجزاتِ آسمانی کی) آگ نے چھوا بھی نہیں، (وہ) نور کے اوپر نور ہے (یعنی نورِ وجود پر نورِ نبوت گویا وہ ذات دوہرے نور کا پیکر ہے)، اللہ جسے چاہتا ہے اپنے نور (کی معرفت) تک پہنچا دیتا ہے، اور اللہ لوگوں (کی ہدایت) کے لئے مثالیں بیان فرماتا ہے، اور اللہ ہر چیز سے خوب آگاہ ہے۔ "(24:35)۔
اسلام کے دو بنیادی ذرائع قرآن کریم اور احادیث میں وحدت الوجود کے اس تصور کی جڑیں مضبوط ہیں۔جو لوگ وحدت الوجود کے حامیوں کو مشرک قرار دیتے ہیں انہیں مندرجہ ذیل شواہد کا گہرا مطالعہ کرنے کے بعد اپنے نقطہ نظر پر نظر ثانی کرنی چاہئے۔
قرآن پاک میں وحدت الوجود کا تصور
مندرجہ بالا آیت کو "آیت نور" کہا جاتا ہے جس نے ابتدائے اسلام سے ہی بے شمار صوفیوں کو متأثر کیا ہے۔ شہاب الدین سہروردی (12ویں عیسوی) اور ملا صدرا (16ویں عیسوی) جیسے چند مشہور و معروف صوفیہ نے آیات نور پر مبنی قرآن کی جامع اور وسیع تفاسیر تصنیف کی ہیں۔ مثال کے طور پر ملا صدرا کی تفسیر "تفسیر آیت النور" اس کی ایک شاندار مثال ہے۔
مندرجہ بالا آیت کے علاوہ ایسی بہت ساری قرانی آیتیں ہیں جن سے وحدت الوجود کے صوفیانہ نظریہ کی تائید و توثیق ہوتی ہے اور صوفیوں نے انہیں وحدت الوجود کے لیے تمثیلی اور باطنی ثبوت مانا ہے:
"وہی (سب سے) اوّل اور (سب سے) آخر ہے اور (اپنی قدرت کے اعتبار سے) ظاہر اور (اپنی ذات کے اعتبار سے) پوشیدہ ہے، اور وہ ہر چیز کو خوب جاننے والا ہے"۔ (قرآن 57:3)
"اور جسے (حکمت و) دانائی عطا کی گئی اسے بہت بڑی بھلائی نصیب ہوگئی"۔(قرآن 2:269)
" اے سپاہیانِ لشکرِ اسلام!) ان کافروں کو تم نے قتل نہیں کیا بلکہ اللہ نے انہیں قتل کر دیا، اور (اے حبیبِ محتشم!) جب آپ نے (ان پر سنگ ریزے) مارے تھے (وہ) آپ نے نہیں مارے تھے بلکہ (وہ تو) اللہ نے مارے تھے، "(انفال 8:17)۔
"اے حبیب!) بیشک جو لوگ آپ سے بیعت کرتے ہیں وہ اﷲ ہی سے بیعت کرتے ہیں، ان کے ہاتھوں پر (آپ کے ہاتھ کی صورت میں) اﷲ کا ہاتھ ہے" (فتح 48:10)۔
"اور بیشک ہم نے انسان کو پیدا کیا ہے اور ہم اُن وسوسوں کو (بھی) جانتے ہیں جو اس کا نفس (اس کے دل و دماغ میں) ڈالتا ہے۔ اور ہم اس کی شہ رگ سے بھی زیادہ اس کے قریب ہیں۔ (50:16) "۔
" تمہارے ساتھ ہوتا ہے تم جہاں کہیں بھی ہو"۔(57 : 4)
مندرجہ بالا تمام آیات خاص طور پر آخری آیت میں صوفیہ نے قرب الہی کو علم کے لحاظ سے قربت کے علاوہ تصور کیا ہے۔ بعض مفسرین قرآن نے یہ کہا ہے کہ اس آیت میں بندوں سے خدا کی مطلق قربت کو اس کے وسیع و عریض اور غالب علم کی صورت میں بیان کیا گیا ہے۔ مثال کے طور پر امام ابن کثیر مندرجہ بالا آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں: " اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ رات یا دن میں، زمین پر یا سمندر میں، گھر میں یا کھلے علاقے یا ریگستان میں تم جہاں کہیں بھی ہو اللہ تمہارے اعمال کا مشاہدہ کر رہا ہے۔ اس کے علم میں یہ تمام چیزیں یکساں ہیں اور اس کی زیر سماعت اور اس کی نگرانی میں ہیں۔ وہ تمہاری باتوں کو سنتا ہے اور تم جہاں کہیں بھی ہو تمہیں دیکھتا ہے۔"
اس بنا ء پر سلفیوں کا ماننا ہے کہ قران کی آیات میں قرب الہی کا جو ذکر ہے وہ ذات الٰہی کے معنیٰ میں نہیں بلکہ علم کے معنیٰ میں ہے۔ مشہور سلفی رہنما علامہ عبد العزیز بن عبداللہ بن باز اپنی کتاب " فتاوی ابن باز " میں لکھتے ہیں: " آیت ‘‘وَهُوَ مَعَكُمْ أَيْنَ مَا كُنتُمْ’’ کے تعلق سے سلف کا مذہب یہ ہے کہ "اللہ اپنے علم کے اعتبار سے " بندوں کے ساتھ ہے۔ یہ کوئی مجازی تشریح نہیں ہے بلکہ یہ اس آیت کا معنیٰ ہے جس میں معیت الٰہی (مخلوق سے خدا کی قربت) پر بحث کی جا رہی ہے۔
لیکن صوفیہ کا یہ ماننا ہے کہ یقیناًاللہ کا علم تمام حالات میں اس کی تمام مخلوق کا احاطہ کئے ہوئے لیکن بندے سے خدا کا تعلق صرف اس کے علم تک ہی محدود نہیں ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ مندرجہ بالا آیت کا تعلق خدا اور اس کے محبوب بندوں کے درمیان خصوصی تعلق (وصال الہی) سے ہے۔ اگر چہ قربت الہی کی حقیقت اور کیفیت ہمیں معلوم نہیں ، لیکن اللہ کے محبوب بندوں اور اللہ کے درمیان اس خصوصی تعلق کا وجود ضرور ہے، اگر چہ وہ احاطہ ء بیان سے باہر اور کیفیت سے پرے ہے۔ خدا کے ساتھ اس خصوصی قربت سے متعلق اپنے عقیدے کو ثابت کرتے ہوئے جس کی تائید مندرجہ بالا آیات سے بھی ہوتی ہے، صوفیاء مزید حوالہ میں یہ آیت پیش کرتے ہیں:"واسجدی واقترب" (اور سجدہ میں جھک جاؤ اور قربت حاصل کرو، العلق آیت :18) ۔ اس آیت کی وضاحت میں وہ مستند احادیث نبوی پیش کرتے ہیں مثلاً ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کہ : "ایک بندہ اپنے رب سے سب سے زیادہ قریب اس وقت ہوتا ہے جب وہ سجدہ میں ہوتا ہے لہٰذا (حالت سجدہ میں) بکثرت دعائیں کیا کرو"
صوفیہ کے مطابق خدا کی اس کی مخلوقات سے قربت کے متعلق قرآنی آیات کو چار خانوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے:
(1) خدا کی اس کی مخلوقات سے قربت فطری طور پر ہے۔ اس لیے کہ اللہ عز و جل اپنی تمام مخلوق کے قریب ہے:
"اور (اے حبیب!) جب میرے بندے آپ سے میری نسبت سوال کریں تو (بتا دیا کریں کہ) میں نزدیک ہوں، میں پکارنے والے کی پکار کا جواب دیتا ہوں جب بھی وہ مجھے پکارتا ہے۔ " (2:186)
(2) قران کی آیات سے یہ ثابت ہے کہ ایک انسان سے دوسروں کے مقابلے میں خدا زیادہ قریب ہے:
" اور ہم اس (مرنے والے) سے تمہاری نسبت زیادہ قریب ہوتے ہیں لیکن تم (ہمیں) دیکھتے نہیں ہو ۔ " (56:85)
(3) قرآنی آیات سے یہ ثابت ہے کہ خدا انسانوں سے اس کی شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے:
"اور بیشک ہم نے انسان کو پیدا کیا ہے اور ہم اُن وسوسوں کو (بھی) جانتے ہیں جو اس کا نفس (اس کے دل و دماغ میں) ڈالتا ہے۔ اور ہم اس کی شہ رگ سے بھی زیادہ اس کے قریب ہیں۔ "(50:16)
(4) قرآن میں ہے کہ خدا انسانوں کی جان سے خود اس سے زیادہ قریب ہے:
"اے ایمان والو! جب (بھی) رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمہیں کسی کام کے لئے بلائیں جو تمہیں (جاودانی) زندگی عطا کرتا ہے تو اللہ اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرمانبرداری کے ساتھ جواب دیتے ہوئے (فوراً) حاضر ہو جایا کرو، اور جان لو کہ اللہ آدمی اور اس کے قلب کے درمیان (شانِ قربتِ خاصہ کے ساتھ) حائل ہوتا ہے۔"(8:24)
قرآن کی تمام مندرجہ بالا آیات کی روشنی میں وحدت الوجود کا صوفی نظریہ بالکل واضح اور مدلل ہے جو کہ اس بات پر زور دیتا ہے کہ: مخلوق کو اس کے خالق کے ساتھ ایک خصوصی قربت حاصل ہے اگرچہ اس کی حقیقت اور نوعیت ہر کسی کی سمجھ میں نہیں آسکتی۔
(انگریزی سے ترجمہ: مصباح الہدیٰ، نیو ایج اسلام)
نیو ایج اسلام کے مستقل کالم نگار، غلام رسول دہلوی تصوف سے وابستہ ایک عالم اور فاضل (اسلامی سکالر ) ہیں۔ انہوں نے ہندوستان کے معروف صوفی اسلامی ادارہ جامعہ امجدیہ رضویہ (مئو، یوپی، ہندوستان ) سے فراغت حاصل کی، الجامعۃ اسلامیہ، فیض آباد، یوپی سے قرآنی عربی میں ڈپلوما کیا ہے، اور الازہر انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک اسٹڈیز بدایوں، یوپی سے علوم الحدیث میں سرٹیفیکیٹ حاصل کیا ہے۔ مزید برآں، انہوں نے جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی سے عربی (آنرس) میں گریجویشن کیا ہے، اور اب وہیں سے تقابل ادیان ومذاہب میں ایم اے کر رہے ہیں۔
URL for English article:
https://newageislam.com/islamic-ideology/the-islamic-doctrine-wahdat-ul-part-1/d/87332URL for this article:
https://newageislam.com/urdu-section/the-islamic-doctrine-wahdat-ul/d/87397