غلام رسول دہلوی، نیو ایج اسلام
12 ستمبر، 2014
افسوس ناک صورت حال
افسوس کی بات ہے کہ کچھ اتنہا پسند اور جہادی نظریہ رکھنے والے علماء رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب بعض اقوال و
احادیث کا کھلے طور پر غلط استعمال پیدا
کر کے شکوک و شبہات پیدا کر ہے ہیں، نفرت فروشی کر رہے ہیں، افراتفری مچا رہےہیں،
عدم رواداری کو فروغ دے رہے ہیں، تشدد بھڑکا رہے ہیں اور بچوں اور خواتین سمیت
معصوم شہریوں کے قتل کا جواز بھی پیش کر رہے ہیں۔ اگر ان کی من گھڑت احادیث یا ان
کی احادیث کی غلط تشریح کا دائرہ صرف ان کی کتابوں تک ہی محدود ہوتا تو ہم ان انتہا پسندوں کی بیوقوفی اور پاگل پن
کو نظر انداز کر سکتے تھے۔ لیکن طالبان، آئی ایس آئی ایس اور القاعدہ جیسے جدید
خوارج کے ذریعہ کئے جانے والے مظالم کے لیے ان کی زبردست تائید و توثیق ہمیں غیر
مستحکم بنا رہی ہے۔ حال ہی میں اس وقت ایک زبردست صدمہ لگا جب سوڈان میں ایک بنیاد
پرست سلفی عالم دین محمد الجزولی نے اپنے جمعہ کے خطبہ میں ایک آگ لگانےوالا بیان
جاری کیا اور یہ کہا کہ : "اسلام میں جنگجوؤں اور عام شہریوں کے درمیان کوئی
امتیاز نہیں ہے لہٰذا مسلح حملے میں کافر عورتوں اور بچوں کو نقصان پہنچایا اور
یہاں تک کہ انہیں ہلاک بھی کیا جا سکتا ہے"۔
ماخذ:
http://www.theblaze.com/stories/2014/07/16/muslim-cleric-says-islam-sees-no-distinction-between-combatants-and-civilians-so-killing-american-women-and-children-is-fine/
مزید
حیرانی اس وقت ہوئی جب ان کی یہ اشتعال انگیز تقریر ختم ہوئی اور سامعین نے بلند
آواز میں نعرے لگائے: "اللہ اکبر، اللہ اکبر"۔ کوئی ان لوگوں کی حماقت
کا اندازہ کر سکتا ہے جو اپنے ہی مذہب کی روح سے بالکل ہی ناواقف ہیں۔ نعوذ باللہ
من ذالک!
انتہاپسند
علما اعتدال پسند اسلامی علماء کی کوششوں کو ضائع کر رہے ہیں
اس
المناک واقعے سے اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ
بڑھتی ہوئی انتہاپسندی کو روکنے کے لیے اعتدال پسند اور امن پسند مسلمانوں
اور خاص طور پر مسلم علماء کی علمی کوششوں کو مٹھی بھر خطرناک انتہاپسند ملا ناکام
بنا رہے ہیں، جو انتہاپسندی کو فروغ دینے کے اپنے کام میں انتہائی فعال اور سر گرم
ہیں۔ تقریبا تمام انتہاپسندوں کی ہی طرح
الجزولی نے اسلام تعلیمات سے مکمل طور پر متضاد اپنے برے خیالات کی تبلیغ نہیں کی،
بلکہ اس نے ایک حدیث کو اس کی غلط تشریح
کے ساتھ پیش کر کے عالمی میڈیا میں حضرت محمد {صلی اللہ علیہ وسلم} کی پرامن شبیہ
کو خراب کی۔ اپنی شعلہ بار تقریر میں الجزولی نے اپنے مذموم مقصد کے حصول کی کوشش
میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب ایک قول نقل کیا جسے مسلمان اسلام کا دوسرا
سب سے مستند ماخذ شمار کرتے ہیں۔
غلط
سیاق و سباق میں ایک خاص حدیث کا حوالہ دیتے ہوئے اس بنیاد پرست عالم نے اس کا برا
نتیجہ ان الفاظ میں اخذ کیا ہے: "مجھے جب اس حدیث کے بارے میں معلوم ہوا تو
بہت خوشی ہوئی۔ ابن جثامہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کہاکہ جب مسلمان رات کے
وقت مشرکین پر حملہ کریں گے تو اس سے عورتوں اور بچوں کو بھی نقصان پہنچے گا۔ اس
پر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا: وہ ان ہی میں سے ہیں اور وہ ان کا
ہی حصہ ہیں۔ یہ محض کسی کی رائے نہیں ہے۔ لہٰذا ان کی عورتوں اور بچوں کو قتل کرنا
جائز ہے۔ "
جہادیوں
کی غلط تشریحات کے پریشان کن مظاہر
مندرجہ بالا حدیث میں الجزولی کی تائیدو توثیق
اور اس کی غلط تشریح کی ان کی مذموم کوشش سے دو پریشان کن حقائق کا پتہ چلتا ہے۔
اول، مساجد میں اشتعال انگیز تکفیری خطبات کا خطرہ بڑی تیزی کے ساتھ بڑھ رہا ہے،
اس لیے کہ مساجد کی کمیٹیاں اعتدال پسند، متوازن اور امن پسند اماموں کی تقرری
کرنے کی اپنی ذمہ داری کو بخوبی نبھانے میں اب تک کامیاب نہیں ہو سکی ہیں۔ جب ایک
بڑی تعدادمیں مسلمان نماز کے لئے مساجد کا رخ کرتے ہیں تو وہ انتہاپسند علما اس موقع کا فائدہ اٹھا کر
انہیں اسلام کے نام پر مسلمانوں اور غیر مسلموں کو نقصان پہنچانے کے خطرناک تکفیری
نظریات کی تعلیم دیتے ہیں۔
دوم، انتہا پسند ہمیشہ ایسے تمام اسلامی کتب اور
ماخذ و مراجع کی تلاش میں لگے رہتے ہیں جنہیں وہ اپنےگھناؤنے مقاصد کے حصول میں
استعمال کر سکتے ہیں۔ شہریوں کے بے دریغ قتل کا جواز پیش کرنے کے لیے الجزولی کا
مندرجہ بالا حدیث کاحوالہ پیش کرنا ہی اس کی ایک مثال نہیں ہے۔ اس سے کہیں زیادہ
تکفیری وہابی نظریات کے حامل عسکریت پسند ایک طویل عرصے سے ان احادیث کا حوالہ پیش
کر رہے ہیں اور ان کی غلط تشریح کر رہےہیں۔
حال میں ایسی ہی ایک شر انگیز مثال ایک پاکستانی
فوجی اہلکار اور ایک طالبانی عالم کے درمیان ایک پر جوش نظریاتی بحث میں دیکھنے کو
ملی جس نے مولانا حسین احمد مدنی اور مفتی
نظام الدین شامزی جیسے ممتاز دیوبندی علماء کے فتوے سے متاثر ہو کر اعتدال پسند
مسلمان اور پاکستانی فوجیوں کے بے دریغ قتل کو جائز قرار دیا۔ انہوں نے کسی مناسب
سیاق و سباق سے مطابقت کے بغیر ہی قرآن و حدیث کا بھی غلط حوالہ پیش کیا۔ جب
پاکستانی اہلکار نے اس سے یہ سول کیاکہ تم پاکستان کے اعتدال پسند مسلمانوں کو قتل
کرنے کے در پئے کیوں ہو تو اس نے جواب دیا
کہ "جو کوئی بھی ہم سے اتفاق نہیں
رکھتا اسے قتل کرنا ہمارا فریہی ہے"۔
اب ہم اس پر ایک نظر ڈالتے ہیں کہ کس طرح
طالبانی عالم بے گناہ مسلمانوں اور غیر جنگجو غیر مسلموں کے بے دریغ قتل کا جواز
پیش کرنے کےلیے قرآن اور حدیث کا غلط استعما ل کرتے ہیں۔ یہ ایک عام پاکستانی فوجی
اہلکار اور ایک ٹی ٹی پی عالم کے درمیان ایک ریڈیائی گفتگو تھی۔ میں عقلمند اور
سوچ و فکر رکھنے والے مسلمانوں کو یہ دکھانے کے لئے ویڈیو کے اقتباسات کو ذیل میں
نقل کر رہا ہوں کہ جدید خوارج اور تکفیری جماعتیں کس طرح بڑے پیمانے پر اسلام کی
عظمت اور انسانیت کے لئے سب سے بڑا خطرہ ہیں ۔ یہ اقتباسات ایسے بعض اسلامی علماء کرام کےلیے بھی چشم کشا ہونے
چاہیے جنہوں نے اب تک اس حقیقت کو تسلیم نہیں کیا ہے کہ انتہا پسند لوگ اسلام
کوتوڑ مروڑ کر پیش کر رہے ہیں ۔
پاکستانی فوجی حکام طالبانی عالم سے: "آپ
کے رہنماؤں اور عمائدین نے سینہ تانے میڈیا میں آ کر مون مارکیٹ اور کامرہ میں اسکول بس پر ہونے
والے بم دھماکوں کی ذمہ داری لی ہے۔ کیا آپ اس بات کی تصدیق کر سکتے ہیں کہ واقعی
آپ نے ہی ان بم دھماکوں کو انجام دیا ہے؟"
طالبانی
اسکالر: "الحمد للہ، ہم کامرہ حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہیں کیونکہ وہ ایک
فوجی اسکول تھا۔ اس حملے میں اگر کچھ بچے ہلاک ہوئے تو ظاہر ہے کہ ان کا قتل مردوں کے ساتھ ہوا ہو گا۔
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کی شخصیت کی بے
حرمتی کرنے کی اپنی قبیح کوشش میں اس انتہا پسند وہابی عالم الجزولی ہی کی طرح
طالبانی عالم نے بھی حدیث کا بے جا اور غلط حوالہ پیش کیا۔ طالبانی عالم نے بڑی بے
باکی کے ساتھ اس حدیث کی غلط تشریح پیش کی اور پھر پوری دلیری کے ساتھ اس پر فخرکا
اظہار کرتے ہوئے یہ کہا: "۔ اسی لیے ہمیں
کامرہ کے اس آپریشن پر فخر ہے جس میں ہم نے فوجی اسکول کو تباہ کر
دیا"۔
ماخذ: http://newageislam.com/multimedia/qaed-e-azam-jinnah-was-kafir-e-azam,-jihad-became-our-duty-in-1947--pakistan-taliban-scholar-to-army-officer/d/98573
مرکزی
دھارے میں شامل اعتدال پسند علماء کی ذمہ داری
ظاہر
ہے، پاکستانی فوج کا وہ اہلکار اسلامی علوم میں اتنا ماہر نہیں تھا کہ وہ ٹی ٹی پی
کے عالم کی گندی اور بے بنیاد دلیل کی تردید کر سکے جس میں اس نے تمام پاکستانیوں
کو کافر قرار دیکر ان کی عورتوں اور بچوں کے قتل کا جواز پیش کیا ہے۔ تاہم، اس نے
اس احمق اور مجرم طالبانی عالم کے انتہاپسندنظریات کو رد کرنے کی پوری کوشش کی۔
سوال یہ ہے کہ : اس موجودہ پریشان کن صورت حال کی وجہ سے مرکزی دھارے کے علماء اور
اسلامی دانشوروان پر کیا ذمہ داری عائد ہوتی ہے؟ کیا وہ اسلامی کتب اور مصادر و
ماخذ کو مسخ کیے جانے پر خاموش تماشائی بنے رہیں گے یا اس کی تردید کا کوئی سخت موقف اختیار کریں
گے؟ افسوس کی بات ہے کہ انتہا پسند بڑی تیزی کے ساتھ قرآن و سنت میں تحریف اور ان
کی غلط تشریح کر ہے ہیں، جبکہ معتبر اور
مضبوط مذہبی بنیاد پر ان کی تردید میں کوئی سخت اقدام ہمیں بمشکل ہی یکھنےکو ملتا
ہے۔
ان احادیث کی صحیح ترجمانی کرنا جنہیں جہادیوں
نے غلط طریقے سے پیش کیا ہے
جہاں تک صعب بن جثامہ رضی اللہ عنہ کی مندرجہ بالا روایت کی بات ہے
تو یہ مکمل طور پر ایک منسوخ حدیث ہے، جو نا تو اس دور میں قابل نفاذ ہے اور نہ ہی
اس کی اس دور میں کوئی عملی افادیت ہے۔ یہ خصوصی صورت حال کے ساتھ مخصوص ہے کہ جب
صحابہ کرام نے خطرے میں پڑی اپنی زندگی کی بقا کے لئے رات میں ایک دفاعی جنگ شروع
کی اور وہ اندھیرے میں مردوں اور عورتوں کے درمیان تمیز نہیں کر سکتے تھے۔ لیکن جب
انہیں اس بات کا احساس ہوا تو وہ اس پر نادم ہوئے اور گہرا درد محسوس کیا۔ تب
انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ پوچھا کہ کیا وہ نادانستہ طور پر سرزد ہونے
والے اس گناہ کے لیے جوابدہ ٹھہرائے جائیں گے۔ انہوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ
وسلم) سے یہ نہیں پوچھا کہ کیا وہ جان بوجھ کر جنگ میں عورتوں اور بچوں کو نشانہ
بنا سکتے ہیں۔ بلکہ، انہوں نے ان خواتین اور بچوں کے بارے میں پوچھا جو مرد
جنگجوؤں کے ساتھ لڑتے وقت غیر ارادتاً خطرے میں پڑ گئے تھے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ
وسلم) نے فرمایا کہ وہ ایک ناگزیر اور غیر معمولی معاملہ تھا، اس لیے کہ نہ تو
بچوں اور خواتین کو نشانہ بنانے کا ان کا ارادہ تھااور نہ ہی وہ اندھیرے میں لڑنے
کی وجہ سے ان کے درمیان امتیاز کر سکتے تھے۔ انہوں نے مزید حملوں کے لئے ایک مثال
قائم کرتے ہوئے خواتین اور بچوں کے قتل کا جواز پیش نہیں کیا تھا۔ بلکہ، اس واقعے
کے بعد فوراً نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے رات میں دفاعی شب خون کو ممنوع قرار
دیا تاکہ خواتین، بچوں اور بوڑھوں کو جنگ
سے محفوظ کیا جا سکے۔ اس کا ثبوت انس بن مالک (رضی اللہ عنہ) کی روایت میں ملتا
ہے: پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت تھی کہ جب بھی آپ رات کے وقت دشمن تک
پہنچتے تو صبح ہونے تک دشمن پر حملہ نہیں کرتے۔ (صحیح بخاری، جلد5، کتاب 059، حدیث
نمبر 510)۔ اورانہیں سے ایک روایت یہ بھی مروی ہے کہ: "اللہ کے رسول (صلی
اللہ علیہ وسلم) صبح ہوتی تبھی اپنے دشمنوں کے ساتھ بر سر پیکار ہوتے"۔ (صحیح
مسلم، کتاب 4، حدیث نمبر: 0745)۔
اسلام
کے ایک مستند عالم اور صحیح بخاری کے ایک ممتاز شارح امام ابن حجر عسقلانی اس حدیث
کی تشریح میں لکھتے ہیں کہ "حدیث کا مقصد جان بوجھ کر عورتوں اور بچوں کو
نشانہ بنانے سے روکنا ہے"۔ وہ مزید لکھتے ہیں کہ "یہ حدیث منسوخ کردی
گئی ہے اسی لیے اگر خواتین اور بچے جنگ کے دوران دشمن فوج کے ساتھ ہوں تو بھی
انہیں قتل کرنے کی اجازت نہیں ہے"۔
(فتح الباری، کتاب الجہاد والسیر، باب:۔ حدیث نمبر 2790 کی شرح)۔
اس کے علاوہ، صحابہ کرام کا غیر ارادتاً قتل کے
اس واقعے بارے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کرنا اس بات کی واضح دلیل ہے کہ
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم ) نے ارادتاً ایسا کرنے کی ان کو اجازت کبھی نہیں
دی تھی اور وہ عورتوں اور بچوں کو قتل کرنے کی اپنی ممانعت میں بہت سخت تھے۔ اگر
نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) نے ان کو کسی
بھی صورت میں اس کی اجازت دی ہوتی تو وہ اس کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے
سوال نہیں کرتے۔
معصوم
شہریوں، عورتوں اور بچوں کو ہلاک کرنے پر پیغمبر اسلام کی ممانعت
رسول
اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے امن اور جنگ دونوں حالتوں میں عورتوں، بچوں، عمر
رسیدہ لوگوں یہاں تک کہ درختوں کو بھی نقصان نہ پہنچانے کا ایک سخت عالمگیر حکم
صادر فرمایا تھا۔ ایک بھی حدیث ایسی نہیں ملے گی جس میں نبی صلی اللہ رعلیہ وسلم
نے جنگ کےدوان بھی عورتوں اور بچوں کے قتل کی کھلی آزادی دی ہو، حالت امن کی بات
تو چھوڑ ہی دیں۔ یہاں ان میں سے چند پیش کیے جا رہے ہیں:
حضرت عبداللہ سے مروی ہے کہ : کسی غزوہ (دفاعی
لڑائی) کے دوران ایک خاتون مری ہوئی پائی گئی۔ تبھی اللہ کے نبی (صلی اللہ علیہ
وسلم) نے عورتوں اور بچوں کے قتل کی ہمیشہ کے لیے ممانعت فرما دی۔ (بخاری، جلد 4،
کتاب 052، حدیث نمبر 258)۔
ابن شہاب نے مالک سے انہوں نے یحیی سے اور یحیٰ
نے مجھے روایت کی کہ کعب بن مالک کے ایک بیٹے (مالک کو لگا کہ ابن شہاب نے کہا کہ
وہ عبدالرحمن بن کعب تھے) نے کہا کہ:
"اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) نے ابي حقیق (مدینہ کا ایک غدار یہودی)
سے لڑائی کرنے والے کو عورتوں اور بچوں کو قتل کرنے سے منع فرمایا۔ اس نے کہا کہ
لڑنے والے ایک شخص نے کہا کہ ابی حقیق کی بیوی نے چلانا شروع کر دیا اور میں بار
بار اس کے اوپر ہاتھ اٹھاتا۔ پھر اس کے بعد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی
ممانعت کو یاد کر کے اپنی تلوار کو روک لیتا۔ اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے
ممانعت نہ فرمائی ہوتی تو ہم نے اسے ختم کر دیا ہوتا۔'' (مسلم، کتاب 021، حدیث
نمبر 009)۔
ابن عمر سے روایت ہے کہ: "کسی غزوہ کے
دوران ایک عورت مری ہوئی حالت میں پائی گئی۔ لہٰذا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے عورتوں اور
بچوں کے قتل کو ممنوع قرار دیا" (صحیح مسلم: کتاب 019، حدیث نمبر 4319)۔
رابعہ ابن ربیع نے روایت کی کہ: جب ہم ایک مہم
پر اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کے ساتھ جا رہے تھے تو انہوں نے کچھ لوگوں
کو کسی چیز کے ارد گرد جمع دیکھا اور ایک آدمی کو یہ کہہ کر روانہ کیا کہ جاؤ اور
دیکھو کہ وہ لوگ کیوں جمع ہیں؟ اس کے بعد وہ واپس آیا اور کہا کہ: وہ ایک عورت کے
ارد گرد ہیں جسے ہلاک کر دیا گیا ہے۔ اس نے کہا: اس کے ساتھ لڑائی نہیں ہوئی ہوگی۔
خالد بن ولید سواری کے انچارج تھے۔ تو انہوں نے ایک آدمی کو یہ کہہ کر بھیجا کہ:
خالد سے کہہ دو کہ وہ عورت یا خادم کو نہ ماریں ۔ (موطا امام مالک، کتاب 021، حدیث
نمبر 008)۔
یحیی
بن سعید نے مالک سے انہوں نے یحیی سے اور یحٰی نے مجھ سے روایت کہ جب حضرت ابو بکر صدیق ملک شام کو لشکروں روانہ کر رہے تھے تو وہ یزید بن ابی سفیان
کے پاس گئے جو کہ ایک دستہ کے کمانڈر تھے۔ کہا جاتا ہےکہ یزید نے
ابو بکر سے کہا کہ: "کیا آپ سواری کریں گے یا مجھے اتر جانا
چاہیے؟" ابو بکر نے فرمایا "میں سوار نہیں ہوں گا اور آپ نیچے نہیں آئیں
گے۔ میں نے یہ قدم پوری طرح اللہ کی راہ میں نکالنےکا ارادہ کیا ہے۔" اس کے
بعد ابو بکر نے یزید کو مشورہ دیا کہ:تم ایسی قوم کو پاؤ گے جو خود کو پوری طرح
اللہ کے حوالے کرنے کا دعوی کریں گے، تو تم انہیں ان کے حال پر چھوڑ دینا۔ تم ایسی
قوم کو پاؤ گے جنہوں نے اپنے سروں کو پیچ سے منڈوا لیا ہے، تم ان حصوں پر تلوار سے
مارو۔ "میں تمہیں دس باتوں کا مشورہ دیتا ہوں: عورتوں، بچوں یا ایک ضعیف
العمر کمزور شخص کو قتل مت کرنا۔ پھل دار درختوں کو مت کاٹنا۔ کسی آباد جگہ کو
تباہ مت کرنا۔ کھانے کے سوائے بھیڑ یا اونٹ ذبح مت کرنا۔ شہد کی مکھیوں کو مت
جلانا اور انہیں مت اڑانا۔ مال سے چوری نہ کرو، اور بزدل مت بننا۔ "(موطا
امام مالک، کتاب 021، حدیث نمبر 010)۔
خلاصہ:
مندرجہ
بالا جیسی ایسی بے شمار احادیث ہیں جن میں واضح اور دوٹوک انداز میں حالت جنگ میں
خواتین، بچوں اور غیر مسلح شہریوں کے قتل کی ممانعت وارد ہوئی ہے، جبکہ بعض علماء
کا خیال ہے کہ صعب بن جثامہ سے مروی صرف اس ایک حدیث سے ممانعت کاتحقق نہیں ہوتا
اور اسے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کی معیاری تعلیمات کا درجہ نہیں دیا جا
سکتا۔ یہاں ایک سوال یہ پیدا ہو سکتا ہے کہ کیا
صعب بن جثامہ کی حدیث مذکورہ بالا احادیث کو منسوخ کر سکتی ہے جیسا کہ ایسی
کوئی حدیث وارد نہیں ہوئی ہے کہ جس سے واضح طور پر یہ ثابت ہو صعب بن جثامہ کی
حدیث منسوخ ہو چکی ہے۔ لیکن صعب بن
جثامہ حدیث کے منسوخ نہ ہونے کی وجہ ہے کہ
پہلی بات تو یہ ہے کہ سابق حدیث بالکل شاذ و نادر ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ یہ حدیث
ان بے شمار احادیث سے پہلے وارد ہوئی تھی جن میں سختی ساتھ دفاعی جنگوں میں عورتوں
اور بچوں اور معصوم شہریوں کے قتل سے بچنے کا حکم دیا گیا ہے۔ یہ دو ایسی بنیادی
تکنیکی وجوہات ہیں جن کی بنیاد پر صعب بن جثامہ کی حدیث کو مکمل طور پر منسوخ اور
عملی طور پر کالعدم تصور کیا جانا چاہئے۔
URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/radical-clerics-misusing-hadith-traditions/d/124627
New
Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women
in Islam, Islamic Feminism, Arab
Women, Women In Arab, Islamophobia
in America, Muslim
Women in West, Islam Women and Feminism