غلام رسول دہلوی، نیو ایج اسلام
22 ستمبر 2015
یہ واقعی ایک پریشان کن خبر تھی کہ شدید آندھی اور طوفان کے دوران ایک کرین گرنے کی وجہ سے خانہ کعبہ کے اندر بہت سے حجاج کرام فوت ہو گئے اور دیگر کئی زخمی بھی ہوئے ۔ جیسا کہ تازہ ترین میڈیا رپورٹس کے مطابق 111 لوگ ہلاک اور 238 افراد زخمی ہوئے ہیں۔ یہ حادثہ اس وقت پیش آیا جب سعودی فرماں روا 21 ستمبر سے شروع ہونے والے سالانہ حج اور عمرہ کے لئے تمام بلاد اسلام سے آنے والے تقریباً 3 ملین لوگوں کا خیر مقدم کرنے کی تیاری کر رہے تھے۔ اس کے بعد خادم الحرمین شریفین شاہ سلمان نے اس سانحہ میں جاں بحق اور زخمی ہونے والوں کے خاندان والوں کو موٹی رقم ادا کرنے کا حکم دیا ہے۔
ہلاکتوں کے علاوہ، یہ واقعہ سعودی حکومت اور ساتھ ہی ساتھ ہر سال حج ادا کرنے کی خواہش رکھنے والے دنیا بھر کے مسلمانوں کے لیے خود احتسابی کی ایک زبردست تنبیہ بھی ہے۔ بے شک، یہ ایک قدرتی آفت تھی۔ آپ کو چونکانے دینے والے ایسے مسائل کا سامنا ہر بڑے مذہبی اجتماع میں کرنا پڑ سکتا ہے، لیکن پھر بھی آپ ان میں پیش آنے والی زبردست مشکلات سے دل برداشتہ نہیں ہوتے۔ تاہم، ہر حج کے موسم میں پیدا ہونے والے ان شدید مسائل کو نظر انداز کرنا کوئی عقلمندی کی بات نہیں۔ ہر سال، یہ صورتحال سنگین سے سنگین ترین ہوتی جا رہی ہے، اور اب نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ ان مسائل کو حل کرنا ضروری ہو چکا ہے۔ محض متاثرین کے خاندانوں کو موٹی رقم ادا کرنا کافی نہیں ہو گا۔ حج سے متعلق تمام مسائل پر گفتگو کرنے اور ان کی اصلاح کرنے کا یہ ایک بہتر موقع ہو گا، جن پر سنجیدگی کے ساتھ غور کیا جانا چاہیے۔
سب سے پہلی بات یہ ہے کہ فریضہ حج سے متعلق بہت سے ایسے احکام موجود ہیں کہ مشکلات کو کم کرنے (رفع الحرج) اور چیزوں کو آسان بنانے (دفع الحرج) کے اسلامی فقہی اصول کے تناظر میں جن پر نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے۔ بنی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: "چیزوں کو آسان بناؤ، اور انہیں پیچیدہ مت بناؤ۔ لوگوں کو بشارتیں سناؤ اور انہیں خوفزدہ مت کرو "(صحیح بخاری:69 اور صحیح مسلم:1734)۔ حج میں پیش آنے والے مختلف حالات کے بارے میں پوچھے جانے پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ :"ایسا کرو۔ اس میں کوئی حرج نہیں ہے "(صحیح بخاری:83 اور صحیح مسلم:1306)
آج جبکہ لاکھوں کی تعداد میں حجاج کرام حج کی نیت سے شہر مکہ کے لیے رخت سفر باندھتے ہیں، ضرورت اور حاجت حج کے بنیادی فقہی اصول کے مطابق حج کے احکام کا از سر نو جائزہ لینا ضروری ہے۔ کسی بھی مسلم عالم یا فقیہ کو بمشکل ہی اس امر سے کوئی اختلاف ہو گا کہ بدلتے ہوئے وقت اور حالات کے مطابق فقہی قانونی احکام میں بھی اس وقت تک تبدیلی ہو سکتی ہے جب تک کہ وہ قرآن اور سنت میں واضح احکام سے متصادم نہ ہوں۔
حج کے دوران کئی اہم واقعات اور حادثات رونماں ہو چکے ہیں جن میں ہزاروں زندگیاں ضائع ہو چکی ہیں۔ بھگدڑ کی روک تھام اور ہر سال حج کے دوران زیادہ حجاج کرام کو ایڈجسٹ کرنے کے لئے، حجاج کرام کو طواف کعبہ کے وقت جم غفیر میں غیر معمولی طور پر محتاط رہنا ضروری ہے۔ یہاں، حجاج کرام کو دسروں کی سہولت کا پورا پورا خیال رکھنا چاہئے اور حادثات کو روکنے کے لئے کعبہ کو مس کرنے اور چومنے میں جلدی بازی نہیں کرنی چاہئے۔ ہمیں یہ یاد رکھنا چاہئے کہ کسی بھی طرح دوسروں کو نقصان پہنچانے کا ضرر حج کی فضیلت سے کہیں زیادہ ہے۔ جب بھیڑ کم ہو تو آپ آسانی کے ساتھ طواف کے لئے ایک مناسب وقت نکال سکتے ہیں۔ یہی حال عرفات کا بھی ہے، جہاں تمام حجاج کرام ایک ساتھ، ایک جگہ اور ایک ہی وقت میں جمع ہوتے ہیں۔ اور یہاں تمام حجاجا کرام ایک ہی وقت میں چلتے ہیں۔ یہ ایک ایسی جگہ ہے جہاں حجاج کرام کو کھڑا ہونے اور چلنے کرنے میں سب سے زیادہ مشکل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
اور یہی مشکلات صفا اور مروہ کی سعی کرنے میں بھی پیش آتی ہیں۔ زیریں منزل پر ہجوم سے بچنے کے لئے اوپری منزل پر بھی سعی ادا کی جا سکتی ہے۔ تاہم، اس کی اجازت صرف اسی صورت میں ہے جب زیریں منزل میں اتنی بھیڑ ہو کہ وہاں شدید مشکلات پیدا ہوتی ہوں۔ اس کے علاوہ، پورے پہاڑ کی سعی لازم نہیں ہے۔ سعی اور مروہ کے کچھ حصے کی سعی کافی ہے۔
حج کے دوران مسلمانوں کو پیش آنے والے شدید مسائل میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اس موقع پر حجاجا کرام کو سختی کے ساتھ ریاستی وہابی اسلام کے مطابق رسومات حج انجام دینے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ یہ بہت افسوس ناک بات ہے۔ یہاں تک کہ ہندوستان میں حج ہاؤس اور حج کمیٹیوں میں سختی سے حج تربیتی پروگرام کے سعودی / وہابی طریقہ کار پر عمل کیا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ حج سے متعلق کتابوں اور دیگر تمام متعلقہ چیزوں پر ایک مخصوص فرقے کے اثرات پائے جاتے ہیں۔ اور اس طرح، مرکزی دھارے میں شامل حاجیوں اور خاص طور پر صوفی روایت سے تعلق رکھنے والے حجاج کرام کو سعودی عرب میں حج کے ایام میں وہابی جبر و اکراہ کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔
حال ہی میں، آل انڈیا علماء و مشائخ بورڈ (AIUMB) اور صوفی وائس آف انڈیا (SUVOI) جیسی چند صوفی مسلم تنظیموں نے اس بات کا مطالبہ کیا ہے کہ مرکزی دھارے میں شامل ہندوستانی صوفی مسلمانوں کو ان روحانی اسلامی روایت کے مطابق حج کی اجازت دی جائے جن پر وہ عقیدہ رکھتے ہیں اور جن پر عمل کرتے ہیں۔ خاص طور پر وہ زیارت (مقدس مقامات کی زیارت)، صلوٰۃ و سلام، اور فاتحہ جیسے چند صوفی معمولات اور روایات کی ادائیگی کے مذہبی حق کے بارے میں فکر مند ہیں۔ اسلام کی آمد کے بعد سے ہی عام مسلمان حج کے دوران کسی نہ کسی طرح اس قسم کی عبادات پر عمل پیرا رہے ہیں۔ صرف 250 سال پہلے ایک بنیاد پرست عالم ابن عبد الوہاب نجدی نے صدیوں پرانے مسلم عقیدے، ثقافت اور ورثے کو تباہ کرنے کے لیے ایک انتہا پسند اور قدامت پرست فقہ پیش کی ہے۔
تاریخی یادگاروں اور حرمین شریفین یعنی مکہ اور مدینہ میں اسلامی ثقافتی ورثہ اور مقامات کی تباہی اسی عالم کے نظریہ کی وجہ سے ہے جس نے مزارات کی زیارت اور حاضری کو بت پرستی کی ایک شکل قرار دیا تھا۔ اس نظریے سے متاثر ہو کر سعودی عرب کے مفتی اعظم شیخ عبد العزیز الشیخ نے حرمین شریفین کی توسیع کے بہانے مدنی یادگاروں اور مکہ کی قدیم ترین بستیوں کے انہدام کی اجازت دیتے ہوئے ایک فتوی جاری کیا۔ اپنے فتوی میں وہ لکھتے ہیں:
ما هدم من أثر في الحرمين الشريفين لا مانع منه بل إنه من الضروري۔ و ما تنفذه المملكة من مشاريع توسعة هو عمل شريف تشكر عليه الدولة وهو من الضروريات، لولا التوسعة لما وسع الحج لملايين البشر، وهي (أي أعمال التوسعة) أمر مشروع۔
(ماخذ: arabi.assafir.com/article.asp?aid=874&refsite=assafir&reftype=home&refzone=slider)
مندرجہ بالا فتوی میں واضح طور پر یہ کہا گیا ہے کہ: "ہمیں حرمین شریفین سے ملحقہ یادگاروں کے انہدام پر کوئی اعتراض نہیں ہے، بلکہ یہ ایک اہم کام ہے۔" بلکہ اس میں ان الفاظ میں سعودی عرب کے توسیعی منصوبوں کی تعریف کی گئی ہے کہ ‘‘یہ ایک نیک اور اچھا کام ہے جس کے لیے سعودی عرب کا شکریہ ادا کیا جانا چاہئے’’۔ اس طرح کے فقہی اعلانات کی وجہ سے ماضی میں کئی مرتبہ تاریخی یادگاروں اور اسلامی ثقافتی ورثہ اور مقامات کو منہدم کیا گیا ہے۔ تاہم، سعودی عرب کی عوام مکہ اور مدینہ میں یادگاروں کے انہدام کے بارے میں مختلف رائے رکھتی ہے۔ توسیعی منصوبوں کے تئیں سخت مخالفت سے لیکر زبردست حمایت کی صورت میں ان کے رد عمل ظاہر ہو رہے ہیں۔
بہر حال، دہلی کے حج ہاؤس اور دیگر ریاستوں کی حج کمیٹیوں کو اس بات کو یقینی بنانا ہو گا کہ ہندوستانی مسلمانوں کو آزادانہ طور پر ان کے اپنے روایتی انداز میں حج (حج اور عمرہ) اور زیارت کی تمام رسومات پر عمل کرنے کی آزادی حاصل ہو گی۔ انہیں سعودی عرب کے ریاستی وہابی مذہب کی پابندیوں سے مجبور کیوں کیا جانا چاہئے؟
URL for English article:
https://newageislam.com/islamic-society/let-make-hajj-pilgrimage-easy/d/104677
URL for this article:
https://newageislam.com/urdu-section/let-make-hajj-pilgrimage-easy/d/104693