غلام رسول دہلوی، نیو ایج اسلام
12 ستمبر، 2014
افسوس ناک صورت حال
مقام حیرت وافسوس ہے کہ آج انتہا پسند، تشدد پرست اور دہشت گرد وہابی تنظیموں کے مولوی حضرات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض اقوال و افعال اور احادیث کا مبینہ طور پر غلط استعمال کر کے عالمی سطح پر اسلام کے خلاف شکوک وشبہات پیدا کر ہے ہیں، مذہبی منافرت پھیلا رہے ہیں، مسلم ممالک میں افراتفری مچا رہےہیں، عدم رواداری کو فروغ دے رہے ہیں، تشدد بھڑکا رہے ہیں اور خواتین واطفال سمیت بے گناہ مسلم وغیر مسلم شہریوں کے قتل کا جواز بھی پیش کر رہے ہیں، اور بھی قرآن وحدیث کی روشنی میں!
اگر ان کی پیش کردہ موضوع ومن گھڑت احادیث یا صحیح احادیث کی غلط تشریحات کا دائرہ صرف ان کی کتابوں تک ہی محدود ہوتا تو ہم ان انتہا پسندوں کی تحریف کو علمی خیانت سمجھ کر تأسف کا اظہار کرلیتے، لیکن طالبان، داعش اور القاعدہ جیسے جدید خوارج کے دہشت گردانہ مظالم کی فقہی تائید میں ان کی یہ علمی شرارت ہمیں بے چین کردیتی ہے کہ ہم بحیثیت مسلمان اسلام کے ان دانا دشمنوں کا علمی تعاقب کریں۔
حال ہی میں حقیر راقم السطور کو اس وقت ایک زبردست دھچکا پہنچا جب سوڈان میں ایک غالی ومتشدد سلفی عالم دین محمد الجزولی نے جمعہ کے اپنے خطبہ میں ایک اشتعال انگیز بیان دیتے ہوئے یہ کہا کہ: "اسلام میں جنگجوؤں اور عام شہریوں کے درمیان کوئی امتیاز نہیں ہے لہٰذا مسلح حملوں میں کافر عورتوں اور بچوں کو نقصان پہنچانا جائز ہے اور یہاں تک کہ انہیں ہلاک کرنا بھی جائز ہے"۔ ماخذ:
مزید حیرانی اس وقت ہوئی جب ان کی اس اشتعال انگیز تقریر کے اختتام پر حاضرین نے بلند آواز میں یہ نعرے لگائے: "اللہ اکبر، اللہ اکبر"۔
کیا کوئی ان لوگوں کی حماقت کا اندازہ کر سکتا ہے جو اپنے ہی مذہب کی روح نکالنے پر آمادہ ہوں! نعوذ باللہ من ذالک!
انتہا پسند ملا اعتدال پسند علماء اہل سنت کی کوششوں کو ضائع کر رہے ہیں
اس المناک واقعے سے اس بات کا اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ بڑھتی ہوئی انتہا پسندی کی روک تھام کے لیے اعتدال پسند اور امن پسند مسلمانوں اور بالخصوص علماء اہل سنت کی کوششوں کو مٹھی بھر انتہاپسند مولوی ملا کس طرح سبوتاژ کر رہے ہیں۔ دراصل یہ لوگ مذہبی تشدد اور انتہاپسندی کا بازار گرم کرنے میں مختلف محاذوں پر شب وروز سر گرم عمل ہیں۔ تقریبا تمام انتہاپسند ملاوں کی طرح الجزولی نے بھی نہ صرف اسلامی تعلیمات سے متضاد اپنے قابل مذمت خیالات کی بے سروپا تبلیغ کی، بلکہ حدیث نبوی کوغلط تشریح کے ساتھ بے محل استعمال کر کے عالمی میڈیا میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی پرامن شبیہ کو داغدار کرنے کی کوشش کی۔ ایک مذموم مقصد کے تحت الجزولی نے اپنے خطاب میں ایک حدیث کو نقل کیا جس کا پس منظر بالکل مختلف اور غیر متعلق ہے۔ حدیث کے الفاظ یہ ہیں:
عَنِ الصَّعْبِ بْنِ جَثَّامَةَ قَالَ سُئِلَ النَّبِيُّ صَلَّی اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الذَّرَارِيِّ مِنَ الْمُشْرِکِينَ يُبَيَّتُونَ فَيُصِيبُونَ مِنْ نِسَائِهِمْ وَذَرَارِيِّهِمْ فَقَالَ هُمْ مِنْهُمْ۔
حضرت صعب بن جثامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے شب خون میں مشرکوں کے بچوں اور عورتوں کے بارے میں پوچھا گیا جو شب خون میں مارے جاتے ہیں کہ ان کا کیا حکم ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا وہ بھی انہی میں سے ہیں۔
اس حدیث کو بالکل ہی غلط سیاق و سباق میں اور بدنیتی کے ساتھ پیش کرتے ہوئے اس انتہا پسند سلفی عالم نے یہ کہا کہ:
"جب مجھے اس حدیث کے بارے میں معلوم ہوا تو بے انتہا خوشی ہوئی۔ ابن جثامہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کہاکہ جب مسلمان رات کے وقت مشرکین پر حملہ کریں گے تو اس سے عورتوں اور بچوں کو بھی نقصان پہنچے گا۔ اس پر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا: وہ ان ہی میں سے ہیں۔ یہ محض کسی کی رائے زنی نہیں ہے، بلکہ قول رسول ہے۔ لہٰذا غیر مسلموں کی عورتوں اور بچوں کو قتل کرنا جائز ہے۔ "
جہادیوں کی غلط تشریحات کے خطرناک مظاہر
مندرجہ بالا واقعہ میں الجزولی کی غلط تشریح حدیث کی مذموم کوشش سے دو پریشان کن حقائق کا پتہ چلتا ہے۔ اول، بیرون ممالک مساجد میں اشتعال انگیز تکفیری تقریروں کا خطرہ بڑی تیزی کے ساتھ بڑھ رہا ہے، اس لیے کہ مساجد کی کمیٹیاں اعتدال پسند اور صحیح عقائد وافکار کے حامل اماموں کی تقرری کرنے کی اپنی ذمہ داری کو بخوبی نبھانے میں اب تک ناکام ہیں۔ ہر روز ایک بڑی تعدادمیں مسلمان پنج وقتہ نمازوں کے لئے مساجد کا رخ کرتے ہیں، لیکن انتہاپسند وہابی ائمہ ومقررین اس موقع کا فائدہ اٹھا کر انہیں اسلام کے نام پر مسلمانوں اور غیر مسلموں کو نقصان پہنچانے کے خطرناک تکفیری نظریات کی تعلیم دیتے ہیں۔
دوم، انتہا پسند ہمیشہ ایسے تمام اسلامی کتب اور ماخذ و مراجع کی تلاش میں لگے رہتے ہیں جنہیں وہ اپنےگھناؤنے مقاصد کے حصول میں استعمال کر سکیں۔ شہریوں کے بے دریغ قتل کا جواز پیش کرنے کے لیے الجزولی کا مندرجہ بالا حدیث کا حوالہ پیش کرنا ہی اس کی ایک مثال نہیں۔ اس سے کہیں زیادہ تکفیری وہابی نظریات کے حامل متشددین ایک طویل عرصے سے ان احادیث کا حوالہ پیش کر رہے ہیں اور ان کی غلط تشریح کر رہےہیں۔
حال ہی میں ایسی ہی ایک شر انگیز مثال ایک پاکستانی فوجی آفیسر اور ایک طالبانی مولوی کے درمیان ایک پر جوش نظریاتی بحث (یا مناظرہ) میں دیکھنے کو ملی۔ طالبانی مولوی نے دیوبندی مکتب فکرکے دو اہم اکابر ہندوستان کے مولانا حسین احمد مدنی اور پاکستان کے مفتی نظام الدین شامزی کے فتووں کا حوالہ دے کر اعتدال پسند شیعہ و سنی مسلمانوں اور پاکستانی فوجیوں کے بے دریغ قتل کو جائز قرار دیا۔ انہوں نے سیاق و سباق سے بالکل ہٹ کر بغیر کسی مفہومی مطابقت کے قرآن و حدیث کا بھی غلط حوالہ پیش کیا۔ جب پاکستانی اہلکار نے اس سے یہ سوال کیاکہ تم پاکستان کے اعتدال پسند مسلمانوں کو قتل کرنے کے درپے کیوں ہو؟ تو اس نے یہ جواب دیا کہ: "جو شخص بھی مذہبی امور میں ہم سے اتفاق نہیں رکھتا اسے قتل کرنا ہمارا فریضہ ہے"۔
آئیے اب اس واقعہ پر ایک نظر ڈالیں کہ کس طرح طالبانی مولوی بے گناہ مسلمانوں اور غیر جنگجو غیر مسلموں کے بے دریغ قتل کا جواز پیش کرنے کےلیے قرآن اور حدیث کا غلط استعمال کرتے ہیں۔ یہ ایک پاکستانی فوجی آفیسر اور ایک طالبانی مولوی کے درمیان ہونے والی ریڈیائی گفتگو تھی۔ میں دردمند اور ذی شعور مسلمانوں کو حقیقت حال سے آگاہ کرنے کے لئے ویڈیو کے بعض اقتباسات ذیل میں نقل کر رہا ہوں، جن سے یہ واضح ہوجائے گا کہ جدید خوارج اور تکفیری وہابی جماعتیں کس طرح بڑے پیمانے پر اسلام کی عظمت اور تکریم انسانیت کے لئے سب سے بڑا خطرہ ہیں۔ یہ اقتباسات ان بعض علماء کرام کےلیے بھی چشم کشا ہوں گے جنہوں نے اب تک اس حقیقت کا ادراک نہیں کیا ہے یا جو صرف اس غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ اسلام کو محض غیروں سے ہی خطرہ ہے۔ اب آئیے اپنے ماتھے کی نگاہوں سے ملاحظہ فرمائیے کہ مسلمانوں کے ہی درمیان پنپنے والا ایک انتہا پسند طبقہ اسلام کو کس طرح توڑ مروڑ کر پیش کر رہا ہے:
پاکستانی فوجی آفیسر طالبانی مولوی سے: مجھے یہ بتائیں کہ افغانستان میں آپ نے گیارہ سالہ جنگ کی یہودیوں اور عیسائیوں کے پیسوں سے۔ آپ لوگ اگر کفار سے پیسے لیں تو وہ جائز ہو جاتا ہے اور اگر کوئی اور لے تو وہ گناہ کا مرتکب اور واجب القتل ہوجاتا ہے۔
طالبانی مولوی: کافروں سے جو امداد لینے کا مسئلہ ہے یہ ایک اختلافی مسئلہ ہے۔ کافر سے کافر کے خلاف امداد لینے کا الگ مسئلہ ہے۔ لیکن کافر سے امداد لے کر مسلمانوں کو قتل کرنے کا مسئلہ بالکل متفق علیہ ہے۔ جو کوئی بھی کافر سے امداد لے اور مسلمانوں کو قتل کرے وہ مرتد ہو جاتا ہے۔ شیخ الاسلام سید محمد حسین احمد مدنی کا فتوی اس سلسلے میں موجود ہے۔ اور ان سے پہلے جو علماء گزرے ہیں مثلا مفتی نظام الدین شامزی رحمۃ اللہ علیہ جن کو آپ لوگوں نے شہید کیا ہے ان کا فتوی بھی موجود ہے۔ اور لال مسجد والوں کا فتوی بھی اس سلسلے میں موجود ہے۔ اگر علماء کے فتاوی آپ کے لئے کافی نہ ہوں تو اور کوئی چیز ہم استعمال نہیں کرسکتے۔
پاکستانی فوجی آفیسر: اچھا، تو جو علماء آپ کے حق میں فتاوی دیں تو وہ بالکل ٹھیک ہیں۔ لیکن مولانا حسن جان جیسے جو علماء آپ کے خلاف فتوی دیں تو آپ لوگ ان کو قتل کردیتے ہیں۔ مولانا سرفراز نعیمی لاہور والے (سنی عالم دین) کو آپ نے قتل کردیا کیوں کہ انہوں نے آپ کے خلاف فتوی دیا۔ اور تو اور آپ کے خلاف امام کعبہ کا بھی فتوی ہے۔ اب اگر آپ امام کعبہ کو بھی ماننے سے انکار کریں تو پھر ہم صرف دعا ہی کرسکتے ہیں کہ اللہ آپ لوگوں کی آنکھیں کھولے! امام کعبہ نے فتوی دیا ہے کہ خود کش حملے اسلام میں سخت منع اور حرام ہیں۔ اب آپ امام کعبہ کا فتوی بھی نہیں مانیں گے؟
طالبانی مولوی: بالکل! ہم امام کعبہ کو گمراہ سمجھتے ہیں۔ ہم اسے ‘‘درباری ملا’’ سمجھتے ہیں۔ اسے طاغوت کا غلام سمجھتے ہیں۔ جن حضرات کے آپ نے نام لئے ہیں جیسے سرفراز نعیمی، یہ پتہ نہیں کون سا نعیمی تھا، ہم ان سب کے قتل کی ذمہ داری قبول کرتے ہیں۔ اور اس طرح آئندہ جو لوگ ہوں گے، ان شاء اللہ ہم ان کو بھی قتل کرتے رہیں گے-چاہے تو سمجھو، چاہے تو نہ سمجھو! نہ سمجھنے والوں کے لئے ہم نے، الحمد للہ، انتظام کیا ہوا ہے۔ اگر اللہ کا قرآن اور اللہ کے رسول کی احادیث تمہارے لئے کافی نہیں ہیں تو اس کا انتظام ہم نے کیا ہوا ہے، الحمد للہ!
پاکستانی فوجی آفیسر: اچھا، تو آپ یہ کہ رہے ہیں کہ جو لوگ بھی آپ سے اختلاف کریں گے آپ ان کا قتل کردیں گے، جب کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہے کہ دوسروں کے جھوٹے خدا کو بھی برا بھلا مت کہو، کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ تمہارے سچے خدا کو برا بھلا کہیں (نوٹ: یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث نہیں بلکہ قرآن کریم کی آیت ہے: ‘‘ولا تسبوا الذین من دون اللہ فیسبوا اللہ عدوا بغیر علم’’)
یہ پہلی حدیث تھی، دوسری حدیث یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت خالد بن ولید کو ایک قبیلہ کی طرف دعوت دینے کے لئے بھیجا۔ وہاں پہ جاکر حضرت خالد بن ولید نے جب انہیں اسلام کی دعوت دی، تو وہ سہی سے نہیں کہ سکے کہ ہم نے اسلام قبول کیا۔ غلط فہمی میں حضرت خالد بن ولید ان لوگوں کو قتل کرنا شروع کردیا۔ جب حضور پاک تک یہ خبر پہنچی کہ خالد نے ان لوگوں کو اس لئے قتل کردیا کیوں کہ وہ کلمہ نہیں پڑھ رہے تھے تو حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم روتے ہوئے کھلے آسمان نے نیچے آئے اور اپنے دونوں ہاتھوں کو آسمان کی طرف بلند کرکے یہ دعا فرمائی کہ ‘‘یا اللہ میں (محمد) اس عمل سے بری ہوں۔ یہ میرا عمل نہیں ہے۔ یہ خالد کا ذاتی عمل ہے اور میرا اس میں کوئی عمل دخل نہیں ہے۔ میں نے ایسا کوئی حکم نہیں دیا کہ کوئی کلمہ نہ پڑھے تو اسے قتل کردو۔’’ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دوسرے صحابی کو بھیج کر اسکا خون بہا ادا کیا جس کا قتل کیا گیا تھا۔ اس حدیث سے یہ واضح ہے کہ کوئی کلمہ نہ بھی پڑھے تب بھی اس کا قتل جائز نہیں۔ آپ لوگ تو ان کو قتل کررہے ہیں جو کلمہ پڑھ پڑھ کر آپ کو بتا رہے ہیں کہ ہم مسلمان ہیں۔ میں تو کہوں گا کہ آپ لوگ گمراہی کی سب سے گندی جگہ پہ بیٹھے ہوئے ہو۔
طالبانی مولوی: جو دلیلیں آپ اس وقت مجھے بیان کررہے ہیں وہ کفار کے لئے ہیں۔ خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کا جو واقعہ آپ مجھے بیان کررہے ہیں اس میں تو یہی دلیل ہے کہ وہ جانتے ہی نہیں تھے کہ اسلام کے لئے انہیں کون سا کلمہ استعمال کرنا ہے۔ جب کہ آپ لوگوں کی تو پوری عمر مسلمانوں کی درمیان گزری ہے۔ پوری عمر تم لوگ مسلمانوں کو یہ دھوکہ دیتے رہے ہو کہ تم مسلمان ہو۔ آپ لوگ تو اچھی طرح جانتے ہو ان باتوں کو۔ شریعت کو جانتے ہوئے شریعت کا مذاق بنارہے ہو۔ تو کیسے خالد بن ولید کا واقعہ بطور دلیل پیش کر رہے ہو؟ یہ تو وہ لوگ تھے جو ‘‘اسلمنا’’ کی جگہ ‘‘صبانا’’ کہتے تھے۔ وہ تو اس لئے کہتے تھے کیوں کہ وہ تو سمجھتے ہی نہیں تھے۔ لیکن تم لوگ تو ان باتوں کو سمجھتے ہو۔ کلمہ پڑھتے ہو تو کلمہ پر عمل بھی کرنا چاہئے۔ اور رہی یہ بات کہ ‘‘ولا تسبوا الذین من دون اللہ فیسبوا اللہ عدوا بغیر علم’’۔ یہاں یہ بات اس لئے کہی جارہی ہے کہ وہ لوگ تمہارے اللہ کو دشمنی میں گالی دیں گے۔ لیکن تم تو ان مشرکین میں سے نہیں ہو جو اللہ کو دشمنی میں گالیاں دوگے۔ تمہیں تو یہ سب معلوم ہے۔ تم کیوں ان اصلی کافروں کے دلائل کو اپنے اوپر فٹ کرتے جارہے ہو۔ یہ تو تمہاری اپنی غلطی ہے کہ تم اپنے آپ کو اصلی کافر سمجھ لگے ہو۔ ہم تو یہ کہتے ہیں کہ تم مسلمانوں کے بچے ہو، مسلمانوں کے گھروں میں پیدا ہوئے ہو، مگر تم اپنے اعمال کی وجہ سے مرتد ہو گئے ہو۔ بس ہماری درخواست یہی ہے۔ اب تم ہمیں گمراہ کہو یا کچھ بھی کہو، ہمیں ان باتوں کی پرواہ نہیں ہے۔
پاکستانی فوجی آفیسر: میں تو کلمہ پڑھ رہا ہوں ‘‘لا الہ إلا اللہ محمد رسول اللہ’’۔ جو شخص کلمہ پڑھے اور اسے دل سے نہ مانے اسے کافر نہیں منافق کہتے ہیں۔ یہ بات تو آپ کو بھی اچھی طرح معلوم ہے ۔ آپ ایک دوسرے کو گمراہ کرنے کی کوشش نہ کریں۔ اسے منافق کہتے ہیں مرتد نہیں۔ مرتد اس کو کہتے ہیں جو کلمہ پڑھ کے دوبارہ یہ کہے کہ میرا اللہ پر ایمان نہیں ہے یا میرا رسول پر ایمان نہیں ہے۔ جو شخص کلمہ پڑھ کر اس پر عمل نہ کرے اس کو منافق کہتے ہیں، مرتد نہیں۔ہم ایک بار پھر کلمہ پڑھتے ہیں: ‘‘لا الہ إلا اللہ محمد رسول اللہ’’۔ اب آپ مجھے یہ بتائیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی پوری زندگی میں کسی ایک شخص کو بھی یہ کہ کر قتل کیا کہ یہ شخص منافق ہے؟
پاکستانی فوجی آفیسر:آپ کے جو بڑے لیڈر صاحبان ہیں وہ سینا تان کر کہتےہیں کہ تحریک طالبان لاہور میں اسکول کے بچوں کے حملے کی ذمہ داری قبول کرتی ہے۔ آپ لوگ یہ کیا تماشہ کرتے ہیں ؟
طالبانی ملا:سامراکے دھماکے کی ذمہ داری الحمد للہ ہم قبول کرتےہیں ۔ اس لئے کہ وہ فوجیوں کا اسکول ہے ۔ اور اگر اس میں بچے مارے گئے ہیں تو ظاہر ہے بڑوں کو مارتے وقت بچے بھی مرتے ہیں ۔ اور اس سے پہلے میں اصول فقہ کا قانون بتا چکا ہوں کہ ہدف اصل ہوتا ہے، نیت کا اعتبار ہوتا ہے۔ ورنہ تو جنگ کرنے کی کہیں ضرورت نہیں ہے۔ رسول ﷺ کا عمل اگر آپ لوگوں کے لئے حجت اور دلیل ہے تو آپ ﷺ نے غزوۃالطائف میں پورے علاقے میں پانی چھوڑ دیا تھا اور منجنیق ان کے اوپر فٹ کی تھی ۔ ظاہر سی بات ہے وہاں بچے بھی مارے گئے اور عورتیں بھی ماری گئیں۔ اور اسی طرح صعب بن جثامہ رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے جس میں آپ ﷺ ارشاد فرماتے ہیں کہ فلاں قبیلے میں جاؤ اور ان پر شب خون مارو، تو صحابہ نے کہا یا رسول اللہ ﷺ"فیھم نسائھم و ذراریھم " ان میں ان کی عورتیں بھی ہیں اور بچے بھی ۔ تو رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: "ھم منھم " کہ وہ بھی انہیں میں سے ہیں ۔ اس لئے سامرا میں ہم نے جو کام کیاہے، اس پر ہم فخر کرتے ہیں کہ ہم نے فوجیوں کے اسکولوں کو تباہ کیا۔
قارئین کرام، دیکھا آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی امن نواز شخصیت کی بے حرمتی کرنے کی اپنی قبیح کوشش میں انتہا پسند وہابی عالم الجزولی ہی کی طرح اس طالبانی مولوی نے بھی کس طرح مذکورہ حدیث کا بے محل اور غلط حوالہ پیش کیا۔
مرکزی دھارے میں شامل اعتدال پسند علماء کی ذمہ داری
مذکورہ ریڈیائی مناظرہ سے ظاہر ہے کہ پاکستانی فوجی اہلکار اسلامی علوم میں اتنا ماہر نہیں تھا کہ وہ طالبانی مولوی کی بے بنیاد دلیلوں کی بطریق احسن تردید کرپاتا۔ تاہم، جب اس نے تمام پاکستانیوں کو کافر قرار دیتے ہوئے ان کی عورتوں اور بچوں کے قتل کا جواز اپنے علماء کے فتاوی اور احادیث کی غلط تشرح کے ذریعہ کرنے کے کوشش کی، تو فوجی آفیسر نے نہ صرف اس کے متشددانہ نظریات کی نفی کی بلکہ اپنے مبلغ علم کے مطابق ان کا علمی رد بھی کرنا چاہا۔
تاہم سوال یہ ہے کہ اس پریشان کن صورت حال میں سواد اعظم سے وابستہ امن پسند علماء کرام اور مسلم دانشوروں پر کیا ذمہ داری عائد ہوتی ہے؟ کیا وہ کتب دین اور اسلامی مصادر و ماخذ کو مسخ کیے جانے پر خاموش تماشائی بنے رہیں گے یا اس کی علمی وفقہی اور عقلی تردید بھی فرمائیں گے؟ افسوس کی بات ہے کہ انتہا پسند وہابی مولوی حضرات بڑی تیزی کے ساتھ قرآن و سنت میں تحریفات اور ان کی غلط تشریحات کو مسلم نونہالوں میں پھیلا رہے ہیں، جبکہ علمی دلائل و براہین کے ساتھ مضبوط مذہبی بنیادوں پر ان کی تردید میں اب تک ہم کوئی قابل ذکر کام نہیں کر سکے ہیں۔
ان احادیث کی صحیح ترجمانی جنہیں جہادیوں نے غلط طریقے سے پیش کیا ہے:
جہاں تک صعب بن جثامہ رضی اللہ عنہ کی مندرجہ بالا روایت کا تعلق ہے تو یہ مکمل طور پر ایک منسوخ حدیث ہے، جونا تو اس دور میں قابل نفاذ ہے اور نہ ہی اس دور میں کوئی اس کی عملی افادیت (practical application) ہے۔ اس کا ایک مخصوص پس منظر ہے کہ جب صحابہ کرام نے خطرے میں پڑی اپنی زندگیوں اور اسلام کی بقا کے لئے رات میں ایک دفاعی جنگ شروع کی اور وہ اندھیرے میں مردوں اور عورتوں کے درمیان تمیز نہیں کر سکتے تھے۔ لیکن جب انہیں اس بات کا احساس ہوا تو وہ اس پر مضطرب ہوئے اور گہرا درد محسوس کیا۔ تب انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سوال کیا کہ کیا وہ نادانستہ طور پر سرزد ہونے والے اس قتل کے لیے جوابدہ ٹھہرائے جائیں گے۔ خیال رہے کہ انہوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) سے یہ نہیں پوچھا کہ کیا وہ جان بوجھ کر جنگ میں عورتوں اور بچوں کو نشانہ بنا سکتے ہیں۔ بلکہ، انہوں نے ان خواتین اور بچوں کے بارے میں پوچھا جو مرد جنگجوؤں کے ساتھ لڑتے وقت غیر ارادی طور پر خطرے میں پڑ گئے تھے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا کہ وہ ایک ناگزیر اور متعذر واقعہ تھا، اس لیے کہ نہ تو بچوں اور خواتین کو نشانہ بنانے کا ان کا ارادہ تھا اور نہ ہی وہ اندھیرے میں لڑنے کی وجہ سے ان کے درمیان امتیاز کر سکتے تھے۔ انہوں نے مزید حملوں کے لئے ایک مثال قائم کرتے ہوئے خواتین اور بچوں کے قتل کا جواز پیش نہیں کیا تھا۔ بلکہ، اس واقعے کے فوراً بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے رات میں دفاعی شب خون کو ممنوع قرار دیا تاکہ خواتین، بچوں اور بوڑھوں کو جنگ سے محفوظ کیا جا سکے۔ اس کا ثبوت انس بن مالک (رضی اللہ عنہ) کی روایت میں ملتا ہے: پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کریمہ تھی کہ جب بھی آپ رات کے وقت دشمن تک پہنچتے تو صبح ہونے تک دشمن پر حملہ نہیں کرتے۔ (صحیح بخاری، جلد5، کتاب 059، حدیث نمبر 510)۔ اورانہیں سے ایک روایت یہ بھی مروی ہے کہ: "اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) صبح ہوتی تبھی اپنے دشمنوں کے ساتھ بر سر پیکار ہوتے"۔ (صحیح مسلم، کتاب 4، حدیث نمبر: 0745)۔
اسلام کے ایک مستند عالم اور صحیح بخاری کے ایک ممتاز شارح امام ابن حجر عسقلانی اس حدیث کی تشریح میں لکھتے ہیں کہ "حدیث کا مقصد جان بوجھ کر عورتوں اور بچوں کو نشانہ بنانے سے روکنا ہے"۔ وہ مزید لکھتے ہیں کہ "یہ حدیث منسوخ کردی گئی ہے اسی لیے اگر خواتین اور بچے جنگ کے دوران دشمن فوج کے ساتھ ہوں تو بھی انہیں قتل کرنے کی اجازت نہیں ہے"۔ (فتح الباری، کتاب الجہاد والسیر، باب:۔ حدیث نمبر 2790 کی شرح)۔
اس کے علاوہ، صحابہ کرام کا غیر ارادتاً قتل کے اس واقعے بارے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کرنا اس بات کی واضح دلیل ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم ) نے ارادتاً ایسا کرنے کی ان کو اجازت کبھی نہیں دی تھی اور وہ عورتوں اور بچوں کو قتل کرنے کی اپنی ممانعت میں بہت سخت تھے۔ اگر نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) نے ان کو کسی بھی صورت میں اس کی اجازت دی ہوتی تو وہ اس کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال نہیں کرتے۔
معصوم شہریوں، عورتوں اور بچوں کو ہلاک کرنے پر پیغمبر اسلام کی ممانعت
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے امن اور جنگ دونوں حالتوں میں عورتوں، بچوں، عمر رسیدہ لوگوں یہاں تک کہ درختوں کو بھی نقصان نہ پہنچانے کا ایک سخت عالمگیر حکم صادر فرمایا تھا۔ ایک بھی حدیث ایسی نہیں ملے گی جس میں نبی صلی اللہ رعلیہ وسلم نے جنگ کےدوان بھی عورتوں اور بچوں کے قتل کی کھلی آزادی دی ہو، حالت امن کی بات تو چھوڑ ہی دیں۔ یہاں ان میں سے چند پیش کیے جا رہے ہیں:
حضرت عبداللہ سے مروی ہے کہ : کسی غزوہ (دفاعی لڑائی) کے دوران ایک خاتون مری ہوئی پائی گئی۔ تبھی اللہ کے نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) نے عورتوں اور بچوں کے قتل کی ہمیشہ کے لیے ممانعت فرما دی۔ (بخاری، جلد 4، کتاب 052، حدیث نمبر 258)۔
ابن شہاب نے مالک سے انہوں نے یحیی سے اور یحیٰ نے مجھے روایت کی کہ کعب بن مالک کے ایک بیٹے (مالک کو لگا کہ ابن شہاب نے کہا کہ وہ عبدالرحمن بن کعب تھے) نے کہا کہ: "اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) نے ابي حقیق (مدینہ کا ایک غدار یہودی) سے لڑائی کرنے والے کو عورتوں اور بچوں کو قتل کرنے سے منع فرمایا۔ اس نے کہا کہ لڑنے والے ایک شخص نے کہا کہ ابی حقیق کی بیوی نے چلانا شروع کر دیا اور میں بار بار اس کے اوپر ہاتھ اٹھاتا۔ پھر اس کے بعد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ممانعت کو یاد کر کے اپنی تلوار کو روک لیتا۔ اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ممانعت نہ فرمائی ہوتی تو ہم نے اسے ختم کر دیا ہوتا۔'' (مسلم، کتاب 021، حدیث نمبر 009)۔
ابن عمر سے روایت ہے کہ: "کسی غزوہ کے دوران ایک عورت مری ہوئی حالت میں پائی گئی۔ لہٰذا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے عورتوں اور بچوں کے قتل کو ممنوع قرار دیا" (صحیح مسلم: کتاب 019، حدیث نمبر 4319)۔
رابعہ ابن ربیع نے روایت کی کہ: جب ہم ایک مہم پر اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کے ساتھ جا رہے تھے تو انہوں نے کچھ لوگوں کو کسی چیز کے ارد گرد جمع دیکھا اور ایک آدمی کو یہ کہہ کر روانہ کیا کہ جاؤ اور دیکھو کہ وہ لوگ کیوں جمع ہیں؟ اس کے بعد وہ واپس آیا اور کہا کہ: وہ ایک عورت کے ارد گرد ہیں جسے ہلاک کر دیا گیا ہے۔ اس نے کہا: اس کے ساتھ لڑائی نہیں ہوئی ہوگی۔ خالد بن ولید سواری کے انچارج تھے۔ تو انہوں نے ایک آدمی کو یہ کہہ کر بھیجا کہ: خالد سے کہہ دو کہ وہ عورت یا خادم کو نہ ماریں ۔ (موطا امام مالک، کتاب 021، حدیث نمبر 008)۔
یحیی بن سعید نے مالک سے انہوں نے یحیی سے اور یحٰی نے مجھ سے روایت کہ جب حضرت ابو بکر صدیق ملک شام کو لشکروں روانہ کر رہے تھے تو وہ یزید بن ابی سفیان کے پاس گئے جو کہ ایک دستہ کے کمانڈر تھے۔ کہا جاتا ہےکہ یزید نے ابو بکر سے کہا کہ: "کیا آپ سواری کریں گے یا مجھے اتر جانا چاہیے؟" ابو بکر نے فرمایا "میں سوار نہیں ہوں گا اور آپ نیچے نہیں آئیں گے۔ میں نے یہ قدم پوری طرح اللہ کی راہ میں نکالنےکا ارادہ کیا ہے۔" اس کے بعد ابو بکر نے یزید کو مشورہ دیا کہ:تم ایسی قوم کو پاؤ گے جو خود کو پوری طرح اللہ کے حوالے کرنے کا دعوی کریں گے، تو تم انہیں ان کے حال پر چھوڑ دینا۔ تم ایسی قوم کو پاؤ گے جنہوں نے اپنے سروں کو پیچ سے منڈوا لیا ہے، تم ان حصوں پر تلوار سے مارو۔ "میں تمہیں دس باتوں کا مشورہ دیتا ہوں: عورتوں، بچوں یا ایک ضعیف العمر کمزور شخص کو قتل مت کرنا۔ پھل دار درختوں کو مت کاٹنا۔ کسی آباد جگہ کو تباہ مت کرنا۔ کھانے کے سوائے بھیڑ یا اونٹ ذبح مت کرنا۔ شہد کی مکھیوں کو مت جلانا اور انہیں مت اڑانا۔ مال سے چوری نہ کرو، اور بزدل مت بننا۔ "(موطا امام مالک، کتاب 021، حدیث نمبر 010)۔
خلاصہ:
مندرجہ بالا جیسی ایسی بے شمار احادیث ہیں جن میں واضح اور دوٹوک انداز میں حالت جنگ میں خواتین، بچوں اور غیر مسلح شہریوں کے قتل کی ممانعت وارد ہوئی ہے، جبکہ بعض علماء کا خیال ہے کہ صعب بن جثامہ سے مروی صرف اس ایک حدیث سے ممانعت کاتحقق نہیں ہوتا اور اسے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کی معیاری تعلیمات کا درجہ نہیں دیا جا سکتا۔ یہاں ایک سوال یہ پیدا ہو سکتا ہے کہ کیا صعب بن جثامہ کی حدیث مذکورہ بالا احادیث کو منسوخ کر سکتی ہے جیسا کہ ایسی کوئی حدیث وارد نہیں ہوئی ہے کہ جس سے واضح طور پر یہ ثابت ہو صعب بن جثامہ کی حدیث منسوخ ہو چکی ہے۔ لیکن صعب بن جثامہ حدیث کے منسوخ نہ ہونے کی وجہ ہے کہ پہلی بات تو یہ ہے کہ سابق حدیث بالکل شاذ و نادر ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ یہ حدیث ان بے شمار احادیث سے پہلے وارد ہوئی تھی جن میں سختی ساتھ دفاعی جنگوں میں عورتوں اور بچوں اور معصوم شہریوں کے قتل سے بچنے کا حکم دیا گیا ہے۔ یہ دو ایسی بنیادی اصولی وجوہات ہیں جن کی بنیاد پر صعب بن جثامہ کی حدیث کو مکمل طور پر منسوخ اور عملی طور پر کالعدم تصور کیا جانا چاہئے۔
URL for English article: https://newageislam.com/the-war-within-islam/radical-clerics-misusing-islamic-literature,/d/99040
URL for this article: https://newageislam.com/urdu-section/radical-clerics-misusing-islamic-literature,/d/100384