غلام رسول دہلوی، نیو ایج اسلام
23 اپریل 2014
ایجادات کے متعلق قرآنی احکامات:
نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہونے والی سب سے پہلی آیت پڑھنے، علم حاصل کرنے اور انسانیت کی عام فلاح و بہبود کے لیے ایک سائنسی انقلاب پیدا کرنے کا ایک عالمگیر پیغام ہے: ‘‘(اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم) اپنے پروردگار کا نام لے کر پڑھو جس نے (عالم کو) پیدا کیا۔ جس نے انسان کو خون کی پھٹکی سے بنایا’’۔ (96:1-2)
قرآن کی بالکل پہلی آیت میں ہی حصول علم، دانشورانہ مزاج اور جدید ٹیکنالوجی کی ایجادات میں انسانی کوششوں کو بڑی اہمیت دی گئی ہے: ‘‘اور جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے سب کو اپنے (حکم) سے تمہارے کام میں لگا دیا۔ جو لوگ غور کرتے ہیں ان کے لئے اس میں (قدرت خدا کی) نشانیاں ہیں’’ (45:13)۔ کائنات کی تمام مخلوق اور اس کے رازہائے سر بستہ کی دریافت کو اس قدر اہمیت دینے اور دیگر مخلوقات کی قد و قامت اور ڈھانچے کے بارے میں غور و فکر کرنے کا حکم دینے کے پیچھے قرآن کا واضح مقصد انسانوں کے اندرتخلیقی صلاحیت اور سائنسی مزاج پیدا کرنا ہے، ‘‘یہ لوگ اونٹوں کی طرف نہیں دیکھتے کہ کیسے (عجیب )پیدا کیے گئے ہیں۔ اور آسمان کی طرف کہ کیسا بلند کیا گیا ہے۔ اور پہاڑوں کی طرف کہ کس طرح کھڑے کیے گئے ہیں۔ اور زمین کی طرف کہ کس طرح بچھائی گئی’’ (88:17-20)۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم خود ایک موجد تھے
ایک عظیم موجد ہونے کی حیثیت سے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو تخلیقی مہارت حاصل کرنے اور اسے انسانیت کی خدمت کے لئے وقف کرنےکا حکم دیا۔ 1400 سال پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہی سب سے پہلے دانتوں کی صفائی کے لیے ٹوتھ برش کا استعمال کیا اور اس کو رواج بخشا ۔ مسواک کے درخت کی ٹہنی کا استعمال کرتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دانتوں کی صفائی کی اور اپنی سانس کو ترو تازہ کیا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اس ایجاد کو تقریبا تمام صحابہ نے اپنا معمول بنایا اور اسے دنیا کے دیگر معاشروں میں متعارف کرایا۔ مسواک ہی کے مانند مادے جدید ٹوتھ پیسٹ میں استعمال کئے جاتے ہیں۔
اسلام کے ابتدائی دور میں ہی سائنسی ایجاد کے متعلق قرآنی رجحان اور نبوی فرمان سے متاثر ہو کر مسلمانوں نے سیکولر تعلیم اور جدید سائنس کی مختلف شاخوں میں اپنی شاندار کارکردگی کا ثبوت دیا تھا جن میں سب سے اہم ریاضی، الجبرا، ادویات، کیمسٹری، فلکیات، جیومیٹری، ارضیات، آپٹکس، ریاضی، جغرافیہ، علم معدنیات، فلسفہ اور فن تعمیر ہیں۔ مسلمان سرجری، فارمیسی اور نرسنگ میں خصوصی توجہ کے ساتھ طب کے میدان میں بہت ماہر تھے جب کہ وہ ان علوم میں سے چند کے بانیان کے طور پر بھی ابھر کر سامنے آئے۔
ابتدائی اسلامی ادوار میں مسلم سائنسداں
اسی نقش قدم پر چلتے ہوئے ابتدائی اسلامی ادوار میں مسلم سائنسداں وں نے دنیا میں بہت سے اہم دانشورانہ کام اور سائنسی ایجادات کو متعارف کرایا۔ مصر میں اسلام کی آمد کے بعد ایک بڑی تعداد میں سائنسی کتابوں کا یونانی ، قبطی ، فارسی اور دیگر قدیم زبانوں سے عربی میں ترجمہ ان ماہرین نے کیا جنہیں شہزادہ خالد نے مقررکیا تھا۔ خلیفہ عمر بن عبدالعزیز (682-720) نے صحت کے محکمہ میں اسکندریہ کے نو مسلم فزیشین پروفیسر ابن ابجر کو چیف میڈیکل افسر کے طور پر مقرر کیا تھا ۔ خلیفہ ہارون رشید نے ‘‘بیت الحکمت’’ کے نام سے ایک ریسرچ سینٹر اور سائنسی تجربہ گاہ قائم کیا تھا جس میں متعدد سائنسی موضوعات پر کلاسیکی کتب کو مختلف غیر ملکی زبانوں کے مسلم ماہرین نے عربی میں ترجمہ کیا تھا۔ مشہور و معروف اسلامی اسکالر مولانا شبلی نعمانی نے ذکر کیا ہے کہ ہارون الرشید نے ایک معروف ہندوستانی طبیب منکا الہندی کو بغداد بلایا تھا جس نے ادویات سے متعلق بہت ساری سنسکرت کی کتابوں کا ترجمہ عربی اور فارسی میں کیا تھا۔
قرون وسطی میں مسلم موجدین
قرون وسطی کے اواخر میں مسلم سائنسداں وں نے سخت کوششیں کیں اور ایسی ایسی جدید ٹیکنالوجیاں پیش کیں جو دور جدیدکے لیے سائنسی نعمت ثابت ہوئیں۔ کافی سے لیکر کرینک تک کی اشیاء کہ آج جن کے بغیر دنیا کا کوئی سماج رہ نہیں سکتا مسلمانوں کی ہی ایجادات ہیں۔ اگر سائنسی ترقی کے لئے انسانی جد و جہد کی تاریخ کا جائزہ لیں تو ہم یہ پاتے ہیں کہ سائیکل سے لیکر موسیقی اسکیل تک کی تمام چیزوں کی بنیادوں کا تعلق مسلم سائنس سے ہے جو کہ اولین دور کے اسلامی عرب سے ہوتے ہوئے دوسرے ممالک خاص طور پر شمالی افریقہ، مصر، اسپین، پرتگال ، جنوبی اٹلی اور وسطی ایشیا کے کچھ حصوں تک پہنچ گیا۔
اسپین میں مسلم سائنس اپنے عرج کو پہنچ گیا جس کے نتیجے میں ایجادات کا ایک ایسا سلسلہ شروع ہوا جس نے جدید دنیا کی تشکیل کی۔ ہسپانوی مسلم موجد عباس بن فرناس نے 9ویں صدی میں اطالوی سائنسی ایجادات کے سرخیل لیونارڈو ڈاونچی کا اپنا منصوبہ پیش کرنے سے سینکڑو برس پہلے ایک پرواز کی مشین ڈیزائن کی تھی۔ 9ویں صدی میں ہی مسلم موجدوں نے شمالی افریقہ میں وارڈوں کے ساتھ اعلی درجے کے ہسپتالوں اور ڈگری دینے والی یونیورسٹیوں کو متعارف کرا دیا تھا۔ ابتدائی اسلامی مصر میں آج کے جنوبی ہند کے کچھ حصوں کی طرح مساجد صرف عبادت گاہیں نہیں تھیں بلکہ مسجدیں تعلیمی ادارے بھی تھیں جن میں اسلامی علوم کے ساتھ ساتھ عصری علوم بھی پڑھائے جاتے تھے۔ تعلیم کی تکمیل ہو جانے پر اگر اساتذہ کو کسی طالب علم کی قابلیت کا یقین ہوتا تو وہ اسے "اجازت" یا "سند" فراہم کرتے جسے ہم سرٹیفکیٹ کہتے ہیں۔ اس طرح مسلمانوں نے ہی سب سے پہلے ڈگری دینے والے تعلیمی اداروں کو متعارف جس سے ایک نیا تعلیمی رجحان شروع ہوا جو جلد ہی دنیا بھر میں پھیل گیا۔
ان نامور مسلم سائنسداں وں میں جن کی ایجادات اور سائنسی کامیابیوں کا ہماری دنیا پر ایک لازوال اثر ہے ایک اہم نام عرب مفکر ابو نصر الفارابی (950 -872) کا ہے جنہیں مغربی دنیا Alpharabius کے نام سے جانتی ہے۔ انہی میں ریاضی دان اور ماہِر فَلکِيات البتّانی (929 -858) ہیں جنہیں Albatenius کے نام سے بھی جانا جاتا ہے جنہوں نے سال کی لمبائی اور موسموں کی موجودہ اہمیت کو باور کیا، ارسطو کے فلسفہ اور ادویات میں اپنا بیش قیمتی تعاون پیش کرنے والے فارسی فلسفی اور سائنسداں ابن سینا (980- 1037) ہیں جنہیں Avicenna کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، عربی اسکالر ابن بطوطہ (1304- 1369) ہیں جنہوں نے پوری دنیا کا سفر کیا اور تاریخ کا سب سے مشہور سفر نامہ ‘‘رحلہ’’ لکھا، عرب فلسفی ابن رشد (1198- 1126) ہیں جنہوں نے ارسطو کی کتابوں اور اصول و مبادیات اور افلاطون کی جمہوریت پر ایک وسیع تبصرہ لکھا۔ محمد بن موسیٰ الخوارزمی (780-850) جنہوں نے یورپی ریاضی میں ہندو عربی نمبرات اور الجبرا کے تصورات کو متعارف کرایا ہے، فارسی ریاضی دان، ماہر فلکیات اور شاعر عمر خیام (1048-1131) جو اپنی سائنسی کامیابیوں اور (رباعیات) کے لیے عالمی سطح پر مشہور و معروف ہیں، عرب ریاضی دان، معالج اور ماہر فلکیات ثابت بن قرّا (826-901) جو پطلیموسی نظام کے سب سے پہلے مصلح اور سکُونیات کے بانی ہیں، عرب کیمسٹری کے موجد ابن اسحاق الکندی (801 – 873)جو علم کیمیا پر انتہائی قابل قدر کام کے لئے پوری دنیا میں مشہور ہیں اور جنہیں Alkindus کے نام سے بھی جا نا جاتا ہے، عرب فلسفی اور سائنسداں ابن ہشام (965-1040) جنہیں Alhazen کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، ایک عرب ماہِر فَلکِيات اور ریاضی داں جنہوں نے آپٹکس کے اصولوں اور سائنسی تجربات کے استعمال میں اپنا بڑا تعاون پیش کیا ہے، عرب سائنس دان، ماہر نباتات اور حکیم ابن الہیتر(1197–1248) جنہوں نے قرون وسطی میں اسلامی ڈاکٹروں کی دریافتوں کو منظم طریقے سے ریکارڈ کیا۔
نوجوان مسلم سائنسداں وں اور موجدوں کو مزید کامیابیوں کے لئے فکری تحریک فراہم کرنے کی خاطر ان میں سے کچھ سائنسداں وں کا ذکر خاص طور پر کیا جانا اور ان کو سراہنا ضروری ہے:
بو علی ابن سینا
مسلم سائنسداں وں کی نئی نسل کے لئے بو علی ابن سینا (980-1038) یا Avicennaسائنسی تحریک و ترغیب کا سب سے بڑا مصدر ہونا چاہئے۔ آج کے یورپی طبی سائنسداں ابو علی ابن سینا کو اسلام کے سب سے زیادہ قابل طبی ماہرین میں سے ایک مانتے ہیں۔ تمام جگہوں اور زمانوں کے مورخین انہیں ایک ایسی دانشورانہ شخصیت کا درجہ دیتے ہیں جن کا علیمی میراث زمانے کے حدود و قیود سے باہر ہے۔ وہ نہ صرف ایک عظیم طبیب تھے بلکہ فلسفہ کے عہد ساز بانیوں میں سے ایک تھے۔ سائنس میں سب سے پائیدار عملی تعاون جو انہوں نے پیش کیا ہے وہ نفسیات، ارضیات، ریاضی، کیمسٹری، فلکیات اور منطق جیسے وسیع سائنسی شعبوں کا احاطہ کرتا ہے۔ انہوں نے مختلف موضوعات پر 450 کے قریب کتابیں تصنیف کیں جن میں سے تقریبا 240 اب بھی محفوظ ہیں۔آج ابن سینا کی تصویر پیرس یونیورسٹی میں میڈیسن کی فیکلٹی کے مرکزی ہال میں آویزاں ہے۔
یعقوب اسحاق کندی
کندی 9ویں صدی کے ایک عرب سائنسداں اور موجد تھے لیکن فلسفہ، تکوینیات، ریاضی، آپٹکس، موسیقی، رَمزیات اور ادویات میں ان کے تجربات اور ایجادات کا بعد کی صدیوں پر گہرا اثر پڑا۔ عربی میں فلسفیانہ سوچ کے لئے ایک فرہنگ تیار کرنے کے لیے کندی کو ہمیشہ یاد کیا جائے گا۔ انہوں نے پھولوں اور تیل سے خوشبو نکالنے کے لئے متعدد طریقے ایجاد کئے اور اس طرح انہوں نے ایک بڑی مقدار میں خوشبو تیار کرنے کا طریقہ تلاش کیا۔ انہوں نے "Book of the Chemistry of Perfume" کے عنوان سے ایک کتاب تصنیف کی جس میں انہوں نے بہت ساری ترکیبیں ذکر کی ہیں۔ ان کی حیرت انگیز دریافتوں میں سے ایک یہ ہے کہ وہ دنیا کہ پہلے ایسے سائنسداں ہیں جنہوں نے یہ دریافت کیا کہ شراب نشہ آور کیوں ہوتی ہے۔ لہٰذا وہ الکوحل کی شناخت کرنے والےدنیا کے سب سے پہلے سائنسداں تھے۔ سائنس پر 270 مطبوعات کے ساتھ کندی ایک ایسے سائنسداں تھے جن کے اندر مختلف خوبیاں تھیں۔ وہ ایک ڈاکٹر، فارماسسٹ، طبیب ، ریاضی داں، جغرافیہ داں، ماہر فلکیات، کیمیا داں اور ایک عظیم فلسفی تھے۔
ابو ولید محمد ابن رشد
ابن رشد کو فلسفہ، قانون، طب، فلکیات، نفسیات، ادویات، طبیعیات اور الہیات میں ان کے زبردست تعاون کے لیے اور خاص طور پر ارسطو پر ان کے جامع تبصروں کے لیے ہمیشہ یاد کیا جائے گا۔ انہوں نے قرون وسطی کے دوران یورپی نظر و فکر کی تشکیل کی۔ 25 سال کی نوجوانی کی عمر میں ابن رشد نے فلکیات پر اپنے نظریات پیش کئے اور ان ستاروں کو دریافت کیا جن پر اس سے پہلے کوئی تحقیق نہیں پیش کی گئی تھی ۔ انہوں نے داغ آفتاب پرسب سے پہلی وضاحت پیش کی۔ طب میں انہوں نے قابل ذکر اور ایک بنیادی کتاب لکھی جس کا نام انہوں نے ‘‘کتاب الکلیات فی الطب’’ رکھا جو لاطینی زبان میں 'Colliget' کے نام سے زیادہ مشہور ہوئی۔ اس کتاب میں ابن رشد نے امراض کی تشخیص اور ان کا علاج اور ان کے روک تھام سمیت طب کے مختلف پہلوؤں پر اپنے تجربات پیش کئے۔انہوں نے فلسفے پر 28، ادویات پر 20، قانون پر 8، الہیات پر 5 اور گرامر پر 4 سمیت کم از کم 67 اصل کتابیں لکھیں۔ ابن رشد اسلامی روحانیت سے زبر دست متاثر تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ علم الاجسام کے محتاط مطالعہ کے ذریعہ خدا کی قدرت کاملہ اور وحدانیت میں ان کا ایمان مضبوط ہو گیا۔ اس کے نتیجے میں ان کے دل کے اندر اندر ایک ٹھوس مذہبی عقیدہ فروغ پایا اور ان کا ماننا تھا کہ کوئی بھی انسان سچی نفسیاتی خوشی سے اسی وقت لطف اندوز ہو سکتا ہے جب وہ اس راستہ کی پیروی کرے جو آخرت میں پرسکون ابدی زندگی کا باعث ہو۔
عصر حاضر کے مسلم سائنسداں
بڑے افسوس کی بات ہے کہ دور جدید کے مسلمان گزشتہ 300 برسوں سے سائنسی شعبے میں تنزلی کا شکار رہے ہیں جبکہ ابتدائی مسلمان انتہائی قیمتی سائنسی کارنامے اور ایجادات کے بانی رہے ہیں۔آج مسلم دنیا سے سائنسی کامیابیوں کی خبریں بہت مشکل سے ہی ملتی ہیں۔ تاہم ان ناگفتہ بہ حالات کی وجہ سے ہمیں جدید مسلم دنیا میں چند نوجوان اور ابھرتے ہوئے سائنسدانوں کے سائنسی ایجادات کی اہمیت کو نظر انداز نہیں کرنا چاہئے۔ امید ہے کہ ان کے قیمتی کام کی تعریف سے بہت سے دوسرے مسلم نوجوان ہوش کے ناخن لیں گے اور تاریکی پر لعنت و ملامت کرنے کے بجائےخود روشنی کا ایک چراغ روشن کریں گے۔
جنیوا میں منعقد ایجادات کی بین الاقوامی نمائش میں نوجوان مسلم موجدوں کی شاندار ایجادات پر نیو ایج اسلام کے خصوصی رپورٹ پر میں انتہائی ممنون و مشکور ہوں۔ یہ جان کر بڑی خوشی ہوئی کہ جنیوا میں حاضر ہونے والے موجدوں میں نصف سے زیادہ کا تعلق مشرق وسطی سے تھا جن میں سے اکثر مسلمان تھے۔ مزید دلچسپی کی بات یہ ہے کہ سعودی خواتین جنہیں اکثر ان کے ملک میں ذہنی طور پر مفلوج اور سماجی طور پر مجبور سمجھا جاتا ہے وہ سائنسی ایجادات کے اس عظیم موقع پر شاندار ایجادات کے ساتھ حاضر ہوئیں۔ ایک سعودی خاتون سائنسداں غائدہ السلمی نے جنیوا میں ایجادات کی بین الاقوامی نمائش میں تین گولڈ میڈل جیتے جو کہ انتہائی مسرت بخش بات ہے۔ اسلامی ممالک خاص طور پر سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، قطر، عمان، ایران، انڈونیشیا اور ملیشیا سے نوجوان مسلم موجدین کی بھاری شرکت مسلم ایجادات اور سائنسی ترقی کی تاریخ میں ایک نئے دور کا آغاز ہے جس کا کھلے دل سے خیر مقدم کیا جانا چاہئے۔
متعلقہ مضمون:
Outstanding Achievements of Young Muslim Inventors Recognised In the International Exhibition of Inventions Held At Geneva
نیو ایج اسلام کے مستقل کالم نگار، غلام رسول دہلوی تصوف سے وابستہ ایک عالم اور فاضل (اسلامی سکالر ) ہیں۔ انہوں نے ہندوستان کے معروف صوفی اسلامی ادارہ جامعہ امجدیہ رضویہ (مئو، یوپی، ہندوستان ) سے فراغت حاصل کی، الجامعۃ اسلامیہ، فیض آباد، یوپی سے قرآنی عربی میں ڈپلوما کیا ہے، اور الازہر انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک اسٹڈیز بدایوں، یوپی سے علوم الحدیث میں سرٹیفیکیٹ حاصل کیا ہے۔ مزید برآں، انہوں نے جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی سے عربی (آنرس) میں گریجویشن کیا ہے، اور اب وہیں سے تقابل ادیان ومذاہب میں ایم اے کر رہے ہیں۔
URL for English article:
https://newageislam.com/islamic-society/muslim-inventors-inspired-qur’an’s-exhortations/d/76709
URL for this article:
https://newageislam.com/urdu-section/muslim-inventors-inspired-qur’an’s-exhortations/d/87124